(Last Updated On: )
تھی تو خاموش مگر بول رہی تھی مجھ سے
تیرے چہرے پہ تاثر کی کمی تھی مجھ سے
پچھلی شب جس سے لگی آگ گھنے جنگل میں
مجھ کو اندیشہ ہے وہ چیخ اٹھی تھی مجھ سے
کل ہوا میں بھی پسینہ کی ترے خوشبو تھی
تیری آواز میں شب بول رہی تھی مجھ سے
اب مرے شہر گذشتہ میں ہے رائج کہ نہیں
اجنبی نعروں کی بو رسم چلی تھی مجھ سے
جسم سے اٹھتی تھی صندل کی رو پہلی خوشبو
رات اس طرح سے تنہائی ملی تھی مجھ سے
لب کہ دہکے ہوئے تھے پیاس سے پھولوں کی طرح
فاحشہ تھی شبِ غم لپٹی ہوئی تھی مجھ سے
زخم کی تاب نہ لا کر ہوئے اسلمؔ جو شہید
صبر کی شرطِ وفا ٹوٹ گئی تھی مجھ سے
٭٭٭