آسائشوں کی آگ لینے بے وطنی کے کوہِ طور پر گیا تھا وہ شخص۔ اور شہر کے نامور پارک میں یکاوتنہا اس کی بیوی گمراہ ہورہی تھی۔ اس کے خیالات بھٹک رہے تھے، اس کی سوچیں لڑکھڑا رہیں تھیں فطری جبلتوں کے زہریلے سانپ لمحہ بہ لمحہ اس کو ڈس رہے تھے۔ اور وہ بڑی بے بسی سے لنڈ منڈ درخت کو دیکھ رہی تھی جس کی تمام شاخیں سوکھی ہوئی تھیں، پارک میں ان گنت درخت تھے جو شادابی کا لبادہ اوڑھے کھڑے تھے ان میں وہی ایک درخت تھا بالکل برہنہ جسیے وہ تھی پارک میں بے شمار جوڑوں کے بیچ یکا وتنہا، اس کے اندر ایک گہرا سناٹا تھا۔ ایک طویل ترین ویرانی اور اس کا ظاہر بھی اجاڑ سا تھا نہ آنکھوں میں کاجل نہ لبوں پر لالی، نہ ہاتھوں میں کنگن نہ کانوں میں بالی۔
لنڈ منڈ درخت کی جانب دیکھتے ہوئے اس کی سوچ اس درخت کے ماضی کی جانب رینگ گئی۔ پہلے یہ درخت یوں برہنہ اور بے سایہ دار نہ تھا بلکہ اس پر بے شمار پرندوں کا ہجوم رہتاتھا۔ جن کی چہکار سے پوری فضا گونج اٹھتی تھی، ان پرندوں میں خوبصورت پنکھوں والا پرندہ بھی تھا جو ہجرت کر کے جانے کہاں سے آیا تھا۔ وہ پرندہ اس درخت سے بہت مانوس ہو گیا تھا، وہ پرندہ اس کی ہری بھری شاخوں پر بیٹھا میٹھے میٹھے گیت گاتا اور اس کے نغموں کی لے پر درخت اور بھی ہرا بھرا ہوجاتا تھا۔پھررت بدلی، موسم بدلا، مہاجر خوبصورت پنکھوں والا درخت سے جدا ہوکر نیلگوں آسمان کی وسعتوں میں جانے کہاں کھوگیا، اس کے جانے کے بعد یہ ہرا بھرا درخت مرجھا گیا۔ اس خوبصورت پنکھوں والے پرندے کے انتظار میں سوکھ گیا۔ لنڈ منڈ برہنہ بے سایہ دار ہوگیا۔ زینت کو یقین تھا کہ جب وہ خوبصورت پنکھوں والا مہاجر پرندہ لوٹ کر آئے گا تو یہ لنڈ منڈ درخت پھر سے سرسبز وشاداب ہوجائے گا اس کے اندر زندگی جاگ اٹھے گی ٹھیک اس طرح زندگی اس کے اندر بھی جاگ اٹھتی اگر دیار غیر سے اس کا شہاب لوٹ آتا جو بے وطنی کے کوہِ طور پر آگ لینے گیا تھا۔ مٹھی بھر سکوں کی آگ جو زندگی کو حرارت اور بھرپور توانائی عطا کرتی ہے۔
کبھی زینت بھی بہت شاداب تھی مضبوط سی خوب پھیلی ہوئی۔ ان دنوں زندگی کتنی ہنگامہ خیز تھی۔ کتنی جوان، کتنی خوبصورت آنکھوں میں سپنے، ہونٹوں پہ نغمے، چال میں مستی، دل میں دھڑکنیں، وہ بہت آزاد تھی چنچل، ہنس مکھ، کالج میں پڑھتی تھی اپنے سہیلیوں کے ساتھ گپیں ہانکتی تھی، فلمیں دیکھتی تھی۔ اپنے من پسند ستاروں کی باتیں کرتی تھی۔ کلاس فیلوز سے ہنسی مذاق کرتی تھی اور خوابوں کے شہزادے کے خواب دیکتھی تھی۔
اور ایک دن خوابوں کا شہزادہ بالکل اچانک ہی آگیا مگر ان دنوں اسے معلوم نہ تھا کہ وہ خوابوں کا شہزادہ ہے۔ وہ تو اس بات سے ناراض تھی کہ وہ دوبئی میں ملازم ہے فقط تین ماہ کی چھٹی پر آیا ہے اور اس کو ساتھ ہی لے کر دیار غیر جائیگا۔ اس کو اپنی جڑوں پر ناز تھا۔ وہ اس سرزمین میں دور تک اترنا چاہتی تھی خوب پھیلنا چاہتی تھی اور بھی مضبوط ہوکر چھتناور درخت بننا چاہتی تھی، اس رشتے سے وہ بہت الجھ گئی بور سی ہوگئی اور اس نے ممی سے ضد کی۔
’’ممی! میں دوبئی نہیں جاؤنگی‘‘
’’تو اپنے شوہر کو چھوڑ کر یہیں رہے گی‘‘ ممی نے حیرت سے اس کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
’’میں اس لڑکے سے شادی ہی نہیں کروں گی‘‘
’’نہیں زینی‘‘ ممی نے بہت سمجھایا۔ ’’شہاب بہت اچھا لڑکا ہے ہینڈ سم بھی ہے اور کماؤ بھی، تم اس کے ساتھ بہت خوش رہوگی۔‘‘
’’مگر دوبئی‘‘ وہ پھر الجھ گئی۔
’’چند برسوں کی بات ہے زینی تو پھر لوٹ آئیگی نا‘‘
ممی اسے پوری طرح مطمئن نہیں کرپائیں اس لئے شادی کو لے کر زینت کے دل میں کوئی رومانیت نہیں جاگی۔ ہاں البتہ ممی اور پاپا دونوں مطمئن تھے کہ ان کی لڑکی کا مستقبل شاندار ہوگا وہ دیار غیر جائیگی۔ اور وہاں کی آسائشوں کے ہنڈولے میں جھولے گی۔ متوسط طبقے میں جانے یہ کیسی وبا پھیلی ہوئی تھی۔ آسائشوں کی آگ لینے بے وطنی کے کوہِ طور پر جانے والے لڑکوں سے اپنی لڑکیوں کو بیاہ کر انہیں دیار غیر دھکیلنے کی یااپنی سرزمین پر انتظار کی تپتی ریت پر آبلہ پا بھٹکنے کی ۔۔۔۔۔۔ جو دیار غیر سے لدے پھندے آتے کتنی سحر آفریں ہوتی تھی ان کی شخصیت، جن میں ان کا وجود کم اور ان کی چیزیں زیادہ نمایاں نظر آتی تھیں۔
زینت نے چاہا کہ اس وبا سے بچنے کی خاطر کوئی ٹیکہ لگوالے کہ غیر ارادی طور پر شہاب سے سامنا ہوگیا اور وہ اپنے ہوش وحواس کھوبیٹھی۔ واقعی وہ بہت ہینڈ سم تھا اور اس نے بود وباش بھی ایسی اختیار کررکھی تھی۔ جیسے کسی طلسمی دنیا سے آیا ہو اور زینت اس کی طلسم میں پوری طرح گرفتار ہوتے ہوئے خود بھی اس وبا کا حصہ بننے پر راضی ہوگئی۔ وہ پھیلنے کا خواب بھول گئی۔ وہ بس اکھڑنا چاہتی تھی۔ اس پر ایک کیف سا طاری ہوگیا۔ خوابوں کے شہزادے کو پالینے کا ۔ ایک نشہ سا چھا گیا اجنبی دیس کی سرزمین پر گھومنے پھرنے کا۔ وہ اپنی جڑیں سمیٹ کر کسی اور سرزمین میں پیوست کرنے پر دل وجان سے آمادہ ہوگئی۔ بڑے دھوم سے وہ بیاہی گئی اور خوابوں کے ہنڈولے میں جھولتی خوابوں کے شہزادے کی بانہوں میں آگئی۔ پھر زندگی بہت حسین ہوگئی بے پناہ خوبصورت۔ شہاب کی ہوشربا قربت تھی اور لامتناہی سیر سپاٹے، بے شمار آؤ بھگت تھی، لاتعداد عورتیں، چھوٹی بڑی رسمیں، ڈھیر ساری قسمیں، حسین وعدے، رنگین اردے، تھرکتے دن، مہکتی راتیں، ہنسی قہقہے، دلنواز باتیں۔
شہاب کا ساتھ کیا ملا تھا وہ تو بن پئے ہی بہکتی تھی، تھرکتی تھی، مچلتی تھی وہ سنور گئی تھی نکھر گئی تھی۔ یوں خوابوں کے ہنڈولے میں جھولتے دو ماہ کس طرح گزر گئے پتہ ہی نہیں چلا، وہ تو اوندھے منہ زمین پر اس وقت گری جب شہاب نے اطلاع دی کہ اس کی روانگی کا وقت آچکا ہے، وہ شہاب سے لپٹ کر رونے لگی۔
’’نہیں نہیں، آپ مجھے چھوڑ کر مت جائیے‘‘
’’کچھ دنوں کی ہی تو بات ہے زینی پھر میں تمھیں اپنے پاس بلا لونگا‘‘
’’ابھی لے چلئے‘‘۔ ’’ابھی پاسپورٹ بھی نہیں بنا ہے‘‘
’’مجھے نہیں پتہ، مجھے بس آپ کے ساتھ رہنا ہے‘‘
مگر وہ شہاب کے ساتھ کہاں رہ پاتی، وہ پگلی تھی یہ نہیں جانتی تھی کہ ملکوں کی سرحدیں رشتوں کے درمیان کسی خلیج کی طرح حائل ہو جاتی ہیں جنہیں پار کرنا اتنا آسان نہیں ۔
شہاب دوبئی چلا گیا اور یکا وتنہا رہ گئی۔ اپنے ارمانوں کی دنیا میں بیگانوں کی طرح، اپنی ہی سرزمین پر اجنبی کی طرح، اپنے ہی گھر میں پرائے کی طرح۔ وہ پاسپورٹ بنوائے ویزے کی مننظر رہی مگر ویزا کبھی نہ آیا۔ شہاب ہمیشہ کسی ٹوٹے پھوٹے ریکارڈ کی طرح بجتا۔۔
’’یہاں گلف میں قانون بدل گیا ہے زینی، جن کی بھاری تنخواہ ہوتی ہے Family Status ان کو ہی ملتا ہے اور میری جان میری تنخواہ اتنی نہیں ہے کہ میں یہاں فیملی Maintain کر سکوں پھر بھی میں کوشش کررہا ہوں اگر میں کامیاب نہ ہوسکا تو خود ہی ملازمت چھوڑ کر تمھارے پاس آجاؤنگا۔‘‘
اور وہ ملازمت چھوڑ دے ایسا کون چاہتا تھا خصوصاً اس کے گھر والے تو بالکل نہیں چاہتے تھے۔ وہ تو ان لوگوں کی خاطر دیارِغیر گیا ہوا تھا دو بن بیاہی بہنیں، ایک تعلیم حاصل کرتا بھائی ان سب کی ذمہ داری اسی پر تھی اور ان ہی لوگوں کی خاطر دیار غیر میں مہاجر بنا، یکا وتنہا جیتا تھا۔
زینت جب پھیلنا چاہتی تھی تب ہر کوئی اس کو اکھاڑنے کی تگ ودو میں تھا اور آج وہ جب اکھڑنا چاہتی ہے تو سب کی ایک ہی رٹ تھی اپنی ہی زمین میں پیوست ہوجاؤ، خوب پھیلو، مضبوط اور چھتناور بنو۔
رفتہ رفتہ جب وہ شہاب کی جانب سے مایوس ہونے لگی تو اس کو شہاب سے چڑ سی ہوگئی تو کیا اس کیخوابوں کے شہزادے نے اس کودھوکہ دیا تھا۔ نہ صرف اسے بلکہ اس کی ممی اور پاپا کے اعتماد سے بھی کھیلا تھا۔ ساتھ لے جانے کا وعدہ کر کے بیاہ رچایا تھا۔ اور اس کو انتظار کی بھٹی میں جھونک کر چلا گیا تھا۔ جیسے وہ کوئی گڑیا ہو اور اس کو جدھر چاہے ادھر سجادو۔ رہی سہی کسر سسرال والوں نے پوری کردی انہوں نے اپنی کینچلی یوں بدلی کہ زینت حیران رہ گئی۔
اف! ان کا یہ اصلی روپ کتنا گھناؤنا تھا۔ انہوں نے زینت پر بے جا پابندیاں عائد کردیں۔ گھر گرہستی میں بری طرح الجھا دیا،کولہو کے بیل کی طرح سب کی خدمت پر مامور کردیا۔
صبح ہوتے ہی وہ بیدار ہوتی اور رات گئے تک کام وکاج میں جٹی رہتی اور پھر بستر پر یوں گرتی کہ اس کے تمام اعضاء بکھر جاتے، دوسری صبح وہ دوبارہ اپنے بکھرے ہوئے اعضاء کو یکجا کرکے اپنے اندر ایک نئی قوت جگائے اپنے کام میں جٹ جاتی۔ مگر یہ مشینی زندگی کس کو بھاتی ہے زینت بری طرح اوب گئی۔
مائیکے جانے کے موقع بھی بہت کم ملتے تھے اور کبھی جانا بھی ہوتا تو واجبی طور پر رسمی سی ملاقات کے لئے اور اس پر بھی کوئی سسرالی عزیز اس کے سر پر سوار رہتا تھا۔ مائیکے والوں کا اس سے ملاقات کے لئے بار بار آنا بالکل منع تھا کہ اس طرح کی مداخلت اس کی جڑیں سسرال کی زمین میں پیوست ہونے کی راہ میں مانع تھی۔ شہاب فون کرتاکہ ساس نندیں سب سر پر سوار، اس کا موڈ بالکل آف ہوجاتا وہ کھل کر کچھ کہہ بھی نہیں سکتی تھی اور ادھروہ ٹوٹے پھوٹے ریکارڈ کی طرح بجتا اور زینت بے طرح بے زار ہوکر فون رکھ دیتی۔ وہ خط لکھتا کہ اس تک پہونچنے سے پہلے ہی وہ censor ہوجاتے اور بچی کھچی عبارت وہ پڑھے بغیر ہی پھاڑ کر پھینک دیتی اور وہ جو خط لکھتی تو سسر اور دیور سارا مضمون پڑھ چکنے کے بعد پوسٹ کرتے تھے۔
تنگ آکر زینت نے خط لکھنا بند کردیا۔ اس کو شہاب کے گھر والوں سے زیادہ شہاب پر غصہ آتا، آخر وہی تو ذمہ دار تھا اس کو اس جہنم میں دھکیلنے کا۔
جب زینت کے ممی پاپا نے دیکھا کہ جو وعدہ کرکے شادی کی گئی وہ وعدہ ایفا نہ ہوا تو وہ احتجاج کر بیٹھے۔ شہاب پر دباؤ ڈالا تو وہ نوکری چھوڑ کرآنے پرراضی ہوگیا۔ اور جب اس کے ارادوں کا پتہ اس کے گھر والوں کو چلا تو انہوں نے محاذ کھڑا کردیا کچھ اتنی توتو میں میں ہوئی، اتنا لڑائی جھگڑا ہوا اس کے مائیکے اور سسرال والوں کے درمیان کہ زینت بری طرح تنگ آگئی۔ شہاب کی ایک ہی رٹ تھی وہ ملازمت ترک کر کے وطن واپس لوٹ آئیگا، لیکن اس کے گھر والے کبھی ایسا نہیں چاہتے تھے۔
آخر ثالثوں نے فیصلہ کیا کہ جب تک شہاب نہیں آتا زینت سسرال نہیں جائیگی۔ اپنے ممی پاپا کے پاس رہے گی اور جب سے زینت مائیکے آکر رہنے لگی تھی۔ اس کا وجود ایک کٹی پتنگ کی طرح رہ گیا تھا۔ وہ ساجن بنا سہاگن تھی۔ اس کا ذمہ دار کون تھا؟ اس کے ممی پاپا جنہوں نے دیار غیرمیں ملازم لڑکے سے اس کی شادی کی تھی، اس کے سسرال والے جو اپنی ضرورتوں کی تکمیل کی خاطر اپنے بیٹے کو دیار غیر میں روکنا چاہتے تھے۔ شہاب جو اتنا بودا تھا کہ خود کوئی فیصلہ نہیں لے سکتا تھا۔ دیار غیر کے وہ امیر لوگ جو تیسری دنیا سے خام مال کی طرح انسان امپورٹ کرتے تھے، ان انسانوں کے جذبے اور خواہشات نہیں، ان ارمان اور ان کی جبلتیں نہیں، قصور چاہے کسی کا بھی ہو انتظار کے جہنم میں تو زینت سلگ رہی تھی۔
وہ ایک ایسا درخت بن کر رہ گئی جس پر شہاب کسی موسمی پرندے کی طرح آتا اور چلا جاتا اور اس کے آنے جانے کے درمیان جو ہوتا سو ہوتا۔
وہ جو بے وطنی کے کوہِ طور پر آگ لینے گیا تھا۔ وہ پیغمبری لے کر ضرور لوٹتا مگر اس کے بیچ اگر کوئی سامری آجائے تو پھر کیا ہو؟
زینت گھبرا کر سوچتی اور ہاتھ مل کر رہ جاتی!
٭٭٭