سامنے ٹھنڈے پانی کی جھیل، چاروں طرف مرغزار، سرد ہوا، ذہن میں انتشار۔ کتنا ٹھنڈا پانی ہے؟ میں کود کر دیکھوں؟ اچانک مجھے کسی نے پانی کی طرف اچھال ہی تو دیا۔ میں نے ہزار چاہا کہ اس نادیدہ پنجے کی گرفت سے آزاد ہوں لیکن حریف زبردست تھا، تڑپنے کی بھی مجال نہ دیتا تھا۔ میں نے آنکھیں بند کر لیں۔ سرد پانی کے صدمے نے میری قوت قلب ضائع کر دی۔ یا شاید کئی لمحوں کے لئے معطل کر دی۔ میں تہ تک اترتا چلا گیا۔ پھر جو آنکھ کھلی تو میرے سامنے منظر جلد جلد بدل رہا تھا، جیسے پردے پر تصویریں دوڑ رہی ہوں۔ ایک منظر کو دوسرے سے کچھ واسطہ نہ تھا۔
چاندنی کھلی ہوئی تھی، دشت و در چاندی کا پتر۔ شاہد بہار کو مشاطۂ شب آئینۂ ماہ دکھاتی۔۔۔رات کا سناٹا، تمام میدان سفید ہو رہا، جانور اپنے اپنے مسکن میں بیٹھے ہوئے۔ کبھی جو ہوا کے جھونکے سے کوئی درخت کھڑکتا، ایک آدھ ہرن، خرگوش جست کر کے جھاڑی سے باہر نکل آتا، ادھر ادھر دیکھ کر چوکڑی مار جاتا۔ جھاڑیوں سے ہرن، پاڑھے، چیتل، نیل گاؤ، سر نکالے۔ جھیلوں کا یہ عالم کہ جیسے خانۂ زمین میں آئینے جڑے ہوئے۔ کنارے کنارے بگلے، قازیں، سرخاب، پروں میں منھ ڈالے ایک پاؤں سے کھڑے ہوئے۔ دامن کوہ میں کوڑیالا کھلا ہوا، نرگسستان کواکب کو شرماتا۔۔۔
نیچے پال کے، چوکا تختوں کا بچھا تھا۔ اس پر چاندنی کا فرش و قالین آراستہ تھا۔ مقابا اور صندوقچہ دھرا تھا، صندوقچے سے لگا ہوا آئینۂ حلبی رکھا، ساقنیں ہزار بناؤ کئے، دلائی سفید اودی گوٹ کی اوڑھے، آگے سے طوق سونے کا دکھلانے کو گلا کھولے، پائچے پائجامے کے پیچھے تخت پر پڑے، ماتھے پر افشاں لگائے، پٹے چھوڑے بال بنائے، لب تخت با ہزاراں ناز و انداز بیٹھی تھیں۔ کان کا زیور جھوم کر جھونکے لیتا تھا، رخ تابندہ بحر حسن تھا، اس میں اس زیور کا عکس پڑتا تھا۔ یہ ظاہر تھا جیسے کنول دریا میں تیرتے ہیں یا مچھلیاں اور جانورانِ آبی پیرتے ہیں۔ ہاتھوں میں کڑے پڑے، دست حنائی میں پور پور چھلے تھے۔
۔۔۔ایک سمت لگن اور پتیلوں میں نیچے بھیگتے تھے، سامنے کچھ حقے تیار تازہ کیے رکھے تھے۔ تپائیاں سوراخ دار بچھی تھیں۔ چلمیں ان میں گھرسی تھیں۔ کوئی گنڈہ گنڈہ لڑاتا تھا، کوئی دونی کی پیتا تھا۔۔۔ساقن بھی مسکراتی تھی، یہ کیفیت دونا نشہ جماتی تھی۔ ایک طرف سامنے خریدار دعائیں دیتے تھے، کشمیر اور سالجہاں مانگتے تھے۔ یارقند پیسے والی چلم کے بھروانے والے اڑاتے تھے۔ کوئی کہتا تھا، ساقن کے دم کی خیر، آج تو پیڑو پر کی ہم کو بھی پلوائیے۔ ساقن کہتی تھی، بیٹا انگیا کے اندر پیو یہ بہت عمدہ ہے۔ دم بدم چلم جما کر دیتی تھی۔ خریداروں میں یہ بحث تھی کہ ایک کہتا تھا، تم سر کرو۔ دوسرا کہتا تھا، کیا ہم کو پست پینے والا مقرر کیا ہے؟
۔۔۔حلوائی کی دکان پر تھال برنجی برابر چنے تھے۔ آگے دکان کے زنجیر برنجی لٹکتی تھی، گھنٹی اس میں بندھی تھی۔ اندر دکان کے نوکروں نے گولوں پر کڑھاؤ چڑھائے تھے، مٹھائی بناتے تھے۔ الماریاں مٹھائی سے بھری رکھی تھیں، مٹھائیوں کو جالدار اور محراب دار چنا تھا کہ پھول اور گلدستے بنے معلوم ہوتے تھے۔ مٹھائی پر ورق طلائی اور نقرئی لگے تھے، عجب جوبن دیتے تھے۔۔۔نانبائی بصد خوش ادائی ظروف مسی صاف و شفاف میں طعام لذیذ چنے ہوئے۔ پلاؤ، زردہ، قورمہ، مرغ کا شوربا، کباب و باقر خانی، آبی نان، ہوائی کلچے وغیرہ ہر قسم کا کھانا مہیا رکھتے تھے۔ تنور گرم تھا پتیلا چڑھا تھا۔ ایک طرف ماہی دمے میں کباب گرما گرم تھے۔ کچھ لوگ دکان میں کھانا کھاتے تھے، کچھ خریدار پیالے لیے کھڑے تھے۔۔۔
[طلسم ہوش ربا، جلد اول: داستان گو، محمد حسین جاہ]
میں اس جھیل کی تہ میں کتنی دور نکل آیا ہوں؟ کوئی قوت مجھے جھیل سے باہر لے آئی ہے، یا ابھی اس جھیل ہی میں ہوں؟ یہ مجھے کہاں لے جایا جا رہا ہے؟ میں جانتا ہوں یہ دنیا بہت بڑی ہے اور پورا برہمانڈ (اگر وہ پورا ہے بھی) تو لا متناہی ہے اور میں حقیر ترین ذرے سے بھی کمتر ہوں۔ یا شاید ہوں ہی نہیں اور یہ سب میرے ذہن کی دنیا میں آباد ہے؟ مجھے پھر نیند آ گئی۔
I will arise and go now, go to Innisfree
۔۔۔and live in the bee-loud glade
And I shall have some peace there, for peace comes dropping slow,
Dropping from the veils of the morning۔۔۔
There’s midnight all a glimmer and noon a purple glow
And evening full of linnet’s wings
۔۔۔I hear the lake water lapping with low sounds۔۔۔
زبان تو وہی ہے جو میں نے پہلے سنی تھی، اپنے اس پرانے گاؤں میں، جب نٹراج نے تمام کائناتوں کو نیست و نابود کر دیا تھا، اس کے کچھ ہی بعد۔ لیکن آواز مختلف، لہجہ مختلف۔ جیسے کوئی نیند یا نشے میں ہو اور کچھ بھرائی ہوئی سی آواز میں بول رہا ہو۔ لیکن یہی کیفیت تو میری بھی ہے۔ میں شاید نشے ہی میں ہوں۔ عجائبات مخلوقات کی وسعت اور رنگا رنگی نے مجھے اپنے آپ سے کسی طرح منقطع کر دیا ہے۔ میں گرد و پیش کی دنیا کو دیکھ تو رہا ہوں (اگر وہ دنیا ہی ہے) لیکن سمجھ نہیں پا رہا ہوں۔
میں نے دوبارہ جھیل میں چھلانگ لگا دی۔ اب جو پاؤں زمین کو لگے تو میں نے دیکھا کہ اسی منظر گاہ کا کنارہ ہے، پیچھے کوئی ندی بہہ رہی ہے، شام ہر طرف پھیل رہی ہے، کنار رود سیہ فام شام ہے، میں ہوں۔ میں نے خود کو سنبھالا، لاٹھی کندھے پر رکھی اور شمال کی جانب روانہ ہو گیا۔ وہاں، جہاں کوہستان ہمالیہ کا دشوار گذار سلسلہ ہے، پانی ہے برف ہے ہوا ہے۔ میرے باپ نے ایک بار مجھ سے کہا تھا کہ دنیا کے بے مصرف مشغلوں میں وقت گذارنے سے بہت بہتر ہے کہ تم کنڈلنی کو بیدار کر لو اور پھر مکمل خود آگاہی کی تلاش میں کوہستان ہمالیہ میں کہیں گہرائی میں اپنا گھر بنا لو اور کنڈلنی سے مکالمہ قائم کرو۔ کائنات جو کچھ ہے اور کائنات میں جو کچھ ہے وہ تمھارے ہی ذہن کا جیتا جاگتا پرتو ہے۔ یہ خارجی مظاہر تمھارے ذہن کے داخلی منظر نامے کا حصہ ہیں۔ ہمالیہ کے کونے کونے میں زندگی کرنے کے روپ بھرے ہوئے ہیں۔ وہاں کوہ و کمر پر چراغ لالہ سے روشنی ہوتی ہے، وہاں تمھیں خود سے باہر نکلنے کا موقع مل سکتا ہے۔ ابھی تو تم سوئے ہوئے ہو، کہ تمھیں اس ہستی ناپائیدار سر سے یک گونہ لگاؤ ہے، جیسا کہ ایک شاعر نے، جو ابھی پیدا نہیں ہوا، یوں لکھا ہے جب اس نے حقیقت اور خواب پر غور کیا ؎
تا جنبش تار نفس افسانہ طراز است
بیدل بہ کمند رگ خواب است دل ما
کیا مطلب، وہ ابھی پیدا بھی نہیں ہوا اور اس کے شعر آپ پر القا ہو چکے ہیں، یا القا ہو رہے ہیں؟ یہ کون سی دنیا اور کون سا علم ہے؟ لیکن باپ کے سامنے یارائے زباں کشائی کس کو تھا۔ تم تعینات سے باہر آ سکو گے تب تمھیں یہ بات بھی معلوم ہو جائے گی۔
دفعتاً میرے سامنے آسمان میں ایک دریچہ روشن ہو گیا۔ دریچہ، شگاف، یا صرف میرا وہم، مجھے آنکھوں کے سامنے دنیا کچھ تاریک سی لگنے لگی۔ لیکن اب اس دریچے میں ایک شاخ زریں نظر آئی جس پر ایک نیلگوں زرد پرند کچھ کہتا ہوا نظر آیا۔ اس کے پیچھے ایک سیاہ پردہ سا، جس پر وہی لفظ لکھے ہوئے تھے جو وہ پرندہ (یا کوئی آفاقی وجود؟ ) اپنی زبان سے ادا کر رہا تھا۔ میں ان الفاظ کو پڑھ نہ سکتا تھا لیکن جو کچھ سن رہا تھا اسے خوب سمجھ سکتا تھا۔ شروع کے الفاظ صاف سنائی نہیں دئیے، لیکن ان کے بعد:
Miracle, bird or golden handiwork
More miracle than bird or handiwork
Planted on the starlit golden bough۔۔۔
۔۔۔Of hammered gold and gold enamelling
To keep a drowsy Emperor awake
Or set upon a golden bough to sing
To lords and ladies of Byzantium
Of what is past, or passing, or to come۔
کیا مطلب، یہ بائزینطیم کوئی جگہ ہے؟ اور وہاں ایسے پرند ہیں، یا کم از کم ایک پرند ایسا ہے جو ماضی اور حال اور مستقبل کی تمام باتوں کے علم پر حاوی ہے؟ اور کیا میرے باپ نے کبھی وہ پرندہ پالا تھا؟ لیکن اب تو وہ ان کے پاس نہیں ہے۔ پھر انھیں یہ سب کیسے معلوم ہے؟ مگر ذرا ٹھہریں، مجھے بھی تو دو بارکسی فرنگی زبان میں بہت کچھ شاعری سنائی دی تھی۔ اور مجھے معلوم نہیں کہ جن لوگوں کے وہ شعر ہیں وہ کس زمانے میں تھے؟ اور سچ پوچھیں تو مجھے خود بھی نہیں معلوم کہ میں کس زمانے میں ہوں؟ کیا میرے پیچھے کوئی ماضی ہے، اور کیا میرا کوئی مستقبل بھی ہے؟ کیا ایسا بھی ہو گا کہ میرے بعد جو لوگ ہوں گے وہ میری اس ہرزہ سرائی کو پڑھ سکیں گے؟ کیا جس زبان میں اس وقت گفتگو کر رہا ہوں وہ کوئی زبان بھی ہے یا یہ صرف میرے دل میں ہے؟ اور کہیں لکھ دوں تو کیا یہ زبان کل باقی بھی رہے گی کہ نہیں؟
کیا میں اس جھیل میں دوبارہ کود پڑوں جس میں ایک بار کود کر میں یہاں پہنچا تھا؟ بے وقوف آدمی، ہوش کی بات کرو، لیکن شاید تم ہوش ہی میں نہیں ہو۔ کیا تم اتنا بھی نہیں سمجھے کہ اب تک جو کچھ ہوا ہے اس میں تمھارے دل دماغ کو کچھ دخل رہا ہو تو رہا ہو، لیکن تمھارے ارادے کو کوئی دخل نہ تھا۔ اب دوبارہ اپنے ارادے سے اس جھیل میں غوطہ لگاؤ تو شاید غرقاب ہی ہو جاؤ، یا کہیں اور پہنچ جاؤ۔ اشیا کا اختتام یوں نہیں ہوتا۔ جو ہے اور جو نہیں ہے اس میں کچھ ایسا فرق بھی نہیں۔ صرف تمھاری سمجھ کا پھیر ہے۔ تم کوہستان ہمالیہ کے لیے نکلے تھے، تو بس ادھر ہی طرف جاؤ۔ جب تم سے کوئی تعرض کرے گا تو دیکھیں گے کیا ہوتا ہے۔ ابھی تو راستہ آسان ہے۔ خیر، آسان نہ سہی لیکن معلوم ہے۔
تو میں چلا گیا۔ میں آنکھ بند کر کے ایک طرف چل پڑا۔