تیری مجبوریوں سے واقف ہوں
تیری مجبوریوں سے واقف ہوں!
تو نے پہلے بھی کئی بار مجھے
ایسے دیکھا تھا کہ جیسے مجھے دیکھا ہی نہ ہو
ایسے سوچا تھا کہ جیسے مجھے سوچا ہی نہ ہو
ایسے چھوڑا تھا مجھے راہ میںاکثر تو نے،
جیسے مجھ سے کوئی رشتہ، کوئی ناتا ہی نہ ہو
جیسے تو نے مجھے، میں نے تجھے چاہا ہی نہ ہو
مصلحت اوڑھ کے چاہت کو چھپائے رکھا
اپنے ہر راز کو سینے سے لگائے رکھا
اور میں جو تری مجبوریوں سے واقف تھا
تجھ کو دیوی سا خیالوں میں سجائے رکھا
ہر نشانی کو تری میں نے مقدس جانا
تیرے ہر عکس کو آنکھوں میں بسائے رکھا
مجھ کو معلوم نہیں ہجر کے قاتل لمحے
تو نے کس آگ میں جل جل کے گذارے ہوں گے
کبھی لفظوں میں تھکن تو نے سمیٹی ہو گی
کبھی کاغذ پہ فقط اشک اتارے ہوں گے
یہ بھی ممکن ہے کہ گذرا ہوا لمحہ لمحہ
جس کو میں آج بھی سینے سے لگا رکھتا ہوں
تیرے نزدیک فقط یاد کی پرچھائی ہو
دور کی جیسے تری اس سے شناسائی ہو
جس طرح دھوپ دسمبر کی دریچے سے لگی
بے ارادہ کہیں آنگن میں اتر آئی ہو
جیسے محفل میں کسی شخص کی تنہائی ہو
تیری مجبوریوں سے واقف ہوں!
اس لیے میں تجھے الزام نہیں دے سکتا
اپنی چاہت کو کوئی نام نہیں دے سکتا
ایک پیغام ہے تیرے لیے یہ خاموشی
اور تو کوئی بھی پیغام نہیں دے سکتا
تیرے لفظوں، ترے اشکوں ،تری آنکھوں کی قسم
ضبط اب ساتھ کسی گام نہیں دے سکتا
یہ کہانی تو مرے ساتھ چلے گی عاطف
اس کہانی کو میں انجام نہیں دے سکتا
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...