منہ ایک گیلی جگہ ہے۔ اور اس کی وجہ اس میں پائے جانے والے بارہ غدود ہیں جو تھوک پیدا کرتے ہیں۔ ایک عام بالغ فرد دن میں ڈیڑھ لٹر پیدا کرتا ہے۔ اور ایک حساب کے مطابق ایک شخص زندگی میں 32000 لٹر۔ یہ پرانی بات نہیں جب معلوم ہوا کہ تھوک میں ایک بڑا طاقتور پین کِلر بھی شامل ہے جو اوپیورفین ہے۔ یہ مارفین سے چھ گنا زیادہ طاقتور ہے لیکن یہ بہت کم مقدار میں ہے، اس لئے ہم ہر وقت نشے میں نہیں رہتے یا اگر کھاتے وقت اپنا گال کاٹ لیں یا گرم شے سے زبان جلا بیٹھیں تو تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ اتنا کم ہے کہ کسی کو معلوم نہیں کہ یہ ہے ہی کیوں اور 2006 سے پہلے کسی نے اس کو نوٹس بھی نہیں کیا تھا۔
تھوک زیادہ تر پانی ہے۔ صرف نصف فیصد ہی کچھ اور ہے۔ اور یہ نصف فیصد کئی بڑی مفید انزائم سے بھرا ہوا ہے۔ یہ پروٹین کیمیکل ری ایکشن تیز کر دیتی ہیں۔ ان میں امائلیز اور ٹائلین شامل ہیں جو ہمارے منہ میں ہی کاربوہائیڈریٹ کے شوگر توڑنا شروع کر دیتے ہیں۔
نشاسے والی کسی شے جیسا کہ روٹی یا آلو کو منہ میں کچھ زیادہ دیر رکھیں تو آپ کو ان میں مٹھاس محسوس ہو گی۔ بدقسمتی سے، یہ مٹھاس ہمارے منہ کے بیکٹیریا کو بھی مرغوب ہے۔ وہ ان آزاد ہو جانے والے شوگر پر ضیافت اڑاتے ہیں۔ اور تیزاب خارج کرتے ہیں جو ہمارے دانتوں میں سوراخ کر کے ان میں کیویٹی پیدا کرتا ہے۔ کچھ دوسرے انزائم، جیسا کہ لائسوزوم، ضرر رساں جراثیم پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ (لیکن بدقسمتی سے ان پر نہیں جو دانت میں کیڑے کا باعث بنتے ہیں)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب ہم سوتے ہیں تو بہت کم تھوک پیدا ہوتی ہے۔ اور یہ وجہ ہے کہ جراثیم کو کھل کھیلنے کا موقع ملتا ہے اور جب ہم اٹھتے ہیں تو یہ منہ کی بدبو کی وجہ ہے۔ اور اسی وجہ سے سونے سے پہلے دانت صاف کرنا اچھی عادت ہے کیونکہ سوتے وقت پہلے منہ میں کم جراثیم کی آبادی رہتی ہے۔
صبح منہ کی بو میں 150 مختلف کیمیکل مرکبات شامل ہوتے ہیں۔ ان میں میتھائل مرکاپٹن (جس کی بو بہت پرانی گوبھی کی طرح ہے)، ہائیڈروجن سلفائیڈ ( جس کی بو بسے ہوئے انڈوں جیسی ہے)، ڈائی میتھائیل سلفائیڈ (سمندری گھاس کی طرح)، ڈائی اور ٹرائی میتھائل امائن (مچھلی جیسی) اور کیڈاورین (لاش جیسی) بو رکھتے ہیں۔
پروفیسر جوزف ایپلٹن نے 1920 کی دہائی میں منہ کے بیکٹیریا کی کالونیوں کو پہلی بار سٹڈی کیا۔ اور دریافت کیا کہ جراثیم کی نظر سے زبان، دانت اور مسوڑھے الگ براعظم ہیں جن میں بالکل مختلف طرز کی آبادیایں ہیں۔ اور دانت میں بھی، اس حصے پر جو سامنے ہے اور اس پر جو مسوڑھے کے اندر ہے، آبادیوں میں بڑا فرق ہے۔ منہ میں بیکٹیریا کی لگ بھگ ایک ہزار انواع مل چکی ہیں۔ اگرچہ اس وقت آپ کے منہ میں شاید دو سو سے زیادہ نہیں ہوں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منہ نہ صرف جراثیم کو خوش آمدید کہتا ہے بلکہ ان کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی کا اچھا ذریعہ بھی ہے۔ خوراک کی سائنس کے ماہر پال ڈاوسن نے ایک تحقیق سالگرہ کے کیک پر کی۔ ان کی ٹیم نے معلوم کیا کہ سالگرہ کے کیک پر لگی موم بتیاں بجھانے کے لئے ماری گئی پھونکوں سے کیک پر بیکٹیریا کی کوریج میں چودہ گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ سننے میں بہت خوفناک لگے لیکن ہم عام زندگی میں اس قسم کے ایکسپوژر کا سامنا روزانہ کرتے ہی رہتے ہیں۔ دنیا میں بہت سے جراثیم ہر جگہ اور ہر سطح پر ہیں۔ اور ہر چیز جو ہم منہ میں ڈالتے ہیں یا پھر جسے چھوتے ہیں، ان کو ہم تک لاتی رہتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منہ کے سب سے زیادہ جانے والے اجزا دانت اور زبان ہیں۔ ہماری دانت بڑی ہی شاندار تخلیق ہیں۔ یہ تین قسم کے ہیں۔ بلیڈ (نوکیلے دانت)، کسپ (اوپر سے چپٹے) اور بیسن (جو دونوں کے بیچ میں ہیں)۔ دانت کے باہر والا حصہ اینامل ہے۔ یہ ہمارے پورے جسم کا سخت ترین مادہ ہے۔ لیکن یہ بڑی باریک سے تہہ ہے اور ایک بار اسے نقصان پہنچ جائے تو یہ واپس نہیں آ سکتا۔ اس وجہ ہمیں کیویٹی کے لئے دانتوں کے ڈاکٹر کے پاس جانا پڑتا ہے۔ اینامل کے نیچے ایک اور معدنی ٹشو کی موٹی تہہ ڈینٹن ہے جو خود کو تازہ کر سکتی ہے۔ اور اس کے درمیان میں گوشت والا مادہ ہے جس میں اعصاب اور خون کی سپلائی ہے۔ اور چونکہ دانت اتنے سخت ہیں، اس لئے یہ ریڈی میڈ فوسل ہیں۔ جب آپ کے جسم کی ہر شے مٹی بن جائے گی تو شاید آپ کے جسم کی آخری فزیکل باقیات آپ کی داڑھ کا فوسل ہو۔
آپ کے دانتوں کی ایک bite بڑی طاقت رکھتی ہے۔ ایک شخص کی اوسط فورس 400 نیوٹن ہو سکتی ہے جو کہ بڑی قوت ہے۔ (اگرچہ اورنگاٹن کے دانتوں کے مقابلے میں یہ صرف پانچواں حصہ ہے)۔ آپ ایک برف کا کیوب چبا لیتے ہیں۔ اس کو اپنے ہاتھ سے توڑنے کی کوشش کریں تو اندازہ ہو جائے گا کہ یہ اتنا آسان کام نہیں۔ جبکہ جبڑوں کے درمیان تھوڑی سی جگہ کے پانچ مسلز یہ کام کر دکھاتے ہیں۔ یہ تجربہ دکھا دیتا ہے کہ ہمارے منہ کی قوت کتنی متاثر کن ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...