قرآن کریم کی ایک آیت کریمہ ہے کہاحل اللہ البیع وحرم الربو۔ اللہ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔
سود کی تعریف
قرض پر لیا گیا منافع(سود) کہلاتا ہے۔
تجارت اور سود میں فرق
نمبر1: سود میں طے شدہ شرح کے مطابق منافع یقینی ہوتا ہے جبکہ تجارت میں نفع کے ساتھ نقصان کا احتمال بھی ہوتا ہے۔
نمبر 2: مضاربت یا مشارکت کی شکل میں فریقین کو ایک دوسرے سے ہمدردی پیدا ہوتی ہے کیونکہ ان کا مفاد مشترکہ ہوتا ہے جبکہ تجارتی سود کی صورت میں سودخور کو محض اپنے مفاد سے غرض ہوتی ہے۔
نمبر3: اسلامی نظام صدقات میں مال کا رخ غریب کی طرف ہوتا ہے جبکہ سودی معاشرے میں غریب سے امیر کی طرف ہوتا ہے گویا طبقات کی خلیج مزید وسیع ہو جاتی ہے اسلام جس معاشرے کو اخوت کے رشتے میں باندھا چاہتا ہیسود اسے متحارب گروہوں میں تقسیم کرتا ہے اور اس سے قومی پیدا وار تباہ ہوتی ہے اس کے علاوہسود کی وجہ سے کرنسی کی قیمت بھی مسلسل گرتی رہتی ہیجس معاشرے میں جتنی شرح سود زیادہ ہوتی ہے وہاں اتنی ہی قیمت گرتی رہتی ہے۔ غریب طبقے پہ سود کے ذریعے دوسرا حملہ ہے۔
سودی قرضے۔۔۔۔۔۔۔ ذاتی اور تجارتی
سودی قرضے دو طرح کے ہوتے ہیں ذاتی قرضے ذاتی ضروریات کے لیے اور تجارتی یا صنعتی قرضے جو کہ بینکوں سے لیے جاتے ہیں۔
آج کل کچھ مسلمان جہالت سے سود کے جواز کی نمائندگی کرتے ہیں کہ جس سود کو قرآن نے حرام قرار د یا ہے وہ ذاتی قرضے ہیں۔ جن کی شرح سود انتہائی ظالمانہ ہوتی ہے جبکہ تجارتی سود حرام نہیں ہے۔ کیونکہ اس دور میں ایسے تجارتی سودی قرضوں کا رواج ہی نہیں تھا۔ نیز ایسے قرضے جو کہ باہمی رضامندی سے لیے اور دیے جاتے ہیں اور ان کی شرح سود بھی مناسب ہوتی ہے اور اس طرح کسی پر ظلم نہیں ہوتا۔ لہذا یہ تجارتی سود اس سے مستثنی ہیں جنہیں قرآن نے حرام قرار دیا ہے ۔
مذکورہ استدلال مندرجہ ذیل دلائل کی بنا پر غلط ہے۔
دلیل نمبر ایک: دور نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں بھی تجارتی سود موجود تھا۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سود کی حرمت سے قبل یہی کاروبار کرتے تھے۔
دلیل نمبر دو: قرآن میں ربو کا لفظ علی الاطلاق استعمال ہوا ہے جو کہ ذاتی اور تجارتی دونوں قسم کے قرضوں کو حاوی ہے۔
دلیل نمبر تین : قرآن نے تجارتی قرضوں کے مقابل یہ آیت پیش کی ہے واحل اللہ البیع وحرم الربو اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام سورۃ البقرہ پارہ دو آیت 275 اور ذاتی قرضوں کے مقابل یوں فرمایا یمحق اللہ الربو ویربی الصدقات اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کی پرورش کرتا ہے (سورۃ البقرہ پ 2 آیت 276۔ ّ
سودی نظام کا خاتمہ ناگزیر ہے
کائنات پر اللہ تعالیٰ کی حاکمیت قائم ہے جبکہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے کراہ خاکی پر اپنا نائب مقرر کیا ہے، نائب کی ذمہ داری ہے کہ وہ حقیقی حاکم کے احکامات کی پیروی کرے تاکہ مشکلات ختم اورآسانیاں پیدا ہوں، انسان دیگر مخلوقات کی طرح اس دنیا میں مسافر کی حیثیت سے آیا ہے جسے اپناسفرمکمل کر کے اپنے خالق سے جا ملنا ہے۔ اسلامی تہذیب و تمدن کی اپنی منفرد حیثیت ہے جس کو دنیا کی کوئی بھی طاقت جھٹلا نہیں سکتی بلکہ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ غیر مسلم اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کو بہت زیادہ ترجیح دے رہے ہیں۔ اسلامی تہذیب تمدن عقائد، اصول و نظریات اور روایات ہی مسلم غیر مسلم معاشرے کے فرق کو واضح کرتی ہیں۔ اسلام کا ایک منفرد اور جداگانہ ضابطہ حیات ہے چنانچہ اسلامی تہذیب اسی ضابطہ حیات کی عکاسی کرتی ہے۔ اسلامی تہذیب کا سنگ بنیاد حیات دنیا کا یہ تصور ہے کہ انسان کی حیثیت اس کرۂ خاکی میں عام موجودات کی سی نہیں ہے بلکہ وہ خالق کائنات کی طرف سے یہاں خلیفہ بنا کر بھیجا گیا ہے۔ اس لیے انسان کا اصل نصب العین یہ ہے کہ وہ اپنے خالق و مالک اور آقا (اللہ تعالیٰ)کی خوشنودی حاصل کرے۔ اسلام انسانوں کے درمیان اونچ نیچ اور ہر طرح کے امتیاز کی نفی کرتے ہوئے ایک انسان کو دوسرے انسان کے ساتھ اس طرح بلا امتیاز جوڑتا ہے کہ سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ اسلامی تمدن کی ایک بڑی خصوصیت اسلامی اخوت یعنی بھائی چارے کا نظریہ ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے رشاد فرمایا ہے۔ ’’بلا شبہ اہل ایمان بھائی بھائی ہیں۔ سوتم اپنے بھائیوں کے درمیان صلح صفائی کرا دیا کرو‘‘ اسلام سے پہلے انسان جو اشرف المخلوقات ٹھہرا، جانوروں کی طرح جنس پرستی اور علاقہ پرستی کی زندگی بسر کر رہا تھا۔ ٹھیک اُسی طرح جس طرح جانور اپنے علاقے میں داخل ہونے والے اجنبی جانوروں سے جنگ کرتے ہیں اور جس طرح طاقتور جانور قبیلے کا سردار ہوتا ہے جو اپنے قبیلے میں صرف ماداؤں کو رکھتا ہے کمزور نر یا تو بھاگ جاتے ہیں یا پھر مارے جاتے ہیں یہاں تک کہ اکثر جانور اپنے نر بچوں کو بھی مار دیتے ہیں۔ اسلام نے طاقتور کے ساتھ ساتھ کمزوروں کو بھی جینے کا حق دیا، مرد و عورت کو نکاح جیسے خوبصورت رشتہ میں باند کر عورت کو معاشرے میں با عزت مقام دیا۔ جب لوگوں (مسلمانوں )نے اسلامی تہذیب و تمدن کے مطابق زندگی بسر کرنا شروع کی تو چاروں طرف مسلمانوں کے عدل و انصاف کا چرچا ہو گیا، امن و بھائی چارے کے اعتماد کے ساتھ اسلام کا نور دنیا کے کونے کونے میں پھیل گیا جو آج بھی ہے اور روز آخر تک رہے گا، کامیابیاں اُن کے قدم چومنے لگی۔ بدقسمتی سے مسلم حاکموں نے اسلامی تعلیمات پر عمل کرنا چھوڑ دیا اور جانور کی طرح جنس پرستی اور علاقہ پرستی کے اصول اپنا لئے، کبھی مسلم حاکم فجر کی نماز کے بعد کسی بیوہ غریب کے گھر کی صفائی کیا کرتے، اُس کے بچوں کو کھانا پکا کر کھلایا کرتے تھے، یہاں تک کہ کسی بوڑھے کے منہ میں دانت نہ ہوتے تو اپنے منہ میں نوالا چبا کر کھلایا کرتے، حاکم ہونے کے باوجود نہایت سادگی میں زندگی بسر کرنے میں فخر محسوس کرتے اور اُن کے عدل و انصاف کا یہ عالم تھا کہ خود مظلوم کے گھر جاتے اور اُس کی داد رسی کرتے۔ میں یوں کہوں کہ ایک مسلم حاکم اپنی بادشاہت میں سب سے زیادہ عام آدمی کی حیثیت رکھتا تھا تو غلط نہ ہو گا۔ آج ہمارے حاکم بات بات پر عام آدمی کی مشکلات کا ذکر کر کے سیاست چمکانے کی کوشش کرتے ہیں جس میں وہ بڑی حد تک کامیاب رہتے ہیں۔ خوبصورت با توں کے دھاگے سے عوام کے گرد سیاسی جال بننا اور بات ہے اور عملی اقدامات اور بات ہے۔ ملک خُداداد کی ترقی کا راز اسلامی تہذیب و تمدن کے دائرے میں رہتے ہوئے اعلیٰ سے اعلیٰ دینی و دنیاوی تعلیم کے حصول میں پوشیدہ ہے، علم انسان کو با شعور کرتا ہے اور با شعور انسان علم کو عمل کے راستہ پر ڈال کر دنیا و آخرت کی کامیابیاں سمیٹتا ہے۔ علم و شعور انسان کو اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل پیرا ہو کر حاصل ہونے والے فوائد سے آگاہ کرتے ہیں۔ وقت کڑا اور چلینجز زیادہ ہیں۔ مسلم ممالک خاص طور پراسلامی جمہوریہ پاکستان کو جن مشکلات کاسامنا ہے اُن سے نجات پانے کیلئے سب سے پہلے سودی نظام کو ختم کر کے زکواۃ کا نظام رائج کرنا ہو گا، سودکالین دین کرنے والوں کے خلاف اللہ، رسول اللہﷺ کا اعلان جنگ ہے، سودی نظام کی موجودگی میں نہ تو دہشت گردی ختم ہو سکتی ہے اور نہ ہی کرپشن، عدل و انصاف کی فراہمی ممکن ہے اور نہ ہی مہنگائی کنٹرول کی جا سکتی ہے، مختصر یہ کہ کوئی چھوٹاسے چھوٹامسئلہ بھی حل نہیں ہو گا جب تک سودی نظام کوجڑسے اکھاڑ نہ پھینکا جائے، آج حاکم کی جان کوایسے خطرات لاحق ہیں کہ وہ سکیورٹی کیلئے ایک بڑی فوج ساتھ لے کر چلتا ہے اُس کے پاس دولت اتنی زیادہ ہے کہ وہ سنبھال نہیں پا رہا جبکہ دوسری جانب عوام بد سے بد حال ہوتے جا رہے ہیں، صحت، تعلیم اور غذائی ضروریات پورا کرنا نا ممکن ہو چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو دل سے تسلیم کرتے ہوئے ملک سے سودی لین دین کے خاتمہ کے اقدامات کئے بغیر نہ تو حاکم پرسکون زندگی گزارسکتے ہیں اور نہ ہی عوام خوشحال ہو سکتے ہیں۔ بلکہ ہم تویوں کہتے ہیں کہ سودایسی لعنت ہے جس سے چھٹکارا حاصل کئے بغیر ایک سانس بھی نہ لیا جائے، سودی نظام ختم ہو گا تو اللہ رب العزت ہم سے خوش ہو جائے گا اور پھر ہماری دُعاؤں کو بھی قبول فرمائے گا، دُعائیں قبول ہوں گی تو غیب سے مدد بھی آئے گی، غیب سے (اللہ تعالیٰ کی)مدد آئے گی تو ہر مشکل خودبخودآسان ہو جائے گی۔
بینک سے قرض (Loan) بھی عین سود ہے
تمام مکاتبِ فکر کے علماء اس بات پر متفق ہیں کہ عصر حاضر میں بینک سے قرض لینے کا رائج طریقہ اور جمع شدہ رقم پر Interest کی رقم حاصل کرنا یہ سب وہی سود ہے جس کو قرآن کریم میں سورۂ بقرہ کی آیات میں منع کیا گیا ہے، جس کے ترک نہ کرنے والوں کے لیے اللہ اور اس کے رسول کا اعلانِ جنگ ہے اور توبہ نہ کرنے والوں کے لیے قیامت کے دن رسوائی و ذلت ہے اور جہنم ان کا ٹھکانا ہے۔ عصرِ حاضر کی پوری دنیا کے علماء پر مشتمل اہم تنظیم مجمع الفقہ الاسلامی کی اس موضوع پر متعدد میٹنگیں ہو چکی ہیں۔ مگر ہر میٹنگ میں اس کے حرام ہونے کا ہی فیصلہ ہوا ہے۔ برصغیر کے جمہور علماء بھی اس کے حرام ہونے پر متفق ہیں۔ فقہ اکیڈمی، نیو دہلی کی متعدد کانفرنسوں میں اس کے حرام ہونے کا ہی فیصلہ ہوا ہے۔ مصری علماء جو عموماً آزاد خیال سمجھے جاتے ہیں وہ بھی بینک سے موجودہ رائج نظام کے تحت قرض لینے اور جمع شدہ رقم پر Interestکی رقم کے عدمِ جواز پر متفق ہیں۔ پوری دنیا میں کسی بھی مکتبِ فکر کے دارالافتاء نے بینک سے قرض لینے کے رائج طریقہ اور جمع شدہ رقم پر Interest کی رقم کو ذاتی استعمال میں لینے کے جواز کا فتویٰ نہیں دیا ہے۔
عصرِ حاضر میں ہم کیا کریں ؟
(۱) اگر کوئی شخص بینک سے قرض لینے یا جمع شدہ رقم پر سود کے جائز ہونے کو کہے تو پوری دنیا کے علماء کے موقف کو سامنے رکھ کراس سے بچیں۔
(۲) اس بات کو اچھی طرح ذہن میں رکھیں کہ علمائے کرام نے قرآن و حدیث کی روشنی میں بینک سے قرض لینے اور بینک میں جمع شدہ رقم پر Interest کی رقم کے حرام ہونے کا فیصلہ آپ سے دشمنی نکالنے کے لیے نہیں۔ بلکہ آپ کے حق میں کیا ہے۔ کیوں کہ قرآن و حدیث میں سود کو بہت بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے، شراب نوشی، خنزیر کھانے اور زنا کاری کے لیے قرآنِ کریم میں وہ الفاظ استعمال نہیں کیے گئے جو سود کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے استعمال کیے ہیں۔
(۳) جس نبی کے امتی ہونے پر ہم فخر کرتے ہیں، اس نے سود لینے اور دینے والوں پر لعنت فرمائی ہے، نیز شک و شبہ والی چیزوں سے بھی بچنے کی تعلیم دی ہے۔
(۴) بینک سے قرضہ لینے سے بالکل بچیں، دنیاوی ضرورتوں کو بینک سے قرضہ لیے بغیر پورا کریں، کچھ دشواریاں، پریشانیاں آئیں تو اس پر صبر کریں۔
(۵) اگر آپ کی رقم بینک میں جمع ہے تو اس پر جو سود مل رہا ہے، اس کو خود استعمال کیے بغیر عام رفاہی کاموں میں لگا دیں یا ایسے غرباء ومساکین یا یتیم بچوں میں بانٹ دیں جو کمانے سے عاجز ہیں۔
(۶) اگر کوئی شخص ایسے ملک میں ہے، جہاں واقعی سود سے بچنے کی کوئی شکل نہیں ہے، تو اپنی وسعت کے مطابق سودی نظام سے بچیں، ہمیشہ اس سے چھٹکارہ کی فکر رکھیں اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے رہیں۔
(۷) سود کے مال سے نہ بچنے والوں سے درخواست ہے کہ سود کھانا بہت بڑا گناہ ہے، اس لیے کم از کم سود کی رقم کو اپنے ذاتی مصارف میں استعمال نہ کریں۔ بلکہ اس سے حکومت کی جانب سے عائد کردہ انکم ٹیکس ادا کر دیں۔ کیوں کہ بعض مفتیانِ کرام نے سود کی رقم سے انکم ٹیکس ادا کرنے کی اجازت دی ہے۔
(۸) جو حضرات سود کی رقم استعمال کر چکے ہیں وہ پہلی فرصت میں اللہ تعالیٰ سے توبہ کریں اور آئندہ سود کی رقم کا ایک پیسہ بھی نہ کھانے کا عزمِ مصمم کریں اور سود کی ما بقیہ رقم کو فلاحی کاموں میں لگا دیں۔
(۹) اگر کسی کمپنی میں صرف اور صرف سود پر قرضہ دینے کا کاروبار ہے، کوئی دوسرا کام نہیں ہے تو ایسی کمپنی میں ملازمت کرنا جائز نہیں ہے۔ البتہ اگر کسی بینک میں سود پر قرضہ کے علاوہ جائز کام بھی ہوتے ہیں، مثلاً بینک میں رقم جمع کرنا وغیرہ تو ایسے بینک میں ملازمت کرنا حرام نہیں ہے، البتہ بچنا چاہیے۔
(۱۰) اگر کوئی شخص سونے کے پرانے زیورات بیچ کر سونے کے نئے زیورات خریدنا چاہتا ہے، تو اس کو چاہیے کہ دونوں کی الگ الگ قیمت لگوا کر اس پر قبضہ کرے اور قبضہ کرائے، نئے سونے کے بدلے پرانے سونے اور فرق کو دینا جائز نہیں ہے۔ کیوں کہ یہ بھی سود کی ایک شکل ہے۔
ایک اہم نکتہ: دنیا کی بڑی بڑی اقتصادی شخصیات کے مطابق موجودہ سودی نظام سے صرف اور صرف سرمایہ کاروں کو ہی فائدہ پہونچتا ہے، نیز اس میں بے شمار خرابیاں ہیں جس کی وجہ سے پوری دنیا ا ب اسلامی نظام کی طرف مائل ہو رہی ہے۔
نوٹ: بعض مادہ پرست لوگ سود کے جواز کے لیے دلیل دیتے ہیں کہ قرآن میں وارد سود کی حرمت کا تعلق ذاتی ضرورت کے لیے قرض لینے سے ہے۔ لیکن تجارت کی غرض سے سود پر قرض لیا جا سکتا ہے، اسی طرح بعض مادہ پرست لوگ کہتے ہیں کہ قرآن میں جو سود کی حرمت ہے اس سے مراد سود پر سود ہے۔ لیکن Single سود قرآن کے اس حکم میں داخل نہیں ہے، پہلی بات تو یہ ہے کہ قرآن میں کسی شرط کو ذکر کیے بغیر سود کی حرمت کا اعلان کیا گیا ہے تو قرآن کے اس عموم کو مختص کرنے کے لیے قرآن و حدیث کی واضح دلیل درکار ہے، جو قیامت تک پیش نہیں کی جا سکتی۔ اسی لیے خیر القرون سے آج تک کسی بھی مشہور مفسر نے سود کی حرمت والی آیت کی تفسیر اس طرح نہیں کی، نیز قرآن میں سود کی حرمت کے اعلان کے وقت ذاتی اور تجارتی دونوں غرض سے سود لیا جاتا تھا، اسی طرح ایک مرتبہ کا سود یا سود پر سود دونوں رائج تھے، ۱۴۰۰سال سے مفسرین و محدثین و علماء کرام نے دلائل کے ساتھ اسی بات کو تحریر فرمایا ہے۔ یہ معاملہ ایسا ہی ہے، جیسے کوئی کہے کہ قرآنِ کریم میں شراب پینے کی حرمت اس لیے ہے کہ اُس زمانہ میں شراب گندی جگہوں میں بنائی جاتی تھی، آج صفائی ستھرائی کے ساتھ شراب بنائی جاتی ہے، حسین بوتلوں میں اور خوبصورت ہوٹلوں میں ملتی ہے، لہذا یہ حرام نہیں ہے۔ ایسے دنیا پرست لوگوں کو اللہ تعالیٰ ہدایت عطا فرمائے !
فتویٰ
سیدضیائالدین عفی عنہ، شیخ الفقہ جامعہ نظامیہ، بانی و صدر ابو الحسنات اسلامک ریسرچ سنٹر۔ حیدرآباد دکن۔
سود حرام قطعی ہے ، سود کو قرآن کریم نے اتناسنگین گناہ قرار دیا ہے کہ کسی اور گناہ کو اتنا سنگین گناہ قرار نہیں دیا، شراب نوشی، خنزیر کھانا، زناکاری، بدکاری وغیرہ کے لیے قرآن کریم میں ایسی سخت وعید نہیں آئی جو سود کے لیے آئی ہے چنانچہ فرمایا کہ: یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبَا إِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِنَ اللّٰہِ وَرَسُولِہِ- ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سود کا جو حصہ بھی رہ گیا ہو اس کو چھوڑ دو، اگر تمہارے اندر ایمان ہے۔ اگر تم سود کو نہیں چھوڑو گے، تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ سن لو یعنی ان کے لیے اللہ کی طرف سے لڑائی کا اعلان ہے – (سورۃ البقرۃ، 278/279) و نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَاللہ حَلَّ اللَّہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا -ترجمہ: اللہ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام کیا ہے۔ (سورۃ البقرۃ، 275) دوسرے مقام پر ارشاد ہے: الَّذِیْنَ یَاللہ کُلُوْنَ الرِّبَا لَا یَقُومُوْنَ إِلَّا کَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطَانُ مِنَ الْمَسِّ- ترجمہ: جو لوگ سود کھاتے ہیں، وہ قیامت کے روز اُس شخص کی طرح کھڑے ہوں گے جس کو شیطان نے چھو کر مجنون بنا دیا ہو۔ سورۂ آل عمران میں ارشاد ہے: یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تَاْکُلُوا الرِّبَا اَضْعَافًا مُضَاعَفَۃً وَاتَّقُوا اللَّہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ- اے ایمان والو!سود در سود کر کے نہ کھاؤ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ (سور رۃ اٰل عمران130) کئی ایک احادیث شریفہ میں سود کی حرمت پر سخت وعیدیں آئی ہیں بطور نمونہ چند احادیث شریفہ ذکر کی جا رہی ہیں۔ صحیح مسلم شریف اور سنن ابن ماجہ شریف میں حدیث مبارک ہے: عَنْ جَابِرٍ قَالَ لَعَنَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ آکِلَ الرِّبَا وَمُؤْکِلَہُ وَکَاتِبَہُ وَشَاہِدَیْہِ وَقَالَ ہُمْ سَوَاء ٌ- ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے سود کھانے والے، سود دینے والے، سودی دستاویز لکھنے والے اور سود کی گواہی دینے والوں پر لعنت فرمائی ہے، اور ارشاد فرمایا کہ یہ سب لوگ گناہ میں برابر ہیں۔ (صحیح مسلم شریف، کتاب المساقاۃ، باب لعن آکل الربا ومؤکلہ، حدیث نمبر: 2955، سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر2268) مسند امام احمد بن حنبل، سنن دارقطنی، مشکوۃ المصابیح اور زجاجۃ المصابیح میں حدیث پاک ہے: عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ حَنْظَلَۃَ غَسِیلِ الْمَلَائِکَۃِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دِرْہَمٌ رِبًا یَا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ – ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن حنظلہ رضی اللہ عنھما (جن کے والد حضرت حنظلہ غسیل ملائکہ ہیں ) سے روایت ہے، آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: جانتے بوجھتے سود کا ایک درہم کھانا چھتیس مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ سخت ہے۔ (مسند امام احمد، مسند الانصار رضی اللہ عنہم، حدیث نمبر20951) اور امام بیہقی کی شعب الایمان میں ان الفاظ کا اضافہ ہے: من نبت لحمہ من السحت فالنار اولی بہ- ترجمہ: جس کا گوشت حرام غذا سے پرورش پایا ہو وہ جہنم ہی کے زیادہ لائق ہے۔ (شعب الایمان للبیہقی حدیث نمبر5277) ونیز مشکوۃ المصابیح میں حدیث شریف ہے: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم: الربا سبعون۔۔۔۔۔۔۔۔ ترجمہ: حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ سود کے ستر درجے ہیں، اور ان میں سب سے ہلکا درجہ اپنی ماں کے ساتھ بدکاری کرنے کے برابر ہے۔ (مشکوۃ المصابیح، باب الربو، ص246) ہر شخص کو چاہئے کہ مذکورہ بالا آیات قرآنیہ اور احادیث مبارکہ کو پیش نظر رکھے، سود کی لعنت سے محفوظ رہے اور اس سنگین جرم میں کسی اعتبار سے ہرگز شریک و مدد گار نہ بنے۔ واللہ اعلم بالصواب سیدضیائالدین عفی عنہ، شیخ الفقہ جامعہ نظامیہ، بانی وصدر ابو الحسنات اسلامک ریسرچ سنٹر۔ حیدرآباد دکن۔