گاڑی اُڑی جا رہی ہے۔ رات ہو گئی ہے۔ سورج پور اب تھوڑی دُور ہے۔ احمد اور فیاض بدستور باتیں کر رہے ہیں اور عبدل گہری سوچ میں سر جھکائے بیٹھا ہے۔
کردار
احمد، فیاض، عبدل
احمد: کئی بار تم سے کہا ہے کہ کھڑکی کا شیشہ اُٹھا دو
یہ شیشہ اُٹھا دو نا بھائی!
فیاض: کون ہے وہ پھر تم ہی بتاؤ!
احمد: ارے ہاں! وہ اندھی بھکارن!
خدا جانے وہ کون ہے ؟
فیاض: سات برس میں اس دھرتی کی ایسی کا یا پلٹی!
پہلے جنگل راکھ ہوا، پھر کال پڑا
سیلاب تو بس ایسا آیا کہ تو بہ میری!
سورج پور میں کیا رکھا ہے ؟
احمد: پرانی حویلی بھی اُجڑی پڑی ہے
وہ ڈیرہ تو حشمت کے دَم سے ہی تھا بس!
تمھیں یاد ہے جب وہ سیلاب آیا تھا
اُس رات عبدل کے ماں باپ، بُلّھے کا کنبہ
خدا جانے کتنی ہی مخلوق اس راؤں میں بہہ گئی
فیاض: بندو اور میں کشتی لے کر سب سے پہلے عبدل کے ڈیرے میں پہنچے
حشمت باوا اور نصیبن گھر سے نہ نکلے
احمد: میں بھی اس رات اکبر کو لے کر گیا تھا مگر وہ نہ مانے!
اجی یہ پرانے زمانے کے بوڑھے کسی کی نہیں مانتے
خیر اچھے تھے وہ لوگ!
دُنیا میں اب ایسی شکلیں کہاں ہیں ؟
فیاض: حسنی آپ کے ساتھ تھا جس دِن آگ لگی تھی؟
احمد: میں بندو کے ہمراہ مرچوں کی پیلی میں بیٹھا ہوا تھا
کہ حسنی طنبورہ لیے آ گیا
ہم وہیں رہٹ کے مڈھ پہ سنگیت سننے لگے تھے
کہ اکبر بھی گھوڑے سے اُترا
وہ شام اب کبھی یاد آتی ہے تو کانپ جاتا ہوں بھائی!
فیاض: حسنی آپ کے ساتھ تھا لیکن
نندی کس کے ساتھ گئی تھی؟
عبدل پھر کیوں بھاگا؟۔۔ ۔
احمد: ہاں تو میں کہہ رہا تھا
اندھیرا اُترنے لگا تھا کہ اتنے میں ٹاپوں کی آواز آئی
وہ عبدل کے پیچھے لگے تھے!
اِسی وقت میں اور حسنی بھی گھوڑوں کو لے کر چلے
رات کے کوئی نو دس بجے تھے کہ ندی کے
اُس پار جنگل میں جلتا الاؤ دکھائی دیا
گھوڑے چلتے نہ تھے اور ہم جاں ہتھیلی پہ لے کر اُدھر چل پڑے
پاس پہنچے تو دیکھا الاؤ پہ اک نار بیٹھی تھی،
جلتے الاؤ کے نزدیک عریاں بدن ایک عورت
پریشان بالوں سے منہ کو چھپائے،
خدا جانے وہ کون تھی!
فیاض: اچھا اچھا! یہ عورت۔۔ ۔
وہ —- تم نے کچھ پُوچھا تھا اس سے
وہ کیا بولی؟
احمد: ہم نے پوچھا تو کھانے کو دوڑی
ڈرانے لگی اور کہنے لگی ’’ڈین ہوں
دُور ہو جاؤ ورنہ کلیجہ چبا لوں گی۔ ‘‘
پہلے تو ہم ڈر گئے پھر ذرا بڑھ کے حسنی نے نیزہ سنبھالا
وہ تھرا گئی زرد سی پڑ گئی
فیاض: پھر آگے کیا بات ہوئی یہ بھی تو بتاؤ؟
احمد: ہم نے اس سے بڑی دیر تک گفتگو کی
فیاض: میں جانوں وہ کوکھ جلی تھی
جادُو ٹونہ کرتی ہو گی!
آخر اس نے کوئی بات تو کی ہو گی نا؟
احمد: نہیں کچھ نہیں۔۔ ۔ رو رہی تھی
جب حسنی نے اس کو بتایا کہ وہ نغمہ گر ہے تو کہنے لگی کچھ سناؤ!
وہ حسنی بھی کیا منچلا تھا
سنانے لگا!
فیاض: اچھے وقت میں گانے کی سوجھی تھی اس کو!
احمد: یہ کوی اور راگی طبیعت کے بندے ہیں!
ہاں! پھر وہ عورت —-
وہ اپنی کہانی سنانے لگی تھی کہ اتنے میں اک شور اُٹھا
گھڑی بھر میں جنگل چٹخنے لگا
آگ میلوں تلک بڑھ چکی تھی
وہ اس شور کو سن کے جنگل میں بھاگی
مرا گھوڑا آگے نہ چلتا تھا
میں رہ گیا اور حسنی ہوا ہو گیا
سارے جنگل میں ڈھونڈا
وہ دونوں نہ جانے کہاں کھو گئے تھے ؟
سواروں نے بھگدڑ مچائی تھی
پھر کیا ہوا یہ نہ پوچھو
وہ ناری خدا جانے غائب ہوئی، جل بجھی، بھاگ نکلی
خدا جانتا ہے۔
فیاض: وہ بزدل پھر گاؤں چھوڑ کے کیوں بھاگا تھا؟
احمد: کوئی کہتا ہے عبدل وہیں جل گیا!
کوئی کہتا ہے یہ جھوٹ ہے وہ کسی دوسرے گاؤں میں تھا
مگر یہ مجھے علم ہے یا خدا جانتا ہے
کہ حسنی مرے ساتھ تھا
وہ تو ناحق ہی مارا گیا!
میں نے لوگوں کو روکا بڑی منتیں کیں
وہاں کچھ بھلے لوگ بھی تھے
وہ کہتے رہے کہ عدالت کا دَر کھٹکھٹاؤ
مگر ایسے بلوے میں کب کوئی سنتا ہے
بُلّھا تو غصّے میں اندھا تھا
بس دونوں لڑنے لگے اور وہیں کٹ مرے!
(عبدل سوچتا ہے۔ اسے طرح طرح کے خیال آوازیں دیتے ہیں )
عبدل: سورج پور اب پھر نہ بسے گا!
سورج پور اب پھر نہ بسے گا
سورج پور تو اُس دن اُجڑ گیا تھا!
وہ دن اپنے گاؤں کی بربادی کا دن تھا!
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
آواز: کنچ گھر میں چاند اُترا ہے
دروازے کیوں بند پڑے ہیں ؟
کس نے بند کیے ہیں ؟
نندی تم یہاں کیوں آئی ہو؟
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
نندی: مجھے خوف آتا ہے عبدل
وہ کھڑکی کے شیشے تڑخنے لگے ہیں!
لہو گر رہا ہے
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
اکبر: یہ کنچ گھر میں لہو کی بارش کہاں سے آئی!
سفید شیشوں پہ لال تحریر کس نے لکھی؟
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
آواز: یہ آیا تجھے آج کس کا خیال؟
ہرے بن میں کلیاں کھلیں لال لال
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
حسنی: گگن سے اُڑ کے دھرت پہ آیا کیسے رنگ گلال
اُجلے چٹے چٹے شیشے سارے ہو گئے لال لال
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
بینا باجے تنانوم تنانوم
جھانجھن بولے چھن
بہت بڑی سرکار ہے تیری سیّد قطب الدینؒ
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
آواز: اب اس پیڑ سے اُڑ جا!
اب اس پھل میں رَس نہ پڑے گا
اس کو اندر سے کیڑوں نے چاٹ لیا ہے
اب اس پیڑ سے اُڑ جا
کڑوے نیم کی ٹہنی چن لے!
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
فیاض: اب تو یہی تمنا ہے بس
نویں شہر میں جلدی جلدی گھر بن جائے
احمد: آٹھ بجنے لگیں تو بتانا
تمھیں کنچ گھر کا نظارہ دکھاؤں گا
گاڑی وہیں سے گزرتی ہے
فیاض: آٹھ بجنے میں چند منٹ ہیں!
آواز: سورج پور اترو گے عبدل!
وہاں نہ جانا!
عبدل: گاڑی آگے کو چلتی ہے
چیزیں پیچھے کو ہٹتی ہیں
ساری دھرتی گھوم رہی ہے
کھڑکی کے اُجلے شیشے میں چاند بھی جم کر ٹھہر گیا ہے
آواز: سورج پور اُترو گے عبدل!
وہاں نہ جانا!
وہاں ترا اب کوئی نہیں ہے!
عبدل: اس دھرتی سے میرا ناطہ ٹوٹ چکا ہے!
اپنے وقت کا اِک اِک ساتھی چھوٹ چکا ہے!
آواز: میں نہ کہتا تھا کہ وہ گھوڑا بڑا منحوس ہے
وہ زمیں منحوس تھی وہ آسماں منحوس تھا
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
تجھ کو اِس دِن کے لیے پالا تھا عبدل!
پوت کا ہے کو جنا تھا سانپ تھا!
آواز: تو نے نندی کو مارا ہے!
تو نے اس کا خون پیا ہے!
تو نے حسنی کو مارا ہے!
تو اپنے ماں باپ کا قاتل!
تو ہی بُلّھے کا قاتل ہے
اتنے تن داروں کا خون تری گردن پر!
تو خونی ہے!
تو قاتل ہے!
عبدل: تو جھوٹا ہے
نندی اپنی موت مری ہے
حسنی میرا جگری دوست تھا
آواز: تو بزدل ہے!
تو نے سورج پورکو اجاڑا!
عبدل: تو جھوٹا ہے!
تو بزدل ہے!
آواز: تو خونی ہے!
تو قاتل ہے!
تو بزدِل ہے!
عبدل: (لہجہ بدل کر )
دھُوپ کی گرمی سے پیلا پڑ گیا تھوہڑ کا کانس
چاند کی کبریت سے جلنے لگے جنگل کے بانس
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
ارے کیا ہوا دیکھنا تو!!
یہ گاڑی کھڑی ہو گئی؟
فیاض: (عبدل کی طرف دیکھ کر) کون سا اسٹیشن ہے بھائی؟
آپ یہاں اُتریں گے صاحب؟
احمد: نہیں! یہ تو جنگل ہے!
گاڑی یہاں کیوں رُکی!
کوئی آواز بھی تو نہیں!
کوئی بتی نہیں!
یہ تو جنگل ہے! سنسان جنگل!!
٭٭٭
تشکر: یاور ماجد جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید