زیغم کمرےسےباہرآیاتو ارمنہ دوڑکر اسکےپاس گئی-
“زیغم! کیاکہہ رہےابو-وہ ٹهیک توہیں نہ-“وہ پریشانی بهرےلہجےمیں بولی-
“حیات تم گاڑی کےپاس چلو!ہم آتےہیں-“زیغم بولا-
نہیں میں کہیں نہیں جارہی جو بات ہےمیرےسامنے کریں-“اسکا لہجہ اٹل تها-
“آپ نےابوسےکیاکہاتها-اورجو کچھ کہا اسکاہی یہ انجام ہے-“وہ بہت ضطط سےبولا-
اسکےآنسورواںدواں تهے-
“کیوں کیاآپ نےیہ سب؟ کیوں؟”وہ سخت گیرلہجےمیں بولا-
آپکوپتہ ہےنہ ابوآپ سے کتناپیارکرتےہیں-توان کےپیار کایہ صلہ کیوں دیاآپ نے-“وہ اسکےلہجےپرحیران تهی-
اب آپ کی اس حرکت کےبعدکون کرےگا شادی آپ سے؟بولیں-“وہ حیرانی سےاپنےچهوٹےبہن بهائی کو دیکھ رہی تهی-
“مجهے کچھ نہیں کہنااپنی صفائی میں ابوسے کہومجهےجو سزا دینا چاہیں دےدیں، میں اف تک نہیں کرونگی-“وہ بول کروہاں رکی نہیں اورخاموشی سےبینچ پر جاکر بیٹھ گئی-
“یا اللہ میری مدد فرما-“وہ دعائیہ انداز میں دهیرے سےبولی-
زیغم حیات کو گهرچهوڑنےچلاگیا-وہ وہیں بیٹھ کراپنےٹوٹےخوابوں کوجوڑنے لگی-
♡ ♡
“کیسےہیں ابو؟ اور مجهے کیوں نہیں جگایارات کو تم لوگوں نے-“یہ مشعل تهی-جو بح ہی جاگی تهی-زیغمنے اسکو تمام تر صرتحال سےآگاہ کیا-اس نے ٹهنڈی آہ بهری-
“آپکو آپی پر ذراغصہ نہیں آیا-“حیات نےپو چها-
“حیات! تم اپنے کمڑے میں جائو-ذیغم تم مجهے اسپتال لے کرچلو-“وہ چل پڑی توزیغم بهی اسکے پیچهےہو لیا-
♡ ♡
اسپتال پہنچےتواشعر صاحب کو پرائویٹ روم میں شفٹ کر دیا گیاتها-اور ارمنہ انکےقریب کرسی پربیٹهی تهی-
ارمنہ اٹھ باہر چلی گئی تومشعل بهی اسکے پیچهے لپکی-
“کیوں کررہی ہو تم یہ سب کیامل رہا تمہیں یہ سب کرکےمنع بهی کیاتهاتمہیں یہ سب مت کرو-“نہیں باز آئی نہ تم-ابو کی اس حالت کی ذ مہ دار تم ہو-“وہ بولی-
میں تمہیں معاف نہیں کرونگی تم نےسوچا اس سب کےبعد تمہارےساتھ کیاہوگا-“وہ اسے آئینہ دکهارہی تهی-
“مگرنہیں تمہارےسر پر تو ایک جنون سوار تها نہ اب خوش ہو جائو-“اسکےآنسو بےقابو ہوگئے-وہ اسکےکندهے پر سر رکھ کر رونے لگی-
“کیوں کر رہی ہو یہ سب مت تکلیف میں ڈالو کسی کو بهی ارمنہ!”وہ سسک اٹهی-
“مان جائو میری بات وہ بہن کے گلے کے گرد بازو حائل کر کے بولی-
“میں اب کچھ نہیں کر سکتی-“ساتھ ہی سسکیوں کی آواز بلند ہو گئی-
♡ ♡
وہ اب اسکا پیچها کرتا ہوا آہستہ آہستہ چل رہا تها-وہ اب کہ یونیورسٹی کی کینٹین تک گئی-جہاں سب کچھ اسکے پلان کے مطابق تیار تها-وہ بہت خوش تها-آج اسکا کام ہو جانا تها-
وہ کچھ خریدنے کی غرض سے آگے بڑهی-پیسے دینے کی غرض سے کلچ ڈهونڈا تو وہ وہاں نہیں تها-اب چیزیں خرید بهی چکی تهی واپسی بهی ممکن نہیں تهی-
بهائی میرا کلچ گم ہو گیا ہے-میں اپ
کو کچھ دیر تک ادائیگی کرتی ہوں یہ کہہ کر وہ آگے بڑهنے لگی تو وہ بولا-
“نہیں باجی! آپ کو ابهی ادائیگی کرنی پڑے گی نہیں تو چیزیں واپس کرو-“وہ بولا-
وہ بهوک کی بہت کچی تهی-اور اس وقت اسکو کچھ کهانے کو چاہئے تها-
“ایکسکیوز می! اینی پرابلم؟ مے آئی ہیلپ یو؟ (معاف کیجئے گا-کیا کوئی مسئلہ ہوا ہے؟ کیا میں آپکی مدد کر سکتا ہوں؟)”
وہ آگے آیا-اسکی وجیہہ صورت دیکھ کر وہ دنگ رہ گئی-لمبا قد چوڑا سینا کف اوپر کو موڑے وہ سامنے کهڑا تها-وہ کچھ بولتی اس سے پہلے کینٹین والا بولا-
“یہ باجی ہمیں ہمارے پیسے نہیں دے رہیں اگر ان کا وہ کیا کہتے ہیں۔۔۔ہاں کلش گم ہو گیا ہے تو اس میں ہمارا کئا قصور ہے؟”وہ بولا-
“کتنے پیسے ہیں تمہارے بهائی؟”اس نے استفسار کیا-
“100 روپے-“جواب اب کہ اس نے دیا تها- اس نے پیسوں کی ادائیگی کی اور بولا-
بهائی!اول تو یہ کلش نہیں کلچ ہوتا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ تمہیں باجی لگتی ہیں؟ تمہاری بیٹی کی عمر کی ہونگی-کیوں میں ٹهیک کہہ رہا ہوں نہ؟” وہ تصدیق کے لئے اسکی طرف مڑا تو وہ جاچکی تهی-ساته ہی ایک کاغذ پڑا تها جس پر بڑاساthanxلکهاہوا تها-وہ دشمن جاں اسکوباتوں میں مصروف پاکروہاں سے کهسک چکی تهی-
♡ ♡
“زیغم!بات سنو-“اشعر صاحب نے اسے آواز دی-
“جی،ابو!”وہ انکوسوالیہ نظروں سےدیکهےگیا-
“بیٹا،مشعل کوبلاءو-“وہ بولے-
“جی،ابوبلاتاہوں-“وہ جانےلگاتوبولے-
“ارمنہ کوبهی بلالانا-“وہ باپ تهے
-جانتےتهے-باہربیٹهےرورہی ہوگی-
وہ فورا”باہرجاکرانکوبلا لایا-ارمنہ آگےآئی تواسکی سوجی آنکهیں دیکھ کرانهیں ایک پل یقین نہ آیاکہ جو کچھ اس نےبولا-وہ سچ تها-مگرمنہ موڑلیا-
مشعل آگےآئی اوربولی-
“جی، ابو آپ نےبلایاتها-“وہ پوچهنےلگی-
“مشعل! میں آپکوایک ذمہ داری سونپ رہاہوں-جوبهی پہلارشتہ ملےاسکی شادی کردوان10 دنوں کےاندراندر-“وہ بولتےہوئےضبط کی انتہا پرتهے-
“ٹهیک ہے،ابو! ہوجائےگایہ کام-“وہ بولی-
ارمنہ پاس کهڑی ہولےہولےلرزرہی تهی-
“انکوبتادیناکےپہلے سےطلاق یافتہ ہے-“اپنےباپ کےمنہ سےیہ الفاظ سن کراسکا ضبط جواب دے گیا-
“ابو، آپ جوکہیں گےمیں کرونگی-جس سےکہیں گےشادی کرونگی-مگرمجھ سےمنہ مت موڑیں پلیز ابو!”وہ انکےپاس بیڈ کےکهڑی ہوگئی-
“مشعل اور زیغم اسکویہاں سےلےجائو-“وہ دهیمی آواز مگر سخت لہجےمیں بولے-
“چلیں آپی!”زیغم آگےبڑها-
اس سے ٹهیک 5 دن بعد اسکانکاح ارشد احمد ہمدانی سےکردیاگیا-اورخاموشی سےرخصت بهی-ارمغان کی فیملی کو خبر تب ہوئی- جب وہ رخصت ہورہی تهی-
رخصتی کےوقت وہ سسرال سےآئےخوبصورت لہنگےمیں جچ رہی تهی-سب اسکی قسمت پرتاسف سےاسےدیکھ رہےتهے-کیونکہ ارشد احمد صاحب اس سےدوگنا عمرکےتهے-یہ اسکی خواہش کے مطابق ہوا-
رخصتی کےوقت اسکواس گهرمیں دوبارہ کبهی نہ آنےکاعندیہ دےدیاگیا-اور وہ اپنی پناہ گاہ سےہمیشہ کےلئے دور چلی گئی-
♡ ♡
ارشد صاحب نہایت نفیس قسم کے انسان تهے انکے تین بیٹے اوع دو بیٹیاں تهیں سب سے بڑا بیٹا احمر شادی شدہ تها اور اپنی بیوی اور بیٹی کے ساته الگ رہتا تها-اسکے بعد ایک بیٹی تهی ارفع وہ ارمنہ کی ہم عمر تهی اور ابهی اسکی شادی کو ایک سال ہوا تها- اسکے بعد ایک اور بیٹا فہیم تها جو کہ ایم بی کر کے جاب کی تلاش میں سرکرداں تها-اس سے چهوٹا عامر تها جو کہ ابهی ایم بی اے کر رہا تها- اس سے چهوٹی مریم تهی-جو میڈیکل کے پہلے سال میں تهی-یہ فیملی بهی اسکی فیملی کی طرح پڑهی لکهی تهی-انکی عمروں میں اچها خاصا فرق تها- ارشد کےگهر والوں نے اس سب کے باوجود بهی اسے اتنا اچها ریسپونس دیا-
اسے رسموں کے بعد اس کے کمرے میں پہنچا دیا گیا-
وہ اس کمرے کی کشادگی اور وہاں کے مکین کی نفاست کو داد دئے بغیر نہ رہ سکی-
وہ ابهی انہی سوچوں میں غرق تهی کہ ہلکے سے دروازہ کهٹکا اس نے اپنا گھونگھٹ درست کیا-اور آنے والے کا انتظار کرنے لگی-
وہ بیڈ کے قریب آکر رکے اور اس پر بیٹھ گئے-
“السلام علیکم!”وہ بولے-
“وعلیکم السلام!”ارمنہ نےجواب دیا-
“میں آپ سے صرف ایک بات کہناچاہوں گا کہ مجهےآپکی پچهلی زندگی سے کچھ سروکارنہیں کیاہوا؟کیوں ہوا؟کیسے ہوا؟میں بس اپنی اورآپکی آنےوالی زندگی پرسکون دیکهناچاہتاہوں-اس سب کےلئےامید ہے آپ بهی میرا بهرپور ساتھ دیں گی اور مجهےمایوس نہیں y!
کرینگی-”
پهر وہ تمام رات انهوں نےاسےزندگی کی تلخیوں کو بهلانےمیں صرف کر دی-
♡ ♡
پهر وہ وقت آیا-جب اسکو اس گهر واپس آنا پڑا-جہاں اس کے آنےکی پابندی تهی-
ارشد احمد کی وفات ہو گئی-جبکہ اسکا ایک بیٹا اور ایک بیٹی تهی-جب وہ گهرتک آئی تو اس گهر سےجڑی بہت سی یادیں بهی ساتھ آگئیں- وہ بہت خوش تهی کہ اب وہ اپنےابو سے مل کے انکے سارے شکوے دور کر دوں گی-وہ اسکو اجڑا دیکھ خر اپنی باہوں میں سمیٹ لیں گے-مگرہردفعہ وہی نہیں ہوتا جو انسان سوچتاہے-
اس نے دروازے پر دستک دی تو چوکیدار نے دروازہ کهولا اور اس سے پوچها کہ کون ہے وہ؟ کیونکہ اب چوکیدار بهی وہ نہیں تها-اس نے جوابا”کہا-
“مجهے اشعر احمد صاحب سے ملنا ہے-ان سے کہو کہ آپکی بڑی بیٹی ارمنہ آئی ہے-“وہ آنسو پیتے بولی-
“بیٹی مگر انکی تو خوئی بیٹی ارمنہ نہیں جائو بی بی جائو وہ اب زندہ بهی نہیں ہیں اور یہاں صرف انکی چهوٹی بیٹی حیات بی بی رہتی ہیں-“وہ بولتےہوئے گیٹ بند کرنےلگا-تو وہ بولی-
“بهائی پلیزحیات بی بی کو ہی میرا بتا کر بلا دو-“اسکے کہنےپر چوکیدار اندر سے حیات کو بلا لایا-
اتنے سالوں بعد اپنی چهوٹی بہن کو دیکهنے کی خوشی اسکے چہرے سے عیاں تهی-
“اب کس لئے آئی ہیں آپ یہاں آپ ہمارے لئے مر گئیں اور ہم آپکے لئے چلی جائیں یہاں سے آپ-“وہ بولتے ہوئے گیٹ اسکے منہ پر بند کرتی اندرچلی گئی-
“مما! یہ کون تهیں؟”ارسل نے پوچها-
ارسل اس وقت محض 7 سال کا تها-
“کوئی نہیں بیٹا ہم جا رہے ہیں یہاں سے-“وہ انکو لے کر ابهی آگے بڑهی تهی کہ سامنے آنے والے کو دیکھ کر اسکے پائوں سے زمین نکل گئی-وہ آج اتنے سالوں بعد اسکے سامنے تها-
♡ ♡
وہ ارمنہ کو ساتھ لے تو آیا تهامگر یہ نہیں جانتا تهاکہ اسکی بیوی کو ارمنہ کا یہاں رہنا برداشت نہ ہو گا-
ہوتابهی کیوں وہ ارمغان کی پہلے بیوی رہ چکی تهی-چاہےمحض نکاح میں ہی رہی-
ارمنہ اسکی شکر گزار تهی کہ اس نے اسے اپنے گهر میں پناہ دی-
میرب کو مفت کی نوکرانی دستیاب ہو گئی تهی-ارمنہ سارا دن گهر کے کام کاج دیکهتی تهی اور رات میں چند گهنٹے اسےآرام کے میسر ہوتے-
صبح فجر کی نماز کے وقت اٹھتی اور نماز پڑه کر وہ کام کرنے لگتی صفائی ناشتہ ننانا، ناشتے کے برتن دهونا، دوپہرکاکهانا بنانا، کهانے کے برتن دهونا، سب کے کپڑے دهونا، استری کرنا،شام کی چائے، رات کا کهانا، رات کے برتن، آتا گوندهنا، غرضیکہ ہر چهوٹے سے چهوٹا بڑے سے بڑاکا اس سے لیا جاتا-وہ کولہو کے بیل کی طرح کام میں جتی رہتی-
اس کے بچے بهی ارمغان کے بچوں کے ساتھ سکول جاتے اور واپس آتے-انکو لانے لے جانے کی
ذمہ داری میرب خود پوری کر رہی تهی-اسکا بس نہ چلتا تها ورنہ ارمنہ کے بچے کبهی اس سکول نہ پڑھتے-جہاں اسکے بچے پڑه رہے تهے-
ارمغان کی امی ابهی حیات تهیں اور وہ یہ سب دیکھ کر ہر لمحہ کڑهتی رہتی تهیں کہ ان کی لاڈلی کے ساتھ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ وہ کیا منہ دکهائیب گی بروز محشر اسکی ماں کو کہ اسے اپنے گهر میں ایک لمحہ بهی سکون کا نہ دے سکی میں -مگر کچھ کر نہ سکتی تهیں-
♡ ♡
انهی دنوں ارمغان کی امی کی خواہش پر ارسل اورآیت کا نکاح طے ہوا-کیونکہ وہ اپنی پوتی کو دلہن بنا دیکهنا چاہتی تهیں-اور ارمنہ کی بهی یہی خواہش تهی-کسی کو کیا معلوم تهاکہ اپنی آخری خواہش پوری کروا رہی تهیں-
♡ ♡
پهر ایک دن ایسا واقعہ ہوا جس کا کسی نے کبهی سوچا بهی نہ تها-ارمغان نے خود اپنےہاتهوں سے ارمنہ کو اسکے بچوں سمیت محض چار ماہ بعد گهر سے باہر نکال دیا-وجہ اسکی بیوی کی لگائی ہوئی آگ تهی-جس نے سب کو اپنی لپیٹ میں لےلیا-اس نے الزام لگایا کہ ارمنہ نے میرا قیمتی سیٹ چوری کر لیا ہے-ارمغان جو پہلے ہی کچھ پریشان تها-اس نے طیش میں آ کر ارمنہ کو گهر سے نکال باہر کیا-بغیر یہ سوچے کہ وہ اتنی رات گئے دو چهوٹے بچوں کے ساتھ کہاں جائے گی؟
اسکی طبیعت بهی ٹهیک نہ تهی-وہاں سے چند قدم ہی چلے تهے کہ ارمنہ چکرا کر گر پڑی-
ارسل گهر کی طرف دوڑا اور بے قراری سے دروازہ پیٹنے لگا-
“انکل پلیز دروازہ کهولیں امی کو نجانے کیا ہوگیا ہے-“وہ پریشانی میں بار بار دروازی کهٹکهٹا رہا تها-اندر سے ارمغان نے جب اسکی آواز سنی تو فورا”باہر کو لپکا اور اسے لے کر اسپتال پہنچا-
جہاں پر اسے فورا”داخل کر لیا گیا-
فی میل ڈاکٹر ڈیوٹی پہ موجود تهیں ارمغان نے انهیں ارمنہ کو دیکهنے کا کہا-
“ان کا آپریٹ ہو گا-نہیں تو انکے ساتھ ساتھ بچی کی بهی جان خطرے میں ہو گی-“وہ بولی-ارمغان نے فورا”فارم فل کر کے دستخط کر دئیے
♡ ♡ ♡ ہو گا
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...