بھونپو بجا۔ آواز گونجی۔ بچوں کی بھیڑ لگ گئی۔
’’آج کون سی کہانی سنائیں گے انکل؟‘‘
’’جانروں کی کہانی تمہیں زیادہ پسند ہے نا؟‘‘
’’ہاں انکل! جانوروں کی کہانی ہمیں بہت اچھی لگتی ہے۔‘‘
’’تو آج بھی میں تمہیں جانوروں کی کہانی سناؤں گا مگر کہانی سنانے سے پہلے میں یہ جاننا چاہوں گا کہ پچھلی کہانی تمہیں کیسے لگی؟‘‘
’’کون سی کہانی انکل؟‘‘
’’وہی جس میں بہت سارے جانور تھے۔‘‘
’’اچھا، وہ جس میں بھیڑوں نے اپنی چال بدل لی تھی۔‘‘
’’ہاں، وہی۔‘‘
’’وہ تو مجھے بہت اچھی لگی۔‘‘
’’مجھے بھی بہت تھرلنگ لگی۔‘‘
’’مُدے بی بلی اتھّی لدی انتل۔‘‘
’’کیا تم بتاؤ گے کہ وہ تمہیں کیوں اچھی لگی!‘‘
’’میں بتاؤں انکل!‘‘
’’ہاں، ہاں، بتاؤ!‘‘
’’اس لیے اچھی لگی کہ اس کو سن کر بڑا مزا آیا۔‘‘
’’میں بھی بتاؤ کہانی انکل!‘‘
’’ہاں، بتاؤ۔‘‘
’’مجھے نا، اس کہانی سے خوب سارے جانوروں کا پتہ چلا۔‘‘
’’مجھے تو گیدڑوں کا ہواں ہواں کرنا اور بندروں کا بھیڑوں کی پیٹھ پر دھم دھم کودنا اچھا لگا۔‘‘
’’تم بتاؤ کامران!‘‘ اس نے ایک لڑکے کو مخاطب کیا جو کافی سنجیدہ دکھائی دے رہا تھا۔
’’مجھے بھی مزا آیا مگر بے چاری بھیڑوں کا مرنا مجھے اچھا نہیں لگا—انکل! میں بھی آپ سے آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’پوچھو۔‘‘
’’کیا آپ جنگل میں گئے ہیں؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’پھر آپ نے اتنے سارے جانور کہاں دیکھے ہیں؟‘‘
’’چڑیا گھر میں دیکھا ہو گا۔ ہی ہی ہی … ایک بچہ جواب دے کر ہنسنے لگا۔ اُس کے اِس جواب پر کئی دوسرے بچے بھی کھلکھلا پڑے۔
’’کہانی انکل کے ہونٹوں پر چپّی چڑھ گئی۔ وہ سنجیدہ ہو گیا۔
آج کس جانور کی کہانی سنائیں گے انکل؟‘‘
’’سانڈ کی۔‘‘ خاموشی ٹوٹ گئی۔
’’سانڈ کیسا ہوتا ہے انکل؟‘‘
سانڈ بیل جیسا ہوتا ہے مگر بیل سے کافی بڑا، اونچا، لمبا، چوڑا اور موٹا تگڑا بھی، موٹاپے کی وجہ سے اس کے جسم پر جگہ جگہ گوشت کے لٹکے ہوئے لوتھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ بہت خطرناک ہوتا ہے اور چلتا ہے تو لگتا ہے کہ آندھی اٹھ رہی ہو۔ بیل کی طرح وہ بھی گائے ہی کا بچھڑا ہوتا ہے مگر لوگ اسے سانڈ بنا دیتے ہیں۔
’’بچھڑے کو سانڈ کس طرح بناتے ہیں انکل؟‘‘ اور یہ بھی بتائیے انکل کہ اسے سانڈ کیوں بناتے ہیں؟‘‘
’’بتاؤں گا مگرا بھی نہیں۔ پہلے کہانی۔‘‘
’’ہاں انکل! پہلے کہانی‘‘ بہت سی آوازیں ایک ساتھ گونج اٹھیں۔
ایک بار ایک گاؤں میں ہنگامہ برپا ہوا۔ چاروں طرف کھلبلی مچ گئی۔ گلی گلی میں چیخ و پکار کی صدائیں گونجنے لگیں۔ چپہ چپہ دہل اٹھا۔ مارے خوف کے لوگ اِدھر اُدھر بھاگنے لگے۔ اس گاؤں کے ایک بوڑھے نے اپنے برآمدے سے بھاگنے والوں کو پکارتے ہوئے پوچھا:
’’یہ کیسی بھگدڑ مچی ہے بھائی؟‘‘
ایک نوجوان نے رک کر ہانپتے ہوئے جواب دیا:
’’چاچا! گاؤں میں آج سانڈ پھر گھس آیا ہے۔‘‘
چونکتے ہوئے بوڑھا بولا:
’’کیا کہا؟ سانڈ پھر گھس آیا ہے؟‘‘ بھوڑے کی سفید لمبی داڑھی اوپر سے نیچے تک ہل اٹھی۔
’’ہاں، چاچا! پھر گھس آیا ہے اور آج تو اس نے ایسی تباہی مچائی ہے کہ پوچھیے مت— نتھو کی بچھیا کو خراب کر دیا۔ چھیدی کے بچھڑے کو سینگ مار دیا۔ بھولو کے بیل کو مار مار کر لہولہان کر دیا۔ بندیا کی جھونپڑی کو روند ڈالا۔ کالو کے مویشیوں کے چارے سے پانی کے برتنوں کو توڑ دیا۔ مدّھوں اور اچھن کی سبزیوں کو نوچ سبزیوں کو نوچ کھسوٹ کر ملیامیٹ کر دیا۔ اب بھی بورایا ہوا اینڈتا پھر رہا ہے۔ نہ جانے اور کیا کیا کرے گا؟ کس کس پر قیامت ڈھائے گا؟‘‘
بوڑھا اپنی بستی کی تباہی و بربادی کا حال سن کر دکھی لہجے میں بولا:
’’تم لوگ دھام پور والوں سے کہتے کیوں نہیں کہ وہ اپنے سانڈ کو روکیں۔ ادھر نہ آنے دیں۔‘‘
’’کہا تھا، گاؤں کے بہت سے لوگوں نے مل کر کہا تھا۔ ان کو بتایا تھا کہ ان کے گاؤں کا سانڈ ہمارا کتنا نقصان کر رہا ہے۔ مگر جانتے ہیں اُنھوں نے کیا جواب دیا۔‘‘
’’کیا جواب دیا؟‘‘ بوڑھے نے بے چین ہو کر پوچھا۔
’’اُنھوں نے یہ جواب دیا کہ بھلا سانڈ کو بھی کہیں روک کر رکھا جا سکتا ہے۔ سانڈ تو دیوی دیوتا کا پرساد ہوتا ہے۔ اسے بھگوان کے نام پر چھوڑ ا جاتا ہے اور بھگوان کے نام کا سانڈ بھگوان کی بنائی ہوئی اس دنیا میں کہیں بھی بنا روک ٹوک جا سکتا ہے۔ بھگوان ہی کی طرح اس کا بھی سب پہ حق ہے۔ سب میں اس کا حصہ ہے۔ وہ جو چاہے کھا سکتا ہے۔ اسے روک کر اپنے کو بھگوان کی نظروں میں دوشی اور نرک کا بھو گی بنانا ہے کیا——؟چاچا! میری سمجھ میں نہیں آیا کہ دھام پور کے لوگوں نے ایسا کیوں کہا؟ کیا سچ مچ سانڈ بھگوان کے نام پر چھوڑا جاتا ہے؟‘‘ ‘
’’ہاں بیٹے! بات تو سچ ہے۔ لوگ اپنی کسی مراد کو پانے کے لیے بھگوان یا دیوی دیوتا سے منت مانتے ہیں کہ اگر ان کی مراد پوری ہو گئی تو وہ بھگوان یا دیوی دیوتا کے نام کا کوئی سانڈ چھوڑ دیں گے اور اپنی گائے کے بچھڑے کو یا کسی دوسری گائے کے بچھڑے کو خرید کر آزاد چھوڑ دیتے ہیں۔ چھوڑنے سے پہلے اس بچھڑے کو خوب مل مل کر نہلاتے ہیں۔ اس کے گلے میں پھولوں کا ہار ڈالتے ہیں۔ گاؤں والوں کو ایک جگہ جمع کر کے پوجا پاٹ کرتے ہیں اور سب کے سامنے بچھڑے کے جسم یا ماتھے پر بھگوان یا دیوی، دیوتا کا کوئی پکّا نشان بنا دیتے ہیں۔ اس کے بعد وہ بچھڑے کو کھونٹے سے کھول کر آزاد کر دیتے ہیں۔
چونکہ وہ بھگوان کے نام پر چھوڑا جاتا ہے۔ اس لیے اس کے کھانے پینے اور گھومنے پھرنے میں کوئی کسی طرح کی رکاوٹ نہیں ڈالتا اور وہ آزادی اور بے فکری سے خوب کھا پی کر بہت جلد بچھڑے سے سانڈ بن جاتا ہے۔‘‘
’’پھر تو دھام پور والوں نے ٹھیک ہی کہا تھا چاچا؟‘‘
’’ٹھیک تو کہا تھا، مگر یہ بھی تو ٹھیک ہے کہ کوئی اپنی بربادی کو چپ چاپ نہیں دیکھ سکتا۔ اپنے بچاؤ کے لیے اسے بھی تو کچھ کرنا ہی پڑتا ہے۔‘‘
’’تواب ہمیں کیا کرنا چاہیے چاچا؟‘‘
’’تم لوگ کانجی ہاؤس کے افسروں سے ملو۔ گاؤں کا حال بتاؤ۔ اور ان سے کہو کہ وہ دھام پور گاؤں کے سانڈ سے ہمارے گاؤں کو تباہ ہونے سے بچائیں۔ ان سے یہ بھی کہو کہ یہ سانڈ پاگل ہو گیا ہے۔ اس لیے اسے جلد سے جلد کانجی ہاؤس میں بند کر دیا جائے۔ ورنہ ہمارے گاؤں کے ساتھ ساتھ دوسرے گاؤں کو بھی روند ڈالے گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے چاچا! میں آج ہی گاؤں والوں کو تیار کرتا ہوں۔‘‘
سورج پور والے اپنی تباہی کی خبر اور سانڈ کی شکایت لے کر کانجی ہاؤس پہنچے۔
کانجی ہاؤس کے افسرِ اعلیٰ نے ان کا دکھڑا سن کر کہا۔
’’آپ لوگوں کی تکلیف سن کر ہمیں بہت دُکھ ہوا۔ مگر افسوس کہ اس سلسلے میں ہم آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتے۔‘‘
’’کیوں صاحب؟‘‘ گاؤں والے اس کی طرف دیکھنے لگے۔
’’اس لیے کہ اس کانجی ہاؤس میں لا وارث سانڈ کو بند کرنے کا چلن نہیں ہے۔ یہاں تو ایسے جانوروں کو بند کیا جاتا ہے جن کا کوئی نہ کوئی وارث ہوتا ہے۔ جو کچھ دنوں کے اندر اندر اپنے جانوروں کو جرمانہ بھر کر چھڑا کر لے جاتا ہے۔ اگر ہم ایسے جانوروں کو باندھ کر رکھنے لگے تو کچھ دنوں میں یہ ہاؤس ہی بند ہو جائے گا۔‘‘ اس نے نہایت ہی نرم لہجے میں جواب دیا۔
افسر کا جواب سن کر گاؤں والے گڑگڑا کر بولے ‘
’’صاحب! کچھ کیجیے۔‘‘ ورنہ ہمارا تو ستیا ناس ہو جائے گا۔ ہم کنگال ہو جائیں گے۔‘‘
افسر نے انہیں سمجھاتے ہوئے پھر کہا۔
’’ہم مجبور ہیں۔ ہم ایسے جانور کو کانجی ہاؤس میں بالکل نہیں رکھتے۔ آپ لوگوں کو میری بات پر شاید یقین نہیں آ رہا ہے۔ آئیے میرے ساتھ۔‘‘
افسر گاؤں والوں کو اپنے ساتھ لے کر کانجی ہاؤس میں داخل ہوا۔
گاؤں والوں کی نگاہیں وہاں پر بندھے ہوئے جانوروں کو گھورنے لگیں۔ انہیں کہیں بھی کوئی سانڈ نہیں ملا۔ وہاں تو ایسے جانور بندھے تھے جو بہت ہی کمزور اور دبلے پتلے تھے جن کے پیٹ اندر کو دھنسے ہوئے تھے اور پسلیاں باہر کو نکلی ہوئی تھیں۔
کانجی ہاؤس کے اندر کا حال دیکھ کر گاؤں والے واپس لوٹ آئے اور اپنے کو قسمت کے حوالے کر کے بیٹھ گئے۔
ایک دن سانڈ نے گاؤں میں پھر تباہی مچائی۔ اس کے بعد ایک بار اور گھس آیا۔ پریشان ہو کر گاؤں والے ایک جگہ جمع ہوئے۔ بوڑھے نے گاؤں والوں کو اس بار یہ مشورہ دیا کہ وہ کانجی ہاؤس کے اوپر والے محکمے میں جا کر اپنی فریاد سنائیں۔ گاؤں والے وہاں بھی پہنچے۔ وہاں کے افسروں نے گاؤں والوں کی درخواست پر سنجیدگی سے غور کیا اور کانجی ہاؤس کے افسران کو زور دے کر لکھا کہ وہ دھام پور والوں کو سانڈ کی تباہی سے بچائیں اور گاؤں والوں سے کہا کہ وہ کانجی ہاؤس کے افسران سے رجوع کریں۔ وہ ضرور اس سلسلے میں ضروری کار روائی کریں گے۔
گاؤں والے پھر کانجی ہاؤس پہنچے —افسران نے ان سے کہا۔
’’ٹھیک ہے۔ آپ لوگ سانڈ کو پکڑ کر لائیے۔ ہم اسے یہاں بند کر لیں گے۔‘‘
گاؤں والے کانجی ہاؤس کے افسر کی بات سن کر بہت خوش ہوئے اور گاؤں آ کر انہوں نے سانڈ کو پکڑنے کی تیاری شروع کر دی۔
گاؤں کے مضبوط اور پھرتیلے نوجوان ہر طرح سے تیار ہو کر سانڈ کا انتظار کرنے لگے۔ جلد ہی موقع ہاتھ آ گیا۔ سانڈ کے گاؤں میں گھستے ہی نوجوانوں کی ٹولی اپنے ہاتھوں میں لاٹھی اور رسّی لے کر اس کے پیچھے دوڑ پڑی۔
نوجوانوں نے سانڈ کو گھیرنے اور اسے گرا کر پکڑنے میں بڑی ہوشیاری دکھائی۔ اَن تھک محنت کی مگر وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ سانڈ ان کے نرغے سے نکل بھاگا۔ اس کوشش میں بہت سے نوجوان زخمی بھی ہو گئے۔ مگر نوجوانوں نے بھی ہمت نہیں ہاری۔ وہ اس کا پیچھا کرتے رہے۔ وہ سانڈ سورج پور گاؤں سے نکل کر اپنے گاؤں یعنی دھام پور کی طرف بھاگا۔ نوجوان بھی اس کے پیچھے دوڑے۔
دھام پور والوں نے جب یہ دیکھا کہ کچھ لوگ ان کے سانڈ کو دوڑا رہے ہیں اور دوڑانے والوں کے ہاتھوں میں لاٹھیاں اور رسّیاں بھی ہیں تووہ اپنے سانڈ کو بچانے کے لیے اپنے گھروں سے لاٹھی، بھالے اور بندوقیں لیے باہر نکل آئے اور پیچھا کرنے والوں کو للکارتے ہوئے چلائے۔
’’خبردار! وہیں رک جاؤ! آگے مت بڑھو۔ اگر تم نے ہمارے سانڈ کو ہاتھ بھی لگایا توہم تمہارے ہاتھ توڑ ڈالیں گے۔ تمھیں گولیوں سے بھون دیں گے۔ یہیں زمین پر ڈھیر کر کے رکھ دیں گے۔ جانتے نہیں، یہ سانڈ ہمارے دیوتا پر چڑھایا گیا پرساد ہے۔‘‘
سانڈ کا پیچھا کرنے والے سورج پور کے نوجوانوں نے جب دھام پور والوں کی دھمکی سنی اور ان کے ہاتھوں میں لہراتے ہوئے بھالوں، لاٹھیوں اور تنی ہوئی بندوقوں کو دیکھا تو ان کے پاؤں تھرا کر تھم گئے اور وہ آگے بڑھنے کے بجائے منھ لٹکائے ہوئے پیچھے پلٹ آئے۔
اس حادثے کے بعد دھام پور والے اور شیر ہو گئے۔ اور اب وہ اپنے سانڈ کو آئے دن جان بوجھ کر سورج پور گاؤں کی طرف ہانکنے لگے۔
سورج پور گاؤں کی تباہیاں جب حد سے زیادہ بڑھ گئیں تو ایک دن بوڑھے نے گاؤں کے چھوٹے بڑے سبھی کو بلا کر کہا۔
’’میرے گاؤں کے پیارے لوگو! ہم نے ہر طرح کی کوشش کر کے دیکھ لی مگر سانڈ سے اپنے گاؤں کو نہ بچا سکے اور یہ بھی اندازہ ہو گیا کہ اگر ہم سانڈ کو پکڑنے کے لیے زیادہ کچھ کریں گے تو اس کی مدد کے لیے دھام پور والے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ نتیجے میں بھاری خون خرابہ ہو گا اور تباہی مچے گی۔ اس لیے اب ایک ہی راستہ بچتا ہے کہ ہم لوگ بھی اپنے دیوتا کے نام پر ایک بچھڑا چھوڑ دیں اور جلد سے جلد اسے سانڈ بنا دیں۔‘‘
’’اس سے کیا ہو گا چاچا؟‘‘ ——کئی نوجوان ایک ساتھ بول پڑے۔ ان کی حیران آنکھیں بوڑھے کے چہرے پر مرکوز ہو گئیں۔
’’اس سے یہ ہو گا کہ ہمارا سانڈ بھی دھام پور والوں کا وہی حال کرنے لگے گا جو اپنے سانڈ سے وہ ہمارا کرواتے ہیں۔ اُدھر بھی جب تباہی مچے گی تب ان کی آنکھیں کھلیں گی اور وہ اپنے سانڈ کو روکنے پر مجبور ہوں گے۔‘‘
’’آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں چاچا۔ یہ راستہ ہی ان کے لیے ٹھیک ہے۔‘‘ نوجوانوں کے چہرے انتقام کی آگ سے دہک اٹھے۔ مگر بعض بزرگوں کے چہروں پر سنجیدگی طاری ہو گئی۔
سورج پور والوں نے ایک بچھڑا خریدا اسے نہلایا دھلایا۔ گلے میں ہار پہنایا اور سب کے سامنے اس کی پیٹھ پر دیوتا کے نام کا ایک ٹھپّہ لگا کر اسے آزاد چھوڑ دیا۔
کمزور بچھڑا کھونٹے سے الگ ہوتے ہی آزادی اور بے فکری سے کھانے پینے اور پروان چڑھنے لگا اور سارے گاؤں کا چارہ پانی کھا پی کر بہت جلد بچھڑے سے سانڈ بن گیا۔
سانڈ بن کر جب اس نے اینڈنا اور سینگ مارنا شروع کیا تو سورج پور والوں نے اس کا رخ دھام پور والوں کی طرف موڑ دیا۔ دھام پور گاؤں میں گھس کر اس نے گاؤں کو روندنا اور تہس نہس کرنا شروع کر دیا۔ وہاں بھی بیل لہو لہان ہونے لگے۔ ان کے چارہ، پانی کے برتن بھی ٹوٹنے پھوٹنے لگے۔ ان کے کھیت اور کھلیان بھی تباہ و برباد ہونے لگے۔
دونوں طرف سے سانڈ ایک دوسرے کی جانب ہانکے جانے لگے۔ کچھ دنوں بعد ایک روز ایک عجیب و غریب منظر رونما ہوا۔ دونوں سانڈوں کو لوگوں نے ایک ساتھ گھومتے ہوئے دیکھا۔ دونوں اینڈتے ہوئے پہلے سورج پور گاؤں میں گھسے اور دونوں نے مل کر گاؤں کو روند روند کر ملیا میٹ کیا۔ پھر وہاں سے ایک ساتھ نکلے اور دھام پور میں گھس کر توڑ پھوڑ مچانے لگے۔
یہ منظر دیکھ کر دونوں گاؤں والوں کی آنکھیں حیرت میں ڈوب گئیں۔
اس دن کے بعد دونوں سانڈوں کا ایک ساتھ گھومنا اور مل جل کر گاؤں کو روندنا معمول بن گیا۔ دونوں گاؤوں کے علاوہ آس پاس کے دوسرے گاؤں بھی ان سانڈوں کی چپیٹ میں آنے لگے۔
اپنی بربادی سے تنگ آ کر آس پاس کے سبھی گاؤں والے مل جل کر سانڈوں کو مارنے کا منصوبہ بنانے لگے مگر کسی طرح یہ خبر محکمۂ تحفظِ وحشیان تک پہنچ گئی اور اس نے ان سانڈوں کی پیٹھ پر اپنا ٹھپّہ لگا دیا جو اس بات کا اعلان تھا کہ یہ جانور محکمۂ تحفظِ وحشیان کی حفاظت میں ہیں۔ انہیں کوئی بھی مار پیٹ نہیں سکتا۔
لوگوں نے یہ دیکھ کر سانڈوں کو مارنے پیٹنے کے بجائے اپنا اپنا سر پیٹ لیا۔
کہانی سنا کر روزانہ کی طرح وہ گھر واپس آ گیا۔ حسب معمولی کہانی کے کردار کہانی سے نکل کر اس کے دماغ میں گھس گئے — دونوں طرف کے سانڈ سینگ مارنے لگے۔ کبھی اِدھر سے کبھی اُدھر سے۔
سینگوں کی نوکیں اس کے ذہن میں چبھنے لگیں۔
درد سے دماغ کی نسیں پھٹنے لگیں۔
٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...