(Last Updated On: )
کچھ اس طرح سے کی ہے اپنوں نے مہربانی میرا گھر جلا کے خود ہی آئے ہیں لے کے پانی
وہ ڈھونڈتا ہے صادقؔ مٹی میں پیار اپنا میرے بعد بیوفا نے میرے دل کی خاک چھانی
تیری یاد لگا کر سینے سے اشکوں کے دیپ جلائیں گے
تم جس دن ہم کو چھوڑ گے ہم دنیا سے اُٹھ جائیں گے
تم دیکھ کے سونے چاندی کو سب پیار کے ناطے توڑ گے
تم غیر کی سیج کا پھول بنے اور ساتھ ہمارا چھوڑ گے
ہم موت سے پہلے تیری قسم تم دیکھ لینا مر جائیں گے
اک بار بتا جاتے ہم کو تم کیوں اتنے مجبور ہوئے
نہ دن گذرے نہ رات کٹے جس دن کے تجھ سے دور ہوئے
جب تو ہی ہمارے پاس نہیں ہم کس کو درد سنائیں گے
اِک طرف اکیلا صادقؔ تھا اِک طرف زمانہ سارا تھا
اس نے ہی کیا تھا قتل ہمیں جو جان سے ہم کو پیارا تھا
اب حشر کے دن اس دنیا کو قاتل کی شکل دکھائیں گے