دروازہ اپنی جگہ مضبوطی سے بند تھا اور لاک بھی اندر کی طرف سے تھا۔
ثانیہ کے وجود میں ایک تیز سنسنی خیز لہر دوڑ گئی تھی۔
اس نے آنکھیں بند کرتے ہوئے جھٹکے سے دروازہ کھولا اور سیدھا باہر کی جانب دوڑ لگائی تھی۔
چھوٹے سے لاؤنج میں صائم کھڑا ہوا تھا۔
“صائم!مجھے نہیں پتا لیکن قسم سے دروازہ خود بند ہوا تھا۔”ثانیہ رو دینے والے انداز میں بولتی چلی گئی۔
“کیا ثانیہ!اب تم اپنے گھر جانے کیلئے اس طرح کی حرکتیں کرو گی؟تم نے میکے جانا ہے تو جاؤ،یوں جھوٹ تو نہ بولو۔”صائم جھنجھلائے ہوئے انداز میں بولتا صوفے پہ بیٹھ چکا تھا۔
“آپ کو لگتا ہے،میں جھوٹ بول رہی ہوں۔”ثانیہ نے بے یقینی سے پوچھا۔
یہ وہی صائم تھا نا جو اس کی آنکھوں سے دیکھتا اور کانوں سے سنتا تھا سو اب کیا ہوا تھا۔
“دیکھو ثانیہ!ہر بات کو انا کا مسئلہ بنانا ٹھیک نہیں ہوتا ہے۔مسئلہ روشنی کے ساتھ ہے،تم کیوں ڈرا رہی ہو؟”صائم نے اسکا ہاتھ تھامتے ہوئے مصالحتی انداز اپنایا۔
“اونہہ!مجھے کیا لگی ہے کسی کو ڈرانے کی؟میری اپنی ڈر،ڈر کے جان نکلی ہوئی ہے۔”ثانیہ اسکا ہاتھ جھٹکتے ہوئے بولی تھی۔
“پلیز ثانیہ!ختم کرو یہ مذاق اور مجھے ایک کپ چائے بنادو۔میرا سر درد سے پھٹا جارہا ہے۔”صائم جیسے عاجز ہو کے بولا تھا۔
ثانیہ اسکے انداز پہ لب بھینچے،سر ہلاتے ہوئے کچن کی جانب بڑھ گئی تھی۔
اسے اب اپنے طور پہ ہی کچھ کرنا پڑے گا۔
******
“کیا حرکت تھی یہ صارم؟”کمال صاحب نے گھر آتے ساتھ ہی اسکی کلاس لگائی تھی۔
“بابا!وہ عثمان صاحب جو کچھ ہمارے گھر میں ہورہا ہے،روشنی کے ساتھ ہورہا ہے’سب جانتے ہیں تو بتاتے کیوں نہیں؟کیوں مسٹیریس مین بنے ہوئے ہیں۔”صارم بھی پھٹ پڑا تھا۔
فرحانہ بیگم نے حیرت سے اسکا ہائپر ہونا دیکھا تھا ورنہ صارم تو بڑے ٹھنڈے دماغ کا بچہ تھا۔
“تم ایک ہی بات کو سر پہ سوار کر کے بیٹھ گئے ہو صارم،انہوں نے ایسا کچھ نہیں کہا تھا جس پہ تم انکی یوں عدالت لگاتے۔”کمال صاحب برہمی سے بولے تھے۔
“بابا!ایسے کوئی کچھ نہیں کہتا۔میں پتا لگا کے رہوں گا کہ آخر انکا مقصد کیا تھا۔”صارم ضدی انداز میں بولا تھا۔
“ٹھیک ہے!کرو سب اپنی،پہلے وہ ایک بڑا تھا پیچھے اب تم بھی کھڑے ہوجاؤ۔”کمال صاحب اسے سناتے ہوئے واک آؤٹ کرگئے تھے۔
پیچھے صارم نے اپنا سر پکڑ کے رہ گیا تھا۔
******
روشنی نے بھائی اور باپ کو گھر آتا دیکھ کے فورا بتی گل کی اور کھڑکی کے پاس آن کھڑی ہوئی۔
وہ جانتی تھی دادی سلطانہ بیگم کے کارنامے کی خبر انہیں ضرور دیں گی لیکن انکے کچھ بولنے سے پہلے ہی کمال صاحب’صارم پہ برسنا شروع ہوگئے تھے۔
روشنی سر جھٹکتے ہوئے بیڈ کی جانب بڑھی تھی۔سائیڈ ٹیبل پہ پڑا سرخ گلاب نیم تاریکی میں دہک رہا تھا اور کمرے میں بھینی’بھینی سی مہک پھیلی ہوئی تھی۔
روشنی تاریکی میں کھڑی پہلے تو چند لمحے اس گلاب کو گھورتی رہی پھر کچھ سوچ کے سائیڈ ٹیبل کی جانب بڑھی۔
نچلی دراز میں ماچس کی ڈبیا اور موم بتیوں کا پیکٹ مل گیا تھا۔اس نے ایک موم بتی پیکٹ میں سے برآمد کر کے،اسے آگ دکھائی تھی۔
سفید موم بتی کے اوپری سرے پہ اب نارنجی شعلہ بھڑک رہا تھا اور پہلو میں سرخ گلاب دہک رہا تھا۔
روشنی کے حواسوں پہ گلاب کی مہک چھانے لگی تھی۔
اس نے موم بتی کو ٹیبل پہ رکھا اور سرخ گلاب کو دائیں ہاتھ میں تھام لیا۔
چند لمحے وہ بے حد نفرت کے عالم میں اس پھول کو گھورتی رہی اور پھر اسے موم بتی سے اٹھتے شعلے کی زد میں رکھ دیا۔
نارنجی شعلہ’سرخ گلاب کی آنچ پاتے ہی آتش فشاں سا ہوا لیکن اگلے ہی پل روشنی نے اپنی زندگی کا ایک اور عجیب و غریب منظر دیکھا تھا۔
گلاب کی ایک پتی بھی نہیں جلی تھی یوں لگ رہا تھا جیسے موم بتی کی آنچ’سرخ گلاب کو مزید دہکا رہی تھی۔
“اف خدایا!”روشنی نے پھونک مار کے موم بتی کو بجھایا اور سرخ گلاب کو کبرڈ کے ایک خانے میں پھینک دیا’جہاں اس سے پہلے کہ کئی گلاب موجود تھے۔
******
صارم اپنے کمرے میں آتے ساتھ ہی شاور لینے چلا گیا تھا۔واپس آنے کے بعد اس نے تولیے سے بال رگڑنے کے بعد،اسے وہیں نزدیکی صوفے پہ لاپروائی سے اچھال دیا۔
“یہ تو بری بات ہے دوست۔”کسی کی مانوس سی نرم آواز کانوں میں پڑی تو وہ چونک اٹھا۔
صارم نے منٹ کے پہلے سیکنڈ میں تیزی سے پلٹ کے دیکھا۔
“تم!”صارم نے بےیقینی سے اس شخص کو دیکھا۔
وہ اسکے گھر میں کیسے آسکتا تھا؟
“ہاں!میں!کیا میرا آنا برا لگا؟”وہ ٹاؤل کو اٹھا کے سائیڈ پہ رکھتے ہوئے نرمی سے پوچھ رہا تھا۔
“تم عامر ہو نا!یہاں تک کیسے پہنچے؟”صارم کا حیرت بھرا سکتہ ٹوٹا تو پہلا سوال یہی کیا۔
“ہم کہیں بھی اور کبھی بھی آسکتے ہیں۔”
“کیوں کیا تم ایف بی آئی ایجنٹ ہو جو ہر ملک میں گھس جاتا ہے۔”صارم نے مذاق ہرگز نہیں کیا تھا۔یہ تو بلا ارادہ ہی زبان سے پھسل گیا تھا۔
بھلا یہ کوئی وقت تھا مذاق کا؟
“مذاق اچھا کرلیتے ہو تم دوست۔”عامر نے جیسے اسکی بات انجوائے کی تھی۔
“مذاق ایک طرف،کیا تم مجھے بتاؤ گے کہ تم یہاں تک کیسے پہنچے؟”صارم اسکی طرف پلٹتے ہوئے سنجیدگی سے بولا۔
“بیٹھ جاؤ!بیٹھ کے بات کرتے ہیں۔”عامر بھی اسے دیکھ کے سنجیدہ ہوا تھا۔
صارم اسکے مقابل ہی بیڈ پہ بیٹھ گیا۔
“جیسا کہ تم جان گئے ہو کہ ہم’تم میں سے نہیں ہیں۔”عامر نے تمہید باندھی۔
“تو پھر!کیا ہو تم؟”
“ہم بھی اللہ کی مخلوق ہیں۔اللہ نے کسی کو نور سے،کسی کو خاک سے تو کسی کو آگ سے تخلیق کیا ہے۔ہم آتشیں مخلوق ہیں،یعنی قوم جنات سے تعلق رکھتے ہیں۔”عامر نے ٹھہر’ٹھہر کے اپنا تعارف کروایا تھا۔
“کیا؟”صارم کا پورا وجود سنسنا اٹھا تھا۔
وہ جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا۔
نگاہیں خوف کے مارے عامر کا طواف کرنے لگی ہیں۔جس نے اپنی نگاہیں جھکا رکھی تھیں۔
“تم!”صارم کے حلق میں کانٹے اگ آئے تھے۔
“ڈرو نہیں!دوست میں تمہیں نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔اتنے سالوں سے تمہارے پاس آرہے ہیں،اتنا تو یقین کرو۔”عامر کے برق جیسے چہرے پہ بڑی نرم مسکان تھی۔
پر صارم تو ابھی تک صدمے سے باہر نہیں نکلا تھا۔اسکے کمرے میں ایک جن تھا جو رات کے اس پہر صرف اس سے باتیں کرنے آیا تھا۔
صارم سن ہوتے دماغ کے ساتھ عامر کی باتیں سن رہا تھا جو وہ اپنی دھن میں کہے جارہا تھا۔
“یہ دنیا ہر مخلوق کی ہے اور ہر ایک کا اس پہ حق ہے لیکن افسوس تم انسان کبھی کبھی زیادتی کرجاتے ہو۔”
“مطلب؟”صارم نے دو قدم پیچھے جاتے ہوئے پوچھا۔
“ارے!تم کھڑے کیوں ہوگئے؟تم بیٹھ جاؤ،میں نے کہا نا میں تمہیں نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔”عامر اسکی جانب نہیں دیکھ رہا تھا لیکن اسے پتا چل گیا تھا کہ صارم الٹے پاؤں باہر جانے کی کوشش کررہا تھا۔
“یہ نارمل نہیں ہے۔بالکل بھی نہیں!”صارم بڑبڑاتا ہوا عامر سے جتنا دور ہوسکتا تھا ہوتے ہوئے بیٹھ گیا تھا۔
“تمہاری بہن نے بھی تکلیف پہنچائی ہے جس کی وجہ سے تم سب کو یہ سب بھگتنا پڑ رہا ہے۔”عامر اسے بیٹھتا دیکھتا کے سلسلہ کلام وہیں سے جوڑ چکا تھا جہاں سے منقطع ہوا تھا۔
“میری بہن نے کیا’کیا ہے؟”صارم نے سرسراہٹ بھرے لہجے میں پوچھا۔
“وہ میں تمہیں نہیں بتا سکتا۔معاف کرنا!ہر قوم اور ہر مخلوق پردہ رکھنا چاہتی ہے۔”عامر نے سہولت سے منع کیا تھا۔
“پھر ہمیں چھٹکارا کیسے ملے گا؟”صارم کچھ خوف’کچھ پریشانی سے بولا تھا۔
“تمہیں لگتا ہے پیچھا چھڑانا اتنا آسان ہے۔یہ قریب’قریب ناممکن ہے۔”عامر نے سر اٹھاتے ہوئے کہا تھا۔
صارم کو لگا اسکا دل بند ہو جائے گا۔
“تو پھر؟”وہ بےحد خوف سے اسے دیکھ رہا تھا۔
“میں نہیں جانتا۔آج بھی یہاں میں اس لئے آیا ہوں بلکہ مجھے اجازت ہی اس لئے دی گئی تھی کہ تمہیں بتا سکوں کہ ہماری بھی کچھ حدیں ہیں ورنہ تم نے آج بابا کے ساتھ بہت بدتمیزی کی تھی۔”عامر کی آواز میں رنج در آیا تھا۔
“اگر تمہاری بھی کچھ حدود ہیں تو اسکا مطلب کیا یہ ہے کہ ہم انسانوں کو ادھوری بات بتا کے پریشان کرو۔”صارم کا انداز طنزیہ ہوا۔
“ہم نے صرف خبردار کیا تھا اور اب بھی میں تمہیں خبردار کرنے کیلئے بھیجا گیا ہوں،نور اللہ صاحب پہ بھروسہ رکھو۔اب مجھے چلنا چاہئے،اگر تم چاہو تو ہم پھر سے مل سکتے ہیں بس دل سے یاد کرنا۔”عامر اب وہی پرانے نرم لہجے میں کہہ رہا تھا۔
“تم واپس کیسے جاؤ گے؟”صارم نے کچھ اشتیاق سے پوچھا تھا۔
“میرے خیال سے دوست تم چیزوں کو انکے درست مقام پہ رکھنے کی عادت ڈالو۔کیا تم ٹاؤل کو اسکی اصلی جگہ پہ نہیں رکھو گے؟”عامر نے اسکا سوال نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا تھا۔
“اوہ!ہاں۔”صارم جھینپے ہوئے انداز میں کہتا ہوا ٹاول اٹھا کے اسٹینڈ کی جانب بڑھا تھا۔
وہ ٹاول رکھ کے واپس آیا تو کمرہ خالی تھا۔
“تو وہ چلا گیا؟”صارم اپنی پیشانی پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بڑبڑایا۔
اسکا ماتھا بےحد تیزی سے گرم ہورہا تھا۔
******
صبح فجر پڑھنے کے بعد سلطانہ بیگم دھونے والے کپڑے اٹھا کے پچھلے صحن کی جانب آئی تھیں۔جہاں پورے گھر کے برعکس سیمنٹ کا پختہ فرش تھا اور دیوار پہ پیلا سا بلب روشن تھا۔
وہ اپنی ہی دھن میں چلتے ہوئے واشنگ مشین کی جانب بڑھ رہی تھیں کہ اچانک ہی انہیں چونک کے ٹھہر جانا پڑا۔
خون کی موٹی موٹی بوندیں پختہ سیمنٹ کے فرش میں،پیلے بلب کی روشنی میں عجیب ہیبت ناک سا تاثر پیش کررہی تھیں۔
سلطانہ بیگم نے جھک کے ان خون کے دھبوں کو دیکھا۔خون کے دھبوں کا سلسلہ کونے پہ بنے باتھ روم کے دروازے پہ جا کے ختم ہورہا تھا۔
“کوئی بلی شاید زخمی ہو۔”سلطانہ بیگم نے سوچتے ہوئے دروازہ کھولا۔
اکثر ماسی باتھ روم کا دروازہ کھلا ہی چھوڑ جاتی تھی تو بلیوں کے عیش ہوجایا کرتے تھے لیکن ابھی باتھ روم خالی پڑا ہوا تھا۔
سلطانہ بیگم کچھ پل کھڑی سوچتی رہیں پھر سر جھٹک کے مشین کی جانب بڑھیں۔ہاتھ بڑھا کے اسکا کوور ہٹایا لیکن دوسرے ہی پل انہیں اپنا ہاتھ پیچھے کرنا پڑا۔
مرغی کے دو پنجے واشنگ مشین کے اندر منہ چڑا رہے تھے۔
سلطانہ بیگم کپڑے وہیں پھینکتے ہوئے فورا اندر کی جانب دوڑی تھیں۔
******
“اماں!”وہ سیدھا ساس کے پاس گئی تھیں جو سورۃ البقرہ کی تلاوت میں مشغول تھیں۔
انکے چہرے کی اڑی ہوئی رنگت، ماتھے پہ چمکتا پسینہ اور ہاتھوں کی لرزش فرحانہ بیگم کو چونکا گئی۔
“کیا بات ہے سلطانہ؟”
“اماں۔۔۔۔”ہانپتے’کانپتے سلطانہ نے انہیں سارا قصہ سنایا تھا۔
فرحانہ بیگم سر پکڑ کے رہ گئیں۔
“اور دکھاؤ کالے علم والوں کو گھر کا راستہ۔”انہیں غصہ آگیا تھا۔
“مطلب؟”سلطانہ بیگم نے بوکھلا کے انہیں دیکھا۔
“یہ خون کی بوندیں،مرغی کے پنجے کالے جادو کی علامت ہیں سلطانہ،اگلی مصیبتیں کیا کم تھیں جو اب یہ کالا جادو بھی گلے پڑ گئی۔”فرحانہ بیگم روہانسی ہوچکی تھیں۔
سلطانہ بےدم سی ہوکے ان کے پاس بیٹھی تھیں۔
انکی چھوٹی سی غلطی کی اتنی بڑی سزا ملے گی۔یہ انہوں نے سوچا بھی نہیں تھا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...