ہر زندہ زبان کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے عہد سے ہم آہنگ ہوتی ہے۔ اس میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ اپنے عصر کی ادبی، سیاسی اور سماجی ضرورتوں کی تکمیل کر سکے ، اور ترسیل و ابلاغ میں اہم کردار ادا کر سکے۔ ہر زبان کی اپنی کچھ روایات بھی ہوتی ہیں اور جیسے جیسے زمانہ گزرتا جاتا ہے ان روایتوں کی جڑیں نہ صرف مضبوط ہوتی ہیں بلکہ نئی روایتیں بھی جنم لیتی ہیں ، اور ایسی روایتیں جو اپنے عصر کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہو سکیں ،آہستہ آہستہ دم توڑ دیتی ہیں۔ یہی صورت حال موضوعات کے ساتھ بھی ہے۔ جیسے جیسے زمانہ سفرکرتا ہے نت نئے موضوعات فن کار کا دامن تھام کر اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ اور جب فن کار ان پر اپنی توجہ مرکوز کرتا ہے تو ایسے ادب پارے جنم لیتے ہیں جن میں عصری روح ہوتی ہے۔
ہر عہد میں دنیا کے مختلف حصوں میں فکر کے جوالا مکھی پھٹتے رہے ہیں۔ اور ان کا اثر دور دور تک پھیلتا رہا ہے۔ فکری اعتبار سے جب کوئی نیا رجحان پیدا ہوتا ہے تو ہر زندہ زبان اس کا اثر قبول کرتی ہے۔ اور خصوصاً آج کے دور میں کیونکہ آج ترسیل بہت زیادہ تیزی سے ممکن ہو گئی ہے ، نئے رجحانات کا سفر تیز ہو گیا ہے اور ترجمے نے تو رہی سہی کسر بھی پوری کر دی ہے آج دنیا کے کسی حصے میں کوئی نئی بات ہوتا وہ منٹوں میں کرہ ارض کو محیط کر لیتی ہے اوعر اس کا اثر لازمی طور پر تخلیقی سوتوں پر بھی پڑتا ہے۔ مختلف زبانوں کے ادب کا مطالعہ کرتے ہوئے ایک بہت اہم اور دلچسپ پہلو سامنے آتا ہے …. دو مختلف مقامات پر رہنے والے ادیب جن میں آپس میں کوئی ربط نہیں ہوتا، کبھی کبھی بالکل یکساں طور پر سوچتے ہیں۔ ان ادیبوں کی زبانیں الگ ہو سکتی ہیں ، ان کا تہذیبی سرمایہ مختلف ہو سکتا ہے لیکن کبھی کبھی ان کے خیالات حیرت ناک حد تک یکسانیت رکھتے ہیں۔ اس کو زیریں لہر یاUnder currentکے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جو کچھ بھی ہو ……ایک بات یقینی ہے کہ حساس انسان چاہے وہ کرۂ ارض کے کسی حصے میں ہوں ان کا درد مشترک ہو گا …..اور جب یہ زیریں لہر حساس ذہنوں کو متحرک کرتی ہے تو فکر کے سوتے پھوٹ پڑتے ہیں …… زندہ زبان کی یہ بھی خصوصیت ہے کہ وہ فکری سطح پر ارتعاش پیدا کرتی ہے اور اگر ان تمام پیمانوں پر دیکھا جائے تو تلگو زبان بھی بلاشبہ ایک زندہ زبان ہے کیونکہ اس میں ساری خصوصیات موجود ہیں جن کا ابھی ذکر کیا گیا……!
تلگو زبان کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ بنیادی طور پر یہ دراویڈی زبان ہے لیکن اس پر سنسکرت کا غلبہ زیادہ رہا۔ اس کی وجہ شاید یہ رہی ہو کہ تلگو زبان میں اخذ و اکتساب کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے اور اسی لئے یہ نئے افکارسے اپنے آپ کوبڑی تیزی سے ہم آہنگ کر سکتی ہے۔ علم زبان کے ماہرین نے تلگو کو مشرق کی اِٹالین قرار دیا ہے کیونکہ اس میں لفظ کا اختتامVowelپر ہوتا ہے۔ اور شاید اسی وجہ سے اس میں شیرینی اور موسیقیت کا عنصر غالب ہے۔ تلگو کے قدیم شعری سرمایہ پر نظر ڈالی جائے تو ایک مثلیت نظر آتا ہے جسے کوی ترائم کہا جاتا ہے یہ مثلثTikkanna, Nannaya اورErranna پر مشتمل تھا۔ ان تینوں نے مل کر تلگو زبان میں سنسکرت کا عظیم رزمیہ مہابھارتم تحریر کیا۔ اس مہابھارتم کے ڈھائی ابواب گیارھویں صدی میں Nannayyaنے تحریر کئے، پندرہ ابواب تیرھویں صدی میں Tikkannaنے لکھے اور آدھا باب جو پچھلے شعرا نے چھوڑ دیا تھا چودھویں صدی میں Erranna نے لکھا۔ سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ ابتدائی عہد کے اس کارنامے کا ّج بھی کوئی جواب نہیں ہے۔Nannayaہی نے تلگو کی سب سے پہلی قواعد بھی لکھی تھی۔
تلگو کے لئے کرشن دیو رائے کا زمانہ ایک سنہری دور ہے۔ اظہار کے مختلف پیرایوں اور اسالیب کو اس دور میں بڑی اہمیت حاصل رہی یہ پر بندھ کویتوم کا دور ہے جس میں ایک لفظ اور اس کے اجزاء سے نکلنے والے مختلف مفاہیم کے امکانات کو روشن کیا گیا۔ اور اس دور کے شعرا ء نے ایسے ایسے کارنامے تخلیق کئے جن پر دنیا آج بھی عش عش کرتی ہے۔ پربندھ کویتوم کا باوا آدم سری ناتھ کو مانا جاتا ہے۔ پربندھ کویتوم کے ساتھ ایک اور رجحان بھی اپنی جڑیں مضبوط کرتا رہا تھا۔ یہ تھاVeera Shaiva Kavitwam ……. ویراسیواکویتوم میں عوامی لفظیات اور دھنوں کے ذریعے عقیدت مندانہ شاعری کو پیش کیا گیا۔ اس رجحان کے اہم شاعرPalakori, Nannachora Pandita Raksha, Krishnanatha, ہیں۔
کویترائم نے جو شاعری کی اس کا غالب عنصر کلاسیکیت ہے اور ویراشیوا شاعری میں عوامی انداز تھا…… جبکہBammera Potannaنے جوAndhra Mahabhagwathamتحریر کیا تھا، اس میں یہ دونوں عنصر موجود تھے۔ پوتنا کے اس کارنامے کوdevotionalیا عقیدت مندانہ شاعری کی عمدہ مثال کہا جا سکتا ہے۔ عصر جدید تک پہنچتے پہنچتے اس زبان نے کئی مراحل طے کئے۔ اور اس زبان میں جو شاعری ہوتی رہی اسے عوامی شاعری کہنا زیادہ مناسب ہو گتا کیونکہ ویراشیوا کویتوم کا اثر بہت دور تک رہا۔
دنیا کے مختلف حصوں میں پیش کئے جانے والے افکار، تحریکات اور رجحانات سے بھی تلگو متاثر ہوتی رہی۔ اور خصوصاً انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں نئے رجحانات نے تلگو پر اپنا اثر جما لیا۔ تلگو نثر میں انقلاب برپا کرنے والی شخصیت تھیKandakuri Veereshalingam…..جنہوں نے اصلاح پسندانہ رجحان کو فروغ دیا، بیواؤں کی شادی کی تائید کی اورذات پات کے خلاف جدوجہد شروع کی ……تلگو ادب کو ناول سے روشناس کرنا بھی ان کا کارنامہ ہے۔ اسی زمانے میں Gurujada Appa Raoنے اصلاحی شاعریReformist Poetryپیش کی۔ اس شاعری کو ہاتھوں ہاتھ کیا گیا کیونکہ گیت کی مقبولِ عام ہیئت کی وجہ سے اس کی پہنچ عوام اور خواص دونوں میں تھی۔ اس کے علاوہ چار مصرعوں پر مشتملMutyala Sarralu اپنے اختصار کی وجہ سے اور ساتھ ہی ساتھ فکر انگیز اور سبق آموز ہونے کی وجہ سے بہت مقبول ہوئے۔Gurujada Appa Raoنے کلاسیکل چھند سے ماترا چھند کی طرف رجوع کیا اور تلگو شاعری کو آسان اور قابل فہم بنا دیا۔ جبکہ اس سے قبل صرف مخصوص کلاسیکی ہیئت ہی استعمال کی جا سکتی تھی۔ اصلاح پسندانہ رجحان یاReformist Poetryکے ساتھ ساتھ رومانیت پسندی بھی ایک اہم رجحان کی حیثیت سے تلگو پر اثر انداز ہوئی۔ مغرب میں ورڈزورتھ، بائرن اور شیلی نے جس طرز کو فروغ دیا تھا اس سے تلگو رومانیت قدرے مختلف ہے ….. یہ رومانیت ٹیگور سے ملتی جلتی ہے جسے تلگو میں Raiprolu Subba Raoنے پیش کیا۔ اور شاعری میں انسانی موڈ یا جذبات کو اہمیت دی ….بھاوکویتوم نے تلگو شاعری کو رومانیت سے آشکار کیا اور چھایا واد کی طرح تلگو میں بھی ایک ایسی رومانیت کو فروغ ملا جس کے ڈانڈے انسانی جذبات واحساسات کے لطیف اظہار سے جام لتے ہیں ……. رد عمل، تصادم، مسرت وغم، جذباتی ہیجان اور سکون کی تلاش کو اہمیت دی گئی ……اور اس طرحVeyoga Shrungaramکے لئے راستہ صاف ہو گیا جہاں محبت ہی سب کچھ تھی …….یہ وہ زمانہ ہے جب شمالی ہند میں جدوجہد آزادی اپنے شباب پر تھی چنانچہ تلگو میں بھی ہندوستان کی آزادی کی تحریک کے اثرات نظر آنے لگے اور سرفروشانہ جذبات کو ابھارنے کے لئے شیوا جی چرترا اور اسی طرح کی تاریخی نظمیں لکھی گئیں۔
اس کے ساتھ ہیVishwanatha Satyanarayanaنے تلگو نو کلاسیکیت کو فروغ دینے کی کوشش کی۔ انہوں نے پیکر تراشی کو اہمیت دی اور لفظ کے ذریعے شعری اظہار کو طاقتور بنانے کی راہ کو اختیار کیا۔Devalapalli Krishana Shastry نے عوامی گیت بھی لکھے اور اپنی شاعری میں کلاسیکیت کے ساتھ ساتھ فکر انگیزی کو بھی پیش کیا۔ اور جب فلمی گیتوں نے مقبولیت حاصل کی تو انہوں نے فلمی سچویشن کے پروردہ رومان میں مسائل کی آمیزش سے فکری سطح پر ذہنوں کو مہمیز کیا۔ بیسویں صدی کی تیسری اور چوتھی دہائی میں ہندوستانی شعر و ادب ترقی پسندی سے با ضابطہ طور پر روشناس ہوئے۔ تلگو میں سری سری نے اپنی انقلابی شاعری کے ذریعے امنگ اور جہدمسلسل کا پیغام دیا۔ سری سری کے گیتوں میں خواب بھی تھے اور ان خوابوں کی تعبیر حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کی طرف توجہ بھی دلائی گئی تھی۔ رومانیت سے انقلاب کی طرف سری سری کا یہ شعری سفر ایک بسیط مطالعے کا طالب ہے۔ سری سری کی انقلابی شاعری اصل میں بنگالی کے مشہور شاعر ’’نذرل اسلام‘‘ (نذرالاسلام) سے متاثر تھی۔ اور یوں سری سری کے ہاں ادبی قدروں سے زیادہ موضوعاتی قدروں کو اہمیت حاصل ہوئی اور جب رائٹرس فورم کمیونسٹ پارٹی کا حصہ بنا تو موضوعات ہی سب کچھ قرار پائے اور شعری اظہار بے معنی ہو کر رہ گیا۔
ہندوستان کی آزادی کے آس پاس ایک اور نام اہمیت کا حامل ہے، یہ ہے بال گنگا دھر تلک۔ ہندوستان کے قومی رہنما بال گنگا دھر تلک کا ہم نام یہ شاعر تلگو میں تحریک آزادی کے گیت گنگنا رہا تھا جو وقت کی ضرورت تھے۔ ترقی پسند تحریک کے زیر اثر جن شعرا نے سماج کو بدل ڈالنے کی جدوجہد کو اپنی شاعری سے مضبوط ومستحکم کرنا چاہا، ان میں داسرتھی اورKaloji Narayana Raoبھی اہم ہیں۔ کالو جی نارائن راؤ نے تلنگانہ میں اپنی مہم کو جاری رکھا اور داسرتھی آندھرا علاقے میں سرگرم رہے۔ داسرتھی کا ایک اہم کارنامہ تلگو میں رباعی کو پیش کرنا بھی ہے۔ تلگو شاعری میں ایک اور رجحان اہمیت کا حامل ہے۔ یہ ہے انسانیت پسندی یاHumanist Poetryکا رجحان …… یہ انسانیت پسندی یوروپ کے Humanismسے مختلف ہے ….. اس فکر و فلسفہ کے علمبرداروں میں C.Narayan Reddy مادلار نگاراؤ اور ششدر شرما کے نام کافی اہم ہیں۔C. Narayan Reddy نے ادبی اقدار کی پاسداری بھی کی اور عوامی مزاج کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنا شعری رویہ متعین کیا۔ انہوں نے تلگو زبان کو اردو کی ایک اہم صنف شاعری یعنی غزل سے روشناس کرایا۔
انسانیت پسند شاعری کے شانہ بہ شانہ باغیانہ انقلابی شاعری کا رجحان بھی پرورش پاتا رہا۔ جس میں جارحیت اور تشدد کا عنصر غالب تھا اور مسائل کو حل کرنے کے لئے ہتھیار ا۔ ٹھانے کی ترغیب بھی تھی۔ اس کے لئے عوامی دھنوں اورFolkگیتوں کے اسلوب کو اپنایا گیا۔ چنانچہ اس سلسلے کا اہم شاعر غدرGadarہے۔ شیوا ساگر نے نظم معریٰ اور آزاد نظم کی ہیئت اختیار کی اور متوسط طبقہ کو متاثر کیا۔VangapanduاورVangapathi Prasada Rao نے عام فہم عوامی زبان اور عوامی دھنوں کا ستعمال کر کے ذہنوں کو متحرک کیا۔ ساتویں دہائی کے آخر میں ایک اور رجحان نے زور پکڑا تھا۔ لیکن چند ہی برسوں میں یہ رجحان شکست و ریخت کا شکار ہو گیا …… یہ وہ گروہ تھا جو فلسفۂ وجودیت یا Existentialismسے متاثر تھا اور پھر اس سے بھی آگے بڑھ کرGay Societyکی طرف مراجعت کرنا چاہتا تھا۔ یہ اپنے اکتائے ہوئے ذہنی رویہ کی وجہ سے شعری اظہار کو عریانیت کے بغیر نامکمل تصور کرتا تھا اور فحش لفظیات کو بے محابہ استعمال کرتا تھا۔ یہ شاعری ڈگمبر شاعری کہلائی۔ اس شعری رجحان کے زیراثر لکھنے والوں نے تمام پرانی قدروں کو توڑنا بلکہ انہیں پامال کرنا اپنا نصب العین بنا رکھا تھا۔ تلگو کے ایک اہم نقاد جی وی سبرامنیم نے انہیں Telugu Angry Menجوالا مکھی اور نکھلیشور کے نام اہم ہیں ……. یہ دور ۶۶ سے ۶۹ ء تک کا ہے۔ ۶۶ ء سے کچھ پہلے بالکل ایسی ہی صورت حال اردو میں بھی پیدا ہوئی تھی اور فرد کی تنہائی کے احساس سے آگے بڑھ کر شدید مایوسی نے فحش علامتوں کو شعری پیراہن عطا کیا تھا… ..لیکن آہستہ آہستہ اردو میں یہ رجحان اپنی موت آپ مرگیا۔ اور پھر تلگو میں بھی ڈگمبرکویتوم بھی از کار رفتہ قسم کی چیز ہو گئی کیونکہ اسے عوامی مقبولیت کا درجہ حاصل نہ ہو سکا۔
تلگو کا ایک اور رجحان بہت اہم ہے یہ ہے ناوبستگی کا رجحان، جہاں یہ سوچا جانے لگا تھا کہ شاعری کیا ہے …….؟ کیا یہ صرف نعرہ بازی ہے یا فن سے اس کا کوئی تعلق ہے ……. چنانچہ شعریت کو اہمیت دی جانے لگی اور سیاست سے صرف نظر کیا گیا۔ ششدر شرما نے ۷۰ ء کے بعد جو شاعری کی اس میں ناوابستگی کا عنصر خاصا قوی ہے۔ اس رجحان کے تحت کی جانے والی شاعری نے ادبی خوشبو سے مشام جاں کو معطر کرنے کا ایک اہم فریضہ انجام دیا جو اس عہد میں خال خال تھا۔ کسی پارٹی، کسی تحریک یا کسی خاص فکر سے ناوابستگی کا اظہار اس رجحان کا ایک لازمی عنصر تھا۔ اس کے باوجود یہاں بھی ہتھیاروں پر یقین اور تشدد کا عنصر محسوس کیا جا سکتا تھا۔ آج کا دورAnubhuiti Kavitwamکا دور ہے۔ آج شاعری نئے نئے تجربات سے اپنے آپ کو ہم آہنگ کر رہی ہے ……. اپنی جڑوں کی تلاش اور ایک بین الاقوامی معاشرے میں فرد کی شناخت کو اہمیت دی جانے لگی ہے۔ قدیم علامتوں کو نئے تجربات کی روشنی میں نئے مفاہیم دئے جانے لگے ہیں۔ اظہار میں ادبی قدروں کو پھر سے اہمیت حاصل ہونے لگی ہے … اور یہ ادبی قدریں جدید طرز فکر سے ہم آہنگ بھی ہیں اور اپنا ایک علیٰحدہ وجود بھی رکھتی ہیں۔ مغرب سے مستعار فکر کو مقامی رنگ دے کر اسے اس طرح اپنایا جا رہا ہے کہ ہندوستانی خوشبو ختم نہ ہو اور ذات کے تجربات بھی باقی رہیں۔ ایک وسیع تر معاشرے میں ایک بین الاقوامی سماج میں تلگو تہذیب کے عنصر کو برقرار رکھنا آج کی تلگو شاعری کا ایک اہم رجحان ہے…….!
رجحانات اور افکار کے اس سیلِ بے پایاں کی شناوری کرتے ہوئے یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ آج ہرچیز کو عالمی تناظر میں دیکھنے کی کوشش تلگو ہی میں نہیں بلکہ ہر ہندوستانی زبان میں یکساں طور پر پرورش پا رہیک ہے۔ آج موضوع بھی اہم ہے اور پیش کش بھی ……. لفظ اور اس کا استعمال ادب میں دوبارہ اہمیت حاصل کر رہا ہے۔ اور آج زندگی سمجھاجا رہا ہے ، صرف آلۂ کار نہیں………!!!
————————-٭٭————————