وہ آج پورے ہفتے بعد کالج آئی تھی اس واقع کے بعد اس نے خود کو گھر تک محدود کرلیا تھا مگر اب پیپرز کی وجہ سے اسے آنا پڑا تھا
کلاسس ختم کرکے وہ گھر کے لئے نکلی تھی مگر گلی کے موڑ پر ایک بائیک اسکے آگے آکر رکی تھی
ملنے نہیں آئی نا تم۔۔ اس لڑکے کو دیکھ وہ ایک دم پیچھے ہوئی تھی
بیٹھو بائیک پر۔۔۔ اس لڑکے کے بولنے پر وہ نفی میں سر ہلاتی سائیڈ سے نکلی تھی مگر تبھی اسکی کلائی اس لڑکے کی گرفت میں آئی تھی
بہت تماشہ دیکھ لیا بیٹھ چل۔۔۔ اسکا ہاتھ اپنی طرف کھینچے وہ غرایا تھا۔
ہاتھ چھوڑو میرا جانے دو مجھے روہانسی ہوئی اس نے اس لڑکے کی منت کی تھی
ہاہاہاہا ایک ہی بار رونا آج تو نکاح ہوکر رہے گا۔۔۔
مکروہ انداز میں ہنستا وہ اسے خوفزدہ کرگیا تھا۔۔
ارے دیکھو زرا یہ زلیخا کی لڑکی ہے ارے دیکھو کیسے دیدہ دلیری سے ہاتھ تھامے کھڑی ہے۔۔
ایک دم ہی سائیڈ سے اسکے محلے کی عورتیں گلی میں داخل ہوئی تھیں
ارے دیکھو زرا تو۔۔۔ ان عورتوں نے ایک دم شور کیا تھا اس کا ہاتھ تھامے وہ لڑکا فوراً وہاں سے بھاگا تھا
اری دیکھو تو کیسی بیغیرت ہے زرا ماں کا لحاظ نہیں اسکا عاشق گلی گلی آگیا۔۔
وہ عورتیں ناجانے کیا کیا زہر اگل رہی تھی اس میں ہمت نہیں تھی کہ کھڑی رہ کر سنتی روتی ہوئی وہ گھر گئی تھی
آنکھوں سے آنسوؤں کا سیل رواں تھا۔۔
سامنے بیٹھی زلیخا بی کو دیکھ وہ ان کے سینے سے لگ کر روئی تھی
اے نور کیا ہوا ہے۔۔
اماں میں بے گناہ ہوں اماں میں نے کچھ نہیں کیا۔۔۔ ان کے بازؤں میں سمائی وہ پھپک پھپک کر روئی تھی۔۔
نور مجھے کیوں ہولا رہی ہے ہوا کیا ہے بتا تو۔
اماں وہ۔۔۔ بہتے اشکوں سنگ وہ انہیں سب بتاتی چلی گئی
چپ کر اچھا رونا بند کر ۔ اسے بولتی وہ خود پریشان ہوئی تھیں
باہر سے دروازہ بجنے کی آواز پر نور مزید ان میں سمٹی تھی۔۔
زلیخا دروازہ کھول۔۔۔۔
اماں نہیں۔۔ اس نے ہاتھ تھام انہیں روکنا چاہا تھا
رک جا نور۔۔۔ اسکا ہاتھ ہٹاتی وہ دروازے تک آئی تھی
کیا ہوا ہے؟؟؟
کیا ہوا ہے ارے تیری بیٹی محلے میں بے حیائی مچائے پھر رہی ہے اور تو پوچھ رہی کیا ہوا ہے بتاؤ زرا کیسی معصوم بنی پھرتی ہے اور لڑکوں کو پھانسے گھوم رہی ہے۔۔۔
عورتوں کی زبان تھی کہ خنجر۔۔
زلیخا بی کو اپنا آپ زمین میں گڑتا محسوس ہوا تھا قسمت نے ان کے الفاظ انہیں کے منہ کر طمانچے کی صورت مارے تھے۔۔۔
ضبط سے ان کا چہرہ سرخ ہوا تھا
کیا ہورہا ہے یہاں۔۔۔ نور نے بے اختیار آواز کی سمت دیکھا تھا
آنسہ۔۔۔۔۔
وہ بھاگ کر اس سے لپٹی تھی۔۔۔
کیا بکواس ہورہی ہے یہاں ہاں کیا سمجھا ہوا ہے اکیلی روتوں کو دیکھ تم لوگ ان پر چڑھ دوڑو گے زرا شرم نہیں آئی نا میری بہن پر تہمت لگاتے ارے کتنا دیکھا ہے اسے لڑکوں کے ساتھ بتاؤ۔۔۔
وہ آج پھر سے پرانی آنسہ بن گئی تھی اپنی بہن کی ڈھال۔۔۔
میں نے خود اسے لڑکے ساتھ۔۔۔ ایک عورت نے بولنا چاہا مگر وہ بیچ میں ہی اسکی بات کاٹ گئی
میں نے بھی دیکھا تھا تمہاری بیٹی کو کیا یہاں سب کے سامنے بتاؤ کہ کس کا چکر کس کے ساتھ ہے اور کون کس کے ساتھ پارکوں میں گھومتا ہے؟؟؟
بتاؤ مجھے بتاؤں میں؟؟؟؟
آنسہ آرام سے۔۔۔۔
ابراہیم نے اسکا ہاتھ اسے ریلیکس کرنا چاہا تھا
میں نے کچھ نہیں کیا آنسہ میں سچ بول رہی وہ لڑکا خود مجھے تنگ کر رہا تھا بھائی میں ابو کی قسم کھا کر کہتی ہوں میں نے کچھ نہیں کیا۔۔۔ وہ آنسہ کے گلے لگے ایک بار پھر پوری شدت سے روئی تھی
میں جانتا ہوں میری بہن ایسا نہیں کرسکتی۔۔ ابراہیم نے آگے بڑھ کر اسکے سر پر ہاتھ رکھا تھا
شرم آنی چاہیے اس لڑکے کو پکڑنے کے بجائے ہاک معصوم پر اپنی غلاظت پھینک رہے لعنت ہے آپ لوگوں پر جانتے نہیں ہیں کیا کہ قیامت کے دن تہمت لگانے والے کا کیا حال ہوگا۔۔
اور زلیخا بی آپ کو یہاں رہنے کی کوئی ضرورت نہیں آپ ساتھ چل رہی ہمارے۔۔۔
ابراہیم کی بات پر انہوں نے چونک کر اسے دیکھا اور مردہ قدموں سے آنسہ کے پاس آئی تھیں
مجھے معاف کردے آنسہ مگر دیکھ اللّٰہ نے کیسا انصاف کیا۔۔اس کے آگے ہاتھ جوڑے وہ کھلے کندھے لئے کھڑی تھی آنسہ کے دل کو کچھ ہوا تھا۔۔۔
ایسا مت کرو پلیز سب ٹھیک ہے۔۔ ان کے جڑے ہاتھ ہٹاتی وہ بولی تھی
مجھے معاف۔۔۔
معافی مانگ مجھے گناہگار مت کریں۔۔۔
اس نے ان کے ہاتھ چومے تھے
اور انہوں نے اس لڑکی کو دیکھا جو کیا سے کیا ہوگئی تھی انہیں اپنے رویے پر ماضی کر پچھتاوا ہوا تھا وہاں موجود ہر شخص کا سر جھکا ہوا تھا
ابراہیم نے پورے حق سے اسکا ہاتھ تھاما تھا اور انہیں لئے وہاں سے نکلا تھا۔۔۔
نور بس ہوگیا نا جو ہونا تھا سنبھالو خود کو۔۔ اسے ساتھ لگائے آنسہ نے اسے تسلی دی تھی
ہاں بیٹا آنسہ بلکل ٹھیک کہہ رہی ہے ایسے کم ضرف لوگوں میں رہنے سے اچھا ہے تم لوگ یہاں آگئے۔۔
دادو نے اسکے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھا تھا
میں نے کچھ نہیں کیا تھا۔۔ وہ ایک بار پھر بول کر روئی تھی
ہم جانتے ہیں گڑیا بھئی تم ہماری آنسہ کی بہن ہوں جب ہماری آنسہ اتنی پیاری ہے تو اسکی بہن کیسے ایسا کچھ کر سکتی ہے۔۔ حیات صاحب نے اسکے سر پر ہاتھ رکھا تھا جبکہ ان کی بات پر زلیخا بی کا سر شرمندگی کے احساس سے جھکا تھا۔۔۔
آنسہ نور اور بی کے لئے روم ریڈی کروادو۔۔ ابراہیم نے اسے کہا اس سے پہلے وہ کچھ کہتی اسکا فون بجا تھا۔۔
ردابہ کالنگ۔۔۔
ردابہ کا نام دیکھ اس کا دل ڈوبا تھا ابراہیم نے ایک دم موبائل آف کیا تھا
تم جاؤ میں آتا ہوں۔۔۔
اسے بھیج وہ خود لان میں آیا تھا
ہیلو؟؟
ہیلو ابراہیم کب سے کال کر رہی ہوں یار تم ہو کہ کال ہی نہیں اٹھا رہے۔۔
سوری میں بزی تھا تم بولو کیسے یاد کیا ؟؟
ہاہاہاہا ہاؤ سوئٹ تم ٹونٹ کرتے کتنے اچھے لگتے ہو۔۔۔
خیر میں پاکستان آگئی ہوں تو تم ابھی مجھ سے ملنے آرہے ہوں۔۔
اس وقت؟؟ اسکی فرمائش پر اسنے گھڑی پر نظر دوڑائی تھی کو رات کے گیارہ بجا رہی تھی
اس سے پہلے تو آج تک تم نے کبھی ٹائم نہیں دیکھا اور اب اچانک ٹائم کا بول رہے۔۔۔
مجھے ابھی کلب میں ملو ابراہیم اوکے۔۔۔
اسے حکم دیتی وہ فون بند کرگئی۔۔۔
اس نے ایک نظر فون کو دیکھ گہرا سانس لیا تھا اور پھر اپنی کھڑکی پر نظر دوڑائی جہاں اسے کوئی اندر جاتا ہوا نظر آیا تھا۔۔
گہری سانس لیتا وہ باہر کی طرف بڑھا تھا۔۔۔۔
جبکہ دوسری طرف وہ کمرے میں آکر بیڈ پر گر کر پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی
کتنا بدل گئی تھی وہ زرا سی محبت نے اس کے اندر موجود نرم دل آنسہ کو باہر نکالا تھا حاشر کی باتوں پر اس نے دل نے عمل کیا تھا وہ نہیں چھوڑنا چاہتی تھی یہ محبت بھرا آنگن دادو اور بابا کی شفقت بھری چھاؤں دراب بھیا اور بھابھی کی محبت کنزہ کی دوستی صرف اس ایک شخص سے منسلک ہوکر اسے اتنے رشتے ملے تھے اور اب جب وہ اس ایک شخص سے محبت کرنے لگی تھی تو یہ سمجھوتے کی ڈوری ٹوٹنے کے قریب تھی۔۔۔
وہ کلب میں داخل ہوا تو ہر طرف رنگ و بو کا سیلاب آیا ہوا تھا سب سے بچتا بچاتا وہ آگے بڑھا تھا مگر سامنے کا منظر دیکھ اسکے قدم رکے تھے
بیک لیس سلیولس ڈریس پہنے وہ شاید نہیں یقیناً ردابہ تھی اور اس کے ساتھ کوئی لڑکا تھا جو اس کے ساتھ کافی واہیات انداز میں رقص کر رہا تھا۔۔
ردابہ کو دیکھ انجانے میں اس کے ذہن میں ایک چہرہ آیا تھا اور اس نے انکا موازنہ کیا تھا
تبھی ردابہ کی نظر اس پر پڑی تھی۔۔
وہ بھاگ کر اسکے گلے گلی تھی۔۔ اسنے آگے بڑھ کر اس نے گال چومنے چاہے تھے مگر وہ ایک دم پیچھے ہوا تھا۔۔
آؤ اے بی میں کب سے ویٹ کر رہی۔۔اسکا ہاتھ تھامے وہ اندر کی طرف بڑھی تھی۔۔
ایک وسیع حال میں بڑی سی اسکرین لگی ہوئی تھی۔۔
ردابہ نے آگے بڑھ کر کسی کو گلے لگایا تھا اور جواب میں اس آدمی نے اس کے گال چومے تھے۔۔
وہ بنا کچھ بولے بس خاموشی سے سب دیکھ رہا تھا۔۔
وہ اسکے پاس آکر بیٹھی تھی تبھی اسکرین روشن ہوئی تھی
یہ میرے شوٹ ہیں۔۔اس نے ابراہیم کو بتایا تھا اور ان تصاویر کو دیکھ ابراہیم کو کراہیت محسوس ہوئی تھی
ان چھ ساتھ ماہ میں اس نے آنسہ کو کبھی بغیر دوپٹے کے نہیں دیکھا تھا اس نے کئی ماڑدن لڑکیاں بھی دیکھی تھیں مگر کوئی آگے بڑھنے کے لئے اتنا گر سکتا ہے اس نے سوچا تک نہیں تھا۔۔۔
اشتعال کی ایک لہر پورے جسم میں دوڑی تھی تبھی وہ جھٹکے سے اٹھا تھا وہ اس حال سے نکلتا چلا گیا تھا
دماغ کی نسیں تن گئی تھیں۔۔
خود کو کنٹرول کرتا وہ گاڑی تک آیا تھا مگر اس سے پہلے کہ وہ وہاں سے نکلتا ردابہ نے اسکا ہاتھ تھاما تھا
یہ کیا طریقہ ہے ابراہیم ہے کوئی ایسے بیہیو کرتا ہے صرف تمہارے لئے میں نے یہ سرپرائز پلین کیا اور تم۔۔۔ وہ غصے سے اس پر غرائی تھی
یہ سرپرائز تھا واؤ ردابہ واؤ۔۔۔ اس نے ایک دم تالیاں بجائی تھیں
مجھ سے شادی کا وعدہ کرکے کسی اور کی بانہوں میں جھول کر مجھے دیکھانا یہ سرپرائز تھا ہر ایک سے یوں گلے ملنا اسکے گال چومنا یہ سرپرائز تھا
واٹ دا ہیل یہ کیا بکواس ہے اتنی چھوٹی سوچ کے تو نہیں تھے تم کبھی ارے ہاں کب مڈل کلاس لڑکی کے ساتھ رہو گے تو مڈل کلاس جیسی ہی سوچ رکھو گے۔۔
اس کی بات پر ابراہیم نے حیرت سے اسے دیکھا تھا جس پر وہ قہقہ لگ کر ہنسی تھی
تمہیں کیا لگتا ہے جو شادی کا جھوٹا کھیل تم نے کھیلا اس سے میں انجان ہوں نہیں مگر میں چپ تھی دیکھو زرا روز رات اس کے ساتھ منہ کالا کرتے اور شریف تو ایسے بن رہے جیسے۔۔ ارے ایسی حرا۔۔۔۔۔
ردابہ۔۔۔۔ اسکی بات پر وہ ایک چیخا تھا کہ اسکی زبان کو بریک لگے تھے
خبردار۔۔۔ خبردار جو تم نے اس کے لئے کوئی لفظ نکالا یہ زبان گدی سے کھینچ کر نکال دونگا۔۔
واٹ تم۔۔۔ تم اس دو ٹکے کی لڑکی کے لئے مجھ سے اس طرح بات کر رہے میں کہاں اور وہ کہا۔۔۔
اور اس کی بات پر ہنسا تھا خود کا اور اسکا موازنہ مت کرنا کبھی کیونکہ تم اسکی جوتی جیسی بھی نہیں ہو۔۔
اسے بولتا وہ وہاں سے نکلا تھا اسے اسکے سارے سوالوں کے جواب مل گئے تھے اور اب وقت آگیا تھا اپنی غلطیوں کو سدھارنے کا۔۔۔۔
وہ کمرے میں آیا تو پورا کمرہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا
انسہ۔۔ لائٹ آن کرتا وہ بیڈ کے پاس آیا تھا جہاں وہ منہ کے بل لیٹی تھی اسکی آواز پر ایک جھٹکے سے اٹھی تھی
کیوں کیوں میرے گھر والوں کو یہاں لائیں ہیں کیوں کس حق سے لائیں ہیں ختم ہوگئی ہے ہمارے اس نام نہاد رشتے کی مدت اب کیا کہہ کر لے کر جاؤں گی میں واپس بتائیں
آنسوؤں سے تر چہرہ لئے وہ اسکا گریبان پکڑ کر بولی تھی
تبھی اس نے اسکی کمر کے گرد بازو باندھے خود سے قریب کیا تھا
اور اس کی اس حرکت پر وہ ساکت ہوئی تھی۔۔
کیا ہوا چپ کیوں ہوگئیں بولو نا میں سن رہا ہوں۔۔۔
اسکے گال سے گال مس کرتا وہ مبہم سا مسکرایا تھا
جب کے اسکی جان سینے میں اٹکی تھی
یہ کیا بےہودگی ہے چھوڑو مجھے۔۔۔
اسکی قربت سے گھبراتی اس نے اسکے سینے پر ہاتھ مار اسے خود سے دور کرنا چاہا تھا مگر وہ ایک انچ بھی نہیں ہل سکا۔۔
ابراہیم۔۔۔ مت کریں۔ اسی کے سینے سے لگی وہ پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی
اس کے آنسہ کی گرد حصار قائم کیا تھا
معافی ملے گی ہر اس بات کی جس پر دل دکھا تمہارا؟؟
نہیں۔۔۔ اسکی بات پر وہ نفی میں سر ہلاتی بولی تو وہ بے اختیار مسکرایا تھا
ردابہ کے پاس جاؤں میں؟؟ شرارت سے کہتے اس نے ہونٹوں کو دانتوں میں دبایا تھا
آنسہ اپنی کوئی چیز کسی کو نہیں دیتی اور آپ تو شوہر ہو۔۔۔
سو سو کر کے کہتی وہ اسے دنیا جہاں سے زیادہ پیاری لگی تھی
وہ آکر چھین کر لے گئی تو؟؟
آپ کو گنجا کردونگی اب اس نک چڑھی کو گنجا آدمی تو نہیں چاہیے ہوگا نا۔۔۔ خفگی سے اسے کہتی وہ رخ موڑ گئی جبکہ کمرے میں اسکا قہقہ گونجا تھا
محبت ہوگئی ہے نا مجھ سے؟؟ سرگوشی میں پوچھتا وہ اسے نظر جھکانے کر مجبور کر رہا تھا
نہیں اور آپ کو؟؟ اسے منع کرتی اس نے سوال کیا تھا
مجھے ہوگئی ہے صرف تم سے۔۔۔میں نے اب جاکر جانا ہے محبت ہوتی کیا ہے محبت تو دینے کا نام ہے اور تم نے صرف مجھے دیا ہے میرے گھر والوں کو دیا ہے کب کیسے محبت ہوئی میں نہیں جانتا ہاں مگر اب تمہارے ساتھ رہنا اچھا لگنے لگا ہے دل کرتا ہے تمہارے ساتھ جب جب میں ہوں تب تب یہ وقت تھم سا جائے۔۔۔
اس کے ماتھے پر لب رکھے وہ اظہار کرگیا تھا
مجھے آپ سے محبت کب ہوئی میں بھی نہیں جانتی مگر میں بدل گئی ہوں میں جیسی تھی ویسی نہیں رہی مجھ میں برداشت آگئی ہے صبر آگیا ہے رشتوں کو سنبھالنا آگیا ہے اگر میں یوں آپ کی زندگی میں نا آتی تو شاید کبھی اتنے مخلص رشتوں کو سمجھ ہی نہیں پاتی اسکے سینے پر سر رکھے اس نے اپنے دل کا حال اسے بتایا تھا۔۔۔
دو دلوں کو اس اقرار سے قرار آیا تھا اسکا سر سینے پر رکھے وہ بس اسے محسوس کئے گیا تھا۔۔۔
اگلی صبح بے حد روشن تھی آنسہ کو ایسا لگا کوئی بوجھ اس نے کندھوں سے ہٹا تھا۔
اس کے سینے پر سر رکھے وہ اسی کو دیکھ رہی تھی
ان کی پہلی ملاقات۔۔ وہ یاد کر کے مسکرائی تھی
دوسری ملاقات۔۔
تیسری ملاقات کر مسکراہٹ تھوڑی تھمی تھی پھر وہ وقت جب وہ دونوں ساتھ تھے اسے وہ دن یاد آیا جب اچانک دادو کی طبیعت بگڑی تھی
وہ کیسے پاگل ہوگئی تھی رو رو کر برا حال کرلیا تھا اسے نہیں یاد تھا کہ وہ کبھی اتنا روئی ہو
یہاں پہلی بار ابراہیم نے اسکے لئے دل میں کوئی احساس محسوس کیا تھا
وہ گزرے وقت کو سوچ مسکرائی تبھی نظروں کی تپش خود پر محسوس کرتی اسنے سر اٹھایا تھا اسے خود کو تکتا پاکر وہ کھل کر مسکرائی تھی
گڈ مارننگ…اسکے ماتھے کر پیار کئے اس نے محبت سے کہا تو وہ ہنس دی
کیا ہوا ہنسی کیوں؟؟ وہ اسکے یوں ہنسنے پر حیران ہوا تھا
کچھ نہیں بس سوچ رہی کہ کیا سے کیا ہوگئے دیکھتے دیکھتے۔۔
کل تک جو دشمن تھی آج اس سے اتنی محبت۔۔۔
اسکے گرد بازو پھیلائے وہ اسکی تھوڑی سے سر ٹکا گئی تھی
ہاں میں بھی وہی سوچ رہا پہلے مجھے کچا چبانے کے ارادے رکھنے والی آج کیسے لاڈ جتا رہی۔۔
اس کے بولنے وہ کھلکھلا کر ہنسی تھی آج زندگی کتنی حسین لگ رہی تھی یہ کوئی اس سے پوچھتا۔۔
بہت بہت شکریہ مجھے مان دینے کے لئے۔۔۔
اسکے گرد گرفت تنگ کئے دل سے مسکرایا تھا۔۔۔
یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں۔۔ دادو کی بات سن کر زلیخا بی حیران ہوئی تھیں
اس میں حیرانی کی کیا بات ہے زلیخا؟؟ نور کی اب عمر ہے شادی کی اور میری نظر میں حاشر سے اچھا تو کوئی اس کے لئے ہو ہی نہیں سکتا۔۔
مگر آپ سب جانتی ہیں۔۔
پاگل مت بنو زلیخا سفینہ کو میں عرصے سے جانتی ہوں اور حاشر اور اسے سب باتوں کا علم ہے میں تو یہ ہی کہوں گی کہ اس سے اچھا کچھ نہیں ہوگا ہماری نور کے لئے آگے تم اچھے سے سوچ لو۔۔
زلیخا کو بولتی وہ اٹھ گئیں۔۔
جبکہ وہ سوچ میں پڑ گئی تھیں مگر وہ یہ بھی جانتی تھیں کہ اس فیصلے سے ان کی بیٹی کی زندگی سنور جائے گی۔
اس بات کو انہوں نے آنسہ سے ڈسکس کیا تھا اور وہ تو بے تحاشہ خوش ہوئی تھی
سارے کام جلدی جلدی ہی ہوئے تھے۔۔
نور تو اپنی قسمت پر حیران و پریشاں تھی کب سوچا تھا کہ کوئی یوں اتنا اچھا اس کی زندگی میں آئے گا
ان کی شادی جلدی رکھی گئی تھی۔۔
گھر میں ایک دم رونق ہوگئی تھیں اور اس سب میں آنسہ سب سے آگے تھی علی اور شان بھی اس کے ساتھ ساتھ تھے
ابھی بھی وہ بیڈ پر بیٹھی سامان کی لسٹ بنانے میں مصروف تھی کہ وہ کمرے میں آیا تھا۔۔
اس کی گود سے سامان ہٹائے اپنا سر اسکی گود میں رکھا تو اسنے مسکرا کر اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرا تھا۔۔
بیگم بھول گئی ہیں آپ کہ آپ کا ایک عدد شوہر بھی اسی دنیا میں رہتا ہے۔۔
پھولے منہ کے ساتھ وہ اسے شکوہ کرتا کوئی چھوٹا سا بچہ لگا تھا۔۔
ویسے تو یہ شکوہ بجا نہیں ہے آپ خود پورا دن بزی ہوتے ہیں اور مجھے بول رہے۔۔ اسکے بالوں میں انگلیاں چلاتی وہ بھی بھولے منہ سے بولی تو وہ اسے گھور کر رہ گیا
شادی ہوجائے اس حاشر نے بچے کی پھر بتاتا تمہیں۔۔اسکے بالوں کی کٹ کھینچ وہ اسے مسکرانے پر مجبور کر دیتا تھا۔۔۔
اب آپ سوجائیں کل شادی ہے اور آپ جانتے ہیں کل کا دن بہت مصروف گزرنے والا ہے۔۔اسے بولتے اس نے سامان سمیٹا تھا
آنسہ میں نے ایک فیصلہ کیا ہے۔۔
اسے اٹھتے دیکھ اس نے ہاتھ پکڑے اسے واپس بیٹھایا تھا
کیا؟؟؟
میں چاہتا ہوں زلیخا بی ہماری اسلام آباد والی بوتیک سنبھالیں اور علی اور شان اگر ان کے معاون ہونگے تو مجھے خوشی ہوگی۔۔۔
اس کی بات پر اس نے تعجب سے اسے دیکھا تھا
کچھ دن پہلے ہی اس نے علی اور شان کی بےروزگاری کا اس سے سرسری سا ذکر کیا تھا
کیا وہ اس کے لئے اتنی اہم ہوگئ تھی۔۔
ناجانے کیوں مگر اسکی آنکھیں نم ہوئی تھیں۔۔
ہے آنسہ واٹ؟؟؟رو کیوں رہی ہو یار؟؟ اسکے آنسو دیکھ وہ ایک دم پریشان ہوا تھا مگر حیراں تب ہوا جب وہ ایک دم اسکے سینے سے لگی تھی
کیوں ہیں آپ اتنے اچھے کیوں؟؟ کتنی خوش نصیب ہوں میں جو آپ مجھے ملے ایک عرصے تک میں نے خود کو بد نصیب سمجھا تھا کہ میرے پاس کوئی مخلص رشتہ نہیں مگر اب دیکھیں اللّٰہ نے آپ سب کی صورت میں مجھے سب کچھ دے دیا۔۔
روتے ہوئے بولتی وہ اسے ہمیشہ مسکرانے کر مجبور کر دیتی تھی۔۔
اچھا تو عورت اب چپ کرو ورنہ میں شروع ہوا تو پھر ہمیں مسئلہ ہوگا۔۔
خدا کا خوف کریں ابراہیم۔۔۔ اسکی بات پر وہ اسکے سینے پر مکا مارتی بولی تو وہ قہقہ لگا کر ہنس پڑا۔۔۔
آج وہ پور پور سجی تھی خوشی اس کے انگ انگ سے عیاں تھیں
گولڈن اور مہرون شرارہ اور اس پر غضب کا میک اپ۔۔
آتے جاتے ابراہیم کی نظر خود کر محسوس کئے وہ جھینپ سی جاتی تھی بارات کے آتے ہی نکاح کی رسم ادا ہوئی تھی لال رنگ کے جوڑے میں نور کسی پری جیسی لگ رہی تھی حاشر کی نظر آج اس پر سے ہٹنے سے انکاری تھی
حاشر کی نظروں سے پزل ہوتی اس نے بے بسی سے آنسہ کو دیکھا تو وہ کھلکھلائی تھی۔۔
حاشر بھائی انسان بن جائے ورنہ میری پری اڑ جائے گی۔۔۔
آنسہ۔۔۔ نور نے اسے گھورا تو وہ ہنس دی
اچھا بھئی حاشر بھائی اب آپ اسے کنفیوز نا کریں۔۔
لو میں کہا کچھ کر رہا ہوں۔۔وہ فوراً معصوم بنا تھا
اس سے پہلے آنسہ اسے کوئی جواب دیتی اس کی نظر سامنے سے اندر آتی ردابہ پر پڑی تھی ماتھے پر لاتعداد بل آئے تھے
میں ابھی آئی۔۔
نور کو بول وہ نیچے اتری تھی۔۔
ابراہیم یہ یہاں کیا کر رہی ہے؟؟
ابراہیم کے پاس آنے پر وہ خفگی سے بولی تھی
ہیلو ابراہیم کیسے ہو؟؟ تبھی وہ ان کے قریب آکر اس سے مخاطب ہوئی تھی آنسہ کو تو سرے سے نظر انداز کیا تھا
الحمدللہ بہت خوش۔۔ آنسہ کا ہاتھ ہاتھ اسنے آنسہ کو خود سے قریب کیا تھا
اتنی جلدی دوسری سے دل لگا لیا کل تک تو میری محبت کا دم بھرتے تھے۔۔ چبا چبا کر کہتی اس نے نفرت سے آنسہ کو دیکھا تھا
بلکل صحیح کیا میں نے بھی یہی کہا تھا ان سے مگر وہ کیا ہے نا یہ پہلے عقل سے پیدل تھے اب انہیں میں مل گئی تو انہیں عقل بھی آگئی اور اچھے برے کی پہچان بھی۔۔ ابراہیم سے پہلے اس نے ردابہ کو لاجواب کیا تھا۔۔
ہونہہ میری اترن ہے یہ۔۔۔ استہزایہ ہنستی وہ ابراہیم کو مٹھھ بھینچے پر مجبور کرگئی تھی۔۔
اترن اور یہ؟؟ آنسہ حیران ہوئی تھی اور ابراہیم اسکی اداکاری سے جم کر متاثر ہوا تھا
اترن وہ ہوتی ہے جو کوئی پہن کر چھوڑ دے مگر یہ تو بلکل خالص ملے مجھے ہاں اترن تو تم ہوں جو ہر مرد کی بانہوں میں جانے کو تیار رہتی ہو۔۔
ردابہ نے کبھی امید بھی نہیں کی تھی کہ اسے یہ سننے کو ملے گا اس لئے اسکے چہرہ کے تاثرات لمحوں میں تبدیل ہوئے تھے۔۔
اب یہاں سے خود جاؤ گی کہ گارڈ کو بلاؤ؟؟ سپاٹ انداز میں کہہ کر اسنے ردابہ کو دیکھا تھا جو اتنی عزت پر پیر پٹخ کر وہاں سے نکلی تھی
واہ شیرنی۔۔۔ ابراہیم اس سے متاثر ہوا تھا
آپ بھی تھوڑے شیر بن جائیں ڈرپوک۔۔ اسے چھیڑتی وہ وہاں سے نکلی تھی
یہ تو مجھے بھی نہیں چھوڑتی۔۔ سر کھجاتا وہ اسکے پیچھے گیا تھا۔۔۔۔
وقت اپنی پوری رفتار سے گزرا تھا زلیخا بی شبانہ اور علی اسلام آباد شفٹ ہوگئے تھے وہاں وہ لوگ بوتیک کو بہت اچھے سے سنبھال رہے تھے یہاں کراچی میں حاشر اور ابراہیم نے مل کر سب سنبھالا ہوا تھا
زندگی پرسکون ہوگئی تھی اور اس پرسکون زندگی کو پر رونق کرنے کے لئے اللّٰہ نے آنسہ کے آنگن میں دو پیارے پیارے پھول کھلائے تو وہیں نور کی چھولی بھی خوشیوں سے بھری تھی
وقت چاہے کتنا ہی مشکل کیوں نا ہو رشتے چاہے کتنے ہی ادھورے کیوں نا ہو ایک وقت آتا ہے سب ٹھیک ہو جاتا ہے
اسنے بھی صبر کرنا سیکھا تھا دینا سیکھا تھا نبھانا سیکھا تھا اور آج وہ خوش تھی اللہ کی شکر گزار تھی وہ اس ایک ذات پر توکل کرتی تھی اور اس پاک زات نے اسے کبھی نامراد نہیں ٹہرایا تھا
دو الگ الگ لوگوں کی راہیں الگ سے ایک ہوئی تھیں
وہ تیری میری راہ کے سفر سے ہماری راہ کے سفر پر گامزن تھے اور یہی ان کے رشتے کی خوبصورتی تھی۔۔۔
ختم شد