ہندوستان میں یورپی طاقت محدود تھی۔ تجارتی چوکیاں بندرگاہوں کے قریب تھیں یا ان کے ساحلوں کے قریب بنائے گئے قلعے تھے جس میں فوجی اور تاجر رہا کرتے تھے۔ ایکسپورٹ کے لئے مقامی سوداگر اور بنیے کے ساتھ تعلقات تھے۔ بنیا اور سوداگر کسانوں اور جولاہوں سے سامان لانے کا بندوبست کرتے تھے۔ یورپیوں نے انڈین ساحل پر گودام بنائے ہوئے تھے۔ مدراس، سورت، ڈھاکہ، قاسم بازار اور کالیکٹ میں ایجنٹ بنیوں کو آرڈر دیتے تھے۔ تیار ہو کر یہ گودام پہنچا دیا جاتا تھا۔ یہاں سے جہازوں پر لاد دیا جاتا تھا۔ کھاتے رکھنے کے لئے چمڑے کی جلد والی سینکڑوں کتابیں تھیں جن میں یہ حساب کتاب آج بھی محفوظ ہے۔
ڈھاکہ میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا ریکارڈ اس سب کی تفصیل بتاتا ہے۔ 1676 میں برطانوی تاجروں نے تجارتی جہاز کی آمد سے آٹھ سے دس ماہ پہلے کپڑا حاصل کرنے کے لئے بنیوں سے سودا کر لیا۔ کوالٹی، ڈیزائن، قیمت اور ڈیلیوری کی تاریخ طے ہو گئی۔ ایڈوانس میں کیش دے دیا گیا۔ بنیوں نے یہ آڑھتی کو دیا جو گاوٗں گاوٗں پھر کر فرداً فرداً جولاہوں سے سودے کرتا۔ اس زنجیر سے کپڑا اکٹھا ہو کر ڈھاکہ کے گودام تک پہنچتا جہاں اسے بھیجنے کے لئے تیار کیا جاتا۔
پروڈکشن کے اس نظام میں جولاہے اپنی مرضی سے کام کرتے تھے۔ ان کے اپنے اوزار تھے۔ ویسے ہی جیسے صدیوں سے ہوتا آ رہا تھا۔ جب یورپی مانگ بڑھی تو جولاہوں نے پروڈکشن بھی بڑھا دی اور دام بھی۔ اس صنعت سے وابستہ لوگوں کے لئے یہ کاروبار بہت منافع بخش ہو گیا۔ گجرات کے شہر بروچ، اوڑیسہ اور ڈھاکہ میں خوشحالی آئی۔ یہ ہنرمند غریب لوگ تھے لیکن مقابلہ آ جانے اور دام بڑھ جانے کا فائدہ انہیں ہوا۔ بنیا بھی امیر ہوا اور ہندوستان کے حکمران بھی جنہوں ے جلد ہی اس کاروبار پر ٹیکس اور برآمد پر ڈیوٹی لگا دی۔
اس سب میں یورپی محدود طاقت رکھتے تھے اور اس کا انحصار مقامی تاجروں اور مقامی سرمایے پر تھا۔ اور دو صدیوں تک یہ جاری رہا۔ 1800 میں برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی نے ممبئئی کے دو تاجروں، پستونجی جسمات جی اور شوراب جی جسمات جی، سے دس لاکھ روپے سے زیادہ کا سودا کیا۔ سورت میں بنیا موناک جی سے۔
ڈھاکہ میں 1700 میں یورپی تاجروں کا کپڑا خریدنے کا مقابلہ عرب اور مغل تاجروں سے بھی ہوتا تھا۔ یورپی ایک تہائی کے قریب کے خریدار تھے۔ اور یورپی خود ہندوستانی بینکاروں پر منحصر تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یورپ سے مسلح تاجر کی آمد نے عرب اور ہندوستانی تاجر کو آہستہ آہستہ ایک طرف کرنا شروع کیا۔ سورت کا زوال ہوا اور برٹش ممبئی کا عروج اور مغربی ہندوستان کا انحصار برٹش پر بڑھتا گیا۔
اٹھارہویں صدی میں یورپ میں ہندوستانی کپڑے کے نت نئے فیشن کا رواج پڑ چکا تھا۔ امیر یورپی ململ اور چھینٹ کو افورڈ کر سکتے تھے۔ یہ سوشل سٹیٹس دکھاتا تھا۔
یہی وہ وقت تھا یورپی امریکاز سے سونا اور چاندی لا رہے تھے۔ اس میں سے کچھ ہندوستان سے کاٹن کے کپڑے خریدنے کے لئے استعمال کیا جا رہا تھا۔
امریکاز میں سونا اور چاندی لامحدود نہیں تھا اور وہاں پر نوآبادکاروں نے امارت کا نیا راستہ تلاش کر لیا۔ یہ فصلوں کے ذریعے تھا جو اس موسم میں اگائی جا سکتی تھیں۔ چینی کے لئے گنا سرِفہرست تھا لیکن چاول، تمباکو، انڈگو وغیرہ بھی تھے۔ اس کے لئے بڑی تعداد میں کام کرنے والے درکار تھے۔ یہ پہلے ہزاروں اور پھر لاکھوں کی تعداد میں افریقہ سے لائے گئے۔ اس کی تجارت کے لئے افریقہ کے مغرب میں تجارتی چوکیاں بنیں۔ موجودہ سینیگال میں گوری۔ موجودہ گھانا میں المینا۔ موجودہ بینین میں اویدہ۔ غلاموں کو پکڑنے والے افریقی حکمران ہوتے تھے جو انسانی پکڑنے کے شکار پر جایا کرتے تھے۔ غلام پکڑ کر سوداگروں کو بیچے جاتے تھے اور ان کے عوض ہندوستانی جولاہوں کی مصنوعات لیتے تھے۔ 1500 کے بعد کی تین صدیوں میں افریقہ سے امریکہ اسی لاکھ غلام بھیجے گئے۔ سب سے پہلے ہسپانوی اور پرتگالی تاجروں نے۔ سترہویں صدی میں اس میں برٹش، فرنچ، ڈچ، ڈینش اور دوسرے بھی شامل ہو گئے۔ اٹھارہویں صدی میں پچاس لاکھ لوگوں کی تجارت ہوئی۔ زیادہ تر مغربی اور وسطی افریقہ سے پکڑے گئے تھے۔ بینن، گولڈ کوسٹ اور بیافرا سے۔ روزانہ یہ جزائر غرب الہند اور امریکہ کے دونوں برِاعظموں کے ساحلوں تک پہنچتے تھے۔
اس تجارت نے کاٹن فیبرک کی مانگ میں اضافہ کیا۔ کیونکہ افریقی حکمران اور تاجر غلاموں کے بدلے کپڑے کی تجارت میں دلچسپی رکھتے تھے۔
غلاموں کی منڈیوں میں انسانوں کی تجارت جس جنس کے بدلے ہوئی ہے، اس میں سب سے زیادہ ہندوستانی جولاہوں کا بُنا ہوا بے ضرر سا کپڑا تھا۔ ایک سٹڈی جو 1772 سے 1780 کے درمیان ہونے والے 1308 سودوں پر کی گئی جو برطانوی تاجر رچرڈ مائلز کے ریکارڈ پر تھی۔ اس میں 2218 انسان بکے اور ان کے بدلے دی گئی اجناس میں سے نصف سے زائد کاٹن کا کپڑا تھا۔ لوانڈا میں پرتگالی امپورٹ کے اعداد و شمار بھی ایسے ہیں۔ ساٹھ فیصد غلام کپڑوں کے عوض بکے تھے۔
افریقی فیشن کا ذوق یورپیوں سے جدا تھا۔ غلام خریدنے کے لئے کپڑا ہندوستان میں خاص آرڈر پر تیار کروایا جاتا تھا۔
تجارت کے اس نیٹورک نے ایشیا، امریکاز، افریقہ اور یورپ کو ایک بڑے پیچیدہ جال میں باندھ دیا تھا۔ کپاس کی ہزاروں سالوں کی تاریخ میں ایسا نہیں ہوا تھا۔ ہندوستانی جولاہوں کی محنت سے افریقہ میں غلام خریدے جاتے جو امریکہ میں کھیتوں پر کام کرتے اور یہاں اگنے والی اجناس یورپی صارفین استعمال کرتے۔ اس میں سب سے زیادہ ریڈیکل شے معاشی ایکٹیویٹی کی تنظیم تھی۔ یہ نیا عالمی اکنامک آرڈر تھا۔ اور اس کو منظم کرنے کے لئے اسلحے اور طاقت کا زور تھا۔ مخالف تجارتی تنظیموں سے نپٹنے سے لے کر معاہدوں پر عملدرآمد کروانے، غلام پکڑنے، حکمرانوں سے شرائط منوانے، بحری قزاقوں کو دور رکھنے، زمین کو حاصل کرنے کے لئے ۔۔۔ توپوں والے جہاز، مسلح نجی ملیشیا، فوجی تاجر۔ اس نے یہ سسٹم منظم کیا۔
یورپی ریاستیں خود کمزور تھیں اور یہ سلطنت نجی ایکٹرز کے پاس تھی۔
اس سسٹم کا دھڑکتا دل غلامی تھا۔ زیادہ سے زیادہ غلام حاصل کرنے کا مطلب انڈیا سے زیادہ کپڑا حاصل کرنے کا پریشر بھی تھا۔ وقت کے ساتھ اس سسٹم میں تبدیلیاں آتی گئیں لیکن یہ اپنے سے پہلے آنے والے کسی بھی سسٹم سے جدا تھا اور اپنے بعد آنے والے کسی بھی سسٹم سے بھی جدا تھا۔ یہ تاریخ کے اس مرحلے پر تشکیل پانے والا سسٹم تھا جس کے لئے اپنا نام دئے جانے کی ضرورت ہے۔
یہ war capitalism تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہندوستان سترہویں صدی میں دنیا کا سب سے خوشحال خطہ بن چکا تھا۔ یورپی تاجروں کے بنائے گئے تجارتی نیٹورک نے یہاں بنی مصنوعات دنیا بھر میں متعارف کروا دی تھیں۔ بڑی مارکیٹ پیدا کر دی تھی۔ اور یہی ہندوستان کا سب سے کمزور پہلو تھا۔ نہ ہی اس کو منڈیوں پر کنٹرول تھا، نہ تجارتی روابط پر۔ نئے عالمی اکنامک آرڈر نے اس کو امیر کر دیا تھا لیکن اپنی امارت کے لئے اس کا انحصار ان تاجروں پر تھا۔
ساتھ لگی تصویر 1789 میں بنائی گئی۔ یہ ڈھاکہ کی ہے جس میں خاتون کو بنگالی ململ میں ملبوس دکھایا گیا ہے۔