ایشر سنگھ جونہی ہوٹل کے کمرے میں داخل ہوا، کلونت کور پلنگ پر سے اُٹھی۔ اپنی تیز تیز آنکھوں سے اس کی طرف گھور کے دیکھا اور دروازے کی چٹخنی بند کردی۔ رات کے بارہ بج رہے تھے، شہر کا مضافات ایک عجیب پُر اسرار خاموشی میں غرق تھا۔
کلونت کور پلنگ پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئی۔ ایشر سنگھ جو غالباً اپنے پراگندہ خیالات کے اُلجھے ہوئے دھاگے کھول رہا تھا، ہاتھ میں کرپان لیے ایک کونے میں کھڑا تھا۔ چند لمحات اسی طرح خاموشی میں گزر گئے۔ کلونت کور کو تھوڑی دیر کے بعد اپنا آسن پسند نہ آیا ۔ اور وہ دونوں ٹانگیں پلنگ سے نیچے لٹکا کر ہلانے لگی۔ ایشر سنگھ پھر بھی کچھ نہ بولا۔
کلونت کور بھرے بھرے ہاتھ پیروں والی عورت تھی۔ چوڑے چکلے کولھے تھل تھل کرنے والے گوشت سے بھر پور، کچھ بہت ہی زیادہ اوپر کو اُٹھا ہوا سینہ، تیز آنکھیں ،بالائی ہونٹ پر بالوں کا سُرمئی غبار۔ ٹھوڑی کی ساخت سے پتہ چلتا تھا کہ بڑے دھڑلّے کی عورت ہے۔
ایشر سنگھ سر نیوڑھائے ایک کونے میں چپ چاپ کھڑا تھا۔ سر پر اُس کی کس کر باندھی ہوئی پگڑی ڈھیلی ہو رہی تھی۔ اس کے ہاتھ جو کرپان تھامے ہوئے ، تھوڑے تھوڑے لرزاں تھے مگر اس کے قدو قامت اور خدو خال سے پتہ چلتا تھا کہ وہ کلونت کور جیسی عورت کے لیے موزوں ترین مرد ہے۔
چند اور لمحات جب اسی طرح خاموشی میں گزر گئے تو کلونت کور چھلک پڑی لیکن تیز تیز آنکھوں کو نچا کر وہ صرف اس قدر کہہ سکی۔
’’ایشر سیاں۔۔۔۔۔۔‘‘
ایشر سنگھ نے گردن اُٹھا کر کلونت کور کی طرف دیکھا مگر اس کی نگاہوں کی گولیوں کی تاب نہ لا کر منہ دوسری طرف موڑ لیا۔
کلونت کور چلّائی۔
’’ایشر سیاں۔۔۔۔۔۔‘‘لیکن فوراً ہی آواز بھیج لی اور پلنگ پر سے اُٹھ کر اس کی جانب جاتے ہوئے بولی۔
’’کہاں رہے تم اتنے دن؟۔۔۔‘‘
ایشر سنگھ نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری۔
’’مجھے معلوم نہیں۔۔۔۔۔۔‘‘
کلونت کور بھنّا گئی ۔
’’یہ بھی کوئی ماں یا جواب ہے!۔۔۔۔۔۔‘‘
ایشر سنگھ نے کرپان ایک طرف پھینک دی اور پلنگ پر لیٹ گیا ۔ایسا معلوم ہو تا تھا کہ وہ کئی دنوں کا بیمار ہے۔ کلونت کور نے پلنگ کی طرف دیکھا جواب ایشر سنگھ کے لب لب بھرا تھا۔ اس کے دل میں ہمدردی کا جذبہ پیدا ہوگیا۔ چنانچہ اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر اس نے بڑے پیار سے پوچھا۔
’’جانی کیا ہوا ہے تمہیں ؟۔۔۔۔۔۔‘‘
ایشر سنگھ چھت کی طرف دیکھ رہا تھا ،اُس نے نگاہیں ہٹا کر کلونت کور کے مانوس چہرے کو ٹٹولنا شروع کیا۔
’’کلونت!۔۔۔۔۔۔۔‘‘اس کی آواز میں درد تھا۔
کلونت کور ساری سمٹ کر اپنے بالائی ہونٹ میں آگئی۔
’’ہاں جانی‘‘ کہہ کر وہ اس کو دانتوں سے کاٹنے لگی۔
ایشر سنگھ نے پگڑی اتار دی۔ کلونت کور کی طرف سہارا لینے والی نگاہوں سے دیکھا ، اس کے گوشت بھرکے کولھے پر زور سے دھپّہ مارا اور سر کو جھٹکا دے کر اپنے آپ سے کہا۔
’’یہ کڑی یا دماغ ہی خراب ہے۔۔۔۔۔۔‘‘
جھٹکا دینے سے اس کے کیس کھل گئے۔ کلونت کور انگلیوں سے ان میں کنگھی کرنے لگی۔ ایسا کرتے ہوئے اس نے بڑے پیار سے پوچھا۔
’’ایشر سیاں ،کہاں رہے تم اتنے دن۔۔۔۔۔۔؟‘‘
’’برے کی ماں کے گھر ۔۔۔۔۔۔‘‘ایشر سنگھ نے کلونت کور کو گھور کر دیکھا اور دفعتاً دونوں ہاتھوں سے اس کے اُبھرے ہوئے سینے کو مسلنے لگا۔
’’قسم واہگورو کی، بڑی جاندار عورت ہو۔‘‘
کلونت کور نے ایک ادا کے ساتھ ایشر سنگھ کے ہاتھ ایک طرف جھٹک دیے اور پوچھا۔
’’تمہیں میری قسم ،بتائو، کہاں رہے۔۔۔۔۔۔شہر گئے تھے؟‘‘
ایشر سنگھ نے ایک ہی لپیٹ میں اپنے بالوں کا جوڑا بناتے ہوئے جواب دیا۔
’’نہیں۔‘‘
کلونت کور چڑ گئی۔
’’نہیں تم ضرور شہر گئے تھے ۔۔۔۔۔۔اور تم نے بہت سا روپیہ لُوٹا ہے جو تم مجھ سے چھپا رہے ہو۔‘‘
’’وہ اپنے باپ کا تخم نہ ہو جو تم سے جھوٹ بولے۔۔۔۔۔‘‘
کلونت کور تھوڑی دیر کے لئے خاموش ہوگئی لیکن فوراً ہی بھڑک اُٹھی۔
’’لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا ، اس رات تمھیں ہوا کیا۔۔۔۔۔۔؟اچھے بھلے میرے ساتھ لیٹے تھے، مجھے تم نے وہ تمام گہنے پہنا رکھے تھے جو شہر سے لُوٹ کے لائے تھے۔ میری بھپّیاں لے رہے تھے، پھر جانے ایک دم تمھیں کیا ہوا، اُٹھے اور کپڑے پہن کر نکل گئے۔
ایشر سنگھ کا رنگ زرد ہوگیا۔ کلونت کور نے یہ تبدیلی دیکھتے ہی کہا۔
’’دیکھا کیسے رنگ پیلا پڑگیا۔۔۔۔۔۔ایشر سیاں، قسم واہگورو کی ،ضرور کچھ دال میں کالا ہے؟۔۔۔۔۔۔‘‘
’’تیری جان کی قسم ، کچھ بھی نہیں۔‘‘
ایشر سنگھ کی آواز بے جان تھی۔ کلونت کور کا شبہ اور زیادہ مضبوط ہوگیا۔ بالائی ہونٹ بھینچ کر اس نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔
’’ایشر سیاں ، کیا بات ہے، تم وہ نہیں ہو جو آج سے آٹھ روز پہلے تھے؟‘‘
ایشر سنگھ ایک دم اُٹھ بیٹھا جیسے کسی نے اُس پر حملہ کیا ہو، کلونت کور کو اپنے تندمند بازوئوں میں سمیٹ کر اس نے پوری قوّت کے ساتھ اسے بھنبھوڑنا شروع کردیا۔
’’جانی ،میں وہی ہوں۔۔۔۔۔گُھٹ گُھٹ پاجھپیاں، تیری نکلے ہڈاں دی گرمی۔۔۔۔‘‘
کلونت کور نے کوئی مزاحمت نہ کی، لیکن وہ شکایت کرتی رہی۔
’’تمھیں اس رات ہو کیا گیا تھا؟‘‘
’’برے کی ماں کو وہ ہوگیا تھا۔‘‘
’’بتائو گے نہیں؟‘‘
’’کوئی بات ہو تو بتائوں۔‘‘
’’مجھے اپنے ہاتھوں سے جلائو اگر جھوٹ بولو۔‘‘
ایشر سنگھ نے اپنے بازو اس کی گردن میں ڈال دیے اور ہونٹ اس کے ہونٹوں میں گاڑ دیے۔مونچھوں کے بال کلونت کور کے نتھنوں میںگُھسے تو اُسے چھینک آگئی۔۔۔۔۔دونوں ہنسنے لگے۔
ایشر سنگھ نے اپنی صدری اُتار دی اور کلونت کور کو شہوت بھری نظروں سے دیکھ کر کہا۔
’’آجائو !۔۔۔۔۔۔۔ایک بازی تاش کی ہو جائے!۔۔۔۔۔۔‘‘
کلونت کور کے بالائی ہونٹ پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں پھوٹ آئیں۔ ایک ادا کے ساتھ اس نے اپنی آنکھوں کی پتلیاں گھمائیںاور کہا۔
’’چل دفاں ہو۔۔۔۔۔۔‘‘
ایشر سنگھ نے اُس کے بھرے ہوئے کولھے پر زور سے چٹکی بھری۔ کلونت کور تڑپ کر ایک طرف ہٹ گئی۔
’’نہ کر ایشر سیاں ،میرے درد ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔‘‘
ایشر سنگھ نے آگے بڑھ کر کلونت کور کا بالائی ہونٹ اپنے دانتوں تلے دبا لیا اور کچکچانے لگا۔ کلونت کور بالکل پگھل گئی۔ ایشر سنگھ نے اپنا کرتہ اُتار کے پھینک دیا اور کہا۔
’’لو ،پھر ہو جائے تُرپ چال۔۔۔۔۔۔‘‘
کلونت کور کا بالائی ہونٹ کپکپانے لگا، ایشر سنگھ نے دونوں ہاتھوں سے کلونت کور کی قمیص کا گھیرا پکڑا اور جس طرح بکرے کی کھال اُتارتے ہیں، اُسی طرح اس کو اُتار کر ایک طرف رکھ دیا۔ پھر اُس نے گھور کے اس کے ننگے بدن کو دیکھا اور زور سے اس کے بازو پر چٹکی بھرتے ہوئے کہا۔
’’کلونت، قسم واہگورو کی، بڑی کراری عورت ہے تو۔۔۔۔۔۔‘‘
کلونت کور اپنے بازو پر اُبھرتے ہوئے لال دھبّے کو دیکھنے لگی۔
’’بڑا ظالم ہے تو ایشر سیاں؟‘‘
ایشر سنگھ اپنی گھنی کالی مونچھوں میں مسکرایا۔
’’ہونے دے آج ظلم ؟‘‘اور یہ کہہ کر اس نے مزید ظلم ڈھانے شروع کیے۔۔۔۔۔۔۔
کلونت کور کا بالائی ہونٹ دانتوں تلے کچکچایا، کان کی لووں کو کاٹا، اُبھرے ہوئے سینے کو بھنبھوڑا، بھرے ہوئے کولھوں پر آواز پیدا کرنے والے چانٹے مارے، گالوں کے منہ بھر بھر کے بوسے لیے، چُوس چُوس کر اُس کا سارا سینہ تھوکوں سے لتھیڑ دیا۔ کلونت کور تیز آنچ پر چڑھی ہوئی ہانڈی کی طرح اُبلنے لگی لیکن ایشر سنگھ ان تمام حیلوں کے باوجود خود میں حرارت پیدا نہ کرسکا۔ جتنے گُر اور جتنے دائو اُسے یاد تھے ، سب کے سب اس نے پٹ جانے والے پہلوان کی طرح استعمال کردیے ،پر کوئی کارگر نہ ہوا۔ کلونت کور نے جس کے بدن کے سارے تار تن کر خود بخود بج رہے تھے ،غیر ضروری چھیڑ چھاڑ سے تنگ آکر کہا۔
’’ایشر سیاں، کافی پھینٹ چکا ہے، اب پتّا پھینک!۔۔۔۔۔‘‘
یہ سنتے ہی ایشر سنگھ کے ہاتھ سے جیتے تاش کی ساری گڈی نیچے پھسل گئی ۔ ہانپتا ہوا وہ کلونت کور کے پہلو میں لیٹ گیا اور اُس کے ماتھے پر سرد پسینے کے لیپ ہونے لگے۔ کلونت کور نے اسے گرما نے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہی۔ اب تک سب کچھ مُنہ سے کہے بغیر ہوتا رہا تھا کہ جب کلونت کور کے منتظر بہ عمل اعضا کو سخت نااُمیدی ہوئی تو وہ جھلّا کر پلنگ سے نیچے اُتر گئی۔ سامنے کھونٹی پر چادر پڑی تھی ،اس کو اُتار کر اس نے جلدی جلدی اوڑھ کر اور نتھنے پُھلا کر، بپھرے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’ایشر سیاں وہ کون حرامزادی ہے جس کے پاس تُو اتنے دن رہ کر آیا ہے اور جس نے تجھے نچوڑ ڈالا ہے؟‘‘
ایشر سنگھ پلنگ پر لیٹا ہانپتا رہا اور اس نے کوئی جواب نہ دیا۔
کلونت کور غصّے سے اُبلنے لگی۔
’’میں پوچھتی ہوں ،کون ہے وہ چڈّو۔۔۔۔۔۔کون ہے وہ الفتی۔۔۔۔۔۔کون ہے وہ چور پتّا۔۔۔۔۔۔؟‘‘
ایشر سنگھ نے تھکے ہوئے لہجے میں جواب دیا۔
’’کوئی بھی نہیں کلونت!۔۔۔۔۔۔کوئی بھی نہیں۔۔۔۔۔۔‘‘
کلونت کور نے اپنے بھرے ہوئے کولھوں پر ہاتھ رکھ کر ایک عزم کے ساتھ کہا۔
’’ایشر سیاں ،میں آج جھوٹ سچ جان کے رہوں گی۔۔۔۔۔۔کھائو واہگورو جی کی قسم۔۔۔۔۔۔کیا اس کی تہہ میں کوئی عورت نہیں؟‘‘
ایشر سنگھ نے کچھ کہنا چاہا مگر کلونت کور نے اس کی اجازت نہ دی۔
’’قسم کھانے سے پہلے سوچ لے کہ میں بھی سردار نہال سنگھ کی بیٹی ہوں۔۔۔۔۔۔تکّا بوٹی کردوں گی ، اگر تُو جھوٹ بولا۔۔۔۔۔۔لے اب کھائو واہگورو جی کی قسم۔۔۔۔۔۔کیا اس کی تہہ میں کوئی عورت نہیں۔۔۔۔۔۔؟‘‘
ایشر سنگھ نے بڑے دکھ کے ساتھ اثبات میں سر ہلا دیا۔ کلونت کور بالکل ویرانی ہوگئی۔ اس نے لپک کر کونے میں سے کرپان اُٹھائی ،میان کو کیلے کے چھلکے کی طرح اتار کر ایک طرف پھینکا اور ایشر سنگھ پر وار کردیا۔
آن کی آن لہو کے فّوارے پھوٹ پڑے۔ کلونت کور کی اس سے بھی تسلّی نہ ہوئی تو اس نے وحشی بلّیوں کی طرح ایشر سنگھ کے کیس نوچنے شروع کردئیے ۔ساتھ ہی ساتھ وہ اپنی نامعلوم سوت کو موٹی موٹی گالیاں دیتی رہی۔ ایشر سنگھ نے تھوڑی دیر کے بعد نقاہت بھری التجا کی۔
’’جانے دے اب کلونت ، جانے دے۔۔۔۔۔۔!‘‘اس کی آواز میں بلا کا درد تھا ۔کلونت کور پیچھے ہٹ گئی۔
خون ایشر سنگھ کے گلے سے اُڑ اُڑ کر اس کی مونچھوں پر گر رہا تھا۔ اس نے اپنے لرزاں ہونٹ کھولے اور کلونت کور کی طرف شکریے اور گِلے کی ملی جلی نگاہوں سے دیکھا۔
’’میری جان !۔۔۔۔۔۔تم نے بہت جلدی کی ۔۔۔۔۔۔لیکن جو ہوا، ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔‘‘
کلونت کور کا حسد پھر بھڑکا۔
’’مگر وہ کون ہے تمھاری ماں؟۔۔۔۔۔۔‘‘
لہو ایشر سنگھ کی زبان تک پہنچ گیا۔ جب اس نے اس کا ذائقہ چکھا تو اس کے بدن میں جُھرجُھری سی دوڑ گئی۔
’’اور میں ۔۔۔۔۔۔اور میں ۔۔۔۔۔۔بھینی یا چھ آدمیوںکو قتل کرچکا ہوں ۔۔۔۔۔۔اسی کرپان سے ۔۔۔۔۔۔‘‘
کلونت کور کے دماغ میں صرف دوسری عورت تھی۔
’’میں پوچھتی ہوں، کون ہے وہ حرامزادی ؟‘‘
ایشر سنگھ کی آنکھیں دُھندلا رہی تھیں۔ ایک ہلکی سی چمک ان میں پیدا ہوئی اور اس نے کلونت کور سے کہا۔
’’گالی نہ دے اُس بھڑوی کو۔۔۔۔۔۔‘‘
کلونت چلّائی۔
’’میں پوچھتی ہوں ، وہ ہے کون؟۔۔۔۔۔۔‘‘
ایشر سنگھ کے گلے میں آواز رُندھ گئی۔
’’بتاتا ہوں۔۔۔۔۔۔‘‘یہ کہہ کر اُس نے اپنی گردن پر ہاتھ پھیرا اور اس پر اپنا جیتا جیتا خون دیکھ کر مُسکرایا۔
’’انسان ماں یا بھی ایک عجیب چیزہے۔۔۔۔۔۔‘‘
کلونت کور اس کے جواب کی منتظر تھی۔
’’ایشر سیاں ، تو مطلب کی بات کر۔۔۔۔۔۔‘‘
ایشر سنگھ کی مسکراہٹ اس کی بھری مونچھوں میں اور زیادہ پھیل گئی۔
’’مطلب ہی کی بات کررہا ہوں۔۔۔۔۔۔گلا چِرا ہے ماں یا میرا۔۔۔۔۔۔اب دھیرے دھیرے ہی ساری بات بتائوں گا۔۔۔۔۔۔‘‘
اور جب وہ بات بتانے لگا تو اس کے ماتھے پر ٹھنڈے پسینے کے لیپ ہونے لگے۔
’’کلونت میری جان!۔۔۔۔۔۔میں تمھیں نہیں بتا سکتا ،میرے ساتھ کیا ہوا۔۔۔؟انسان کڑی یا بھی ایک عجیب چیز ہے۔۔۔۔۔۔شہر میں لُوٹ مچی تو سب کی طرح میںنے بھی اس میں حصّہ ڈالا ۔۔۔۔۔۔گہنے پائے اور روپے پیسے جو بھی ہاتھ لگے، وہ میں نے تمھیں دے دیے۔۔۔۔۔۔لیکن ایک بات تمھیں نہ بتائی۔۔۔۔۔۔‘‘
ایشر سنگھ نے گھائو میں درد محسوس کیا اور کراہنے لگا۔ کلونت کور نے اس کی طرف توجہ نہ دی اور بڑی بے رحمی سے پوچھا۔
’’کون سی بات؟۔۔۔۔۔۔‘‘
ایشر سنگھ نے مونچھوں پر جمے ہوئے لہو کو پھونک کے ذریعے سے اڑاتے ہوئے کہا۔
’’جس مکان پر ۔۔۔۔۔۔میں نے دھاوا بولا۔۔۔۔۔۔اس میں سات ۔۔۔۔۔۔اس میں سات آدمی تھے۔۔۔۔۔۔چھ میں نے ۔۔۔۔۔۔قتل کردیے ۔۔۔۔۔۔اسی کرپان سے جس سے تو نے مجھے۔۔۔۔۔۔چھوڑا سے ۔۔۔۔۔۔سُن ۔۔۔۔۔۔ایک لڑکی تھی بہت ہی سُندر ۔۔۔۔۔۔اس کو اُٹھا کر میں اپنے ساتھ لے آیا۔۔۔۔۔۔‘‘
کلونت کور خاموش سنتی رہی۔ ایشر سنگھ نے ایک بار پھر پھونک مار کے مونچھوں پر سے لہو اُڑا یا۔
’’کلونت جانی ،میں تم سے کیا کہوں،کتنی سُندر تھی ۔۔۔۔۔۔میں اسے بھی مار ڈالتا، پر میں نے کہا، نہیں ایشر سیاں ، کلونت کور کے تو ہر روز مزے لیتا ہوں ،یہ میوہ بھی چکھ دیکھ۔۔۔۔۔۔‘‘
کلونت کور نے صرف اس قدر کہا۔
’’ہوں۔۔۔۔۔۔!‘‘
’’۔۔۔۔۔۔اور میں اسے کندھے پر ڈال کر چل دیا۔۔۔۔۔۔راستے میں ۔۔۔۔۔۔ کیا کہہ رہا تھا میں۔۔۔۔۔۔؟ہاں راستے۔۔۔۔۔۔نہر کی پٹڑی کے پاس تھوہر کی جھاڑیوں تلے میں نے اسے لٹادیا۔۔۔۔۔۔پہلے سوچا کہ پھینٹوں ،لیکن پھر خیال آیا کہ نہیں۔۔۔۔۔۔‘‘ یہ کہتے کہتے ایشر سنگھ کی زبان سوکھ گئی۔
کلونت کور نے تھوک نِگل کر اپنا حلق تر کیا اور پوچھا۔
’’پھر کیا ہوا؟‘‘
ایشر سنگھ کے حلق سے بمشکل یہ الفاظ نکلے۔
’’میں نے۔۔۔۔۔۔میں نے پتّا پھینکا۔۔۔۔۔۔لیکن ۔۔۔۔۔۔لیکن ۔۔۔۔۔۔‘‘اس کی آواز ڈوب گئی۔
کلونت کور نے اسے جھنجھوڑا۔
’’پھر کیا ہوا؟‘‘
ایشر سنگھ نے اپنی بند ہوتی ہوئی آنکھیں کھولیں اور کلونت کور کے جسم کی طرف دیکھا جس کی بوٹی بوٹی تھرک رہی تھی۔
’’وہ ۔۔۔۔۔۔وہ مری ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔لاش تھی۔۔۔۔۔۔بالکل ٹھنڈا گوشت۔۔۔۔۔۔جانی،مجھے اپنا ہاتھ دے۔۔۔۔۔۔‘‘
کلونت کور نے اپنا ہاتھ ایشر سنگھ کے ہاتھ پر رکھا جو برف سے بھی زیادہ ٹھنڈا تھا۔
٭٭٭
تجزیہ
سعادت حسن منٹو کا افسانہ ’’ٹھنڈا گوشت ‘‘ انتہائی مقبول و معروف شاہکار ہے۔ اردو افسانے سے تھوڑا بہت شغف رکھنے والے بھی ٹھنڈا گوشت کے بارے میں بخوبی جانتے ہیں کہ یہ افسانہ منٹو کی لازوال تخلیق ہے۔ دراصل منٹو زندگی کی گہرائیوں میں اتر کر نایاپ موتیوں کو ڈھونڈ ھ کر لایا کرتے تھے۔ زندگی کی انتہائی ذاتی، انتہائی پوشیدہ سچائیوں کے کپڑے پھاڑ کر سماج کے سامنے ننگا کیا کرتے تھے۔ میرا خیال ہے استاد جب افسانے تخلیق کیا کرتے ہوں گے اُن کا ذہن ایک آزاد پرندے کی طرح کسی بندش کے بغیر اپنی مرضی جدھر چاہے پرواز کرتا ہوگا اُن پر جب تخلیق کا وجد سوار ہوتا ہوگا ۔وہ اپنی ذہنی دنیا کے ڈکٹیٹر بن جاتے ہوں گے۔ بے خوف، نڈر ،بہادر، مست مولا ،کسی بھی انجام سے بے پرواہ اور دبنگ ایسے انسان کو کہاں کسی خاص دائیرے میں قید کیا جاسکتا ہے۔ اگر کوئی انسان اپنے کسی کام کے نتیجہ میں، بڑی سے بڑی مشکلات کا سامنا کرتا ہے۔ مالی اور ذہنی نقصان جھیلتا ہے اگر وہ اپنے فعل کو غلط سمجھتا ہے تو دوبارہ اُسے دہرانے کی بات سوچتا بھی نہیں۔ بلکہ آئندہ کے لئے تو بہ کر لیتا ہے۔ استاد نے اپنی ایک کے بعد ایک تخلیق کے نتیجہ میں تکالیف برداشت کیں۔ مگر سچائی اور خودداری کا دامن نہیں چھوڑا۔ توبہ نہیں کی اپنے کام کو غلط نہیں سمجھا۔ سماج کو اپنی نظر سے جس شکل میں دیکھا ویسا ہی پیش کیا چاہے وہ کتنی ہی گھنائونی تھی۔ استاد اپنی تخلیقات کے حوالے سے حقیقت اور اظہار حقیقت میں کوئی فرق نہیں رکھتے تھے۔ ایک جگہ منٹو فرماتے ہیں کہ وہ صرف عکاس ہیں آئینے پر برے اور اچھے چہرے والوں میں کوئی فرق نہیں رکھتے تھے۔ ایک جگہ منٹو فرماتے ہیں کہ وہ تو صرف عکاس ہیں آئینے پر برے چہرے والوں کو غصّہ آیا ہی کرتا ہے۔
افسانہ بو کی طرح ٹھنڈا گوشت بھی ایک جنسی نفسیات پر مبنی ہے جو انسانی فطرت کی ایک مونہہ بولتی سچائی ہے۔ ماضی بعید میں ہم نے کسی سے ایک سچا واقعہ سنا تھا۔
کہ ایک نوجوان کی شادی ہوئی ۔رہائشی مکان چھوٹا تھا، بڑی مشکل سے دولہا دلہن کو سہاگ رات منانے کے لئے ایک کمرہ دے دیا گیا۔ دولہا بے خوف ہو کر زندگی کے لطف میں غرق ہوگیا ۔اُس خاص عمل کے دوران کسی ضرورت کے تحت لڑکے کے باپ نے صحن کی بتی جلا دی۔ کھڑکی کھلی تھی روشنی فوری کمرے میں آئی تو دولہا میاں ایک دم چونک پڑے ان کے ذہن پر اچانک خوف کا بھاری پتّھر گرا، اور وہ عارضی نامردی کا شکار ہوگئے۔ انہیں شفا یاب ہونے میں کئی برس لگ گئے سیکس کا تعلق براہِ راست دماغ سے ہوا کرتا ہے۔ ’’ٹھنڈا گوشت ‘‘ میں بھی اسی طرح ایک خوفناک سچائی اچانک ایشر سنگھ کے انتہائی سامنے آتی ہے اور وہ نفسیاتی بیماری کا شکار ہو جاتا ہے جسے ہم عارضی نامردی کا نام دیتے ہیں۔ جو بلاشبہ قابل علاج ہے۔ آئیے افسانہ ٹھنڈا گوشت کے خدو خال کے بارے میں بات کریں۔
افسانے میں دو کردار ہیں ایشر سنگھ اور اُس کی داشتہ کلونت کور کچھ نقادوں نے کلونت کور کو ایشر سنگھ کی بیوی قرار دیا ہے۔ استاد منٹو نے یہ مسئلہ پہلے ہی جملے میں حل کردیا تھا۔ ایشر سنگھ کلونت کو رکو ہوٹل میں ملتا ہے رات بارہ بجے کا وقت ہے اگر کلونت کور ایشر کی بیوی ہوتی تو استاد ان کا گھر دکھاتے کہ وہ گھر میں مل رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ٹھنڈا گوشت ۱۹۴۸ء میں تخلیق ہوا جہاں تک میں سمجھتا ہوں اُس دور میں ایسا کلچر نہیں تھا کہ میاں بیوی گھر کی بجائے ہوٹل میں رات بسر کرتے ہوں ایشر سنگھ رئیس آدمی ہوتا، تو بھی ہم مان لیتے کہ تفریح کی غرض سے میاں بیوی ہوٹل میں ملے۔ آگے چل کر استاد منٹو نے صاف کردیا کہ ایشر سنگھ کلونت کور سے آٹھ دن بعد ملا تھا۔ جس سے ظاہر ہوا کہ وہ دونوں کبھی کبھی ملتے تھے وہ بھی ہوٹل میں۔ ظاہر ہے کلونت کور ایشر سنگھ کی محبوبہ ہی تھی۔
بہر حال دونوں کردار کنوار ے ہیں جسمانی طور پر دونوں مضبوط ، دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم، ہفتہ پہلے دونوں آپس میں ملے تھے، اُس دن جنسی ملاقات کے لئے تیار تھے کہ عین وقت پر ایشر سنگھ کلونت کور کو تشنہ چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔ عورت سب کچھ برداشت کرسکتی ہے اپنے مرد کی لاتعلّقی برداشت نہیں کرسکتی ۔فطری طور پر عورت شکی مزاج کی ہوتی ہے مرد کی ذرا سی بے توجہی سے عورت کے دماغ میں فوراً یہ بات گھر کر جاتی ہے کہ اُس کے عاشق کے اور اُس کے درمیان کوئی دوسری ہے۔ یہاں بھی یہی ہوا آٹھ دن پہلے ایشر سنگھ کا اُسے تشنہ کام چھوڑنا۔ اُسے یقین ہو گیا کہ اُن کے درمیان کوئی ہے۔ اُس رات کی بے رُخی کا کلونت کور ایشر سنگھ سے جواب مانگتی ہے۔
’’ایشر سیاں۔۔۔۔۔۔کہاں تھے تم اتنے دن۔۔۔۔۔۔!؟
’’ایشر سنگھ جواب دیتا ہے۔۔۔۔۔۔مجھے معلوم نہیں۔۔۔۔۔۔!؟‘‘
کلونت کور بھنّا جاتی ہے اور کہتی ہے۔
’’یہ بھی کوئی جواب ہوا۔۔۔۔۔۔ماں یا۔۔۔۔۔۔!!‘‘
یہ الفاظ ماں یا، بھینی یا اور کڑی یا پنجابی زبان کی گندی گالیاں ہیں جو امرتسر علاقہ کے لوگوں کا تکیہ کلام ہے۔ اگر ان کی تشریح کی جائے تو جملے شرمسار ہو اُٹھیں۔ میں خود استاد منٹو کے شہر میں چار سال رہا ہوں۔ دفتری امور کے سلسلے میں مجھے دیہاتوں میں بھی جانا پڑتا تھا۔ ماں یا بھینی یا کی گالی میں نے کسی عورت کے مونہہ سے نہیں سُنی۔ البتہ مرد آپس میں بات چیت کرتے ہوئے، یہاں تک گھروں میں بیٹھ کر بھی ان گالیوں کو بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ دوسروں کو بھی دیتے ہیں ،اپنے آپ کو بھی ملاخطہ فرمائیں:
’’او میں ماں یا گھر گیا سی ۔۔۔اوتھے بھینی یا کوئی نئیں سی۔۔۔۔۔۔!‘‘
(اور میں ماں یا گھر گیا تھا۔ وہان بھینی یا کوئی تھا ہی نہیں۔)
یہ روٹین کی اور سہواً گالیاں ہیں جن کا سامنے والا کوئی نوٹس نہیں لیتا ۔اُستاد نے کرداروں کی خوبصورتی اور حقیقی رنگ بھرنے کے لئے ان کا استعمال کیا ہے ۔یہ گالیاں امرتسر ضلع سے ہی تعلّق رکھتی ہیں ۔شاید لاہور جس کا فاصلہ کچھ زیادہ نہیں، میں یہ گالیاں عام نہیں۔ ان کی وضاحت اگر بریکٹ میں دی جاتی تو قاری کو سمجھنے میں سہولیت ہوتی۔ پتہ نہیں کیوں استاد سمجھتے تھے کہ یہ گالیاں ،تامل ناڈو ،بنگال بہار کے قارئین بھی سمجھ جائیں گے۔ یا اُن کو اندازہ نہ تھا کہ وہ ایک دن پوری دنیائے ادب پر آسیب کی طرح چھا جائیں گے۔ ان کے علاوہ پنجابی کے کئی دوسرے الفاظ بھی استاد اپنے کرداروں سے کہلوا دیتے تھے۔ جو عام فہم نہیں تھے۔ یہ اُن کا اپنا اسلوب تھا کہ کردار کے مونہہ میں اُس کی اپنی زبان ہی رکھتے تھے۔ جو کردار کی خوبصورتی بڑھا دیتی ہے۔ جو ایک اچھے فن کی علامت ہے۔
بہر حال ایشر سنگھ سے کوئی صحیح جواب نہیں بن پاتا۔ وہ بڑا پریشان ہے۔ وہ کلونت کور کو پیار بھرے انداز سے بلاتا ہے۔ کلونت کور پگھل جاتی ہے۔اُس کا پیار اُمڈ آتا ہے۔ مگر وہ اپنے سوال پر اڑی رہتی ہے۔ اس بار اس کا سوال کرنے والا انداز محبت بھرا ہوتا ہے۔ محبت عورت کی کمزوری ہے۔ جب ایشر سنگھ کلونت کے سوال کا جواب نہیں دے پاتا تو وہ معاملہ ٹالنے کی غرض سے چھیڑ چھاڑ شروع کردیتا ہے۔
کلونت کور نرم تو ہوجاتی ہے مگر اُس کا سوال وہی رہتا ہے جیسے
’’ایشر سیاں۔۔۔۔۔۔کہاں رہے تم اتنے دن۔۔۔۔۔۔!؟‘‘
ایشر جواب دیتا ہے۔
’’برے کی ماں کے گھر۔۔۔۔۔۔!‘‘
ایسے مکالمے پنجاب میں اکثر سننے کو ملتے ہیں۔ ایشر سنگھ کلونت کے اُس سوال سے بچنے کے لئے اُس کا سینہ مسلنا شروع کردیتا ہے۔ مگر وہ بڑی کانٹے دار اور اڑیل زنانی تھی۔ ایشر اُس کی تعریف بھی کرتا ہے۔مگر اُس کا سوال جوں کی توں قائم رہتا ہے۔
’’تمہیں میری قسم۔۔۔۔۔۔بتائو۔۔۔۔۔۔!۔۔۔۔۔کہاں رہے ۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔شہر گئے تھے ۔۔۔۔۔؟‘‘
یہ مکالمہ اپنی سمجھ سے باہر ہے۔ استاد نے پہلے ہی جملے میں بتا دیا کہ دونوں ہوٹل کے کمرے میں ملتے ہیں۔ ظاہر ہے ایسے ہوٹل جن کے کمرے رہائش کیلئے کرایہ پر ملتے ہوں وہ شہروں میں ہی ہوتے ہیں۔ کسی گائوں میں ہوٹل اینڈ ریسٹورینٹ بھی نہیں کیا جاسکتا۔ وہ بھی اُس دور میں جس دور میں افسانہ سانس لے رہا ہے۔ شروعاتی جملوں میں استاد واضح کررہے ہیں۔
’’شہر کا مضافات ایک عجیب پُر اسرار خاموشی میں غرق تھا۔‘‘
یہ جملہ خود اپنے اندر ایک بڑا ثبوت ہے کہ اُس وقت کلونت اور ایشر شہر میں موجود تھے، پھر کلونت کا یہ سوال کہ شہر گئے تھے ۔۔۔۔؟ بے معنی سا لگتا ہے۔ ممکن ہے نقاد حضرات۔۔۔۔۔اِس بے معنی جملے سے جو شہر میں بیٹھ کر ایشر سے پوچھتی ہے کہ شہر گئے تھے ۔۔۔۔۔۔؟ سے بھی کوئی جمالیاتی پہلو نکال لیں ۔کسی استعارے کی نشاندیہی کردیں۔ ایشر سنگھ کہتا ہے کہ وہ شہر نہیں گیا۔ کلونت کور کو شک ہے کہ شہر سے بہت سا روپیہ لوٹ کر وہ کسی دوسری عورت سے جڑ گیا ہے۔ ایشر یقین دلاتا ہے مگر کلونت نہیں مانتی پھر وہ ایک نقطے پر آن کھڑی ہوتی ہے۔
’’آٹھ دن پہلے تم میرے ساتھ لیٹے میری بپھیاں لے رہے تھے ۔تم ایک دم اُٹھے اور کپڑے پہن کر چل دئیے۔۔۔۔۔۔ضرور دال میں کچھ کالا ہے۔۔۔۔۔۔!‘‘
ایشر سنگھ یقین دلاتا ہے۔
’’تیری جان کی قسم کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔۔!!‘‘ ایشر اُسے بازوئوں میں لے لیتا ہے۔
بڑے جوش کے ساتھ جپھیاں ڈالتا ہے یعنی بازوئوں میں کستا ہے۔ ٹاپک بدلنے کی کوشش کرتا ہے مگر کلونت کور اُس سے سوالات کرتی رہتی ہے۔
’’کیا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔!؟ تمہیں اُس رات ۔۔۔۔۔!؟‘‘
ایشر سنگھ جواب دیتا ہے ۔
’’کوئی بات ہو تو ۔۔۔۔۔۔بتائوں۔۔۔۔۔۔!‘‘
وہ اُسے بازوئوں میں لے کر بھنبھوڑتا ہے۔ اُس کے ہونٹوں میں ہونٹ گاڑ دیتا ہے وہ سوچتا ہے عورت ذات ہے جذبات میں بہہ کر سوال کرنا چھوڑدے گی۔ دفعتاً ایشر سنگھ اُسے دعوت دیتا ہے۔
’’آجائو تاش کی ایک بازی ہو جائے۔۔۔۔۔۔!‘‘
یہان ایک جملہ بہت اچھا لگا کہ کلونت کور ہانڈی کی طرح پکنے لگی ہے۔ کلونت کور جب انتہائی گرم ہو کر نقطہء عروج پر پہونچ جاتی ہے تو اُس سے برداشت نہیں ہوتا وہ کہہ اُٹھتی ہے۔
’’ایشر سیاں کافی پھینٹ چکا۔۔۔۔۔۔اب پتّہ پھینک۔۔۔۔۔۔!‘‘
کرداروں کی اس کیفیت میں اگر اظہار کرتا۔ تو یوں تحریر کرتا۔
’’بس کرو۔۔۔۔!اب کتنا ترسائو گئے۔۔۔۔۔۔؟ مر جائوں گی میں۔۔۔۔۔۔!‘‘
اظہار وہی ہے قاری کے ذہن میں بات مکمل ہو جاتی ہے۔ تھوڑا فحاشی سے ہٹ کر اخلاق کے دائیرے میں بھی رہنا ضروری ہے۔ پتّہ پھینکنے کی علامت ، فحاشی ہی سمجھی جائے گی۔ میرا مطلب یہ نہیں کہ خدانہ خواستہ میں استاد سے بہتر لکھتا ۔میرے کہنے کا مطلب یہ کہ بات کو یوں بھی نبھایا جاسکتا تھا معاملہ ادب کا جو ٹھہرا ۔مگر استاد کو توٹھنڈا گوشت ہاٹ بنانا تھا۔ تا کہ لوگ شور مچائیں۔ استاد خود بھی شرافت سے بیان کرسکتے تھے بہر حال ایشر سنگھ کے ماتھے پر سر د پسینے کے لیپ ہونے لگے۔ ایشر کے ہاتھ سے جیسے تاش کی ساری گڈی نیچے پھسل گئی۔ کلونت کور اُسے گرمانے کی بہت کوشش کرتی ہے مگر ناکام رہتی ہے۔ اب اُس کا شک پختہ یقین میں بدل جاتا ہے۔ وہ پلنگ سے اتر کر چادر اوڑھ لیتی ہے اور بپھرے ہوئے لہجے میںسوال کرتی ہے۔
’’ایشر سنگھ ۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔وہ کون حرام زادی ہے۔۔۔۔۔۔!؟ جس نے تجھے نچوڑ کر رکھ دیا۔ ایشر خاموش رہتا ہے کلونت کے سوال کا تیکھا پن بڑھ جاتا ہے ۔وہ یقین دلاتا ہے۔‘‘
’’کوئی بھی نہیں ۔۔۔۔۔۔!‘‘ کلونت کور غصّہ سے تن جاتی ہے۔ کہتی ہے۔
’’واہ گرو کی قسم کھا کر بتا۔۔۔۔۔۔اس کی تہہ میں کوئی عورت نہیں ۔۔۔۔۔۔!!؟‘‘
ایشر سنگھ سفاک قاتل اور لٹیرا تھا بدمعاش تھا مگر محبوبہ کے سامنے اس قدر نرم ہو جاتا ہے کہ جھوٹ نہیں بول پاتا اور ہاں میں گردن ہلا دیتا ہے۔ کلونت کور زخمی ناگن کی طرح پھنکارتی ہوئی لپک کر تلوار اُٹھا لیتی ہے اور ایشر سنگھ پر وار کردیتی ہے اور جنگلی بلّی کی طرح اُس کے بال نوچنے لگتی ہے۔ یہاں ایک بات ناقابل یقین سامنے آتی ہے جس کی طرف آپ کی توجہ دلانا چاہوںگا ۔کلونت کور تلوار کا وار کرتی ہے۔ استاد منٹو لکھتے ہیں کہ خون ایشر سنگھ کے گلے سے اُڑ اُڑ کر اُس کی مونچھوں پر گر رہا تھا ۔ظاہر ہے کلونت کور نے وار ایشر کے گلے پر کیا۔ آگے استاد نے بالکل واضح کردیا، ایشر سنگھ کا یہ مکالمہ ملا خطہ فرمائیں۔
’’گلا چراہے ماں یا میرا!۔۔۔۔۔۔اب دھیرے دھیرے ہی ساری بات بتائوں۔۔۔!‘‘
اس مکالمے سے تصویربالکل واضح ہوگئی کہ کلونت کور نے تلوار کا وار گلے پر ہی کیا تھا۔ غصّہ سے پاگل ہو رہی ایک جاندار عورت کا وار کمزور نہیںہوسکتا۔ عورت کی نفسیات ہے کہ حسد کی آگ میں وہ اندھی ہو جاتی ہے۔عورت اپنے محبوب یا شوہر کو کسی دوسری عورت سے شیئر نہیں کرسکتی۔ کلونت کور بھی اسی کیفیت میں وار کرتی ہے جو کمزور نہیں ہوسکتا اور پھر استاد نے خود لکھا ہے کہ خون ایشر سنگھ کے گلے سے اُڑ اُڑ کر اُس کی مونچھوں پر گررہا تھا۔ اس سے بھی ظاہر ہوجاتا ہے کہ کلونت کور کا وار بھر پور تھا۔ میرا سوال یہ ہے کہ ایسے بھر پور وار سے کیا شہ رگ کٹنے سے بچ سکتی ہے۔۔۔۔۔۔؟انسان کی شہ رگ تو گلے کی چمڑی کے تقریباً قریب ہی ہوتی ہے ایک دوست ڈاکٹر نے بتایا کہ شہ رگ تو گلے میں رسی ڈال کر کھینچنے سے بھی کٹ جاتی ہے یہاں تو کلونت کور کے بھر پور وارسے ایشر سنگھ کا گلا چر گیا تھا۔ خون کے فوارے پھوٹ پڑے تھے ایسے میں شہ رگ کا بچنا ناممکن ہے۔ بلاشبہ ایشر سنگھ کی شہ رگ کٹ گئی ہوگی۔ ہماری شہ رگ کا تعلق براہِ راست دماغ سے ہوتا ہے۔ شہ رگ کٹتے ہی انسان پہ بے ہوشی طاری ہونے لگتی ہے ۔وہ ایک دو الفاظ سے زیادہ نہیں بول سکتا۔ استاد منٹو نے ایشر سنگھ کا گلا چرنے کے کم سے کم دس منٹ بعد تک اُسے باہوش رکھا۔ آپ خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ دونوں کرداروں کی حرکات و سکنات اور مکالموں کی ادائیگی نے تقریباً دس منٹ تو لیئے ہی ہوں گے۔ افسانہ بہر حال انسانوں کی سر گذشت ہے۔ زندگی کا عکس ہوتا ہے افسانہ، انسانوں کی آپ بیتی ہوتا ہے۔اسے کیا ہم استاد کا دکھایا ہوا معجزہ سمجھیں کہ شہ رگ کٹ جانے کے پندرہ منٹ بعد تک ایشر سنگھ ہوش میں رہتا ہے اور بڑے آرام سے رک رک کر کلونت کور کو آپ بیتی بیان کرتا ہے۔ کہ وہ کس طرح اُس خوبصورت لڑکی کو اُٹھا لاتا ہے۔ پتّا پھینکنے پر اُسے معلوم ہوتا ہے کہ لڑکی مردہ ہے ۔ منٹو کے کئی دوسرے افسانوں کے مطالعہ سے بھی یہ بات سامنے آتی ہے کہ استاد کسی جنسی مسئلے یا کسی حادثے کو پیش کرنا چاہتے تھے اُن کا فوکس اُس کے تھیم پر زیادہ بنا رہتا تھا۔ وہ جلد سے جلد اختتام پر پہونچ کر اپنا اظہار مکمل کرنے میں کوشاں رہتے تھے۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر توجہ نہیں دیتے تھے۔ دوسرے اُن کے اندر خود اعتمادی کوٹ کوٹ کر بھری تھی، جو سوچ لیا وہی تخلیق کرلیا۔ جیسے ہم کہانی کے مشاہدات کی مضبوطی کی غرض سے حسب ضرورت کسی ماہر سے دریافت کر لیتے ہیں میرا نداز ہ ہے استاد ایسا نہیں کرتے ہوںگے اس عمل کو شاید وہ تضحیک سمجھتے ہوں گے۔ اگر استاد گلا چرنے، شہ رگ کٹ جانے کی کیفیت کے بارے میں کسی ڈاکٹر سے رجوع کر لیتے تو شاید افسانے کی شکل ہی کچھ اور ہوتی۔ ایشر سنگھ چرے گلے کے ساتھ حقیقت بیان نہیں کرسکتا تھا۔ کیونکہ اُس کی شہ رگ کٹ چکی ہوتی ہے۔جس انسان کی شہ رگ کٹ جائے وہ بولا نہیں کرتا۔
بہرحال یہ تو میرا خیال ہے۔ ممکن ہے یہ خام خیالی ہو۔ اس کا فیصلہ تو میڈیکل سائنس ہی کرسکتی ہے۔ آئیے اب افسانے کی طرف لوٹیں تا کہ اس کے دوسرے پہلوئوں پر نظر ڈالی جائے ۔ایشر سنگھ درد میں ڈوب کر نقاہت سے بولتا ہے۔
’’جانے دے کلونت اب جانے دے۔۔۔۔۔۔! میری جان ۔۔۔۔۔۔تم نے بہت جلدی کردی۔۔۔۔۔۔!‘‘
کلونت کورپھر سوال کرتی ہے۔
’’مگر وہ ہے کون ۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔تمہاری ماں۔۔۔۔۔۔!؟‘‘
ایشر سنگھ کا گلا چر جاتا ہے وہ ٹھہر ٹھہر کر کلونت کور کو بتاتا ہے۔
’’میں نے ۔۔۔۔۔۔اسی کرپان سے ۔۔۔۔۔۔چھ قتل کر دئیے جس مکان پر میں نے دھا وا بولا وہاں سات آدمی تھے۔ ایک لڑکی تھی۔بہت ہی سُندر ۔۔۔۔۔۔اُس کو اُٹھا کر میں اپنے ساتھ لے آیا۔ کلونت جانی میں کیا بتائوں کہ وہ کتنی حسین تھی۔۔۔۔۔۔میں اُسے بھی مار ڈالتا۔مگر میں نے سوچا کہ کلونت کور کے مزے تو روز لیتا ہوں یہ میوہ بھی چکھ کر دیکھوں۔ اُسے کندھے پر ڈال کر میں چل دیا، نہر کی پٹڑی کے پاس تھوہرکی جھاڑیوں تلے میں نے اُسے لٹاد یا۔ میں نے پتّا پھینکا لیکن۔۔۔۔۔۔!‘‘اُس کی آواز ڈوب گئی۔ کلونت کور نے اُسے جھنجھوڑا۔
’’پھر کیا ہوا۔۔۔۔۔۔!؟‘‘
ایشر سنگھ کی بند ہوتی ہوئی آنکھیں کھلیں اور وہ بولا۔
’’وہ مری ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔لاش تھی ۔۔۔۔۔۔بالکل ٹھنڈا گوشت ۔۔۔۔۔۔!!‘‘
ایشر سنگھ کلونت کور کو ٹوٹ کر چاہتا ہے۔ اپنے آخری لمحات میں وہ کہتا ہے۔
’’جانی ۔۔۔۔۔۔! اپنا ہاتھ دے ۔۔۔۔۔۔!!‘‘
ظاہر ہے ایشر سنگھ کو اپنے آخری وقت میں نہ خدا یاد رہتا ہے نہ کوئی سگا سمبندھی۔وہ کلونت کور سے اُس کا لمس مانگتا ہے ۔ یہی اُس کی آخری خواہش بن کر رہ جاتی ہے۔ کلونت اپنا ہاتھ ایشر کے ہاتھ پر رکھ دیتی ہے ہاتھ جو برف سے زیادہ ٹھنڈا ہو چکا تھا۔
یہاں یہ بات کھٹکتی ہے کہ ایشر سنگھ کی طرح کلونت کور بھی اُسے بیحد چاہتی ہے۔ جب اُس کے سوالوں کا جواب مل جاتا ہے۔ معاملہ صاف ہو جاتا ہے ۔ایشر کہتا ہے جانی اپنا ہاتھ دے۔ محبوب خون میں لت پت ہے وہ جان کنی کے عالم میں ہے کلونت کواحساس ہی نہیں ہوتا؟کہ اُس نے اپنے محبوب کو مار ڈالا، زخمی کردیا جیسے وہ کہتا ہے کہ اُس کی گردن چِری ہے۔ اُس عورت پہ کوئی اثر نہیں ہوتا ، نہ وہ پچھتاتی ہے کہ یہ اُس نے بے وقوفی کی، بلا وجہ کے شک میں کیا کر ڈالا؟نہ روتی ہے نہ چلّاتی ہے۔ عورت کی فطرت کے خلاف اُس پہ اُس ناحق قتل کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔اُسے تو اپنے بال نوچ ڈالنے چاہئے تھے۔ چھاتی پیٹ لینی چاہئے تھی۔ وہ روتی بین کرتی کہ اُس نے یہ کیا کر ڈالا۔۔۔۔۔۔!؟ استاد نے چونکہ جو بات کہنی تھی وہ کہہ ڈالی اور جلدی سے دوکان بند کر ڈالی کہ کام ختم ہوگیا استاد نے محسوس ہی نہیں کیا کہ اُس نے کردار کا قتل کر ڈالااور وہ بھی ناحق ۔افسانے میں بے جا فحش جملے نہیں سجائے گئے جس کی وجہ سے قاری میں ہیجان پیدا ہوتا یا استاد خود جنسی چٹخارے لیتے ہوئے نظر آتے۔ اگر کوئی گالی یا ننگے جملے ہیں بھی تو حسب ضرورت ہیں۔ شاید اُن کے بغیر ٹھنڈا گوشت میں خوبصورتی نہ آتی۔ ایک ایساآدمی جو ادب میں دلچسپی نہ رکھتا ہو اور افسا نے کے رموز نہ جانتاہو۔ اُس کو واقعی ٹھنڈا گوشت فحش ہی لگے گا۔ میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ استاد منٹو حقیقت اور اظہار حقیقت میں فرق نہیں رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ کچھ جملے ہمیں ننگے لگتے ہیں۔
افسانہ ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ صرف دو کرداروں پر مبنی ہے۔ہوٹل کے کمرے میں شروع ہوتا ہے وہیں پہ ختم ہو جاتا ہے۔ جب مسلم لڑکی دہشت کے مارے ایشر سنگھ کے کندھے پر جان دے دیتی ہے اور ایشر سنگھ اپنی خواہش کے مطابق اُس سے جنسی رشتہ جوڑنے جاتا ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ اُس کی تپتی ہوئی شہوانی خواہشات کے سامنے ٹھنڈے گوشت کا لوتھڑا پڑا ہے۔ اس حادثے کا ایشر پر اس قدر گہرا اثر ہوتا ہے کہ وہ نفسیاتی طور پر نامرد ہو جاتا ہے۔ اسے عارضی نامردی بھی کہا جاسکتا ہے۔ اس سے ایک پہلو یہ بھی ابھر کر آتا ہے کہ ایشر سنگھ انتہائی حسّاس قسم کا آدمی تھا اگر کوئی بے حِس ، جاہل، بددماغ اور پیشہ ور کریمی نل ہوتا تو شاید اُس پہ مردہ جسم کو دیکھ کر ایسی کیفیت طاری نہ ہوتی وہ کہہ دیتا۔ مرگئی سالی چھوڑو۔۔۔۔۔۔! اس سے ظاہر ہے کہ وقتی طور پر ایشر سنگھ قاتل اور ظالم بن گیا تھا۔ بنیادی طور پر وہ ایک حسّاس آدمی تھا اور اُس کے اندر تھوڑی بہت اچھائی کی رمق باقی تھی۔ اگر ایشر سنگھ لاش کے ساتھ ہی جنسی فعل کر گذرتا تو افسانہ بالکل بے معنی ہو کر رہ جاتا، حیرانی کی بات نہیں لاشوں سے بدفعلی کی مثالیں موجود ہیں۔ جنسی بھوک کے ہاتھوں آدمی اندھا ہوجاتا ہے۔ جانوروں تک سے اپنی تسکین حاصل کرلیتا ہے دور حاضر میں تو بہو، بیٹی تک کے رشتوں کو بالائے طاق رکھ دیتا ہے۔ ایشر سنگھ کی اچھائی ایک جگہ اور جھانکتی نظر آتی ہے۔ ایک جگہ ایشر کلونت سے کہتا ہے۔
’’گالی نہ دے اُس بھڑوی کو۔۔۔۔۔۔‘‘
کیا ایشر سنگھ اُس مردہ عورت کو گالی دینا پسند نہیں کررہا تھا۔ ممکن ہے اُس مردہ لڑکی کے مرنے پر ایشر کے اندر رحم بھر گیا ہو کہ وہ اُس پر ترس کھانے لگا ہو۔ یا پچھتا رہا ہو کہ اُس کی جان بھی گئی اور وہ اسے چکھ بھی نہ سکا۔ بات یہ بھی ہے کہ چھ قتل کرنے والے کو کیسا پچھتاوا۔۔۔۔۔۔۔؟ ایشر سنگھ حساس انسان تھا ۔وہ وقتی طور پر قاتل بنا۔استاد منٹو کا مقصد ایک جنسی مسئلے کا اظہار تھا جو انہوں نے ’ٹھنڈا گوشت‘ میں پیش کیا۔ وہ یہ کہ مرد جنسی عمل کے لئے ،اپنی جنسی خواہشات کی تکمیل کے لئے تیار ہوا اور اچانک کوئی دلخراش واقعہ اُسے چونکا دے اُس کے اعصاب کو جھنجھوڑ دے۔ وہ اپنا بیش قیمت خزانہ یعنی مردانگی کھودیتا ہے۔ وقتی طور پر یا ہمیشہ کے لئے مرد کی یہ نفسیات استاد نے ایک انتہائی کڑوی سچائی کی شکل میں پیش کی ہے۔ افسانہ ’’بو‘‘ کی طرح ٹھنڈا گوشت کو زیادہ پھیلایا نہیں نہ ہی مقامات یا منظر کشی کے چکر میں پڑے بس دو تین کریکٹرز کھڑے کیئے ایک کمرے میں ہی افسانہ مکمل کردیا۔ جبکہ اُن کا زمانہ طویل افسانوں کا زمانہ تھا قاری کے پاس وقت بھی تھا اور مطالعہ کا رواج بھی تھا یا کہہ لیجئے کہ مطالعہ تفریح کا سامان تھا۔ افسانہ ’’بُو‘‘ میں گھاٹن لڑکی، رندھیر دونوں ہی محو عمل ہیں تیسری کردار اُس کی بیوی جو سوئی ہوئی ہے۔ مقام ایک چوبارہ جو رندھیرکا رہائشی کمرہ ہے۔ وہاں بھی مسئلہ ایک جنسی نفسیات کا اظہار ہے۔ ٹھنڈا گوشت میں ایشر سنگھ ، کلونت کور ، مقام ایک ہوٹل کا کمرہ اور بس۔ جو بات استاد نے کہنا تھی وہ کہہ گئے۔ ایشر سنگھ کیا ہے اُس کا ذریعہ معاش اُس کی بیک گرائونڈ کیا تھی۔ وہ کیا تھا، کیوں تھا۔ کچھ نہیں بس ایشر سنگھ تھا۔ ہٹا کتّا ،طاقتور، جنسی طور پر مضبوط اور دلیر ۔استاد نے جتنا کام اُس سے لینا تھا یعنی جنس کے معاملے میں اُس کردار کو پیش کرنا تھا اُس کا وہی پہلو پیش کردیا ۔کلونت کور اُس کی معشوق ہے۔ جو رات کے بارہ بجے اُس سے ہوٹل میں جنسی ملاقات کی غرض سے موجود ہے ۔ظاہر ہے وہ شادی شدہ بھی نہیں تھی۔ کیونکہ کسی مکالمے سے شائیبہ نہیں ہوتا کہ وہ شادی شدہ تھی۔
سوال یہ اُٹھتا ہے کہ کلونت کور کے آگے پیچھے کوئی تھا ہی نہیں؟ جبکہ وہ خود ایک مکالمے میں کہتی ہے کہ میں بھی نہال سنگھ کی بیٹی ہوں۔۔۔۔۔۔ٹکا بوٹی کردوں گی۔ اگر کلونت کور ایک ایسے آدمی کی بیٹی ہے جو جابر ہے۔ ٹکا بوٹی کرنے میں یقین رکھتا ہے تو وہ رات کے بارہ بجے کے بعد تک اپنے عاشق کے ساتھ ہوٹل کے کمرے میں رنگ رلیاں منانے کیسے آسکتی ہے۔ کیا وہ کردار زندگی سے جڑا ہوا نہیں تھا۔جس دور میں یہ دونوں کردار سانس لے رہے ہیں وہ دور بڑا حسّاس دور تھا۔ جوان اورخوبصورت لڑکی کا گھر سے نکلنا وہ بھی رات کے بارہ بجے پھر واپس اپنے باپ نہال سنگھ کے گھر لوٹنا کیسے ممکن تھا جبکہ قتل و غارت گیری کا بازار گرم تھا اور ایشر سنگھ ایسی ہی واردات میں ملوث تھا۔ جو اُس دور میں موجود تھے جو جانتے ہیں کہ وہ کس قدر ہولناک ماحول تھا۔ رات کو لڑکیاں گھر سے اکیلی نکلا کرتی تھیں یا نہیں۔ اُستاد منٹو بس جنسی نفسیات کے اظہار کی سوچتے رہے کہ کس طرح یہ مسئلہ پیش کیا جائے ان باتوں کی طرف انہوں نے دھیان ہی نہیں دیا۔ افسانہ تو شاہکار تھا ہی کچھ مقدمہ کی پبلسٹی نے اسے شاہکار بنادیا۔ جیسے ہمارے دور میں کسی فلمکو ہٹ بنانے کے لئے عوامی سطح پر اُس کی مخالفت کروا دی جاتی ہے۔ مقدمات دائیر کرادئیے جاتے ہیں۔ فلم کمائی کرلیتی ہے تو معاملہ دبا دیا جاتا ہے۔ اسے پبلسٹی سٹنٹ کا نام دیا جاتا ہے۔ اُس دور میں یہ سٹنٹ ممکن نہ تھا یہ تو اس ترقی یافتہ دور ہی کی دین ہے۔
بہر حال بات اظہار کی ہو رہی تھی۔ اسی طرح استاد نے بُو میں ایک مختلف جنسی نفسیات کو پیش کرنا تھا۔ رندھیر اور گھاٹن لڑکی سے کام لیا اور جنسی مسئلہ پیش کردیا۔ رندھیر کون ہے کیا ہے۔ اس کی بیک گرائونڈ کیا ہے۔ اُس کی ملکیت ایک چوبارہ ہے۔ وہ عیاش آدمی ہے ۔فرسٹ کلاس مجسٹریٹ اُس کو اپنی بیٹی دے دیتا ہے جو خوبصورت ہے۔ مجسٹریٹ رندھیر میں کیا قابلیت دیکھتا ہے اُس شخص میں وہ کیا دیکھتا ہے یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ گھاٹن لڑکی بھی کلونت کور کی طرح رندھیر کے چوبارے کے نیچے کھڑی بارش میں بھیگ رہی ہے۔ رندھیر اُسے اشارہ کرتا ہے، وہ اوپر آجاتی ہے اور بلا تامل، اپنا سب کچھ رندھیر کو سونپ دیتی ہے۔ بلکہ اُس سے چمٹ جاتی ہے جیسے دیرینہ شناسائی تھی۔ رات بھر رندھیر کے ساتھ رہتی ہے۔ چاہے وہ غریب ہے۔ جھگی جھونپڑی میں رہتی ہے اُس کو کسی کا ڈر نہیں تھا؟ اُس کے آگے پیچھے کوئی پوچھنے والا نہیں تھا کہ وہ رات بھر کہاں تھی۔۔۔؟ کیا کوئی بھی لڑکی کسی بھی آدمی کے اشارے سے اُس کے پاس چلی جاتی ہے بغیر جان پہچان کے بغیر بات کیئے وہ اُس آدمی سے چمٹ جاتی ہے؟ فحاشی کے جرم پہ’’بُو‘‘ پر بھی مقدمہ چلا۔ بہر حال دونوں افسانوں میں کچھ مماثلث ہے، کچھ باتیں غیر فطری اور عجب لگتی ہیں۔
یہ بات میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ استاد منٹو کی سب سے بڑی تعریف یہ ہے ، جس سے ہم نے بھی سبق لیا کہ وہ کرداروں کے عین مطابق اُن کے مونہہ میں مکالمے رکھتے تھے۔ یعنی اُن کے مونہہ میں اُن کی فطری زبان رکھتے تھے۔ جس سے کردار جی اُٹھتے تھے۔ یہ بات میں بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ استاد اپنے کرداروں سے بہت پیار کرتے تھے۔ اپنے کرداروں کو پر کشش بنانے کے لئے اُن کے مونہہ میں اُن کی اپنی زبان رکھتے تھے۔ آج کل میرے بہت سے افسانہ نگار دوست کردار چاہے کسی بھی خطّے کا ہو کوئی بھی اُس کا کلچر ہو، بولی ہو۔ اُس کے مونہہ میں اپنی زبان رکھ دیتے ہیں اور کہتے ہیں مکالمہ عام فہم ہونا چاہئے میں مانتا ہوں کہ کہانی عام فہم زبان میں ہونی چاہئے، آپ کی تخلیق کو سمجھنے کے لئے قاری کو ڈکشنری کا سہارا لینا نہ پڑے کیونکہ ہم غالب ؔو میرؔ کے دور میں تو سانس لے نہیں رہے کہ ثقیل زبان بھی اُس دور میں عام فہم تھی۔ معاف کیجئے اگر آپ بمبئی کے کسی بھائی (غنڈے) سے علی گڑھ کی شائیستہ زبان بلوائیں گے تو کردارمسخ ہو جائے گا۔ آپ لکھ تو دیں گے وہ بولتا ہوا غیر قدرتی لگے گا۔ بقول پال صاحب کہ کردار کے مونہہ میں اُس کی اپنی زبان نہ رکھیں تو کردار مرجاتا ہے۔ یقینا یہ درست ہے۔ اگر مقامی زبان عام فہم نہ ہو تو بریکٹ میں ترجمہ دے دیں مگر کردار سے اُس کی اپنی زبان نہیں چھیننی چاہئے۔ ’ٹھنڈا گوشت‘ میں استاد
منٹو نے یہ الفاظ استعمال کیئے ہیں جیسا کہ میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں۔ ماں یا، بھینی یا ،کڑی یا، چڈو،ہانڈی، بھڑوی اور جھپیاں ۔ ان الفاظ کے معنی کو تحقیق کے طالب علم اکثر ڈکشنریوں میں تلاش کرتے ہیں۔ ان کے معنی تو کوئی امرتسر کا پنجابی باشندہ ہی سمجھا جاسکتا ہے۔ اگر استاد اس کا بریکٹ ترجمہ دے دیتے تو دنیا کے کسی بھی کونے میں ان الفاظ سے لطف لیا جاسکتا تھا۔ وہ اپنے افسانوں میں پنجابی کے الفاظ خاص کر گالیاں استعمال کرتے تھے۔ شاید وہ یہ جانتے ہی نہیں تھے کہ وہ ایک دن دنیا کے گلوب پرادب کی روشنی بن کر پھیل جائیں گے۔اُن کے افسانے پنجاب تک ہی محدود نہ رہیں گے۔
’’ٹھنڈا گوشت ‘‘ ۱۹۴۹ء میں ’’جاوید‘‘ میں شائع ہوا تھا۔ افسانے کو حکومت نے ملعون و مطعون قرار دے دیا۔ ۲۹۲ کے تحت مقدمہ چلا ۔ استاد نے ذہنی ، جسمانی اور مالی تکلیفیں اُٹھائیں۔ جولائی ۱۹۵۰ء کو شیشن کورٹ نے سزا دی۔ ۱۹۵۲ء میں ہائی کورٹ سے فیصلہ ہوا۔ جرمانہ ۳۰۰روپے ہوا۔ استاد خود لکھتے ہیں کہ ٹھنڈا گوشت کی مقدمہ بازی نے اُن کا بھرکس نکال دیا۔ وہ تکلیفیں اُٹھا تے رہے ۔مگر تخلیق کے معاملہ میں انہوں نے سمجھوتے نہیں کئے ۔اپنے تخلیقی عمل کو کبھی غلط تصّور نہیں کیا۔ منٹو سچائی کا ایک فرشتہ تھے، جو سماج اور قانون کے بندھنوں سے ہمیشہ آزاد رہے۔ وہ خود رو اور خوددار تھے۔ منٹو بلاشبہ اعلیٰ پایہ کے فن کار تھے۔ اُن کے افکار کو کوئی پابہ زنجیر کر نہ پایا ۔اُن کی طبیعت اُن کی سوچ ہمیشہ آزاد رہی۔
٭٭٭