دروازے کی درز سے روفہ کے آنچل کو دیکھتے عالم اور فضا کی زبانوں کو فقل پڑے تھے ۔۔
روفہ چپ تھی بس سامنے پوری دیوار پر لگے شیشے میں خود کے عکس پوری توجہ سے گھورنے لگی ۔۔
” روفہ بچے ہم آپ کو ۔۔۔۔۔”
” مجھے گھر جانا ہے ماموں میں یہ ہی بتانے آئی تھی ۔۔کافی دن رہ لیئے ہیں نا چلتی ہوں ۔۔پھر کبھی ملاقات ہوتی ہے ۔۔۔”
فضا کی بات کاٹتے ہوئے عالم کو دیکھ کر پرسکون انداز میں بولی فضا قف رنگت لیئے عالم کو دیکھتی نفی میں سر ہلا کر اشارے کرنے لگیں ۔۔۔
” مگر بیٹا جی ایسے کیسے ۔۔۔مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا ۔۔اب آپ یہاں ہی رہو گی ۔۔یہ آپ کا اپنا گھر ہے ۔۔”
” نہیں ماموں یہ میرا گھر نہیں ۔۔پرائی چیزوں پر ملکیت کیسی ۔۔میرا گھر بھاٹی چونک ہے ۔۔آپ کو غلط لگا ہے ۔۔اچھا جی اللہ حافظ مامی جی ۔۔”
بے تاثر لہجے میں وہ بولتی فضا کو تڑپا گئی ۔۔وہ دونوں جانتے تھے وہ سب سن چکی ہے پھر بھی حقیقت ماننے سے انکاری ہے ۔۔۔
” ایسا نا کرو روفہ کیا بیس سال کی سزا کافی نہیں تھی جو ایک بار پھر مجھے چھوڑے جارہی ہو ۔۔میرے سینے سے لگ کر مجھے سکون پہنچا دو ۔۔سگی اولاد ہو تم ہماری ۔۔”
روفہ کی کلائی پکڑ کر فضا شدت سے روئیں ۔۔مگر اس نے ایک جھٹکے سے کلائی چھڑوائی ۔۔۔۔
” اوو مامی جی بس کرو ۔۔کون سی بیٹی کیسی بیٹی ۔۔روفہ صرف سیف اور رمشا کی بیٹی ہے ۔۔میں تو آپ کو جانتی ہی نہیں ہوں ۔۔صرف اماں نے کہا یہ تمہارے ماموں ہیں ۔۔میں نے سر ہلا دیا ۔۔اب آپ بجائے مجھے سے میرے ماں باپ کی مرگ پر افسوس کرنے کے مجھے کہتی ہیں میں آپ کی بیٹی ہوں ۔۔تو مجھے بتاو آنٹی جی یہاں کون سی فلم کی شوٹینگ چل رہی ہے ۔۔۔مجھے واقعی سمجھ نہیں آرہی ۔۔۔”
سینے پر ہاتھ باندھ کر اس کی آواز اونچی ہوگئی تھی ۔۔فودیل آج گھر ہی تھا شور کی آواز سے ڈرائینگ روم سے اپنے دوست کو رخصت کرکے نکلا ۔۔۔۔
” یہ کیا طریقہ ہے بات کرنے کا ۔۔کوئی تمیز تہذیب نہیں ہے آپ کو ۔۔۔”
ماتھے پر سو بل ڈالے روعب جھاڑ کر بولا روفہ نے چہرہ موڑ کر تہذیب کے علمبردار کی جانب نگاہ کی ۔۔
” آپ ہیں کون ۔۔۔میں آپ کو نہیں جانتی ۔۔میرے معاملے سے دور رہیں ۔۔۔”
فودیل کو دیکھ کر ٹھٹھکی ضرور تھی آخر کو وہ تلاش چینل پر چلنے والے “جواب چائیے” ٹاک شو کا اینکر پرسن تھا ۔۔
” ہاں جی ماموں جی اس وقت میرا سر پہلے ہی اماں ابو جی کی وجہ سے سن ہوا پڑا ہے ۔۔مہربانی کرکے کسی کو بھیج کر رکشہ کروا دیں آگے سے سپیڈو بس پکڑ کر میں خود ہی چلی جاوں گی ۔۔”
فودیل میٹھاں بھینجے روفہ کو گھور رہا تھا جو زندگی کا اتنا بڑا سچ جان کر بھی سکون سے بول رہی تھی جانے کس مٹی کی بنی تھی ۔۔۔ ” ڈھیٹ ڈائین نا ہو تو ”
بڑ بڑا کر چاچو چاچی کی طرف دیکھا جو آنکھوں میں امید لیئے روفہ سے رحم کی التجا چہرہ پر سجائے کھڑے تھے ۔
ان تینوں کو دیکھ کر لاونج سے ہوکر دھب دھب کر کے سیڑھیاں چڑھ گئی ۔۔۔مقصد اپنی چادر لانا تھا ۔۔
” عجیب فلمی لوگ ہیں ۔۔تم ہماری بیٹی ہوں بچے ۔مطلب زندگی نا ہوگئی بالی وڈ کی امیتابچن کی فلم ہوگئی ۔۔اچانک سموسے بیچتے بیچتے میں اربوں پتی کی بیٹی نکل آئی ۔”
چادر کی بکل مار کر اپنا پرانا جمعے بازار والا بیگ کندھے پر ڈالتی دروازے کھول کر واپس نکل پڑی ۔۔ وہ روفہ تھی جس کو ہدی سائیکو کیس کہتی تھی ۔۔اتنی آسانی سے تو وہ نا مانتی کہ فضا اور عالم اس کے سگے والدین ہیں اگر تھے بھی تو اب ان کی ضرورت نہیں رہی تھی ۔۔۔
” آپ لوگ ابھی بھی ویسے ہی بت بنے بیٹھے ہیں میں نے رکشہ منگوانے کو بولا تھا ۔۔بھائی آپ ہی کچھ شرم کرکے رکشہ منگوا دو آپ کی پھوپھی کی بیٹی ہوں ۔۔اور کچھ نا سہی یہ ہی کر دو ویسے تو مجھے آپ لوگوں سے اس کی بھی امید نہیں ہے ۔۔”
کڑوے انداز میں بول کر اب باری باری لاونج کے صوفوں پر بیٹھے ان سب کی طرف دیکھنے لگی جس میں ہائیسم کا اضافہ ہو چکا تھا ۔۔۔
” روفہ یہ آپ کا گھر ہے اب آپ یہاں ہی رہو گی ہم سب کے ساتھ ۔۔ویسے بھی اکیلے رہنا سہی نہیں ہے آپ جاکر تھوڑی دیر سو جاو رات میں تسلی سے تفصیلا بات کرتے ہیں ۔۔۔”
ہائیسم نے سمجھا کر بھیجنا چاہا ۔۔۔
” نہیں یہ میرا گھر نہیں ہے ۔۔جس گھر میں رمشا سیف کو آنے کی اجازت نا تھی وہاں ان کی اولاد کا کیا کام ۔۔اور اکیلے رہنے کی بات پر میرا دل تالیاں مارنے کو کیا ہے قسمے ۔۔۔۔پچھلے کافی عرصے سے ہم دو عورتیں اکیلی ہی تھیں سیف جبار کا فالج زدہ وجود نا ہونے کے برابر ہی تھا ۔۔۔میں الحمداللہ اس قابل ہوں کہ اکیلی رہ کر بڑے اچھے انداز میں خود کو پال سکوں ۔۔مزید تقریر پھر کبھی فل حال مجھے جانا ہے ۔۔۔اللہ آپ لوگوں کے پتھر دلوں میں رحم ڈالے ۔۔اللہ کے حوالے ۔۔۔”
کھڑے کھڑے بول کر چادر کو مزید ماتھے پر کھینچ کر پلو ایک ہاتھ میں لپیٹ کر باہر کی جانب رخ موڑا ۔۔۔فودیل اس چھٹانک بھر کی لڑکی کی حاضر جوابی کا قائیل ہوا تھا ۔وہ واقع اس قابل تھی کہ بورڈ ٹاپ کرتی اپنے اعصاب کو قابو کرنے میں اس کو کافی مہارت حاصل تھی ۔۔
” میں کہتی ہوں عالم روک لیں اسے ورنہ بہن کی طرح بیوی پر بھی فاتحہ پڑھنے کو جی کڑا کر لیں ۔۔۔”
” اب بس کرو فضا ۔۔میری بھی اولاد ہے وہ تم میکے سے اس کو نہیں لائی تھی ۔۔اب تم مزید روئی تو میری برداشت جواب دے جائے گی ۔۔”
فضا کو ڈپٹ کر عالم اٹھ کر روفہ کی جانب گئے ہائیسم خود سے
چھ سال چھوٹی بہن کے تیور اور انداز پر جتنا حیران ہوتا اتنا کم تھا وہ عام نا تھی اتنا اس کو اندازہ ہو گیا تھا ۔۔۔
” روفہ عالم ۔۔آپ اس گھر سے کہیں نہیں جائیں گی ۔۔باہر کھڑے گارڈز آپ کو میرے حکم پر جانے نہیں دیں گے بل ڈوگس اور چوکیدار سمیت پہرے داروں کو پہلے ہی میں ہوشیار رہنے کو کہہ چکا ہوں ۔۔اس لیے یا تو میری بات تحمل سے سن لو یا پھر اپنے کمرے میں واپس جاو ۔۔۔”
روفہ حیرت سے مڑی ۔۔عالم کے انداز میں لچک کی گنجائیش نا تھی اس نے بھی مزید بحث کا ارادہ ترک کیئے بات سن کر جانا زیادہ بہتر سمجھا وہ بھی اس کے ہی والد تھے ۔۔۔
” ہائیسم کے چھ سال کے ہونے کے بعد جب ہمیں پتا چلا کہ تم آنے والی ہو تو یقین جانو جتنا میں نے شکر کیا شاید ہی کسی باپ نے کیا ہو گا ۔۔۔ہم تو امید ہی چھوڑ چکے تھے بس ہائیسم کے ساتھ ہی خو کو مصروف کر لیا ۔۔فضا نے بہت بڑا میلاد کروایا میں نے اپنی سیاسی پارٹی دفتر اپنے گاوں میں دیگیں بٹوائیں تھیں ۔۔ہم خود کو بڑا خوش قسمت سمجھنے لگے تھے ۔۔مگر اس خوش بختی کا دورانیہ زیادہ نا ہوا ۔۔تمہاری پھوپھو میری اکلوتی بہن رمشا جو دس سال سے بے اولاد تھی سوالی بن کر میرے دروازے پر آکھڑی ہوئی ۔۔میں نے اس کو صاف انکار کر دیا ۔۔کیسے اپنے جگر کے ٹوٹے کو الگ کرتا ۔۔۔اپنا انگلیوں سے ناخن اکھاڑ کر پھینکا جاسکتا ہے ۔۔
وہ پنجابی کی کہاوت ہے نا
“” ٹڈ نالوں گوڈے اگے نہیں ہوندے ۔۔”
مگر میں کیا کرتا سیف بھی آگیا ۔۔ماضی میں میری بہن سے ایک غلطی ہوئی تھی جس کی وجہ سے ابا جی نے اس کا داخلہ اس گھر میں بند کیا ہوا تھا ۔۔تبھی مجھے اللہ رسول کے واسطے کے دے کر جھولی پھیلا کر تمہیں مانگنے لگی ۔تا کہ اس گھر میں داخلے کے ساتھ ساتھ صاحب اولاد بھی ہو سکے ۔۔میں تب بھی نا مانا روفہ بچے ۔۔۔مگر وہ نمانی سر سے چارد اتار کر میرے قدموں میں رکھ کر کہنے لگی بھائی جی جانتی ہوں آج بےجان گڑیا کی نہیں جیتی جاگتی گڑیا کی فرمائیش کر بیٹھی ہوں ۔۔مگر مجھے امید ہے آپ انکار نا کرو گے ورنہ کل مجھ پر مٹی ڈالنے آجانا ۔۔۔
میں ڈر گیا تھا ۔۔وہ ضد کی بڑی پکی تھی ایک دفعہ پہلے بھی خود کشی کی کوشش کر چکی تھی ۔۔۔اس لیے فضا کی ہر التجا بین سے آنکھیں چرا کر اس کی گود اجاڑ کر بہن کی گود بھر دی ۔۔۔
ابا جی نے تو تب بھی اس کو معاف نا کیا بالکہ مجھ سے بھی ناراض ہوکر اس دنیا سے ہی چلے گئے ۔۔اس کے بعد وہ دنیا کے کس کونے میں چھپ گئی مجھے خبر نا ہوئی ۔۔بہت ڈھونڈا میں نے پھر مجھے پتا چلا کہ وہ کراچی میں ہے میں جب تک وہاں گیا وہ دونوں تمہیں لے کر وہاں سے بھی فرار ہو گئے تھے ۔۔میں نے پاکستان کا شاید ہی کوئی شہر چھوڑا ہوگا جہاں تم لوگوں کو ڈھونڈا نا ہو ۔۔
پھر ایک سال پہلے ہی خبر آئی کہ وہ تمہیں لے کر یہاں لاہور اپنے گھر واپس آگئی ہے قسم کھالوں تو شاید تمہیں یقین آجائے میں نے ہر ممکن کوشش کی رمشا کو منانے کی مگر وہ ہمیں تم سے ملنے ہی نا دیتی تھی نا تمہیں حقیقت بتانے کو تیار تھی ۔۔محلے کے نکڑ پر سبزی کی دکان پر میں نے اپنا نمبر دیا ہوا تھا رمشا اور سیف کے ایکسیڈنٹ کی خبر مجھے شوکت سبزی والے نے دی تھی ۔۔۔اب تم بتاو کیا صرف تمہارے ساتھ ناانصافی ہوئی ۔۔آپ کو تو بچے ماں باپ ملے تھے مگر ہم تو آپ کی محبت سے ہی بیس سال تک محروم رہے رہیں اب اگر آپ یہاں سے جاو گی تو یہ ہماری ساتھ زیادتی نا ہوگی ۔۔۔”
روفہ نے کب سے رکی ہوئی سانس کو بحال کیا جیسے بڑے لمبے سفر سے واپس آئی ہو ۔۔عالم پشیمان سے اس کو یک ٹک دیکھے گئے ۔۔۔فودیل اور ہائیسم سب پہلے سے جانتے تھے اچانک فضا کے ہچکیوں سے رونے پر وہ چونکی ۔۔۔
” اگر آپ اپنی بہن کی غلطی کو معاف کر دیتے تو شاید مجھے قربان نا کرنا پڑتا ۔۔۔
آپ کی بہن کو اس گھر کے مالی کے بیٹے سے محبت ہوئی اس میں کوئی اتنا بڑا گناہ نا تھا جتنا آپ کے والد صاحب نے سمجھ لیا بالکہ میرے اپنے خونی والد صاحب نے بھی سمجھ لیا ۔۔۔
عزت رکھنے کو تو شادی کروادی آپ لوگوں نے اماں اور ابوجی کو مگر عزت نا دی جس کے وہ دونوں حق دار تھے ۔۔۔اور آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ میرے نانا یا دادا جو بھی وہ تھے انہوں نے ابو جی کو نوکری سے نکلوایا اور اس دن ہی صدمے کے باعث فالح کا اٹیک آیا تھا ابو جی کو ۔۔۔۔
اور جہاں تک بات ہے زیادتی کی تو آپ کی بہن تو دس سال سے بے اولاد تھی نا اپنے سپوت کو کیوں نا جھولی میں ڈال دیا آپ لوگوں نے ۔۔بیٹے کی قربانی دیتے نا جلیس تو چلو آپ کی سگی اولاد نہیں مگر ہائیسم تو ہے نا ۔۔میں بھی آج آپ کے بیٹے کی جگہ بیٹھ کر سینہ ٹھونک کر کہتی بھئی میرے بابا حضور نے سچ میں قربانی کی بہترین مثال قائم کی ہے ۔۔۔
مگر اب مجھے اس بات سے فرق ہی نہیں پڑ رہا کہ آپ لوگ میرے کچھ لگتے ہیں صرف افسوس ہورہا ہے ۔ مگر میری تربیت میں یہ بھی نہیں کہ آپ سے بدلحاظی کرجاوں ۔۔۔”
فودیل اور ہائیسم کو رمشا والی بات کا نا پتا تھا تبھی کنگ سے عالم کو دیکھنے لگے جو چہرہ جھکائے فضا کے پیر کے انگوٹھے میں جانے کیا کھوج رہے تھے ۔۔۔
” کاش کے میں اپنا سینہ چیر کر آپ کو دکھا سکتا روفہ عالم تو شاید اتنے بڑے بول آپ نا بولتیں ۔۔تم میری وہ بیٹی ہو جس پر میں ہائیسم جیسے سو بیٹے وار دوں ۔۔۔مگر اب غلطی کی ہے نا تو بھگتنی تو پڑے گی ۔۔ساری زندگی اس بات کی شکایت کرتی رہنا میرے بچے مگر اپنی ماں اور باپ کو چھوڑ کر مت جانا ۔۔۔”
عالم کے ہاتھ جوڑ کر کہنے پر روفہ دھک سے رہ گئی ۔۔اس سے پہلے کہ وہ اٹھ کر ان کے ہاتھ پکڑ کر منع کرتی فضا بے ہوش ہوکر ایک طرف کو ڈھلک گئیں تھیں ۔
وہ چاروں لاونج کے صوفوں پر جمے روفہ کو ناخن کترتے ہوئے بڑے غور سے دیکھ رہے تھے ۔۔جس کی نظریں اپنے ہلتے پاوں پر تھیں جب کہ دماغ میں ایک الگ کھچڑی پک رہی تھی ۔۔فضا کا بی پی کافی حد تک لو ہوچکا تھا وہ ہارٹ پیشینٹ بھی تھیں یہ بات اس نے ڈاکٹر کے منہ سے ہی سنی تھی ۔۔اب ایک بات تو طے تھی اپنے تربیتی والدین کھونے کے بعد حقیقی والدین وہ کھونا نہیں چاہتی تھی ۔۔
” کیا ملا محترمہ آپ کو یہ ٹینشن پھیلا کے ۔۔۔” فودیل نے کہا۔۔۔
” دلی سکون ۔۔۔”
فودیل کی ناگواری کا جواب تحمل سے دیا ۔۔اس وقت اس کی آنکھیں کافی سرخ ہورہی تھیں ساتھ میں درد سے سوجھ بھی گئی تھیں ۔۔۔
” بھائی آپ کیوں اس سے بات کررہے ہیں ۔۔اس کو تو بات کرنے کی تمیز ہی نہیں ہے جاہل نا ہو تو ۔۔۔”
ہائیسم کو ترتیل کی بات دل میں چبھی تھی ۔۔اگر وہ محبت تھی تو روفہ اس کی اکلوتی بہن تھی ۔۔روفہ نے ترتیل کو داد دیتی نظروں سے دیکھا ۔۔۔
” بہن رزا یہ تو بتاو۔۔۔تمہارے میٹرک میں گیارہ سو میں سے نمبر کتنے تھے ۔۔”
ترتیل نے الجھ کر اس کو دیکھا ۔۔۔
” رزا بتانا اس کے نمبر کتنے تھے ۔۔”
جلیس سے چہرہ موڑ کر پوچھا ۔۔وہ جیسے یاد کرنے لگا ۔۔۔
” 845 تھے ۔۔کیوں کیا ہوا ۔۔خیریت ”
جواب فودیل نے دیا تھا ۔۔روفہ نے ٹانگ پر ٹانگ چڑھائی ۔۔
” میرے 1083 تھے اب تم خود ہی حساب کتاب لگا لو کون کتنا جاہل ہے اور کتنا عقلمند ۔۔۔اور ہاں ایک آخری بات تم سے ایک سال چار ماہ بڑی ہوں تو بہتر ہے آج کے بعد میں تمہارے سے منہ سے تم نا سنوں آپی کہوں گی مجھے ۔۔دوبارہ یاد نا دلانا پڑے ۔۔”
دل جلی مسکراہٹ اچھالتی عالم کے کمرے میں چلی گی ۔۔جلیس نے بڑی مشکل سے قہقہہ روکا تھا ۔۔ہائیسم فخر سے اس کو جاتا ہوا دیکھنے لگا ۔۔
“She insulted me bhai and you not said even a single word towards her … ”
وہ خفگی سے بولی۔۔۔
” ترتیل جی شروعات آپ نے کی تھی میرے خیال سے اور اس میں اتنا برا منانے والی کیا بات ہے روفہ نے کوئی بدتمیزی تو نہیں کی نا ہی سخت الفاظ بولے ہیں ۔۔”
ترتیل کے فودیل کو شکایت کرنے پر جلیس نے طنز کیا ۔۔ فودیل کی نگاہیں اس راستے پر تھیں جہاں سے وہ گئی تھی ۔۔۔۔
آنسو ضبط کرتے ترتیل اپنے کمرے میں چلی گئی ۔۔۔ورنہ جلیس کے منہ سے ایسے الفاظ ہمیشہ سے اس کو تکلیف دیتے تھے ۔۔۔مگر وہ بھی ہائیسم کی گھوریوں کی پرواہ کیے بنا دھڑلے سے بول جاتا تھا
” اندر آسکتی ہوں ۔۔۔” دروازے پر رک کر عالم سے اجازت مانگی ۔۔۔
” آو میرے بچے اس میں پوچھنے کی کیا بات ہے سو بسم اللہ آو بیٹھو یہاں میرے پاس ۔۔۔”
فضا کے بالوں سے ہاتھ ہٹا کر اپنے قریب ہی بیڈ پر اس کی جگہ بنائی ۔۔آج وہ کتنے پر سکون تھے یہ بیان سے باہر تھا ۔۔۔
” میرا مقصد آپ لوگوں کو تکلیف دینا نہیں تھا ۔۔۔مگر اس وقت جذبات میں جو منہ میں آیا بول دیا ۔۔مگر میں آپ کو بتا دوں کہ جتنا بڑا جھٹکا آپ لوگوں نے مجھے دیا ہے اس کو قبول کرنے میں کچھ وقت لگے گا مجھے۔۔۔اب اس کی مقدار کتنی ہو گی یہ میں بھی نہیں جانتی ۔زندگی اور حالات کی تلخیوں نے مجھے وقت سے پہلے بڑا کردیا اس لیے اس سب کو قبول کرنے کی کوشش کر رہی ہوں امید ہے آپ بھی مجھے سمجھیں گے ۔۔”
عالم شفقت سے مسکرا دئیے ۔۔رمشا کی تربیت بلاشبہ لاجواب تھی ۔۔۔
” میرے بیٹے کو جتنا وقت لینا ہے لے لو ۔۔مگر شرط یہ ہی کہ یہاں سے نہیں جاو گی آپ ۔۔۔باقی آپ بہت سمجھدار ہوں اتنا مجھے اندازہ ہوگیا ہے ۔۔یہ آنکھیں کیوں اتنی سرخ ہوگئی ہیں آپ کی کیا روئی ہو آپ بچے ۔۔۔؟؟؟”
ارےے نہیں ما۔۔۔۔میرا مطلب ہے بابا ۔۔مجھے PBA ہے بچپن سے جس میں انسان اپنی منشا پر رونے سے محرومی کا شکار ہو جاتا ہے ۔۔اور جب رونے کو جی کرتا ہے تو آنکھین سرخ ہوجاتی ہیں ۔۔۔میرا علاج چل رہا ہے آپ پریشان مت ہوں۔”
عالم کی فکرمندی پر مسکرا کر تسلی دینے لگی ۔۔۔کچھ مزید یہاں وہاں کی باتوں کے بعد اپنے کمرے میں چلی گئی ۔۔
اس دوران خود پر قابو پاکر بڑے حوصلے سے عالم کے سوالوں کا جواب دیتی رہی تھی حقیقت قبول کرنا اتنا آسان نا تھا ۔۔مگر سچ تو یہ تھا وہ دوبارہ اپنے ماں باپ کو کھونے سے ڈر گئی تھی ۔۔اگر فضا کی حالت خراب نا ہوتی تو شاید وہ کب کی وہاں سے چلی جاتی ۔۔مگر اب اسے وہاں ہی رہنا جہاں اس کا اصل تھا ۔۔۔اس کے خونی رشتے تھے ۔۔۔۔مختلف خیالات کو جھٹکتی سیڑھاں چڑنے لگی ۔۔