’’ای لوٹا بکئے آوا رہئے۔ ‘‘
غریب خستہ تن خستہ پیرہن علاقے کے سُنارعلادین کے ہاتھوں میں بڑاسا سنہرا لوٹا کانپ رہا تھا۔ اس لوٹے پر رانی صاحبہ کا نام کھدا ہوا تھا علاقے میں اسے بیچنے کی ہمت کس نے کی ڈیوڑھی کی زنجیر کھٹکھٹا کر جب منشی جی نے لوٹا اندر بھجوایا تو حویلی میں ہلچل مچ گئی۔ اک یہی نہیں کافی دنوں سے بڑی حویلی کی کئی چیزیں علاقے میں دستیاب ہوئیں کچھ برتن کچھ ہلکے زیور مگر جب سامان کی کوٹھری میں سیندلگی اور سونے چاندی کے زیوروں کے ساتھ رانی صاحبہ کے پرانے اشرفی ٹکے غرارے اور کرتے چوری ہوئے تو ان کا صبر جواب دے گیا۔ ایک ایک نوکر کو پکڑ کر اس کی اچھی طرح مرمت کی گئی تھانے کے داروغہ تک بلا لئے گئے۔ مگر چور کا پتہ نہ چل سکا۔ رانی صاحبہ کا سارا کام کرنے والا چھوٹا سا نوکر وجّو تک ان کے عتاب سے نہ بچ سکا۔ رانی صاحبہ نے بھاری بھرکم پلنگ کا پایہ اس کے نرم ہاتھ پر رکھ دیا اور لحیم شحیم نوکرانی کو حکم دیا کہ وہ پائے پر کھڑی ہو جائے وجّو کی نازک گلابی انگلیاں تک کڑکڑا کر ٹوٹ گئیں مگر رانی صاحبہ اپنا بھاری بھرکم وجود لئے بے حس سی کھڑی رہیں اور وجّو بے ہوش ہو گیا۔
شام تک وجّو کو اسپتال پہونچانے والے اعجاز میاں تھے وہ چوری کی تہہ تک پہونچ چکے تھے۔
مگراس چور کا علاج ممکن نہ تھا…
رانی صاحبہ کے بیٹے شہزاد میاں کی صحبت ایسے لوگوں کے ساتھ تھی کہ ان کو روز ہی بڑی بڑی رقموں کی ضرورت پڑتی رہتی۔ خرچ کے نام پر رانی صاحبہ کی طرف سے تو ان کو آمدنی بندھی تھی پھر وہ کرتے کیا۔ شہزاد میاں کی سرگرمیاں وہی تھیں جو بغیر پڑھے لکھے آدمیوں کی ہوتی ہیں کوٹھوں پر جانا دنیا کے برے سے برے شوق اپنانا ان کا مشغلہ تھا۔ رانی صاحبہ بھی ایک حد تک ان کے شوق پورے کرتی تھیں علاقے کی آمدنی تو دن بدن گھٹ رہی تّھی سبھی چھوٹے چھوٹے زمیندار سراٹھائے کھڑے تھے۔
حویلی کے سامنے کھلے میدان میں یوکلپٹس کے پیڑ لگائے جا رہے تھے کیونکہ پرانے سارے درخت جو راجہ صاحب اور ریاست امیر پور کے راز دار تھے جڑسے اکھٹرنے لگے تھے۔ شاید اب غریب بیمارمایوس رعایا کو بھی اپنا خیال آنے لگا تھا زندگی کی حقیقتیں ان پر کھلنے لگی تھیں۔ اس کی وجہ تعلیم تھی، وہ تعلیم جو اعجاز میاں ان سب کو دے رہے تھے۔ اعجاز میاں بھی اسی ریاست امیر پور کے غریب بیٹے تھے، مولوی فتح محمد جو بچوں کو قران پاک کی تعلیم دیتے تھے ان کے بیٹے نے شہر جا کر تعلیم حاصل کی اور واپس علاقے میں آ کرسوئے ہوئے لوگوں کو جگانے کا بیڑہ اٹھایا اورمایوس رعایا کی آنکھوں میں روشنی آ گئی۔ ان کا اسکول بچوں اور بزرگوں سبھی کے لئے تھا۔ مگر رانی صاحبہ کو کیسے گوارا ہوتا لہٰذا حویلی میں اعجاز میاں کی طلبی ہو گئی۔
’’ہم تم سے یہ پوچھتے ہیں …‘‘پردے کے پیچھے سے تلخ اور کراری آواز نے ان کا تصور توڑ دیا۔
’’تمہیں کیا حق ہے کہ علاقے کے لوگوں کے لئے اسکول کھولو اور لوگوں کو غلط سلط تعلیم دو…‘‘
اعجاز کے لبوں پر ہلکا سا تبسم چمکا۔
’’سلام عرض کرتا ہوں۔ حق تو میرا کوئی نہیں شاید…مگر مجھ پران اپنے لوگوں کے کئی فرض ہیں اور میں اپنا فرض ادا کرتا ہوں کیونکہ اسی زمین کا بیٹا ہوں یہاں کے لوگوں کی زندگی بنانا چاہتا ہوں ‘‘
وہ مودب سراٹھائے کھڑے تھے۔
’’تم…تم کیا کسی کی زندگی بناؤ گے …‘‘
انھوں نے نخوت سے پان کی پیک اگالدان میں تھوکی۔
’’آئندہ اس قسم کے کوئی کام نہ ہوں تم ہمارے ملازموں کو بگاڑ رہے ہو کل سے تم زمینوں کا حساب کتاب دیکھو گے منشی جی اب ضعیف ہو چکے ہیں۔ ‘‘گویا انھوں نے بات ختم کر دی۔
اعجاز خاموشی سے ان کے بے بنیاد الزامات اور احکامات سنتا رہا اور پھر اس نے ایک ٹھنڈی سانس بھر کر قدم باہر کی طرف بڑھا دیے۔
اور اندر رانی صاحبہ کے پاس بیٹھی نورالنساء بیگم کے دل میں یہ سانس ترازو ہو گیا۔ یہ پہلا موقع تھا جب انھوں نے اعجاز کو دیکھا۔
لمبا قدسانولا رنگ مضبوط جسم سیدھے سیاہ بال کشادہ پیشانی اور گہری ذہین آنکھیں۔ متبسم ہونٹ اور بے نیاز انداز نوارانساء بیگم کے دل میں اتر گیا۔
ملنے کے راستے ان کی خاص ملازمہ فیروزہ نے طے کئے اور مولوی صاحب کے گھر پر وہ جس دشواری سے پہونچی وہ الگ کہانی رہی مگر اعجاز اسے دیکھ کر بھونچکا رہ گیا…
’’آپ…آپ یہاں …‘‘اس کے منہ سے صحیح الفاظ بھی نہیں نکل رہے تھے۔
’’کیا آپ ہم کو پڑھائیں گے ؟‘‘وہ سراپا التجاء تھی۔
’’لیکن رانی صاحبہ…وہ تو…میرا مطلب ہے کہ…‘‘
’’کیا آپ ہم کو پڑھائیں گے …؟‘‘سوال دہرایا گیا۔
اعجاز کا دل بہت زور سے دھڑکا…آج اسے محسوس ہوا کہ ایک معصوم خوبصورت بلکہ بے تحاشہ خوبصورت نورالنساء تو ہمیشہ سے اس کے اندر بسی ہوئی تھی۔ وہ دونوں بچپن میں ساتھ ہی کھیل کر بڑے ہوئے تھے۔ مگر وہ اپنے مِشن میں ایسا محو ہو گیا تھا کہ سبھی کچھ ذہن سے نکل گیا تھا اور آج جبکہ اس کا تصوراس کے سامنے تھا تو اس کی کیفیت ہی عجیب تھی اور جب نورالنساء نے اپنا سوال دہرایا تو کوئی چیز چھن سے اس کے اندر ٹوٹ گئی جسے وہ اپنا غرور سمجھتا تھا وہ تو اس گھنے لمبے سنہرے بالوں والی میدو شہاب رنگت والی اور ہرنی جیسی آنکھوں والی لڑکی نے ایکدم توڑ دیا۔ وہ تو اک تازہ نیا گلاب اس کے سینے میں دھڑکنے کے لئے رکھ گئی تھی۔ جس کی خوشبو میں اعجاز سب کچھ بھول گیا یہاں تک کہ اپنی حیثیت بھی۔
محبتوں کی خوشبوؤں کی پاکیزہ راتیں سنہرے جگمگاتے دن انھیں کچھ سوچنے کا موقع بھی کہاں دیتے تھے۔ نور کی خاص ملازمہ فیروزہ ان کی ملاقات کا انتظام کرتی ’’اجّو…‘‘
اس کی لمبی سنہری زلفیں بھیگی بھیگی ہواؤں سے بکھر رہی تھیں۔
’’ہاں نور…‘‘
اعجاز کھلی آنکھوں سے نہ جانے کیا کیا خواب دیکھ رہا تھا۔
’’مجھے یہاں سے لے چلو…کہیں بھی…کہیں بھی لے چلو مگر بس لے چلو…‘‘
’’نہیں نور بی بی …میں آپ کو کہیں نہیں لے جا سکتا کہیں بھی نہیں … میرے حصے میں امید بہت کم آئی ہے … میں بہت غریب ہوں …‘‘
وہ جیسے ہوش میں آ گیا
’’میرے پاس آپ کے لائق کچھ نہیں ہے …اور آپ کی بے عزتی ہو… میں برداشت نہیں کر سکتا۔ میرا دل تو ہمیشہ ٹوٹتا ہی رہا ہے نور بی بی…‘‘
وہ اپنی ہتھیلیاں دیکھتے ہوئے رنجیدہ ہو گیا۔
’’مگر…مگر میں تو غریب نہیں ہوں ‘‘اس نے اک معصوم سی پیشکش کی۔
’’نورالنساء بیگم…آپ میری انا کو للکار رہی ہیں میں آپ سے عزت کے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہوں اس کے لئے مجھے محنت کرنی ہو گی اپنے آپ کو اس قابل بنانا ہو گا کہ آپ کو دنیا کی تمام خوشیاں دے سکوں اور یہ میرا وعدہ ہے کہ…‘‘اس نے جھک کر…اسے یقین دلا دیا۔
’’مگر میں کیسے رہوں تمہارے بنا…؟‘‘وہ بے بسی سے اس کا چہرہ تکنے لگی۔
’’جیسے اب تک رہی ہیں نورالنساء بیگم…یہ خواہشوں کے کوڑے تو انسان کو لہولہان کر دیتے ہیں۔ ساری عمراسی کلفت میں گزر جاتی ہے کہ ہمارے پاس یہ نہیں ہے …اور وہ نہیں ہے اور جب خواہشیں پوری ہونے لگتی ہیں تو انسان ایک بار بھی یہ نہیں سوچتا کہ اس کے پاس کیا کیا ہے …‘‘وہ تھوڑا سا رکا… ’’میں تو مطمئن ہوں کہ میرے پاس آپ ہیں اور آپ کو بھی اس بات سے مطمئن رہنا چاہئیے کہ میں آپ کا ہوں اور رہوں گا… اعتبار کا رشتہ سب سے خوبصورت رشتہ ہوتا ہے نورالنسا…اس رشتے کی قدر کیجئے …خواہشوں کی انتہا تو کہیں نہیں ہے آپ کو معلوم ہے جو رانی صاحبہ اتنی بڑی ریاست کی مالک ہیں بے سکون ہیں …انھیں خواہشوں کے دھندلکوں کے اس پار معصوم زندگیاں نظر ہی نہیں آتیں …انھیں لگتا ہے ابھی ان کے پاس کم ہے انہیں اور چاہئیے اور…‘‘وہ رک کرنورالنساء کی طرف مڑا…
’’شہزاد میاں کس راہ پر چل نکلے ہیں اس کی انہیں پرواہ نہیں ہے …پیسوں کا تقاضہ لے کر روز ہی میرے پاس آفس آ جاتے ہیں اور یہ کس کارِ خیر میں خرچ ہوتے ہیں میں آپ سے کیا بتاؤں۔ آپ کو برا تو لگ رہا ہوں گا بی بی…؟‘‘
’’نہیں اجّو…میں تو خود اس بات سے نالاں ہوں کاش ہم لوگ غریب ہوتے …‘‘اس نے سرجھکا لیا…
’’پتہ ہے نورالنساء بی بی ہمارا المیہ کیا ہے …‘‘
وہ دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں پھنسائے ہوئے سرہانہ بناکرسبزے پر لیٹا ہوا تھا۔
’’کہ ہماری خواہشوں کے سرخ جنگل میں راستہ کہیں نہیں ہے ہر ایک اپنی اپنی آرزوؤں میں جی رہا ہے اور پھر بھٹکتے بھٹکتے عمر ختم ہو جاتی ہے ہم خواہشوں کو پورا کر کے بھی نامراد چلے جاتے ہیں۔ ہاتھ تو ہمیشہ خالی ہی رہتے ہیں نا۔ ۔ ؟‘‘
مگر وہ کیسے کہتی…کہاں ہے میرے پاس کچھ تمہاری نظروں کے طلسم سے زیادہ تمہارے لمس سے زیادہ مجھے تو کچھ نہیں چاہئیے مگر اعجاز تم نے تو مجھے کبھی چھوا بھی نہیں۔
مگر الفاظ ہونٹوں سے ادا کرنا ان کے بس کی بات نہ تھی۔ اور اچانک جیسے حویلی میں طوفان آ گیا…
اعجاز اور نورالنساء کی معصوم محبت رانی صاحبہ سے کب تک چھپی رہتی۔ ان کا رشتہ آناً فاناً عظمت اللہ کے عیاش اور بدکردار بیٹے الطاف کے ساتھ قبول کر لیا گیا اور شادی کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔
اعجاز زخمی پرندے کی طرح پھڑپھڑاتا رہا اور حویلی میں شادی کی رسمیں شروع کر دی گئیں۔ نورالنساء بیگم کو نگرانی میں رکھا جانے لگا۔ مراثنوں نے گلے پھاڑنے شروع کر دیے …پیلا جوڑا پہنے نورالنساء آنسو بہاتی رہی… جب ان کے ہاتھوں میں مہندی رچائی جا رہی تھی تبھی فیروزہ بھاگتی ہوئی آئی اور ان کے پیروں پر سر رکھ کر بری طرح رونے لگی…
نورالنساء نے اپنے ہاتھ جھٹک دیے …جانے فیروزہ نے ان سے کیا کہا اور وہ پتھر کی ہو گئیں …
’’قاضی صاحب آوت ہیں پردہ کر لیو…‘‘
ناون ڈیوڑھی سے لے کر آنگن تک آواز لگا رہی تھی، عورتوں اور لڑکیوں نے رنگ برنگے دوپٹوں سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا تھا…
قاضی صاحب نے پردے کے اس پار بیٹھی دلہن کا عکس دیکھا تو حیران رہ گئے ان کا تو سربھی جھکا نہیں تھا… وہ سرپربنا دوپٹہ لئے بیٹھی تھیں …
قاضی صاحب نے کاروائی شروع کی۔
’’…آپ کو قبول ہے ؟‘‘
’’نہیں …ہرگز نہیں …‘‘یہ آواز نہیں تھی پھنکار تھی جو ناگن کے منہ سے نکلتی ہے۔
’’جی‘‘؟؟ قاضی صاحب اور گواہ سب کے سب سراسیمہ تھے۔
’’ہم نے واضح الفاظ میں انکار کیا ہے قبلہ…‘‘نورالنساء بیگم نے پر وقار انداز میں فرمایا اور اٹھ کھڑی ہوئیں۔ گویا کہہ رہی ہوں اب آپ تشریف لے جائیے۔
بارات لوٹ گئی…ان ہونی ہو گئی……
سارے لوگ واپس چلے گئے …حویلی ویران ہو گئی۔
بیس برس کا طویل عرصہ کیسے گزرا یہ تورانی صاحبہ اور نور بی بی ہی جانتی تھیں۔ قرض سے لدی ہوئی حویلی کی عزت مٹی میں مل گئی وقت اچانک ہی بگڑ گیا…
نورالنساء بیگم نے اپنے آپ کو رنگوں اور برش میں ڈھال لیا رات سے دن تک بڑی بڑی تصویریں بنانے میں کھوئی رہتیں ان کا خود کا رنگ کب کا اتر گیا تھا ان کو خود نہیں معلوم ہو سکا اور آج کل رانی صاحبہ بیماری اور معذوری کے سبب اپنے کمرے کی ہو کر رہ گئی تھیں نورالنساء بیگم نے ایزل پر برش سے گہرا ہرا رنگ لگایا ہی تھا کہ فیروزہ نے رانی صاحبہ کی طلبی سنائی…
’’کہہ دو…ابھی آتے ہیں …‘‘وہ مطمئن انداز میں اپنا کام کرتی رہیں اپنے بالوں کی سفید لٹوں کو سمیٹ کر جب وہ ماں کے بسترکے قریب آئیں تو وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بنی حسرت سے اسے تک رہی تھیں۔ شاید وہ کچھ کہہ رہی تھیں اور شاید نورالنساء بھی انہیں جواب دے رہی تھیں خاموشی گہری ہوتی چلی جا رہی تھی۔ تبھی سناٹا ٹوٹ گیا۔ ’’امی حضور! آپ نے جو چاہا آپ کو ملا پھر بھی آپ کی توقعات ختم نہیں ہوئیں۔ ہم نے جو چاہا، مانگا وہ آپ نے میسر نہ ہونے دیا…اعجاز پرانی مسجد کی دیوار میں چنا ہوا آج بھی جوان ہے اور ہم بوڑھے ہو گئے۔ آپ کی خواہشات توقعات اب تک ختم نہیں ہوئیں …مگر ہماری ہو گئیں … اسی لئے ہم مطمئن ہیں اور آپ بیقرار ہیں …
خواہشات کا سرخ جنگل آپ کو نگل رہا ہے امی حضور…
توقعات نے آپ کو توڑ دیا ہے ……
یہی دونوں چیزیں تو ہیں جو ہمیں رنج کے دلدل میں دھکیلتی ہیں۔
اور امی حضور…!وہ پل بھرکو رکیں۔
’’ہم نے آپ کو معاف نہیں کیا…‘‘
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...