اور اس خاموشی میں پرانی طرز کی یہ ٹوٹی پھوٹی عمارت اور بھیانک معلوم ہوتی تھی ۔ ان کھنڈروں کو دیکھنے ہی سے خوف معلوم ہوتا تھا ۔ اب ذرا خود سوچئے کہ اس عمارت کے دروازے میں داخل ہونا کتنی ہمت کا کام تھا؟
آخر یہ ہمت کا کام بھی جان نے ہی انجام دیا جیسے ہی اس نے ٹوٹے ہوئے اونچے سے دروازے میں قدم رکھا الوؤں کا ایک جوڑا ہوُہوُ کی آواز لگاتا ہوا ہمارے سروں پر سے گزر گیا ۔ ان کے پیچھے پیچھے چمگادڑوں کا ایک غول چیختا چلاتا آیا اور ہمارے سروں پر منڈلانے لگا۔ صرف یہی دو جان دار ہمیں وہاں نظر آئے، ورنہ کسی بھی جاندار چیز کا گزر وہاں ناممکن تھا ۔ ہم لوگ تو بہت سخت جان تھے جو کسی نہ کسی طرح اس جگہ تک آ پہنچے تھے۔ میرا اور عبدل کا حلق ڈر کے مارے خشک ہو رہا تھا ، ہم نے فوراً ایک چھاگل سے بہت سارا پانی پی لیا ۔ البتہ جان اسی ہمت اور بہادری کے ساتھ آگے بڑھتا چلا جا رہا تھا۔
شام ہونے والی تھی، الو اور چمگادڑ اب ہزاروں کی تعداد میں کھنڈر کے اوپر منڈلا رہے تھے شاید وہ اپنے اپنے آشیانوں میں جاکر دبکنے کے لئے بے قرار تھے ۔ جان ایک پرانے صحن میں کھڑا ہوا چاروں طرف گھور گھور کر دیکھ رہا تھا ۔ شاید اس کے ذہن میں نقشے میں دکھائی گئی کوئی عمارت تھی جسے وہ تلاش کرنا چاہتا تھا، میرے خیال میں اسے ناامیدی ہوئی ، کیونکہ وہ تھک کر ہمارے پاس آ کھڑا ہوا اور پھر عبدل سے بولا:
“یہ رات اگر ہم لوگ اس سامنے والے کمرے میں بسرکر لیں تو ٹھیک ہے ۔ کیوں کہ رات کو ہم خزانہ ہرگز تلاش نہیں کر سکتے ، ہماری تمام ٹارچوں کی بیٹری بھی اب کمزور ہو گئی ہے ، اس لئے اب سوائے مشعل کے اور کوئی چیز روشنی نہیں دے سکے گی۔ اس پرانے کمرے میں ہم مشعلیں جلا کر آرام سے سو جائیں گے۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں ہمیں یہاں کسی قسم کا خطرہ بھی پیش نہ آئے گا۔”
“خطرہ ! خطرہ کیوں پیش نہ آئے گا؟” عبدل نے جلدی سے خوفزدہ لہجے میں کہا:
“آپ دیکھتے نہیں ہیں کہ زمین پر سانپوں کے چلنے کے نشانات صاف دکھائی دے رہے ہیں، میں بھلا ایسی جگہ آرام سے کس طرح سو سکتا ہوں ، جہاں ہر وقت سانپوں کی پھنکاریں سنائی دیتی ہوں اور جہاں زندگی ہر وقت خطرے میں ہو۔”
“لیکن پھر اس کے علاوہ اور کیا بھی کیا جا سکتا ہے۔” میں نے کہا، یہ سن کر عبدل بغلیں جھانکنے لگا ۔ واقعی اس وقت ہم تینوں سخت خطرے میں گھرے ہوئے تھے ۔ ایک خطرہ تو یہی تھا کہ ہم صدیوں پرانے کمرے کی خاک پر کس طرح سوئیں جب کہ اس خاک پر ہر سائز کے سانپوں کے لہرانے کے نشان تھے۔ اگر باہر سوتے ہیں تو اپنی حفاظت کے لئے کچھ نہیں کر سکتے اور فرض کر لیجئے کہ کسی طرح ان دونوں خطروں پر ہم قابو پا بھی لیتے تو تیسرا اور سب سے بڑا خطرہ۔۔۔ یعنی ہمارے دشمن جیک اور وہ کبڑا!
بڑی لمبی بحث کے بعد آخر کار یہ طے پایا کہ ہم اندر ہی سوئیں اور باری باری ایک ایک آدمی کمرے کے دروازے پر پہرہ دیتا رہے۔ ہم نے مل جل کر سوکھے ہوئے پتھوں اور درختوں کی چھال میں چربی ملا کر مشعلیں بنائیں ۔ دو مشعلیں جلا کر ہم نے کمرے کے اندر لگا دیں ۔ اس کے بعد جہاں تک ممکن ہوسکا کمرے کی اچھی طرح صفائی کر ڈالی ۔ سانپوں کے بلوں کو بھی پتھروں سے بند کر دیا ۔ رات ہو چکی تھی۔ عجیب عجیب آوازیں آ رہی تھیں۔ ان آوازوں میں الو کی آواز سب سے ڈراؤنی لگ رہی تھی۔ کبھی کبھی کسی چیز کے سرسرانے کی آواز سنائی دیتی اور پھر سناٹا چھا جاتا۔ نیند کس کم بخت کو آنی تھی۔ بس میں اور جان آنکھیں زبردستی بند کئے پڑے تھے ۔ عبدل بندوق سنبھالے پہرہ دے رہا تھا ۔ پہلے چار گھنٹے جاگنے کی باری اسی کی تھی اس لئے وہ چوکنا ہو کر پہرہ دے رہا تھا۔
آخر نیند آ ہی گئی ، عرصے کی تھکن سوار تھی ۔ مجھے ایسا لگا جیسے سونے سے پہلے میں نے اپنے تمام گھوڑے بیچ دئیے ہوں۔ پھر مجھے عجیب سے ڈراؤنے خواب نظر آنے لگے۔ میں نے دیکھا کہ جیک اپنا تیز دھار والا خنجر لئے مجھے مارنے کے لئے مجھ پر جھکا چلا آ رہا ہے۔ ڈر کر میں نے چیخ ماری، اچانک میری آنکھ کھل گئی ۔ مگر یہ دیکھ کر میرے پورے جسم میں سنسنی سی دوڑ گئی کہ ایک سایہ مجھ پر جھکا ہوا ہے، یہ خواب ہرگز نہ تھا ، اس لئے کہ اس سائے نے ہلکی مگر خوفناک آواز میں مجھ سے کہا:
“خبردار! چپ چاپ میرے ساتھ باہر آ جاؤ ۔ ذرا بھی ہلے تو بندوق کی گولی تمہارا کام تمام کر دے گی۔”
میں نے خیریت اسی میں سمجھی کہ اس آوازکا کہنا مان لوں۔ میں خاموشی سے باہر آ گیا۔ اب اس سائے نے اپنے ہاتھوں میں ایک مشعل بھی لے لی تھی ۔ اس کی روشنی میں جب میں نے اس سائے کو دیکھا تو حیرت کے مارے میری چیخ نکل گئی۔
میرے سامنے عبدل کھڑا تھا۔
جی ہاں عبدل! اس وقت اس کے چہرے پر بھیڑیوں جیسی درندگی برس رہی تھی ۔ اس کو میں نے اس رنگ میں کبھی نہ دیکھا تھا ۔ مجھے بڑا تعجب ہوا کہ آخر اسے اچانک کیا ہو گیا؟
“کیا بات ہوئی عبدل۔۔۔؟” میں نے اس سے پوچھا۔
“مجھے کہاں لے جا رہے ہو؟”
میری بات کا جواب دئیے بغیر وہ بولا: “میں اگر چاہتا تو تمہیں وہیں کمرے میں ختم کر سکتا تھا ، مگر میں نے ایسا اس لئے نہیں کیا کہ میں تم سے خزانہ کا نقشہ حاصل کرنا چاہتا ہوں ، وہ نقشہ جو اس وقت تمہارے ذہن میں محفوظ رہے۔”
“وہ نقشہ اس کے ذہن میں محفوظ نہیں ہے” کہیں اندھیرے میں سے آواز سنائی دی ۔ میں نے اس طرح آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھا اورپھر اندھیرے میں مجھے ایک دوسرا سایہ ہلتا ہوا نظر آیا ۔ غور سے دیکھنے پر معلوم ہوا کہ میرا سب سے بڑا دشمن کبڑا جادوگر لنگڑاتا ہوا ہماری طرف چلا آ رہا ہے، قریب پہنچ کر اس نے کہا۔
“وہ نقشہ اس کے ذہن میں محفوظ نہیں ہے، بلکہ۔۔۔۔بلکہ۔۔۔ کیوں ننھے چوہے بتا دوں کہ وہ نقشہ کہاں ہے؟”
“تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہے؟” میں نے چلا کر کہا:
“کیا تمہیں یاد نہیں کہ نقشہ تمہارے سامنے ہی ہم نے جلا دیا تھا۔”
” یاد ہے، اچھی طرح یاد ہے” کبڑے نے ہنس کر کہا۔
“مگر جب تم بخار میں مبتلا تھے، مطلب یہ کہ جب تم پر جھوٹا بخار سوار تھا تو تمہارے کمبل کی ایک جھلک نے تمہارا راز فارش کر دیا تھا۔ کہو تو اور تفصیل سے بتاؤں؟”
یہ سنتے ہی میرا خون خشک ہو گیا ، تو یہ منحوس اس راز سے بھی واقف ہے ۔ میرے خدا اب کیا ہوگا ، میں اس جنگل سے کس طرح نکلوں گا، میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ کبڑے کی آواز آئی۔
” یہ کمبل اتار دو پیارے چوہے۔”
اس کے ساتھ ہی وہ دونوں بدمعاش آہستہ آہستہ میری طرف بڑھنے لگے ، اور میرے پورے جسم میں لرزہ پیدا ہونے لگا۔
ذرا میری اس وقت کی حالت کا اندازہ لگائیے۔ جس راز کو میں نے اپنی سمجھ کے مطابق بڑی حفاظت سے اپنی کمر پر چھپایا تھا، اب وہ ظاہر ہو چکا تھا ، اور اس راز سے کون واقف تھا۔۔۔ کبڑا چیتن۔
میرے لئے یہ وقت اس لمبے سفر میں سب سے کٹھن تھا، کیوں کہ اس وقت مجھے دو بڑے بھیانک راز معلوم ہوئے تھے ، پہلا تو یہ کہ کبڑا چیتن نقشے کے راز سے اچھی طرح واقف ہے اور دوسرا یہ کہ عبدل ہمارا سب سے اچھا ساتھی اور سب سے بڑا راز دار ، خود بھی ہمارے دشمنوں میں سے ایک ہے۔ اندازہ لگائیے کہ ہماری اس سے بڑی بدقسمتی اور کون سی ہو سکتی تھی کہ جنہیں ہم نے اپنا سمجھا تھا اب وہی غیر ثابت ہو رہے تھے ، کبڑے کو تو خیر جانے دیجئے اس کا ذکر فضول ہے کیوں کہ وہ شروع ہی سے ہمارا دشمن تھا ، مگر حیرت تو عبدل اور جیک پر ہوتی ہے۔ انہیں کیا ہو گیا؟ سچ ہے سانپ کو چاہے کتنا ہی دودھ پلا کر پالو، مگر وقت آنے پر وہ ڈستا ضرور ہے، عبدل اور جیک دراصل ہماری آستینوں کے سانپ تھے۔
جوں جوں وہ بدمعاش میرے قریب آتے جا رہے تھے ، میں سوچ رہا تھا کہ اب ان سے بچنے کا کیا طریقہ ہو؟ اس وقت سوائے خدا کے اور میرا کوئی مددگار نہیں تھا۔ میں یہ اچھی طرح جانتا تھا کہ یہ ظالم نقشہ مجھ سے ضرور حاصل کر لیں گے ۔ اور اگر میں نے ذرا بھی انکار کیا تو یہ مجھے قتل کرنے سے بھی نہ چوکیں گے ۔ اپنے انجام کا خیال کر کے میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ مجھے یاد آیا کہ جان نے ایک بار مجھ سے کہا تھا۔
“فیروز، میں نقشہ تمہاری کمر پر منتقل نہیں کر سکتا ، کیوں کہ اس طرح تمہاری زندگی خطرے میں پڑ جائے گی ۔ دشمن کوشش کریں گے کہ کسی طرح تمہیں ختم کر دیں اور تمہاری کمر پر سے نقشہ حاصل کر لیں ۔”
یہ الفاظ یاد آتے ہی میرے آنسو نکل آئے۔ کاس میں اس وقت جان کا کہنا مان لیتا اور نقشے کو اپنی کمر پر نقل نہیں کراتا ۔ مجھے یقین ہو گیا کہ موت اب قریب آ گئی ہے۔ یہ ظالم مجھے ہرگز زندہ نہ چھوڑیں گے ۔ نقشہ اگر انہیں مل گیا تو بھلا پھر انہیں میری کیا پروا ہوگی ۔ مجھے یہ بھی یقین تھا کہ جان کو ان دونوں نے مل کر ضرور ختم کر دیا ہے ۔ ورنہ میرے چیخنے چلانے کی آواز سن کر اسے اب تک میری مدد کو آ جانا چاہئے تھا۔
“ہاں تو ننھے چوہے۔” کبڑا ایک چمکدار اور تیز دھار والا خنجر نکال کر اسے میری آنکھوں کے سامنے لہراتے ہوئے بولا۔
“کیوں اب کیا کہتے ہو، تم سمجھتے تھے کہ تم ہمیں بے وقوف بنا رہے ہو، لیکن برخوردار بھلا تم میرے جادو سے کس طرح بچ سکتے تھے ۔ مجھے تمہاری ایک ایک بات معلوم ہوتی رہی ۔ اور تم سمجھتے رہے میں احمق ہوں”
اتنا کہنے کے بعد اس کی آنکھوں میں نفرت پیدا ہو گئی اور بڑی حقارت سے وہ کہنے لگا:
“لیکن موری میں رہنے والے کیڑے تو کیا جانے کہ چیتن کے قبضے میں کیا ہے؟ وہ سب کچھ دیکھ اور سن سکتا ہے تیرے فرشے بھی اس کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتے۔”
“چیتن باتوں میں وقت ضائع نہ کرو کام کی بات کرو ۔”عبدل نے عجیب سے لہجے میں کہا۔
یہ لہجہ سن کر مجھے اور تعجب ہوا ۔ کیوںکہ میں نے محسوس کیاکہ اس لہجے میں حکم چھپا ہوا تھا اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ عبدل کبڑے جادوگر کا آقا ہے اور پھر فوراً ہی میرے اس خیال کی تصدیق ہو گئی کیونکہ اتنا سنتے ہی چیتن ادب سے جھکا اور بولا۔
“بہت بہتر، میں اب اسے الٹا لٹا کر نقشہ دو منٹ میں نقل کر ڈالتا ہوں ، آپ ذرا اسے لٹانے میں میری مدد کیجئے۔”
“نقل کرنے کی کیا ضرورت ہے۔” عبدل نے بڑی بے رحمی سے کہا:
“جب ہمیں معلوم ہے کہ خزانہ یہیں کہیں آس پاس دفن ہے تو کیوں کہ اس کی ٹھیک جگہ کا پتہ لگائیں، صرف اتنا دیکھ لو کہ ان کھنڈروں میں آنے کے بعد اب ہمیں کہاں جانا چاہئے ۔ اور اگریہ احمق لڑکا ذرا بھی چوں چرا کرے تو پھر تمہارے اس خنجر کی تیز دھار کس دن کام آئے گی؟”
میرے خدا ! کتنے خوفناک الفاظ تھے ۔ یہ عبدل بول رہا تھا ۔ عبدل جو ان تینوں میں سب سے زیادہ نیک دل انسان نظر آتا تھا ، ذرا سوچئے کہ عبدل جیسا بھولا آدمی جب اچانک اتنا بے رحم بن سکتا ہے تو بھلا جیک کیسا ہوگا، وہ تو صورت ہی سے نہایت ظالم نظر آتاتھا ، پھر بھی مجھے عبدل کی شرافت کا قائل ہونا پڑا جو وہ اس طرح سے پیش آ رہا تھا اگر اس کی جگہ جیک ہوتا تو بغیر کہے سنے وہ پہلے میرے گولی مارتا اور پھر نقشہ نقل کرتا۔
“ہاں تو ننھے چوہے ، اب تم مہربانی کرکے زمین پر اوندھے لیٹ جاؤ، یا اگر تمہیں ننگے جسم زمین پر لیٹنا پسند نہیں تو پھر اپنا یہ کمبل خاموشی سے اتار دو، مجھے صرف اتنا ہی دیکھنا ہے کہ یہاں تک آنے کے بعد ، اب ہمیں کہاں جانا ہے ؟” کبڑے نے بڑی ملاتمت سے کہا۔
“میں نہ تو کمبل اتاروں گا اور نہ زمین پر لیٹوں گا ، میں تمہاری باتوں میں ہرگز نہ آؤں گا۔” میں نے چلا کر کہا۔
“بڑا بہادر ہے بھئی” کبڑے نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا:
“اس مصیبت کے وقت موت کو سامنے دیکھ کر بھی تیرے ماتھے پر بل نہیں ۔ سچ ہے ایسی خطرناک مہم پر تجھ جیسے ہی بہادر لڑکے کی ضرورت تھی، ورنہ جان اگر اسکول میں پڑھنے والے کسی طالب علم کو لے آتا تو وہ تو اب تک کبھی کا ختم ہو چکا ہوتا۔ خیر اگر تجھے وقت سے پہلے مرنا نہیں ہے تو ہمارا کہنا مان لے۔”
“او بے وقوف موت اور زندگی خدا کے اختیار میں ہے، کیا وقت سے پہلے تجھ جیسا کبڑا نیولا مجھے مارے گا، احمق تجھے اتنا معلوم نہیں کہ موت ہمیشہ اپنے وقت پر آتی ہے ۔ وقت سے پہلے کوئی نہیں مرا کرتا ۔ اگر ابھی میرا وقت نہیں آیا ہے تو مجھے سوائے خدا کے اور کوئی نہیں مار سکتا ۔ سمجھا نیولے! ” میں نے بڑی حقارت سے جواب دیا۔
کبڑے کا چہرا یہ نیا خطاب سن کر غصے کے مارے سرخ ہو گیا۔ اس کی آنکھوں سے شعلے نکلنے لگے اور میرے قریب آکر اس نے ایک زور تھپڑ میرے مونہہ پر مار دیا۔ ان سوکھی سی ہڈیوں میں اتنی طاقت تھی یہ میں سوچ بھی نہ سکتا تھا، سچ کہتا ہوں کہ تھپڑ کھاکر میری آنکھوں کے آگے اندھیرا آ گیا، میں زمین پر گرا اور اسے خوفزدہ نظروں سے دیکھنے لگا ۔ غصے کے مارے وہ بری طرح کپکپا رہا تھا:
“مجھ سے مذاق کرتا ہے۔ مجھ سے، کبڑے جادوگر سے، جو خدا کا منظور نظر ہے ، بے وقوف تو اتنا نہیں جانتا کہ اگر میں چاہوں تو تجھے بکری کی طرح زمین پر لٹا کر ابھی ذبح کر ڈالوں ، اور پھر تیری کھال اس تیز خنجر سے اتار کر اپنے پاس رکھ لوں ، پھر تو میرا کیا کرلے گا ، ارے احمق تو سمجھتا ہے کہ ہم تجھ سے ڈر رہے ہیں، جو اس طرح تیری خوشامد کر رہے ہیں، بے وقوف صرف یہ رحم ہے، رحم۔۔۔ مجھے تجھ جیسے خوبصورت اور بہادر لڑکے پر رحم آتا ہے اور کچھ نہیں۔”
“تم پھر وقت ضائع کر رہے ہو چیتن۔” عبدل نے کہا:
“میں اس کم بخت کی ضدی طبیعت سے اچھی طرح واقف ہوں ، تم اب اس کی ایک نہ سنو اور اسے قتل کر کے اس کی کھال اتار کر اپنے پاس رکھ لو۔” عبدل نے پھر اسے حکم دیا۔
اوراس حکم کو سن کر کبڑے کے چہرے سے رحم کے جذبات اچانک غائب ہو گئے ۔ اس کی آنکھوں میں ایک ایسی چمک پیدا ہو گئی جیسی بلی کی آنکھوں میں اپنا شکار دیکھ کر ہوتی ہے ۔ میں تو گرا ہوا تھا ہی، اس لئے اب وہ اپنا خنجر لہراتا ہوا آہستہ آہستہ مجھ پر جھکنے لگا ۔ اس کی آنکھوں میں واقعی مجھے اپنی موت نظر آنے لگی ۔ مجھے یقین ہو گیا کہ اب یہ مجھے ہرگز نہ چھوڑے گا۔ جی میں آیاکہ لاؤ اس آخری وقت میں اس کم بخت کو کمبل اتارکر نقشہ دکھادوں مگر پھر مجھے اپنا عہد یاد آیا۔ میں ایک شریف ماں باپ کا لڑکا تھا ۔ اور میں نے اپنے مالک جان سے ہمیشہ اس کا وفادار رہنے کا عہد کیا تھا ۔ پھر بھلا ا س وقت یہ عہد کیسے توڑ دیتا؟ ہو سکتا ہے کہ ان کم بختوں نے اسے ختم نہ کیا ہو، اور اگر کسی طرح وہ زندہ بچ نکلا ہو تو اسے یہ جان کر کتنی خوشی ہوگی کہ فیروز مرتے مر گیا مگر اس نے اپنی زندگی میں خزانے کا نقشہ کسی کو نہیں دکھایا۔
میرے اس نیک جذبے نے مجھ میں اچانک جوش پیدا کر دیا ، بزدلوں کی طرح مجھے مرنا پسند نہ تھا اس لئے کبڑا جادوگر جیسے ہی اپنا خنجر تان کر میرے اوپر آیا میں نے زور کی ایک لات اس کے رسید کی ۔ لات اس کے مونہہ پر پڑی، اور وہ بری طرح پیچھے گرا ، خوش قسمتی سے اس کا سر ایک نوکیلے پتھر پر پڑا ، اس کے منہ سے ایک چیخ نکلی ۔ یقیناً اس کے چوٹ لگی تھی ۔ مگر پھرتیلا کم بخت اتنا تھا کہ چوٹ کا خیال نہ کرتے ہوئے فوراً پھر کھڑا ہو گیا ۔ اب میں نے غور سے دیکھا تو پتہ چلا کہ اس کی کنپٹی سے خون نکل رہا ہے ، اس وقت وہ بالکل زخمی شیر لگ رہاتھا ، اوردوسرے حملے کی تیاری کر رہا تھا۔ غصے کے مارے اس کی آنکھیں ابل رہی تھیں چہرہ اور بھیانک ہوگیا تھا اور کمرکا کب جلدی جلدی ہل رہا تھا ۔ چاقو مضبوطی سے ہاتھ میں تھام کر وہ مینڈک کی طرح اچھل کر مجھ پر آیا۔ میں تھا تو ایک چھوٹا سا لڑکا مگر اس وقت میں نے اس سے مقابلہ کرنے کی ٹھان لی تھی۔ سچ بات تو یہ ہے کہ اب اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ بھی نہ تھا۔ حالانکہ میں جانتا تھا کہ اس خطرناک کبڑے سے جیتنا بالکل ناممکن ہے ، مگر آخری وقت میں تو ایک معمولی سا بکرا بھی قصائی کے سینگ مار دیتا ہے ، میں تو پھر انسان تھا اس لئے جیسے ہی وہ مجھ پر آکر گرا میں نے زور سے اس کے خنجر والے ہاتھ میں کاٹ کھایا وہ تلملایا تو بے شک مگراس نے اپنے ہاتھ سے خنجر نہ چھوڑا ۔ اس نے خنجر والا ہاتھ پھر بلند کیا اور چاہتا ہی تھا کہ اس چمکتے ہوئے خنجر کو میرے سینے میں اتار دے کہ یکایک کہیں سے آواز آئی:
“خبردار! فیروز کو چھوڑ دو ورنہ یہ گولی تمہاری کمر کے پار ہو جائے گی۔”