مندرجہ ذیل واقعہ ملاڈینو کا ہے۔
“دوسری جنگِ عظیم میں میرے والد مشقت پر لگائے گئے تھے۔ ان کو تیس بچوں کے گروپ کا نگران لگایا گیا تھا جن کا کام بکریوں، مرغیوں اور جانوروں کی رکھوالی تھا۔ ہر روز صبح پانچ بجے انہیں اکٹھا کیا جاتا تھا اور ان کی گنتی ہوتی تھی۔ ایک روز جب یہ گنتی ہوئی تو حیران کن طور پر یہ تعداد اکتیس تھی۔
دیکھنے پر انہیں پتا لگا کہ یہ ایک جانے پہچانے چہرے کا اضافہ تھا۔ یہ نو سال کا لڑکا تھا جس کے والدین کو مار دیا گیا تھا۔ خیال تھا کہ یہ لڑکا بھی زندہ نہیں رہا ہو گا لیکن وہ بچ نکلنے میں کامیاب ہو کر یہاں پر پہنچ گیا تھا۔
یہ بچہ خود یہ نہیں جانتا تھا کہ سب کو کھڑا کر کے گنتی کیوں کی جا رہی ہے۔ اور اسے یہ نہیں پتا تھا کہ اکتیس کی گنتی قابلِ قبول نہیں ہو گی۔
ابھی میرے والد بچے سے بات نہیں کر سکے تھے کہ گسپٹاپو کا افسر آیا۔ اس نے کہا “یہاں پر ایک اضافی ہے”۔
بچے نے میرے والد کی طرف پریشان نظروں سے دیکھا۔ والد کے ذہن میں بھی کچھ نہیں آیا۔ اضافی بچے کو کھڑے کھڑے گولی ماری جا سکتی تھی۔ یا پھر کچھ بھی اور کیا جا سکتا تھا۔ افسر والد کو گھور رہا تھا۔ چند لمحے گزر گئے تھے لیکن ذہن میں کوئی بھی جواب نہیں آ رہا تھا۔ بچوں کی زندگی کا انحصار اس پر تھا کہ ان کا تخیل کیا فقرہ پیدا کر سکتا ہے، لیکن وہ ناکام رہے تھے۔
اور پھر وہ بچہ خود ہی آگے بڑھا۔ “میں اضافی بچہ ہوں۔ ایک مہینے سے بیمار تھا اور مریض خانے میں تھا”۔ اس کے بعد وہ اپنی بات سناتا رہا، جیسے دھاگے سے کپڑا بنا جا رہا ہو۔ افسر بے صبرا ہو گیا اور اس کی بات کاٹ دی۔ اس نے اپنے پاس نوٹ لکھا اور والد کو کہا، “اب تمہارے پاس اکتیس بچے ہیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے والد نے یہ کہانی مجھے اس واقعے کے تیس سال بعد کہائی۔ ان کی آنکھیں یہ سناتے وقت نم ہو گئی تھیں۔ “وہ لڑکا عمر میں چھوٹا تھا لیکن اپنی عمر سے بہت آگے تھا۔ اس قدر جلد خود ہی کہانی بنا لی”۔
اس سے کچھ عرصے بعد ہی میرے والد سمیت سب کو عقوبت خانے بھیج دیا گیا تھا۔ میرے والد کو معلوم نہیں کہ اس بچے کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ لیکن کم از کم اس روز، اپنی لچکدار سوچ کی وجہ سے، اس نے اپنی زندگی بچا لی تھین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوگ اکثر دوسری انواع سے کے مقابلے میں انسان کے فرق ڈھونڈتے ہیں۔ اپنی نوع کے دوسرے افراد کو مار دینا ان میں سے نہیں۔ جارحانہ انواع، جیسا کہ بھیڑیا یا چمپنیزی، بھی یہ کام کرتی ہیں۔ لیکن انسانی قتل دوسری انواع کے کئے گئے قتل سے مختلف ہیں۔
ہم وہ واحد نوع ہیں جو اپنی جان بچانے کیلئے کہانی تخلیق کر سکتا ہے۔
اس فقرے کے دو الگ پہلو ہیں اور یہ دونوں اس لئے ممکن ہیں کہ ہم تخیل پسند نوع ہیں۔ پہلا یہ کہ ہم کہانی بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ ہم ان کے ذریعے قائل ہونے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنگ انتشار کا وقت ہے۔ کیونکہ اس میں تبدیلی تیزی سے آتی ہے۔ اس میں لچک اور تبدیل ہونے کی صلاحیت کی ضرورت پڑتی ہے۔ اور ایک طرح سے آج کی دنیا بھی ویسے ہی ہے۔ امن والے علاقوں میں بھی۔ کیونکہ ہم تیزی سے ہونے والی ٹیکنالوجی کی تبدیلی دیکھ رہے ہیں، انفارمیشن کا انقلاب دیکھ رہے ہیں۔ معاشی، سیاسی اور سماجی ہلچل دیکھ رہے ہیں۔ ہم نے کمپیوٹنگ میں نئی اپیلیکیشن دیکھی ہیں۔ حیران کن سائنسی دریافتیں دیکھی ہیں۔ گلوبلائزیشن دیکھی ہے۔ اور اس نے کلچرل اور انٹلچوئل سرمایے کی وسعت میں بے پناہ اضافہ کیا ہے۔ لیکن ساتھ یہ ساتھ یہ کئی طرح کی کشمکش بھی لاتا ہے۔
ہمیں بدلتی دنیا کے سیلاب کا سامنا ہے۔ ایسا پہلے کبھی نہیں تھا۔ گھر میں بھی، کام پر بھی۔ معاشرہ بدل رہا ہے۔ ہمارے سکرین پر اور آلات پر انفارمیشن کا بہاؤ مسلسل جاری ہے۔ ہم درجنوں، سینکڑوں یا ہزاروں لوگوں سے رابطے رکھتے ہیں۔
آج کی دنیا میں کامیاب ہونے کے لئے نہ صرف اس سب کا سامنا کرنا ہے بلکہ مستقبل کے بارے میں اندازہ لگانے کی صلاحیت بھی چاہیے۔ کیونکہ جو آج کام کرتا ہے، وہ کل نہیں کرے گا۔ ہماری دنیا ایک مسلسل تبدیل ہوتا ہوا ہدف ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے دماغ انفارمیشن پراسس کرنے اور مسائل حل کرنے کی مشین ہیں۔ اور اس سب کے لئے ہماری تجزیہ کرنے کی مہارت انتہائی اہم ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ آج کی دنیا میں لچکدار سوچ کا جادو پہلے سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ اچھوتے اور منفرد خیالات یہیں سے آتے ہیں۔ ان میں سے کئی بے کار ہوں گے جبکہ کئی اچھوتے حل ہی ہیں جو کہ جدید وجود کے مسائل کے لئے درکار ہیں۔ آج کی دنیا میں کامیابی کیلئے ایڈاپٹ کر لینے کی صلاحیت کے لئے ضروری ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارا دماغ میں لچکدار سوچ پیدا کرنے کے نظام، اس کا پراسس اور اس کے اثرات ۔۔۔ یہ اس سیریز کا موضوع تھے۔ امید ہے کہ اس نے آپ کے سوچنے کے انداز پر کچھ اثر ڈالا ہو گا۔ امید ہے کہ آپ کو کچھ گُر ملے ہوں گے کہ اپنی صلاحیت کے اس تحفے کا کنٹرول لے سکیں۔ یا کم از کم اسے کچھ حد تک سمجھ سکیں۔ کیونکہ زیادہ لچکدار ذہن کے لئے آپ بہت کچھ کر سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نئے خیال پیدا کرنا اور خیالات کا اثر لے لینا ۔۔۔ یہ وہ وجوہات ہیں کہ ہمارے ذہن کے تخیلات اور آئیڈیا اس دنیا پر اس causal power رکھتے ہیں۔ جس طرح اس روز ایک بچے نے اپنے تخیل کے ذریعے اپنی جان بچا لی، اسی طرح ہمارے آئیڈیا خود ہمیں اور اس دنیا کو بدل سکتے ہیں۔
ہم اپنی آزاد will رکھنے والی مخلوق ۔۔۔ ان کے ذریعے اس دنیا میں اپنا راستہ بنا سکتے ہیں۔
ان کی آماجگاہ ہمارا لچکدار دماغ ۔۔۔ ہمیں ملنے والا شاندار تحفہ ہے۔
(ختم شد)
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...