جب وہ ارزانش کے گھر پہنچی جو اب سے اسکا بھی گھر تھا تو تھوڑی ڈری سی ہوئی تھی اور ذہن میں کئی سوالات تھے جن لے جوابات صرف ارزانش کے پاس تھے۔
وہ دنوں اپنے کمرے میں گئے تو ارزانش واش روم چلا گیا۔ وہ بیڈ کے دائیں طرف بیٹھی تھی جس کے قریب سائیڈ ٹیبل پر پھولوں کا گلدستہ موجود تھا۔ بیڈ کے درمیان میں گلاب کے پھول کی پتیوں کو دل کی شکل میں ترتیب دیا گیا تھا۔ کمرے کے چاروں طرف مختلف رنگوں اور شکلوں کی خوبصورت موم بتیاں جل رہی تھیں جن کی موم سے بھینی بھینی خوشبو اٹھ رہی تھی۔ اس خوشبو کے ساتھ گلاب کے پھولوں کی مدہوش کر دینے والی خوشبو ملی ہوئی تھی۔ کمرے کی کھلی کھڑکیوں سے آتی ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا کی وجہ سے کھڑکیوں پہ پڑے جامنی رنگ کے پردے لہرا رہے تھے۔ پاکیزہ سامنے رکھی موم بتی کو دیکھنے لگی اور کچھ ہی لمحوں میں اس کی شمع میں کھو گئی۔ اس جلتی لو کی طرح اسے خود کا سارا وجود بھی جلتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ کچھ دیر بعد ارزانش کمرے میں آیا تو پاکیزہ کو بیڈ پہ بیٹھا دیکھ کر کہنے لگا “آج تہجد نہیں پڑھیں گی؟ میں نے وضو کر لیا ہے۔ جائیں اب آپ بھی کر لیں۔ آج میری امامت میں نماز پڑھ کر دیکھیں”
پاکیزہ ارزانش کی آواز سے اس کی طرف متوجہ ہو گئی اور اس کو ایسے دیکھ کر بہت حیران تھی۔ وہ کچھ کہے بغیر اُٹھ کر وضو کرنے چلی گئی۔ وضو کر کے آئی تو پاکیزہ نے ارزانش کی امامت میں تہجد ادا کی۔ پھر ارزانش بیڈ پر جا کر بیٹھ گیا۔ پاکیزہ اس کے قریب جا کر بیٹھی اور بولنے لگی “پہلے آپ مجھے میرے سب سوالوں کے جواب دیں پلیز”
ارزانش نے پاکیزہ کو اس کی کمر سے پکڑا اور خود پر گراتے ہوئے بولنے لگا “کتنے سوال پوچھتی ہیں نہ آپ”
“لیکن۔۔ آپ۔۔ پہلے مجھے بتائیں کہ آپکو کیسے پتا تھا کہ میں کیا کہنے والی ہوں؟” پاکیزہ خود کو ارزانش سے خود کو پیچھے کرتے ہوئے بولی۔ ارزانش نے پاکیزہ کے گرد اپنے بازؤوں کے حصار کو اور تنگ کر لیا اور کہنے لگا “آپکو اپکا وہ کلاس فیلو یاد ہے جسے سَسپینڈ کر دیا گیا تھا؟”
“کونسا کلاس فیلو؟ بات مت گھمائیں آپ” پاکیزہ نے خود کو چھڑوانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ ارزانش پاکیزہ کی ہر کوشش پر اپنا حصار اور تنگ کر لیتا تھا۔
“اسی سے سب سمجھ آئے گا۔ یاد کریں وہ تھری کلاس میں۔ ایک لڑکے کو دوسے لڑکے کو مارنے کی وجہ سے سے سسپینڈ کر دیا گیا تھا”
“ہاں تھوڑا بہت یاد ہے”
“پتا ہے اُس نے دوسرے لڑکے کو کیوں مارا تھا؟”
“یہ مجھے کیسے پتا ہوگا؟ اچھا آپ چھوڑیں تو۔ پہلے ٹھیک سے بات تو کر لیں” پاکیزہ کے سوالات اب بڑھتے جا رہے تھے۔
ارزانش پاکیزہ کو چھوڑتے ہوئے کہنے لگا “چلیں پہلے آپکے سوالات دور کر دیتے ہیں۔ آپ بھی کیا یاد کریں گی”
“اب بتائیں سب”
“اس لڑکے نے دوسرے لڑکے کو بس اتنی سی بات پہ مارا تھا کیونکہ اس نے آپکو دھکا دیا تھا”
“لیکن۔۔ آپکو کیسے پتا ہے یہ سب؟”
“اُس لڑکے کا نام یاد کرنے کی کوشش کریں”
“نام۔۔ اس کا نام۔۔ ارزانش” یہ نام لیتے ہی پاکیزہ کا منہ کھلا رہ گیا تھا اور پاکیزہ کی حیرانی اب ساتویں آسمان تک پہنچ گئی تھی۔
“آپ۔۔ مطلب۔۔آپ وہ ارزانش ہیں؟” پاکیزہ سے حیرت کی وجہ سے کچھ بولا بھی نہیں جا رہا تھا۔
“جی جی وہی ارزانش ہوں” ارزانش نے پاکیزہ کی گال کھینچتے ہوئے کہا۔
“لیکن۔۔ اب۔۔ آپ۔۔ آپ کو کیسے یاد ہے یہ سب اور میں بھی؟”
“میں سکول سے تو چلا گیا تھا لیکن آپکی زندگی سے نہیں۔ اسی لئیے اُس دن آپکا برتھ ڈے یاد تھا مجھے۔ آپکے گھر کا ایڈریس بھی پہلے سے پتہ تھا۔ ایک یونیورسٹی میں پڑھنا اتفاق نہیں میری کوشش تھا۔ ایک ساتھ پروجیکٹ بنانا میرے سَر کو ریکویسٹ کرنے کی وجہ سے ہوا”
پکیزہ اتنی حیرت زدہ تھی کہ وہ ارزانش کو دیکھے جا رہی تھی بس اور آہستہ آہستہ اسے اس کے سب سوالوں کے جواب ملتے جا رہے تھے۔
“اور رہی بات مُراد کی۔ تو وہ سب مجھے عبداللہ نے بتایا تھا۔ عبداللہ کو بہت پہلے سے میں نے اپنا اچھا دوست بنایا ہوا تھا اور زیادہ تر باتیں مجھے اسی سے پتا چل جایا رتی تھیں۔ لیکن آپ فکر مت کریں کیونکہ میرے لئیے کوئی مُراد معنی نہیں رکھتا۔ معنی اگر کوئی رکھتا ہے تو وہ ہے پاکیزہ۔ وہ آپ کے قابل ہی نہیں تھا اور ہاں۔ میں آپکی پوری مدد کروں گا کہ آپ اسے پورے طریقے سے بھُلا سکیں۔”
“میں۔۔ میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ کوئی اتنا اچھا بھی ہو سکتا ہے۔ مجھے تو اندازہ بھی نہیں تھا کہ کئی اتنا پاگل بھی ہو سکتا ہے کسی کے پیچھے” پاکیزہ آنکھیں بند کئیے بغیر ارزانش کو دیکھے جا رہی تھی۔
“میں محبت نہیں۔ جھلی میں آپ سے عشق کرتا ہوں۔ اور آج میں آپکو اپنی زندگی میں دیکھ کر کہہ سکتا ہوں کہ
فبایّ آلاء ربّکما تکذّبان” ارزانش پاکیزہ کے دائیں ہاتھ کو اپنے دونوں ہاتھوں میں تھامے بول رہا تھا۔
“اچھا اب اپنی آنکھیں بند کریں جلدی سے” ارزانش نے پاکیزہ کی آنکھوں پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
پاکیزہ نے زندگی بھر کبھی اتنا محفوظ محسوس نہیں کیا تھا خود کو جتنا وہ اس وقت ارزانش کے ساتھ خود کو محفوظ محسوس کر رہی تھی اسی لئیے اس نے فوراً ہی آنکھیں بند کر لیں۔
ارزانش نے پاکیزہ کے ہاتھوں میں کچھ تھماتے ہوئے کہا “اب کھول لیں آنکھیں”
پاکیزہ کے ہاتھ میں دو ٹکٹیں تھیں۔
“یہ کیا ہے؟” پاکیزہ نے تفتیشی انداز میں پوچھا۔
” آپکی خواہش تھی نہ محرم کے ساتھ عمرہ کرنے کی۔ تو یہ رہا محرم” ارزانش خود کی طرف اشارہ کرتے ہو بولا اور پھر ٹکٹوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا “یہ رہیں عمرہ کی ٹکٹس”
پاکیزہ کی خوشی کی تو جیسے کوئی انتہا ہی نہیں تھی۔ اس کا خدا پہ کامل یقین رنگ لے آیا تھا۔ دو دن بعد دونوں عمرہ کے لئیے روانہ ہو گئے۔ وہاں پر پہنچ کر جب پاکیزہ اور ارزانش خانہ کعبہ کے سامنے گئے تو پاکیزہ سجدے میں گر پڑی اور خدا کی ہر ایک نعمت کا رو کر شکر ادا کرنے لگی۔ دونوں نے عمرہ ادا کیا۔ پاکیزہ کا تو خانہ کعبہ کے قریب سے کہیں اور جانے کا دل ہی نہیں کرتا تھا اسی لئیے رات کے وقت ارزانش پاکیزہ کی گود میں سر رکھ کر سو جاتا اور پاکیزہ خانہ کعبہ سے سامنے بیٹھی خوشی سے روتی رہتی اور قرآن پاک کی تلاوت کرتی رہتی۔
شادی کے تین ماہ بعد پاکیزہ ارزانش کے قریب آ کر کہنے لگی “مجھے آپکو ایک بات بتانی ہے”
“جی بولیں”
پاکیزہ ارزانش کے کان کے قریب جا کر سرگوشی کرتے ہوئے بولی “آپ بابا جان بننے والے ہیں”
ارزانش کہ چہرے پر ایک بہت بڑی مسکراہٹ آگئی۔ وہ پاکیزہ کے رخصار چومتے ہوئے بولا “شکریہ میری زندگی میں آ کر اسے اپنے جیسا حسین بنانے کے لئیے۔”
پاکیزہ شرما سی گئی۔ ایک سال بعد پاکیزہ کے گھر بیٹا پیدا ہوا جس کا نام اس نے مُراد رکھا کیونکہ شاید پہلی محبت دل کے کسی گوشے میں رہ ضرور جاتی ہے لیکن ارزانش کو بالکل بھی بُرا نہیں لگا کیونکہ اسے پاکیزہ پہ پورا اعتماد تھا اور “مُراد” اس کے لئیے محض نام سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ اب تو یہ اس کے بیٹے کا نام تھا اسی لئیے اسے اس نام سے ایک انس تھا۔
“یہ بالکل آپ پہ گیا ہے پاکیزہ” ارزانش اپنے بیٹے مُراد کو دیکھتے ہوئے بول رہا تھا۔
پاکیزہ ہنسنے لگی اور بولی “لیکن یہ بالکل اپنے بابا جان جیسا ہی دل کا اچھا ہو گا”
اس کے بعد پاکیزہ کو وہ حدیثِ قدسی یاد آنے لگی کہ
“اگر تو سپُرد کر دے گا اپنے آپ کو جو میری چاہت ہے
تو میں وہ بھی بخش دوں گا جو تیری چاہت ہے”
پاکیزہ اب خود کو مکمل محسوس کر رہی تھی۔ اس نے دُعا کے لئیے ہاتھ اُٹھائے تو کہنے لگی کہ “اے میرے رب! تیری قربت تک کا سفر بہت لمبا اور دشوار تھا۔ مجھے تو یوں لگا تھا جیسے میں اس منزل میں خود کو بھی ہار جاؤں گی لیکن میرے اس دشوار سفر کے بعد تو نے جتنا مجھے نوازا ہے اس کا شکر میں کبھی ادا نہیں ک سکتی۔ میں خود کو اتنا مکمل محسوس کرتی ہوں جتنا کوئی کبھی خود کو مکمل محسوس نہیں کر سکتا”
اور یونہی پاکیزہ کے صبر اور شکر نے اسے اللہ کے بہت قریب کر دیا اور ایک مکمل عورت بنا دیا۔
۔۔۔ختم شد۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...