ناصر عباس نیر(لاہور)
پروین طاہر کی نظم (بہ حوالہ تنکے کا باطن)معاصر اردو نظم سے منسلک بھی ہے اور جدا بھی!یہ نظم اپنی ساختی تشکیل کے لیے تو معاصرنظم کی طرف رجوع کرتی ہے مگر اپنے مافیہ کے لیے ایک ایسے سرچشمے سے ناتا جوڑتی ہے ،جو کہیں باہر نہیں بلکہ تخلیق کار کی سائیکی میں مخفی ہوتا ہے۔معاصر اردو نظم میں تمثال سازی،کفایت لفظی،مصرعوں میں Gapدینے،نئی لفظیات کی تلاش،تازہ کاری،خیال کی جسمیت کو گرفت میں لینے کی جو صورتیں ملتی ہیں،وہ پروین کی نظم میں جا بجا موجود ہیں۔علاوہ ازیں سائنسی شعور،زمان و مکاں کے جدید تصوّرات،شے کی ضدّ کو خود شے میں تلاش کرنے کا رویّہ،واقعے کو بیان کرے کی بجاے واقعے کو پگھلا کراسے امیج میں تبدیل کر نے کی روش بھی معاصر نظم میں ابھری ہے۔یہ ساری صورتیں پروین کے یہاں موجود ہیں۔(یہ کہنے میں تامل نہیں ہونا چاہیے کہ معاصر اردو نظم کا اہم ترین حصّہ پنڈی اسلام آباد میں تخلیق ہو رہا ہے)۔۔۔۔مگر اس سے آگے جہاں تک ان کی نظم کے موضوعات اور مسایل کا تعلق ہے،وہ معاصر نظم کی بازگشت نہیں ہیں،بلکہ انھیں پروین نے اپنے باطن کی گہری سطحوں سے برآمد کیا ہے۔
مذکورہ معاصر نظم سے انسلاک نے پروین کی نظم کو نظم کے اس برانڈ سے یک سر الگ رکھا ہے،جسے اردو شاعرات نے اپنے لیے وجہ افتخار سمجھ کر جاری رکھا ہوا ہے۔اس کا یہ مطلب نہیں لیا جانا چاہیے کہ پروین کی نظم میں تانیثی شعور نہیں ہے یا ان کی نظم مردانہ تصوّرات کو لیے ہوئے ہے۔اور نہ یہ سمجھا جانا چاہیے کہ ادب میں تانیثی اور ذکوری شعور کا وجودنہیں ہے اور یہ محض ڈھکوسلہ ہے۔یہاں اس نکتے پر تفصیلی بحث کی گنجایش تو نہیں ہے کہ ادب کو مردانہ اور زنانہ ڈبوں میں تقسیم کرنے کا کیا جواز ہے،ادب ادب ہوتا ہے،اسے مرد تخلیق کرے یا عورت،اس سے کیا فرق پڑتاہے؟تاہم اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ تخلیق کاراپنے متعلق تمام تصورات اپنے ثقافتی ،نشانیاتی نظام سے اخذ کرتا ہے۔اس نظام میں مرد اور عورت کی تقسیم اتنی گہری اور ثقافت کے جملہ لسانی اور اقداری مظاہر تک اتری ہوئی ہے کسی تخلیق کارکو اس سے مفر نہیں ہو سکتا۔مرد اور عورت تخلیق کار ’’خود‘‘ کو لکھتے ہوے دراصل اس ’’تصورِ ذات‘‘ کو لکھتے ہیں جو انھیں اپنے ثقافتی نظام سے ودیعت ہوتا ہے۔لہٰذا کسی عورت کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنی ذات کو رقم کرتے ہوئے وہی کچھ کہے جو مرد تخلیق کار کہہ رہا ہے۔اور نہ یہ مردتخلیق کا ر کے اختیا ر میں ہے کہ وہ اپنی ذات کا تصوّر اسی طرح کرے جس طرح عورت کرتی ہے۔اس طرح گویا مرد اور عورت کی سائیکی کی الگ الگ WILD ZONEہیں۔تاہم یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ واقعات کے سلسلے میں دونوں کا ردّعمل کتنا یکساں اور کتنا مختلف ہوتا ہے؟یعنی وائلڈ زون کا اظہار کہا ں کہاں،کب اور کن صورتوں میں ہوتا ہے؟
پروین کی نظم کا بنیادی مسئلہ آگہی ہے۔آگہی کی دو صورتیں ان کی نظم میں ظاہر ہوئی ہیں۔ایک عمومی اور دوسری خصوصی ہے۔عمومی آگہی سے مراد وہ آگہی ہے جس کا تعلق ان کے نسائی سیلف کے بجاے عمومی انسانی تجربے سے ہے۔خصوصی آگہی کا تعلق ان کی نسائی سائکی اور ان کی تانیثی وائلڈ زون سے بنتا ہے۔اس طرح انھوں نے اپنی نظم کو محض صنفی مسایل تک محدود نہیں کیا اور نہ اس نسائی تحریک کا حصہ بنی ہیں جو دراصل کلچرل پالیٹکس ہے۔
آگہی کے سلسلے میں پروین کی نظم میں ایک انوکھے فی نو می نن نے جنم لیا ہے۔عمومی آگہی کے ضمن میں ان کی نظم میں تثلیث اور نسائی عرفان کے تعلق سے ثنویت ظاہر ہوئی ہے۔
عمومی آگہی پروین کے یہاں تتلی کے کشف،بھوبل کی سب سے نچلی تہ کے اندر دو پل کے جیون،تنکے کے باطن،نگاہوں کے آگے خلاؤں کی ویرانی اور وہ فضاجہاں سے کسی حدّ امکاں کا آغاز ہوتا ہے،سیہ روشنی کی چکا چوند دھارا کا دوجا کنارااورناممکن کی حڈّت سے اپنا سورج ڈھالنے سے عبارت ہے۔ہر آگہی نجّی اور شخصی ہوتی ہے۔یہ ایسی آگ ہے جس میں آدمی کو اکیلے جلنا پڑتا ہے،کبھی جلنے کا ثمر اسی آگ کے گل زاربننے کی صورت میں ملتا ہے اور کبھی نہیں!آگ کی حدّت کا بس عرفان مل پاتا ہے ،آدمی آگ کی قلبِ ماہیت نہیں کر پاتا ،اسے فقط اپنی روح میں اتار کر،آگ کے قہر اور غم کے زہر سے آشنا ہوتا ہے۔پروین کی نظم میں ناممکن کی حدّت سے اپنا سورج ڈھالنے کا جو ذکر ہوا ہے تو اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہے کہ آگہی محال کے امکان کو مجسم کرنے کا تجربہ ہے۔اور محال کے امکان کو مجسم کرنے کا تجربہ دراصل بھوبل کی سب سے نچلی تہ کے اندر موجوددو پل کے اس جیون کو گرفت میں لینے کا عمل ہے،جس نے تیز ہوا کی زد پرآ کر اگلے پل مٹ جانا ہے۔آگہی فنا کے نشانے پر ہر لمحہ موجود زندگی کا اثبات ہے۔ پروین کے یہاں آگہی فنا،غم اور شکست سے عبارت ہے۔ظاہر ہے یہ تینوں وہاں ہو سکتے ہیں جہاں حیات،خوشی اور تعمیر موجود ہو۔پروین کی نظم میں وقت اور تاریخ کا عمودی شعور موجود ہے۔عمودی شعور تاریخ کے روز بدلتے منظر نامے کے بجاے تاریخ کی تہ میں مضمر اس ساخت کی آگہی رکھتا ہے،جو تمام تاریخی تغیّرکی ذمہ دار ہے۔ان کی نظم مخصوص تاریخی شعور کی مدد سے یہ حقیقت باور کراتی ہے کہ حیات ،خوشی اور تعمیر کس طرح فنا،غم اور شکست میں بدل گئے۔پروین نے اس لمحے کو اپنی نظم میں گرفت میں لینے کا دعوا کیا ہے۔
ایک ہی وہ دن یاد ہے مجھ کو
جس دن سر سے تال چھنا تھا
اور توازن قدموں سے
اک لکنت سی در آئی تھی
باتوں میں (لکنت)
کتنا زہری موسم تھا وہ
پھولوں و الی شاخوں سے
ٹوٹے سانپ اور بچھو (ایسا لازم تھا)
اپنی اصل میں یہ سائنسی تصوّر کاینات ہے،جس کے مطابق کاینات کی تخلیق اکائی کے دوئی میں بدلنے سے ہوئی تھی۔مگر پروین نے اسے تخلیقی سطح پر قبول کیا ہے۔سر سے تال کے چھننے،قدموں سے توازن کے رخصت ہونے،باتوں میں لکنت آنے اور پھولوں والی شاخوں سے سانپوں اور بچھووں کے ٹوٹنے کو ایک ایسی سچائی قرار دیا ہے،جس سے مفر کی کوئی صورت نہیں تھی۔ایسا ہونا لازم تھا۔مگر کسی چیز کے لزوم کو منطقی سطح پر قبول کرنا اور بات ہے اور اس کو دل سے تسلیم کرنابالکل دوسری بات ہے۔پروین کے یہاں اس سچائی کو دل سے تسلیم کیا گیا ہے۔ یعنی فنا ،غم اور شکست کو کشف کی تکمیل کے لیے لازم قرار دیا گیا ہے۔اس آگہی کی تمثالی نمایندگی کے لیے ان کے یہاں اسما،صفات اور کیفیات کی تثلیث جگہ جگہ ظاہر ہوئی ہے۔مثلاً برکھا سا کوئی موسم تھا؍خوابیدہ سی کوئی حالت تھی؍روم روم میں زہر رچا تھا۔۔۔تب زندگی؍نیلگوں ،نرمل،سبک رو؍بھاگتی،رقصاں،بلا آواز؍قدموں پر اچھلتی زندگی؍اک مقدس راگنی تھی؍جل ترنگ سی بج رہی تھی۔۔۔۔اس کے کیسے درشن ہو گا؍آگ ،الاؤاور دھوئیں کا۔۔۔۔کبھی کھینچیں گے ہم باگیں؍جنونی،سرپھری،اندھی ہواؤں کی۔۔۔۔تثلیث سے شاعرہ کو اس درجہ باطنی ربط ہے کہ وہ خود کو تیسری بھاونا کے طور پر مشخص کرتی ہیں۔
تنکے کا باطن کے ایک فلیپ نگار کا کہنا ہے کہ پروین طاہر ۔۔نے اردو شاعری کو حسن و عشق کے روایتی مفاہیم اور تذکیر و تانیث کے صیغوں سے باہر نکالا ۔ان کی یہ بات تو درست ہے کہ پروین نے حسن و عشق کے روایتی مفاہیم سے کوئی سروکار نہیں رکھا،مگر یہ درست نہیں کہ ان کے یہاں تانیثی شعور سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔تانیثی شعور سے انکا رکا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے اپنے سیلف میں اترنے کا تجربہ ہی نہیں کیا۔اصل یہ ہے کہ ان کے یہاں وہ تانیثی شعور بہ ہر حال موجود نہیں ہے ،جسے ان کی معاصر شاعرات ان دنوں اپنی شاعری اور اپنی این جی اوز کے ذریعے عام کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔پروین کی تانیثیت اور ان کی معاصر شاعرات کی تانیثیت میں بڑا فرق یہ ہے کہ آخرالذّکرمردانہ سماج کے خلاف بغاوت،احتجاج کو پیش کر رہی ہیں۔وہ مرد کو ظالم ،استحصال پسند تصور کرتی ہیں۔ان کا مرد کا تصوّر بڑی حد تک وہی ہے جو سابق نو آبادیاتی ممالک کا مغربی سامراج کا ہے۔مابعد نو آبادیاتی مطالعات بتاتے ہیں کہ مغربی سامراج نے اپنی نو آبادیوں کو معاشی اور سیاسی استحصال کے علاوہ علمی،ثقافتی،لسانی سطح پر بھی استحصال کا نشانہ بنایا۔اور ایسی حکمت عملیاں اختیار کیں ،جو مخفی،بالواسطہ اور درپردہ تھیں۔فراز فینن اور ایڈورڈ سعید کے مطالعات نے بالخصوص ان در پردہ حکمت عملیوں کا پردہ چاک کیا ہے۔معاصر نسوانی تحریک کی علم برداروں نے مرد کو بھی ایک ایسا ’’سامراج‘‘ ثابت کیا ہے جو عورت کے استحصال کے براہِ راست اور بالواسطہ ،معاشی،سیاسی اور علمی ،ثقافتی اور لسانی حربے اختیار کرتا ہے۔ چوں کہ مرد نے یہ سب کیا ہے اس لیے عورت ان کے خلاف مزاحمت کرتی ہے،مرد کو شدید تنقید کا نشانہ بناتی ہے،اپنی ذات کاایسا تصور پیش کرتی ہے،جو استحصال زدہ قوم کی طرح پس ماندہ،اپنی شناخت کے بحران میں مبتلا،داخلی انتشار کا شکاراور خود سے بیگانگی میں مبتلا ہے۔۔۔۔۔مگر پروین نے نسائیت کا ایک دوسرا متن پیش کیا ہے۔ ایک آدھ جگہ پر پروین کی نظم میں مذکورہ تانیثی شعور ضرور ظاہر ہوا ہے۔مثلاً نظم سٹپنی میں ۔۔۔سروں سے پیار کی چھایا؍کوئی جب چھین لیتا ہے؍زمیں پیروں تلے سے؍کھینچ لیتا ہے․․․کوئی دوسرا ہوتا نہیں ؍تو ہم ابھرتے ہیں؍فقط اس ایک لمحے؍ کے سیہ دامن پہ؍تاروں کی چمک بن کر۔نظم ان لاینوں میں شکایت،نرم احتجاج،چھپا طنز موجودہے،جومذکورہ تانیثی شعور سے مخصوص ہے۔تاہم پروین کا یہ غالب لہجہ نہیں ہے۔ان کی نظم کا نسائی پہلو علامتی ہے۔
ویسے یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ پروین نے اپنے عصر کے غالب نسائی تصورات سے ہٹ کر نسائی زاویہ اختیا ر کیا ہے تو اس کا سبب کیا ہے؟کیا انھوں نے ان تصورات کو غلط سمجھا ہے یا انھیں دبایا ہے اور گویا اس Repressionکا مظاہرہ کیا ہے،جس کی شکایت ایک پدر سری سماج میں خواتین کو مردوں سے ہوتی ہے؟ اس سوال کاجواب ان کی نظم میں ہی تلاش کیا جا سکتا ہے ۔ان کی نظم دراصلایک مختلف شعورِ ذات کو پیش کرتی ہے۔یہ شعورِذات نوعیّت کے اعتبار سے تانیثی ہے۔ممکن ہے بعض لوگ شعورِذات کو تانیثی اور ذکوری خانوں میں بانٹنے کے حق میں نہ ہوں۔اور ممکن ہے بعض جگہوں پر یہ فرق معدوم بھی ہوتا ہو۔مگر پروین کے یہاں یہ فرق موجود ہے۔مثلاًسب سے پہلے تو ان کی شعری زبان ہی مختلف ہے۔نرم،کومل ہندی لفظوں کا زیادہ استعمال جو بالعموم گیت میں برتے جاتے ہیں اور گیت میں اظہار عورت کی طرف سے ہوتا ہے۔دوسرا ان کے یہاں شعورِ ذات ثنویت کو لیے ہوے ہے۔وہ ثنویت جو نسائی شعور سے مخصوص ہے۔نسائیت اپنا تصوّر’’دوسرے‘‘ کی مدد سے کرتی ہے۔کبھی ’’دوسرے‘‘ کو اپنا مدّ مقابل اور کبھی اسے اپنی تکمیل کا ذریعہ خیال کرتی ہے۔معاصر نسوانی تحریکوں نے ’’دوسرے‘‘ کو مدّ مقابل سمجھا ہے،اس کے برابر آنے اور اس سے حریفانہ کش مکش میں مبتلا ہوئی ہیں۔مگر پروین نے ایک دوسرا زاویہ نظر اختیار کیاہے۔انھوں نے ’’دوسرے‘‘ کے روبرو آنے کا تجربہ پیش کیا ہے۔اور ’’دوسرے ‘‘ کا تصوّر بھی ان کا مختلف ہے۔
پروین کی نظم میں ’’دوسرا‘‘کہیں روشنی کے روپ میں اور کہیں سمندر کی صورت ظاہر ہو اہے۔اور اس کے روبرو انھوں نے جس نسائی سیلف کو پیش کیا ہے وہ کہیں دھرتی اور کہیں ندّی ہے۔اس طور ان کا نسائی متن علامتی ہے۔اس ضمن میں ان کی تین نظمیں تیرا کمالِ کشف ہے ،سفر ندیا کے پانی کو ودیعت ہے اور روشنی اور آواز سے مراجعت توجہ طلب ہیں۔پہلی نظم میں روشنی،جو ’’دوسرے‘‘ کا استعاراتی روپ ہے،نظم کی متکلم کی ذات کی تطہیرکرتی ہے․․․․مگر اے روشنی؍اے کایناتی روشنی؍․․․․مجھے پاتال سے کھنیچا؍مرا میلا بدن دھویا؍الوہی گھیر میں لے کر؍مری آنکھوں؍مری ان خشک جھیلوں کو؍مقدس آنسووں سے ؍پھر شناسا کر دیا۔۔۔گویا اس نظم میں دوسرا’’ غیر ‘‘نہیں بلکہ ذات کی تقدیس اور تطہیر کا وسیلہ ہے۔ذات جب تطہیرکے عمل سے گذرتی ہے تو وہ مایل بہ ارتقا ہو جاتی ہے۔اسے پر لگ جاتے ہیں ،وہ نئی منزلوں اور نئے جہانوں کو سر کرنے کی تمنا کرنے لگتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ پروین کی نظم میں آگے چل کر نسائی سیلف کے لیے پانی کا استعارہ آتا ہے۔دھرتی پانی میں ’’بدل ‘‘جاتی ہے۔ ان کی اگلی دونوں نظموں میں ندی نسائی سیلف کی علامت کے طور پر آتی ہے۔ایسی ندی جو محض بہنا ہی نہیں جانتی،نامعلوم راستوں،گزشتہ اور ممکنہ راستوں کی تلاش کا عزم بھی رکھتی ہے۔اس میں تمکنت،غیر معمولی اعتماد اور تسخیر کرنے کی لگن ہے۔چوں کہ سامنے سمندر ہے لہذا پہلے ندی اسی کو ’’تسخیر‘‘ کرتی ہے۔
سمندر سر جھکاے،بانہیں پھیلاے ہوے
چپ چاپ بیٹھا ہے
تھکا ماندہ،کسی ہارے کھلاڑی کی طرح
لیکن اچانک ہی کسی مانوس خوشبو نے
اسے چونکا دیا ہے!
سامنے معصوم ندیا
سانس روکے،دم بہ خود،حیراں
سمندر کی اداسی دیکھتی ہے!
سمندر اور ندیا کے علامتی مفاہیم اس قدرر واضح ہیں کہ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔دیکھنے والی بات یہ ہے کہ سمندر اداس ہے،اس سے اس کی عظمت رفتہ چھن چکی ہے۔نظم میں ایک ایسے زمانے کا ذکر بھی موجود ہے،جب سمندر مغرور تھا،ندی کے الھڑ بہاؤکو اپنی رعونت سے روک دیتا تھا،مگر ندی کو چوں کہ سفر ودیعت تھا اس لیے اس نے سفر جاری رکھا اور پھر یہ دن آن پہنچا کہ ندی تمکنت سے کہنے لگی․․․’’مہا ساگر؍مجھے اب لوٹ جانا ہے؍حسیں سورج کی کرنوں سے؍ملن کر کے،ابھی بادل بنانا ہے؍مجھے چٹیل زمینوں،گرم میدانوں کو؍بھوری گھاٹیوں کو ؍سات رنگی پینگ کا؍احسان لوٹانا ہے؍بن جل کے جو دھرتی ہے؍وہاں سبزہ بچھانا ہے!‘‘
یہ کہنے کی شاید ضرورت نہیں کہ یہاں ندی پر تمکنت اور حقیقی نسائی سیلف کی علامت ہے۔حقیقی نسائی سیلف وہ ہے جو oppressed شناخت نہیں رکھتا،بلکہ جو وجودی فرد کی طرح اپنے وجود کی ذمہ داری قبول کرتا،اپنے فیصلوں کا اختیا ر رکھتا
اوراپنے فیصلوں کے نتائج کا سامنا کرنے کا ظرف بھی رکھتا ہے۔اور متذکرہ صدر نظم کی ندی یہ ساری خصوصیات رکھتی ہے ۔نظم روشنی اور آواز سے مراجعت میں نسائی سیلف کی اس وائلڈ زون کو پیش کیا گیا ہے،جو منفرد، ،تنہااورخاموش ہے۔یہ وائلڈ زون لازمانیت سے عبارت ہے،یہاں خارجی دنیا اور تاریخ کے تمام روزن بند ہو جاتے ہیں۔یہ ایک ایسا لا زماں لمحہ ہے ،جب ’’ کسی اظہار سے پہلے ؍نظر کی روشنائی سے ؍کوئی پہلی کتھا لکھی گئی تھی؍ ‘‘ سیلف ایک ایسی بے کرانی میں جذب ہونا چاہتا ہے،جو آواز،روشنی سب سے ماورا ہو۔ یہ معدومیت کی وہ کیفیت ہے ،جو دراصل تخلیق کی اوّلین ساعت تھی!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے ماتا! رام نے اپنے ساے گُن میری آتما کو دان کر دئیے ہیں
اور میں نے ان
گُنوں کو گا گا کر عام کیا ہے۔
اس کے پریم کے بان نے میرے تن کو چھید دیا ہے ماتا!
جب یہ تِیر مجھے آکر لگا تو مجھے خبر بھی نہ ہوئی،پر اب مجھ سے یہ سہارا بھی نہیں
جاتا، اے ماتا!
میں نے جادو ٹونے،دوا دارو،سب کچھ کیا ،پر یہ پِیڑ تو جاتی ہی نہیں
کوئی ہے جو میرا علاج کرے؟ماتا میرا دُکھ بڑا گہرا ہے۔
اے رامؔ! تو مجھ سے اتنا قریب ہے تو جلدی سے آکیوں نہیں جاتا؟
میراؔ کہتی ہے کہ رامؔ نے جو کیلاش کو فتح کرنے والا ہے،میرے تن کی ساری آگ
کو ٹھنڈا کر دیا ہے ماتا!
کنول ایسے نینوں والے نے
میری آتما کو اپنے گُنوں میں جکڑ ہی تو لیا ہے!
(مِیرا بائی)