“شہلا ۔۔
شہلا کیا یہ واقعی تم ہو ۔۔؟
نہیں نہیں تم یہاں کیسے آسکتی ہو ۔۔؟
شہلا بتائو نا ۔۔
بولو تو سہی کچھ ۔۔
پلیز کچھ تو بولو ۔۔”
شمعون یقین و بے یقینی کی کیفیت میں شہلا کو سر سے پیر تک بغور جائزہ لیتی نظروں سے دیکھتے ہوئے مسلسل بول رہا تھا ۔۔
پیچھے کا راستہ شائد اب بھی کھلا تھا کیونکہ باہر سے روشنی اندر کو آ رہی تھی ۔۔
جس کے باعث وہ غار نما کمرہ روشن ہو گیا تھا ۔۔
شہلا چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اس کے قریب چلی آئی ۔۔
شمعون کی چلتی زبان کو تالے لگ گئے ۔۔
اس کا دھیان اب جا کر اس کالے ٹیکے پر پڑا تھا جو شہلا کے ماتھے پر سجا تھا ۔۔
“یہ یقیناً اس جادوگر کی چال ہے ۔۔”
شمعون دل میں سوچتے ہوئے شہلا کو الجھ کر دیکھنے لگا ۔۔
جو بے تاثر نظروں سے اسے گھورے جا رہی تھی ۔۔
شہلا کے جسم سے پھوٹتی خون اور گوشت کی خوشبو بھی شمعون کے اعصابوں پر سوار ہوئی جا رہی تھی ۔۔
شمعون دوہری اذیت کا شکار ہونے لگا ۔۔
وہ ہر ممکن کوشش کر رہا تھا پیچھے ہونے کی ۔۔
لیکن زنجیر کی وجہ سے یہ ناممکن تھا ۔۔
جبکہ شہلا اس کے اتنے قریب ہو چکی تھی کہ شمعون اپنی گردن پر شہلا کی گرم سانسیں محسوس کر سکتا تھا ۔۔
جبکہ خود اس نے اپنی سانسیں روک رکھی تھیں ۔۔
تاکہ وہ شہلا کے خون کی خوشبو سونگھ کر اس پر حملہ آور نہ ہوجائے ۔۔
شمعون کو یہ وقت اپنی زندگی کا سب سے مشکل وقت لگ رہا تھا ۔۔
یہ شہلا ہی تھی ۔۔
اتنا اندازہ تو اسے ہوگیا تھا ۔۔
لیکن یہ یہاں کیسے اور کیوں آئی تھی ۔۔
وہ سمجھ نہیں سکا ۔۔
“کیا وہ جادوگر چاہتا ہے کہ میں ۔۔
میں شہلا پر حملہ کردوں ۔۔؟
کیا چاہتا ہے آخر وہ ۔۔
کیا چاہتا ہے تو شیطان ۔۔؟”
شمعون دل میں بڑبڑاتے ہوئے اچانک چیخ اٹھا ۔۔
شہلا کی طرف دیکھنے سے وہ مکمل گریزاں تھا ۔۔
ساتھ ہی وہ بار بار اپنی زبان ہونٹوں پر پھیر رہا تھا ۔۔
نظریں گھوم پھر کر ناچاہتے ہوئے بھی شہلا کی طرف اٹھ رہی تھیں ۔۔
“شش شہلا پلیز کچھ دور ہوجائو ۔۔”
جانتے ہوئے بھی کہ شہلا کا دماغ اس کے اپنے کنٹرول میں نہیں ہے ۔۔
وہ چیخ پڑا ۔۔
بے بسی کی انتہائوں پر پہنچ کر شمعون اچانک ہی ضبط کھو کر شہلا کی گردن کی طرف جھک گیا ۔۔
اس نے شہلا کی گردن کے بڑے حصے کو اپنے پہلے سے لمبے دانتوں میں جکڑ لیا ۔۔
وہ شہلا کا گوشت اس کی گردن سے اکھیڑنے والا تھا جب ایک کرنٹ سا اسے لگا اور وہ پیچھے ہوگیا ۔۔
اس کا منہ خون سے بھرا تھا ۔۔
جبکہ شہلا کھلی ساکت آنکھوں کے ساتھ ایک چیخ بھی مارے بغیر زمین پر ڈھیر ہوگئی ۔۔
اس کی گردن سے خون کافی مقدار میں نکل رہا تھا ۔۔
شمعون جنونی ہوتا ہوا شہلا کے بیہوش وجود پر جھکنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن زنجیر نے اس کی یہ کوشش بھی ناکام بنادی ۔۔
تھا نہ وہ حیوان ۔۔
کون سے رشتے ۔۔
کونسے ناتے ۔۔
کون سی محبت ۔۔
اس کے لیئے سب سے بڑھ کر اس کی بھوک تھی ۔۔
بھوک تو انسان کو بھی بعض اوقات حیوان بنا دیتی ہے ۔۔
وہ تو پھر تھا ہی حیوان ۔۔!
اسی بھوک سے شمعون پاگل ہو رہا تھا ۔۔
اس کی غراہٹیں بہت اونچی تھیں ۔۔
جب اس کی زنجیریں خود بہ خود مدھم پڑتے پڑتے اچانک غائب ہوگئیں ۔۔
لیکن شمعون نے کسی چیز پر دھیان نہ دیا اور پھرتی سے شہلا پر جھکنے لگا جب ایک بار پھر کرنٹ سا اس کے وجود میں دوڑ گیا ۔۔
اور یہ کرنٹ اتنا شدید تھا کہ شمعون کئی فٹ دور جا گرا ۔۔
دراصل اس کے ہر عمل کے پیچھے پیر صاحب اور شنکر جادوگر کی کی کاروائیاں تھیں ۔۔
شنکر جادو گر نے شہلا پر جادو کیا تھا ۔۔
اسے قربانی کے لیئے ایک اور شخص چاہیے تھا ۔۔
پھر وہ شہلا کیوں نہیں ۔۔
زیادہ تباہی ۔۔
زیادہ خون خرابہ ۔۔
یہی تو شیطان اور اس کے چیلوں کی چاہ ہوتی ہے ۔۔
شہلا کے خون پر شنکر جادوگر نے ایسا جادو کیا تھا ۔۔
کہ اگر شمعون اس کے خون کے سات گھونٹ پی لیتا ۔۔
تو شنکر جادوگر کی غلامی میں چلا جاتا ۔۔
شنکر جادوگر نے ہی شمعون کی زنجیریں کھولی تھیں ۔۔
جبکہ شمعون کو روکنے والے پیر صاحب تھے ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شمعون کے جھٹکے سے سنبھل کر اٹھ بیٹھنے سے پہلے ہی تیمور آفندی اور پیر صاحب غار کے اندر داخل ہوئے تھے ۔۔
“تیمور ۔۔
شہلا کو ساتھ لے جائو ۔۔
جو آیات میں نے پڑھنے کو کہی تھیں ۔۔
وہ پڑھ کر شہلا پر دم کرو ۔۔
یہ انشااللہ ہوش میں لوٹ آئے گی ۔۔
جلدی جائو ۔۔”
پیر صاحب کے حکم پر تیمور آفندی جو پہلے ہی گڑبڑائے ہوئے تھے ۔۔
کہ پیر صاحب کے آستانے پر بیٹھے بیٹھے وہ اچانک اس ویرانے میں کیسے ہہنچ گئے ۔۔
مزید سٹپٹا کر سر اثبات میں ہلاتے ہوئے شہلا کی طرف بڑھے اور اسے اپنے شانے پر لاد لیا ۔۔
جبکہ شمعون اذیت سے چیخے جا رہا تھا ۔۔
وہ کرنٹ کے جھٹکے اسے مسلسل لگ رہے تھے ۔۔
اب غار میں صرف وہ دیوار سے لگی لاش ۔۔
پیر صاحب ۔۔
اور غصے سے غراتا شمعون تھا ۔۔
لیکن شمعون کی غراہٹیں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ دھیمی پڑتی جا رہی تھیں ۔۔
اور کچھ دیر بعد ہی وہ گھٹنوں کے بل گر گیا تھا ۔۔
لیکن ہلکی ہلکی سہمی ہوئی سی غراہٹیں اب بھی جاری تھیں ۔۔
بغور اسے دیکھتے ہوئے پیر صاحب نے گہری سانس خارج کر کے افسوس بھری نظر شمعون پر ڈالی ۔۔
کتنا خوبرو تھا وہ ۔۔
لیکن قسمت کیا تھی اس کی ۔۔
“اور تم اس آدم زادی سے محبت کے دعویدار ہو ۔۔؟
بھوک میں تم نے جس پر حملہ کر دیا ۔۔
اس کے ہی گوشت سے تم نے اپنی بھوک مٹانا چاہی ۔۔؟”
پیر صاحب کے سخت لہجے پر شمعون دھیرے دھیرے ہوش کی طرف لوٹنے لگا ۔۔
اور اپنی غلطی کا احساس ہوتے ہی اس کے چہرے پر شدید گھبراہٹ نمایاں ہوگئی ۔۔
اس نے اپنا جھکا سر اٹھا کر متوحش نظروں سے پیر صاحب کی طرف دیکھا ۔۔
“وہ ٹھیک یے نا ۔۔؟”
“انشااللہ ٹھیک ہی رہے گی ۔۔
اگر تم اس سے ہمیشہ کے لیئے دور ہوجانے کا عہد کرو تو ۔۔”
“یہ ناممکن ہے ۔۔”
شمعون چیخ کر بولا ۔۔
لیکن اچانک اسے پھر ایک جھٹکا لگا اور وہ اپنا سر جھکا گیا ۔۔
لیکن سفید آنکھوں میں چمکتی چھوٹی چھوٹی پتلیاں پیر صاحب کے وجود پر ہی جما رکھی تھیں ۔۔
“ناممکن ہے ۔۔؟
تم اب بھی یہ کہہ رہے ہو ۔۔؟
آج ہم نہ آتے وقت پر ۔۔
تو تم اب تک اس کی ہڈیاں بھنبھوڑ رہے ہوتے شمعون ۔۔
قدرت کے ہر کام میں کچھ مصلحت ہوتی ہے ۔۔
اس بات کو قبول کرلو کہ تم کسی انسان کے ساتھ ساری زندگی نہیں گزار سکتے ۔۔”
“حویلی والوں کے ساتھ سالوں رہا ہوں میں ۔۔”
“تو کیا وہ تمہارے عتاب سے محفوظ رہے ۔۔؟”
پیر صاحب کے طنزیہ پوچھنے پر شمعون مزید کچھ کہہ نہیں سکا ۔۔
“اب تم شہلا کو چھوڑ دو ۔۔
میں تمہیں چھوڑ دونگا ۔۔
ورنہ محبوراً مجھے وہ کرنا پڑے گا جو تمہیں پسند نہیں آئیگا ۔۔”
شمعون نے اس بات پر طنزاً ایک ابرو اچکایا ۔۔
“پھر آپ مجبوراً کچھ کر ڈالیں پیر صاحب ۔۔
کیونکہ میں شہلا کو ایسے نہیں چھوڑونگا ۔۔”
پیر صاحب نے لب بھینچ لیئے ۔۔
ایک تو شمعون کی ضد ۔۔
اوپر سے وہ محسوس کر سکتے تھے کہ شنکر جادوگر اسی طرف آ رہا ہے ۔۔
“میری بات سنو ۔۔
پہلے شنکر کا کام تمام کرنا ضروری ہے ۔۔
ورنہ وہ کسی کو سکون سے جینے نہیں دیگا ۔۔
سمجھ رہے ہو تم ۔۔؟”
شمعون نے جواباً سر کو ہلکی سی جنبش دی اور اگلے ہی پل بلے کا روپ دھار کر بدبو اڑاتی اس لاش پر جھپٹ پڑا ۔۔
پیر صاحب نے ٹھنڈی سانس بھر کر چہرہ موڑ لیا ۔۔
کہ بہرحال یہ ایک خوفناک ترین منظر تھا ۔۔
شنکر جادو گر آگ کے شعلے کی طرح وہاں پہنچا تھا ۔۔
شمعون سیاہ بلے کے روپ میں ہی غصے سے اس کی طرف پلٹا ۔۔
اس کی غراہٹیں سن کر وہ شنکر جادوگر قہقہ لگا کر ہنس پڑا ۔۔
“اس بڈھے کے کارن ۔۔
مورکھ تو بڑا اکڑ رہا یے ۔۔
پہلے اسی کو بھسم کریں گے ہم ۔۔”
شنکر جادوگر کی سخت نظریں پیر صاحب کی طرف اٹھیں ۔۔
پیر صاحب نے اس کی دھمکی پر کوئی تاثر نہ دیا ۔۔
شمعون بے بس تھا ہیر صاحب کے حکم پر ۔۔
ورنہ اس کا دل تو چاہ رہا تھا ۔۔
شنکر جادوگر کا مختصر سا وجود چبا کر رکھ دے ۔۔
اس جادوگر کی وجہ سے وہ شہلا پر حملہ کر چکا تھا ۔۔
پیر صاحب نے اسے منع کر رکھا تھا کہ ان کے اشارے تک وہ شنکر جادوگر سے دور ہی رہے ۔۔
اور یہاں شمعون واقعی بے بس تھا ۔۔
وہ ساتھ ہی الجھ بھی رہا تھا ۔۔
نہ جانے کیسی جنگ ہونے والی تھی ۔۔
وہ اسی الجھن میں تھا جب اچانک شنکر جادوگر نظروں سے اوجھل ہوگیا ۔۔
ٹھنڈی سانس بھر کر پیر صاحب نے بغور ادھر ادھر نظریں دوڑائیں ۔۔
پھر کچھ پڑھ کر ایک طرف کو پھونک دیا ۔۔
وہاں سے ہلکی سی چنگھاری نکلی تھی ۔۔
یہ عمل وہ کافی دیر تک دوہراتے رہے ۔۔
وہ جہاں جہاں پھونکتے وہاں سے چنگھاریاں پھوٹ پڑتیں ۔۔
جبکہ پیر صاحب کا رنگ زرد ہوتا جا رہا تھا ۔۔
اور چہرے پر بھی تکلیف کے سائے تھے ۔۔
شمعون حیرت سے سب ملاحظہ کرتا رہا ۔۔
یہاں تک کہ آگ کا بہت بڑا شعلہ جل کر بجھ گیا ۔۔
اور اس کے ساتھ ہی پیر صاحب بھی لڑکھڑا کر گر پڑے ۔۔
شمعون انسان شکل میں لوٹتا تیزی سے ان کی طرف بڑھا ۔۔
“آپ ٹھیک ہیں ۔۔
اس جادوگر کا کیا ہوا ۔۔؟”
وہ جادوگر ۔۔
شائد بچ جائے ۔۔
اس وقت وہ بہت زخمی ہے ۔۔
بچنے کی علامات کم ہی ہیں ۔۔”
گہری گہری سانسیں بھرتے ہوئے پیر صاحب بمشکل بولے ۔۔
“اور ۔۔
اور آپ ۔۔؟
میں آپ کی کچھ مدد کروں ۔۔؟”
شمعون اس وقت سخت گھبرایا ہوا تھا ۔۔
“میرا وقت آچکا ہے میاں ۔۔”
وہ دھیرے سے ہنسے اور کچھ دیر بر بعد ہی کلمہ پڑھتے پڑھتے ۔۔
آخری ہچکی لے کر ساکت ہوگئے ۔۔
دوسری طرف شمعون بے یقینی سے ان کے بےجان وجود کو دیکھتا رہ گیا ۔۔
اس نے خود بہت سی جانیں لی تھیں ۔۔
لیکن اس طرح اس کی اپنی دھڑکن رک نہیں گئی تھی ۔۔
وہ اب بھی بھوکا تھا لیکن پیر صاحب پر حملہ نہ کر سکا ۔۔
اچانک اس کی تیز نظروں کو کچھ روشنی چمکتی نظر آئی ۔۔
دل میں وسوسہ جاگا ۔۔
“شنکر تو نہیں ۔۔؟”
لیکن شنکر کے وجود سے ایسی خوشبو کب پھوٹتی ہے ۔۔
“تم جائو ۔۔
میں یہ سب سنبھال لونگا ۔۔
خوبصورت سی گلوگیر مردانہ آواز شعون کے کان میں گونجی تو وہ ٹرانس کیبفیت میں پیچھے ہوگیا ۔۔
غار سے نکلنے سے پہلے اس نے ایک بار پھر پیر صاحب کی طرف دیکھنا چاہا ۔۔
لیکن وہ اب وہاں موجود نہیں تھے ۔۔
گہری سانس بھر کر وہ پہلے آہستہ آہستہ چلتا ہوا آگے بڑھنے لگا ۔۔
جب اسے دور تیمور آفندی نظر آئے ۔۔
وہ پوری رفتار سے بھاگ کر ان تک پہنچا ۔۔
تیمور آفندی اسے دیکھ کر ساکت رہ گئے ۔۔
حقیقت آشکار ہونے کے بعد وہ آج ان کے سامنے تھا ۔۔
“گلے تو نہیں لگائیں گے ۔۔؟”
شمعون نے آس سے پوچھا ۔۔
“کیا پتہ تم گردن ادھیڑ دو ۔۔”
تیمور آفندی سخت طنز سے بولے ۔۔
ان کے طنز پر شمعون کے دماغ میں جھماکہ ہوا ۔۔
“شہلا کہاں ہے ۔۔”
تیمور آفندی کو جواب دینے کی ضرورت نہیں پڑی ۔۔
شمعون کی نظریں کچھ فاصلے پر زمین پر پڑی شہلا پر پڑیں ۔۔
وہ بھاگ کر اس کے پاس پہنچا ۔۔
شہلا کی گردن پر تیمور آفندی کا رومال بندھا تھا جو پورا سرخ خون میں بھیگ گیا تھا ۔۔
اور شہلا کے لب تھوڑا سا کھلے ہوئے تھے ۔۔
جبکہ چہرہ سفید ہو رہا تھا ۔۔
شہلا کے وجود میں ایسی خاموشی تھی جس نے شمعون کو ششدر کردیا ۔۔
اس نے حیرت سے پھیلی آنکھیں تیمور آفندی کی طرف اٹھائیں ۔۔
تیمور آفندی کی آنکھوں میں نمی جھلکنے لگی ۔۔
“میں نے شہلا کو مار دیا ۔۔؟”
شمعون نے حیرت سے پوچھا ۔۔
وہ کچھ بھی نہ بول سکے ۔۔
وہ خود اب تک بے یقین تھے ۔۔
شمعون نے بہت خطرناک جگہ اپنے دانت گاڑے تھے ۔۔
اور بس وہ زخم شہلا کی زندگی کے خاتمے کا جواز بن گیا ۔۔
“سب کچھ چھن گیا مجھ سے بھائی ۔۔
سب کچھ ۔۔
میں بلکل تنہا رہ گیا ۔۔
میں نے خود اپنا سب ختم کرلیا ۔۔
میں واقعی حیوان ہوں ۔۔
جو محبت کے قابل نہیں ہے ۔۔
ہاں حیوان ہی تو ہوں میں ۔۔”
شمعون کو اس طرح دہاڑیں مار کر روتے دیکھنا انہیں حیران کر رہا تھا ۔۔
وہ ایک بلا تھا ۔۔
ایک آدم خور مخلوق ۔۔
کیا وہ انسان سے ایسی محبت کر سکتا ہے ۔۔
کہ اس کے لیئے یوں رو پڑے ۔۔
وہ دم بخد سے اسے دیکھتے رہے ۔۔
“کیا اس وقت مجھے شمعون کو اس کے قبیلے کے ختم ہوجانے کی اطلاع دینی چاہیے ۔۔؟
نہیں ابھی نہیں ۔۔
یہ خود ہی جان لیگا سہی وقت پر ۔۔”
دل میں سوچتے ہوئے تیمور آفندی نے آنکھوں سے نکلتے آنسو صاف کیئے ۔۔
انہیں اب بھی شمعون پر ترس آ رہا تھا ۔۔
اس کے رونے کا انداز ہی ایسا تھا ۔۔
دل چیر دینے والا ۔۔
“شمعون مجھے شہلا کی لاش لیجانی ہے تم ۔۔”
“کہیں نہیں لے کر جائیں گے آپ اسے ۔۔
اب تو میرا رہنے دیں ۔۔
کیا ۔۔
چاہتے کیا ہیں آپ لوگ آخر ۔۔”
شمعون ان کی بات کاٹ کر چیخا ۔۔
“اب ہی تو نہیں رہنے دے سکتا تمہارے پاس ۔۔”
تیمور آفندی کی بات کی گہرائی سمجھ کر وہ تیزی سے پیچھے ہوا ۔۔
اور پھر ایک آخری نظر باری باری تیمور آفندی اور شہلا پر ڈال کر وہاں سے بھاگتا چلا گیا ۔۔
اس کے آنسو اس کے بھاگنے کی وجہ سے گال پر آنے سے پہلے ہی ہوا میں اڑ جاتے ۔۔
آج شمعون نے تسلیم کر ہی لیا تھا وہ واقعی حیوان تھا ۔۔
انسانوں کے درمیان رہنے کے لیئے بنا ہی نہیں تھا ۔۔
اس نے تو اپنی حیوانیت سے اسے ہی نہیں چھوڑا ۔۔
وہ جسے بے انتہا چاہتا تھا ۔۔
اور آج وہ حویلی والوں کی تکلیف بھی محسوس کر رہا تھا ۔۔
اپنے پیاروں کو کھو دینے کے غم میں ان کا رونا اسے آج سہی معنوں میں سمجھ آرہا تھا ۔۔
وہ بھاگتا رہا بھاگتا رہا ۔۔
یہاں تک کہ وہ اس علاقے میں پہنچ گیا جہاں ہر طرف انسانی ہڈیاں ہی ہڈیاں تھیں ۔۔
پہلے تو اس نے اپنے غم میں توجہ نہیں دی لیکن اچانک جب اس کی نظریں اس ڈھانچے پر پڑیں جس کے نیچے لمبی سی سفید ملگجی داڑھی نظر آرہی تھی ۔۔
اور اس کا باقی لباس ۔۔
شمعون کی رفتار اپنے آپ دھیمی پڑ گئی ۔۔
اس نے بغور اس ڈھانچے کا جائزہ لیا ۔۔
پھر باقی ڈھانچوں کا ۔۔
اور جو کچھ اسے سمجھ آیا اس نے شمعون کو اندر سے ہلا کر رکھ دیا ۔۔
تو وہ واقعی تنہا رہ گیا تھا ۔۔؟
بلے کے روپ میں ڈھل کر وہ اونچی آوازیں نکال نکال کر اپنے کسی زندہ ساتھی کو پکار رہا تھا ۔۔
لیکن وہاں صرف ہوائوں کا شور تھا ۔۔
ایک چوٹی پر چڑھ کر ہر طرف دیکھنے کے بعد وہ اونچی آواز میں رونے لگا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گیارہ سال بعد ۔۔
“ماما ۔۔
ماما ۔۔”
زمان اسے پکارتا ہوا کچن میں ہی چلا آیا ۔۔
جہاں امتل حمزہ کے لیئے کافی تیار کر رہی تھی ۔۔
اپنے نو سالہ بیٹے کو دیکھ کر اس کے لبوں پر پیار بھری مسکان بکھر گئی ۔۔
“جی ماما کی جان ۔۔”
“ماما یہ آرٹیکل دیکھیں ۔۔
اس میں لکھا ہے کہ پاکستان کا وہ علاقہ سب سے زیادہ پراسرار ہے جہاں پرسوں ہماری کار خراب ہوگئی تھی ۔۔
وہاں اکثر بلیاں غراتی دکھائی دیتی ہیں ۔۔
لیکن دیکھتے ہی دیکھتے وہ نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہیں ۔۔
اس دن میں نے بھی آپ سے کہا تھا ۔۔
کہ ایک بلی اچانک غائب ہوگئی ۔۔
لیکن آپ نے اور پاپا نے بیلیو ہی نہیں کیا ۔۔”
آخر میں زمان نے خفگی سے حمزہ کو دیکھا جو ابھی ابھی کچن میں آیا تھا ۔۔
اور اس کی بات سن کر اپنی جگہ ساکت رہ گیا تھا ۔۔
لیکن اگلے ہی پل وہ سنبھل کر مسکرایا ۔۔
“تمہیں کوئی ضرورت نہیں ہے ایسے آرٹیکلز پر توجہ دینے کی ۔۔
آج کل ایسا کچھ نہیں ہوتا ۔۔
یہ روحیں بدروحیں سب جھوٹ ہیں ۔۔
یہ بتائو جو اسٹوری بکس میں نے تمہیں لا کر دی تھیں ان کا کیا بنا ۔۔؟”
“پاپا میں کوئی لڑکی ہوں جو پرنسز کی کہانی پڑھوں ۔۔؟”
حمزہ کا کام ہو چکا تھا ۔۔
زمان کا دھیان بٹ گیا تھا ۔۔
وہ جانتا تھا یہ آرٹیکل جھوٹا نہیں ہے ۔۔
وہ خود اپنی آنکھوں سے پرسوں گاڑی خراب ہونے پر وہاں کئی بلیاں آتی اور غائب ہوتی دیکھ چکا تھا ۔۔
اور اس سب کی وجہ سے بھی واقف تھا ۔۔
لیکن وہ نہیں چاہتا تھا ۔۔
حویلی کی اگلی نسل ایسے کسی بھیانک سچ سے واقف ہو ۔۔
جیسے گیارہ سال سے حویلی والے سکون کی زندگی گزار رہے تھے ۔۔
ہمیشہ گزارتے رہیں ۔۔!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شمعون اپنی تیز نظروں سے بآسانی ادھر اُدھر کودتی اچھلتی بلیوں کو دیکھ رہا تھا ۔۔
اب اس نے اپنا بسیرا اسی جگہ بنا لیا تھا جس جگہ نے اس سے سب کچھ چھین لیا تھا ۔۔
قبیلے والے اس سے بچھڑ کر بھی نہ بچھڑے تھے ۔۔
اب یہ تھا کہ وہ کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے ۔۔
وہ سب بے ضرر سی بدروح بن چکے تھے ۔۔
جو شمعون کو دیکھ تو سکتے تھے ۔۔
لیکن بات نہیں کرتے تھے ۔۔
بلکہ ایک دوسرے سے بھی اجنبی ہوچکے تھے ۔۔
جو بھی تھا ۔۔
شمعون اب اسی سہارے جی رہا تھا ۔۔
وہ یہیں رہتا ۔۔
کوئی جانور نظر آجاتا تو وہ بھوک مٹا لیتا ۔۔
لیکن نہ بھی ملتا تو وہ خاموشی سے اپنے مرنے کا انتظار کرنے لگتا ۔۔
رہی بات حویلی کی ۔۔
تو حویلی سے وہ تمام تعلقات ختم کر چکا تھا لیکن کوئی تھا جو اب بھی اس سے اپنا تعلق ختم نہیں کر سکا تھا ۔۔
تیمور آفندی تقریباً ہر ماہ یہاں آتے تھے ۔۔
آج بھی آئے تھے ۔۔
ہمیشہ کی طرح گوشت پوست کے بڑے بڑے شاپرز پکڑے ۔۔
“آپ یہ کیوں لاتے ہیں ۔۔؟”
شمعون نے کوفت سے پوچھا ۔۔
وہ بھوکا تھا لیکن پاگل نہیں ہوا تھا بھوک سے ۔۔
“کیونکہ مجھے میرا گوشت بڑا عزیز ہے ۔۔”
“پہلے مجھے چاہ تھی ۔۔
میں طاقتور بنوں ۔۔
میں زندہ رہوں ۔۔
اور مرنے والوں کی دیگر چاہنے والوں کا خیال نہیں تھا ۔۔
لیکن اب ایسا نہیں ہے ۔۔
تو آپ یہ نہ کیا کریں ۔۔
کل کا مرتا آج مر جائوں ۔۔”
“کم از کم میرے مرنے سے پہلے ایسی باتیں مت کرو ۔۔”
تیمور آفندی کوفت سے بولے ۔۔
پھر اس کے پہلو میں ہی بیٹھ گئے ۔۔
“شہلا یاد آتی ہے ۔۔؟”
کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد تیمور آفندی نے پوچھا ۔۔
“میں اسے بھولتا ہی نہیں ۔۔
بھول چکا ہوتا ۔۔
تو جیسا ہوچکا ہوں ویسا نہ ہوتا ۔۔”
مدھم آواز میں کہہ کر شمعون نے پھر اس چھب دکھا کر غائب ہوجانے والے سائے کو دیکھا تھا ۔۔
گیارہ سال سے وہ اس وجود کی موجودگی محسوس کر رہا تھا ۔۔
نہ جانے یہ اس کے آنکھوں کا دھوکا تھا یا دل کا ۔۔
لیکن جو بھی تھا ۔۔
تھا تو سہی ۔۔
تیمور آفندی نے اس کے ساتھ کافی وقت گزارا پھر ہمیشہ کی طرح اس کی پیشانی چوم کر وہاں سے چلے گئے ۔۔
تھوڑی دیر ڈرائیو کے بعد سنگل آنے لگے ۔۔
ساتھ ہی ایک کال بھی ۔۔
“جی بیٹا جی ۔۔؟”
انہوں نے پیار سے اپنے نواسے کو مخاطب کیا ۔۔
“پھر نانو ۔۔
آپ نے دیکھا اس جگہ کچھ ۔۔؟”
زمان بہت اکسائٹڈ لگ رہا تھا ۔۔
اس معصوم کے خیال میں تیمور آفندی پہلی بار اس جگہ گئے تھے وہ بھی صرف اس کی خواہش پر ۔۔
“یار خوار ہی کروایا تم نے ۔۔”
تیمور آفندی ہونٹ لٹکا کر بولے ۔۔
دوسری طرف زمان کے بھی ہونٹ لٹک گئے ۔۔
“بٹ آئی سویئر نانو ۔۔
وہاں گھوسٹ ہے ۔۔”
زمان کے معصوم لیکن پریقین انداز پر اس بار وہ نفی نہیں کر سکے ۔۔
نہ جانے کیوں زمان کو ایسی ویسی چیزوں میں اتنی دلچسی تھی ۔۔
وہ اسے ادھر اُدھر کی باتیں کر کے بہلابے لگے ۔۔
اونچی چوٹیوں پر نظریں دوڑاتے ہوئے انہیں کئی بلیاں نظر آئیں جو ان کی نظر پڑتے ساتھ ہی غائب ہوگئیں ۔۔
وہ سر جھٹک کر پھیکا سا ہنس پڑے ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہلا دنیا سے چلی گئی تھی ۔۔
لیکن شمعون کے اندر احساس چھوڑ گئی تھی ۔۔
اپنوں کے بچھڑنے کی تکلیف چھوڑ گئی تھی ۔۔
وہ اب بھی حیوان تھا ۔۔
لیکن ٹوٹے دل والا حیوان ۔۔!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد ۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...