ذولقرنین نے ندا کو اپنے پیچھے کیا اور اپنا پستول نکالا : ” مگر میں تو پرانی والی ہی ڈیل پر عمل کروں گا ضیاء صدیقی ! ” ، دونوں نے ایک ساتھ ہی اپنی اپنی پستول کا رخ ایک دوسرے کی طرف کیا ۔ ندا نے زور سے ذولقرنین کی شرٹ تھامی اور آنکھیں موندیں ۔ تین فائر کی آواز آئی ۔ دونوں نے ایک ساتھ فائر کیا ۔ ذولقرنین کے پستول سے نکلی ہوئی دو گولیاں ضیاء کو لگی تھیں ۔ اور ضیاء کی پستول سے نکلنے والی ایک گولی ذولقرنین کو لگی تھی ۔ فائر کی آواز سن کر مرزا بھاگتا ہوا اندر آیا اور مزید دو فائر کر کے ضیاء کے قصے کا خاتمہ کردیا ۔ وہ ذولقرنین کی طرف بڑھا جو نیچے گر چکا تھا ۔ “باس ! باس ! میں ابھی بلاتا ہوں ایمبولینس!”
ذولقرنین نے مرزا کا ہاتھ تھاما اور ٹوٹے ہوئے لفظ بکھیرے :” مرزا ! مرزا ! ندا ۔ ۔ کو ۔ ۔ لے . ۔ ۔ جاؤ ۔ ۔ یہاں سے ! ” ۔ مرزا نے ندا کی طرف دیکھا جس کی پتھر آنکھوں سے آنسوں نکل رہے تھے ۔اور وہ ذولقرنین کے خون آلود سینے پر ہاتھ رکھے ہوئی تھی ۔ اسکا ہاتھ بھی خون آلود ہو چکا تھا ۔ مرزا آگے بڑھا اور ندا کا بازو تھام کر وہاں سے لے گیا ۔ ندا نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور لبوں سے ایک سسکی نکلی اور ایک نام :”زول ۔ ۔ ذولقرنین ! ۔ ۔ ۔ ” , مرزا اسے گودام سے باہر لے کر آیا اور گاڑی میں بٹھایا ۔ اور گاڑی کا دروازہ بند کرنے ہی والا تھا کہ ندا نے گاڑی کا دروازہ بند کرنے سے روکا :” زول ۔ ۔ ۔ ۔ ذولقرنین ٹھیک تو ہوجائیں گے نا ! ” . مرزا نے خالی نگاہوں سے اسے دیکھا اور دروازہ بند کیا . ۔ مرزا نے ڈرائیور کو سیٹھ عبدل کریم کے گھر کا اڈریس بتایا ۔ اور جب تک گاڑی چلی نا گئی وہ ادھر ہی کھڑا رہا ۔
__________________________________
ندا بوجھل قدموں سے کواٹر میں داخل ہوئی تو آگے نوراں اسے دیکھ کر اسکی طرف بھاگی آئی :” ندا ! ندا بچے ! کہاں تھی تم ؟ میں کتنی پریشان ۔ ۔ ۔ ۔ ” ، نوراں کی نظر اسکے ہاتھوں کی طرف گئی جن پر موجود خون اب سوکھ چکا تھا ۔ نوراں نے اسکے ہاتھ تھامے اور اوپر کیے :” یہ یہ کیا ہے ؟ ندا ! بتاؤ بچے ! ” ، ندا نے اپنے ہاتھ چھڑوائے اور ایک ہاتھ سے دوسرے کو ڈھانپ کر اپنے دل پر رکھے ، اور کھوۓ ہوۓ انداز میں بولی :” نا چھوئیں انہیں ! مت صاف کریں انہیں ! ” ، اور بیہوش ہو کر نیچے گر گئی ۔ نوراں چلاتی ہوئی اس کے پاس نیچے بیٹھی :” ندا ! ہوش میں آؤ بچے ! ” ۔
__________________________________
ندا کی آنکھ کھلی تو خود کو ہسپتال کے ایک کمرے میں موجود پایا ۔ اپنے ہاتھ بلند کر کے دیکھے تو وہ صاف تھے ۔ اور بازو پر ڈرپ لگی تھی ۔ اسنے سامنے صوفے پر نظر دوڑائی تو نوراں آنکھیں بند کیے تسبیح پڑھ رہی تھی ۔ اسنے نوراں کو آواز دی :” خالہ اما ! ” ، نوراں نے آنکھیں کھولیں اور بھاگ کر اس تک آئی ۔
” ٹھیک ہو تم بچے ! میں ڈاکٹر کو بلاتی ہوں ! ” ۔
ندا نے نوراں کا ہاتھ پکڑ کر روکا ، اسکی آنکھوں میں امید کے جگنو چمک رہے تھے :”وہ ٹھیک تو ہے نا خالہ اما ؟” ۔
نوراں نے ناسمجھی سے اسے دیکھا :” کون ؟ ” ۔
ندا نے اپنے ہاتھوں کو دیکھا :” وہ وہ جس کا خون یہاں تھا “، اور اپنے ہاتھ پر دوسرا ہاتھ پھیرا .
نوراں کی آنکھوں میں آنسوں آئے ۔ ” ڈاکٹر کو بلا کر لاتی ہوں ” ۔
اور باہر چلی گئی ۔ ندا کی آنکھوں سے آنسوں بہے ۔ ۔ ۔ ۔
__________________________________
ندا ہسپتال سے ڈسچارج ہو گیئ تھی اور ویسے ہی گم سم رہتی . ۔ کوئی اس سے بات کرتا تو جواب دے دیتی مگر خود سے کسی کو مخاطب نا کرتی . ۔ بانو ہر وقت اسکا دل بہلاتی رہتی اور ہنسی مذاق کرتی رهتی ، ندا بس مسکرا دیتی ۔ اب صالحہ بیگم بھی اس سے زیادہ بات نا کرتی تھیں ۔ وہ کئی بار ذولقرنین کے گھر جا چکی تھی مگر وہ گھر ویران ہو چکا تھا جیسے ۔ وقت یوں ہی پر لگا کر اڑ رہا تھا اور دو سال ایسے گزرے جیسے ہوا کا کوئی جھونکا ۔ ۔ ۔ ۔
__________________________________
“ندا دیکھ آج تو منع نہیں کرے گی مجھے ! آج تو میرے ساتھ بازار چل ” ، بانو کب سے اسے منانے کی کوشش کر رہی تھی ۔ مگر وہ مان ہی نہیں رہی تھی ۔ ” نہیں بانو میرا دل نہیں ! ” ۔
بانو نے غصے سے کہا :” میرے ہاتھوں ماری جاؤ گی ندا ! چلو اٹھو !” ۔
ندا بیزاری سے اٹھی اور چادر لینے چلی گئی ۔
__________________________________
وہ جب واپس آئیں تو رات ہو رہی تھی اور بانو کو صالحہ بیگم نے نئی نئی تنخواہ دی تھی اور وہ بہت کھلے خرچ کر چکی تھی جس پر ندا اسےسمجھاتی رہ گئی تھی ۔
مگر بانو کے مطابق وہ کبھی کبھی تو بازار جاتی تھی ۔
ندا اپنے کواٹر میں آئی تو نوراں نے اسے دیکھا اور پوچھا :” کچھ زیادہ دیر نہیں لگا دی تھی ندا بچے ! ” ۔
ندا نےاپنی چادر اتاری اور چارپائی پر بیٹھی ۔ ” خالہ اما بانو کا تو پتا ہے نا کہ جب اس کے ساتھ بندہ کہیں غلطی سے چلا جائے تو اس کی خیر نہیں ہوتی ، میں بہت تھک گئی ہوں خالہ اما ! اب سونا چاہوں گی ” ۔ نوراں نے اثبات میں سر ہلایا اور کمرے میں موجود بلب بند کر دیا ۔ ندا ایک ٹھنڈی آہ بھرتی لیٹ گئی ۔
__________________________________
رات کا نجانے کونسا پہر تھا کہ ندا ایک دم سے اٹھ بیٹھی ۔ اور گہرے سانس لیۓ ۔ اور گھٹنوں میں سر دے کر رونے لگی ۔ دل میں بولی (میں کہاں جاؤں ذولقرنین ! آپ کا خیال مجھے سکوں نہیں دے رہا ، مجھے نہیں پتا عشق کیا ہوتا ہے یا محبت کیسی ہوتی ہے ! مگر جس کرب کے ساتھ میں نے یہ دو سال گزارے ہیں آپ کے بغیر وہ بہت اذیت ناک گزرے ہیں ، آپ نے ان دو دنوں میں ہی اپنی اتنی عادت ڈال دی تھی کہ اب دو سال بہت تنہا تھے . ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بہت تنہا !) ۔ وہ یوں ہی رو رہی تھی کہ کھڑکی کے پار کھٹکا سا ہوا . ۔ وہ اٹھی اور اپنے آنسوں صاف کرتی دروازہ کی طرف بڑھی ۔ دروازہ کھول کر باہر جھانکا تو کوئی نا تھا ۔ وہ مڑی ہی تھی کہ کسی نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا . ۔ اس سے پہلے کہ ندا کی چیخ سیٹھ عبدل کریم کے محل میں گونجتی ، مقابل نے اپنے مضبوط ہاتھ اس کے چہرے پر رکھے ۔ مگر اس شخص کا چہرہ ڈھانپا ہوا تھا ۔ ندا نے اپنے چہرے سے اسکا ہاتھ ہٹانا چاہا مگر اس نے گرفت اور مضبوط کی ۔ اور ندا کے کان کے قریب آ کر سرگوشی کی ” جان من ! کیا شور کر کے اپنے شریف سے شوہر کو پکڑواؤ گی کیا؟ ” ۔ اور اپنا نقاب اتارا ۔
ندا نے پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھا ، ذولقرنین پیچھے ہوا اور اسکے چہرے سے ہاتھ ہٹایا ۔ رات کے اندھیرے میں دو بکھرے ہوئے مل گیے تھے ، اور ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنا اپنا کرب بیان کر رہے تھے ۔ ندا سرعت سے آگے بڑھی اور ذولقرنین کے سینے پر سر ٹکا کر رونے لگی ۔ ذولقرنین نے اسکے گرد اپنے بازو حائل کیے ۔ اسنے ندا کو رونے سے نہیں روکا ۔ وہ چاہتا تھا کہ سارے غم اس اندھیر رات میں ختم ہوجائیں اور اگلی صبح روشن اور خوشیوں سے بھرپور ہو !
__________________________________
اگلی صبح ندا کے چہرے پر موجود خوشی اور آنکھوں کی چمک کسی سے مخفی نا تھی ۔ کتنی بار نوراں اس سے پوچھ چکی تھی مگر وہ کسی کو کچھ نہیں بتا رہی تھی ۔ بانو تو ہر ممکن طریقے سے اگلوانے کی کوشش کر چکی تھی مگر ندا نے کچھ بھی نا بتایا تھا اور تھک کر بانو ناراض ہو چکی تھی ۔ ندا اس کو دیکھ کر ہنسی جو منہ سوجا کر بیٹھی تھی . ۔ ” بانو تم چڑیل لگ رہی ہو ایسے منہ مت پھلاو” ۔
بانو خفگی سے بولی :” ندا منہ توڑ دوں گی تم ہوگی چڑیل ! ” ۔ اور وہاں سے اٹھ کر چلی گئی ۔ ندا بس ہنستی ہی چلی گئی ۔
__________________________________
شام کا وقت تھا جب دو گاڑیاں سیٹھ عبدل کریم کے محل میں داخل ہوئیں ۔ پہلی گاڑی سے ذولقرنین اترا اور اندر کی جانب قدم بڑھائے ۔ ان دو سالوں میں بھی وہ بدلا نہیں تھا ۔ ہال میں داخل ہوا تو سیٹھ عبدل کریم کی نظر اس پر پڑی ۔ وہ ایک دم حیران پریشان سے اسے دیکھے گیے ۔ ذولقرنین انکے سامنے کھڑا ہوا اور آنکھوں کے آگے چٹکی بجائی ۔ ” سیٹھ صاحب ! خیر تو ہے ایسے کیا دیکھ رہے ہیں مجھے ؟ مجھے معلوم ہے کہ میں بہت ہینڈسم ہوں ،” ۔ سیٹھ عبدل کریم ایکدم ہنسے اور بولے :” برخودار یہ بات نہیں میں تو یہ سوچ رہا تھا کہ تم زندہ کیسے ہو گئے آخر ! ” ، اور ساتھ ہی ہاتھ سے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔ ذولقرنین بولا :” جسے اللہ رکھے ، اسے کون چکھے ! ، چلیں اب میری بیوی کو بھی بلا دیں مجھے دیر ہو رہی ہے ! ” ۔ سیٹھ عبدل کریم نے اثبات میں سر ہلایا :” کیوں نہیں ! بانو بچے ذرا اپنی ندا کو بلا لاؤ ” ، انہوں نے بانو کو آواز دیتے ہوئے کہا ۔ بانو جی اچھا کرتی کواٹر کی طرف بھاگی ۔
__________________________________
بانو کواٹر میں داخل ہوئی اور ندا کو سر تا پر دیکھا جو ہلکے گلابی رنگ لے شلوار قمیض میں بہت پیاری لگ رہی تھی اور دوپٹہ سہی سے اوڑھ رکھا تھا ۔ بانو بولی :” وہ آئے ہیں ! ” ۔ ندا کے دل کی دھڑکن تیز ہوئی مگر انجان بن کر بولی :” کون ؟ ” ۔بانو طنزیہ بولی :” وہ جس کے لیۓ تو تیار ہو رہی ہے ! ” ۔نوراں بھی ہنسی اور بولی :” نا تنگ کر بانو میری بچی کو ! ” ۔ بانو بولی :” خالہ یہ بڑی میسنی ہے اس کو پتا تھا مگر اس نے ہمیں نہیں بتایا ” ۔ ،ندا آگے بڑھی ہی تھی کہ بانو اس کے خطرناک تیور دیکھ کر بھاگ گئی ۔ ندا نے اپنا سر جھٹکا اور نوراں کے ساتھ کواٹر سے نکلی ۔
__________________________________
ندا سب سے مل کر ذولقرنین کے ساتھ سیٹھ عبدل کریم کے محل سے نکل آئی تھی ۔ گاڑی میں اس نے ذولقرنین سے سوال کیا :” ذولقرنین ! ایک بات بتائیں ! جب آپ کو گولی لگی تھی تو میرے جانے کے بعد وہاں کیا ہوا تھا ؟ ” ۔ زولقرنین جو موبائل پر لگا ہوا تھا ، اسکے سوال پر موبائل بند کیا اور اسکی طرف تھوڑا مڑ کر بیٹھا اور بولا :” مجھے پتا تھا کہ ضیاء اپنی بات ضرور بدلے گا سو مرزا کے بےحد اصرار پر میں نے بلٹ پروف جیکٹ پہنی تھی ” ۔ ندا نے بے یقینی سے اسے دیکھا :” اور اور وہ خون ! وہ کیا تھا ؟” ۔
ذولقرنین ایک دم ہنسا :” وہ ! وہ تو رنگ تھا جو مرزا نے ایک پیکیٹ میں ڈال کر جیکٹ کے ساتھ لگا دیا تھا ” ۔ اور دوبارہ سے موبائل پر لگ گیا ۔ ندا نے آنسوں سے لبریز آنکھوں سے اسے گھورا اور بولی :” بہت برے ہیں آپ ذولقرنین ! ” ۔ ذولقرنین نے اس کی طرف دیکھا اور موبائل کوٹ کی پاکٹ میں رکھا اور اسکے دونوں ہاتھ تھامے :” اوکے سوری ندا مجھے یوں نہیں کرنا چاہیے تھا ” ۔ ندا نے اپنے ہاتھ چھڑوائے اور بولی :”یہ دو سال کس کے ساتھ گزارے ! ” اور ساتھ ہی تفتیشی انداز میں ذولقرنین کو گھورا ۔ ذولقرنین نے اسکی بات پر حیرانی سے اسے دیکھا :” تم تم مجھ پر شک کر رہی ہو ندا ! ” ۔ ندا بولی :” جی بلکل ! بتائیں کون تھی وہ لڑکی جس کے ساتھ آپ نے دوسال گزارے ! ” ۔ ذولقرنین ہنس کے بولا :” ڈونٹ بی ٹیپیکل ندا ! ” ۔ ندا نے کہا :” جائیں بھاڑ میں آپ میں نہیں بات کر رہی آپ سے ! ” اور چہرہ موڑ کر بیٹھ گئی ۔ ذولقرنین نے اس کا چہرہ اپنی طرف موڑا اور کہا :” تمہیں پتا ہے ندا تم ایک انتہائی بیوقوف لڑکی ہو ، میں تمہارے علاوہ کسی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا ، میں ضیاء کو مارنے کے بعد افغانستان چلا گیا تھا ، جب یہاں معملات ٹھنڈے ہوے تو میں واپس آگیا ! ” ۔ ندا نے شرمندگی سے اپنا سر جھکا لیا :” معاف کردیں میں نے آپ پر شک کیا ! ” ۔ ذولقرنین بولا :” کوئی بات نہیں اب تو ساری زندگی یہی سننے کو ملے گا ! ” ۔ ندا نے اسے گھورا ، مگر پھر مسکرائی اور آنکھیں موندھ کر اسکے کندھے پر سر رکھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یہاں پر ختم ہوتا ہے قصہ ایک عشق کا ! ۔ ایک انچاہے عشق کا ! ۔ جو کبھی بھی کسی کو بھی اپنا اسیر کر سکتا ہے ! ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔
__________________________________
(ختم شد )
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...