”تیرے مست مست دو نین۔۔۔ میرے دل کا لے گئے چین” وہ جو سر پر لکڑیوں کی گٹھری رکھے سڑک کے کنارے چل رہی تھی اچانک جیپ کے پاس آکر رکنے پر کرنٹ کھا کر پیچھے ہوئی اس نے بمشکل سر پر رکھی لکڑیوں کو گرنے سے بچایا تھا۔ جیپ سے جھانکتا چہرہ دیکھ کر اس کی آنکھوں میں ناگواری اتر آئی ۔آج وہ اکیلا ہی تھا۔ اس کےگانا گانے کے لوفرانہ انداز کو نظر انداز کرتے وہ آگے بڑھنے لگی۔
”میں چھوڑ دیتا ہوں گھر تک ۔۔۔اتنا وزن اُٹھا کر ان نازک ہاتھوں میں درد ہو رہی ہو گی “سست روی سے جیپ کو چلاتا ہوا وہ اس کے برابر آیا تھا۔ اس نے اب کی بار بھی کوئی جواب نہیں دیا بس خاموشی سے چلتی رہی۔
”آج تمہاری وہ چھوٹی بہن نظر نہیں آرہی۔۔۔ اس دن میرے ایک دوست کو وہ بہت پسند آئی تھی“ کشمالہ کو بولنے پر اکسانے کے لئے اس نے خلا میں تیر چلایا جو ٹھیک نشانے پر لگا تھا۔ اس کی بات پر کشمالہ نے سر پہ رکھی گٹھری نیچے رکھ دی اس کے ہاتھوں میں واضح لرزش تھی جو مقابل کی آنکھوں سے بھی مخفی نہیں رہ سکی تبھی تو وہ اپنی بات پر محظوظ ہوتے ہوئے مسکرایا تھا۔
”آئندہ کبھی میری بہن کا نام اپنی گندی زبان پر نہ لانا۔۔۔ ورنہ اگلے پل بولنے کے قابل نہیں رہو گے“ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کشمالہ نے لفظ چبا چبا کر ادا کیے تھے۔ وہ جو اسے خوفزدہ سمجھ کر دلچسپی سے دیکھ رہا تھا اس کے انداز پر لمحہ بھر کو سٹپٹا گیا۔
”ٹھیک ہے۔۔ لیکن تمہارا نام تو زبان پر لا ہی سکتا ہوں۔۔۔ وہ کیا نام ہے تمہارا۔۔۔“ رُک کر اس نے سوچنے کی ایکٹنگ کی۔
” ہاں یاد آیا۔۔۔ شاید سب تمہیں مالا کہتے ہیں۔۔۔مالا کیا مرے گلے کی مالا بنو گی؟“ اس کے چہرے پر معنی خیز مسکراہٹ تھی۔
”یہ مالا ہی تمہارے گلے میں پھانسی کا پھندا بنے گی میجر آتش“ اس کی شرٹ پر لکھے نام کو پڑھتے ہوئے وہ زہر خند لہجے میں بولی تھی۔
”میں چاہوں تو تمہیں ابھی گاڑی میں ڈال کر لے جا سکتا ہوں۔۔۔ اور کوئی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا کیونکہ تم اکیلی ہو اور سڑک سنسان۔۔۔ لیکن پھر بھی تمہیں سوچنے کے لئے وقت دے رہا ہوں۔۔۔ اگر تم خود مجھ تک آگئی تو ٹھیک۔۔۔ ورنہ یہ کام میرا دوست کرے گا اور بدلے میں مجھے اس کو تمہاری بہن لا کر دینی پڑے گی“ کہہ کر اس نے جیپ سٹارٹ کی اور بھگا کر لے گیا۔ وہ بزدل نہیں تھی پھر بھی گھر واپسی پر اس کے قدم لڑکھڑا رہے تھے۔ آسیب نے اس کے گھر کا رخ کر لیا تھا اور گھر بچانے کا کوئی سرا اس کے ہاتھ نہیں آرہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”سنیں ۔۔ریحان بھائی۔۔۔ ریحان بھائی“ وہ جو مسجد سے واپسی پر کسی گہری سوچ میں گم نظریں جھکائے گھر کی طرف جا رہا تھا اس کے مسلسل آواز دینے پر رُک گیا لیکن مڑ کر اس کی طرف نہیں دیکھا تھا۔
”مجھے پتا ہے آپ اس وقت کیا سوچ رہے ہیں “ کشمالہ نے سنسنان گلی میں ارد گرد دیکھتے ہوئے رازدانہ انداز میں کہا۔ وہ بے اختیار مڑا کشمالہ کے ساتھ اس کی سہیلیاں بھی تھیں جن کی تمام تر توجہ اسی پر مرکوز تھی۔
”کیا تم نے کتابیں پڑھنا چھوڑ کر لوگوں کی سوچ پڑھنے کا شوق پال لیا ہے؟“ ریحان نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا وہ اکثر خنساء سے کہہ کر اس کے اسکول سے بھی کتابیں منگوایا کرتی تھی۔۔
”لوگوں کی سوچ پڑھنے کا نہیں بلکہ کوئی اور شوق پال لیا ہے۔۔۔ ہمیں بھی آپ کے گروپ کا حصہ بننا ہے۔“ کشمالہ کے آہستگی سے کہنے پر وہ اچھلا تھا ایسے جیسے کسی بچھو نے ڈنگ مارا ہو۔
”کونسا گروپ۔۔؟“ ریحان نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے اپنے سامنے کھڑے چار نفوس کو دیکھا جس میں ایک اس کی اپنی بہن بھی شامل تھی۔ وہ حیران تھا ان کے خفیہ گروپ کے بارے میں محلہ کی لڑکیوں کو کیسے پتا چل گیا۔
”مارخور“ گُل کی بات پر ریحان کو لگا اسے سننے میں غلطی ہوئی ہے۔ وہ ان کے گروپ کا نام کیسے جان سکتی ہیں۔
” آج جب ہم جنگل میں لکڑیاں لینے گئے تو علی بھائی کا پیچھا کرتے آپ کے مخصوص مقام تک بھی پہنچ گئے وہیں آپ لوگوں کی باتیں سن لی تھیں اور ہم یہ بھی جانتے ہیں آپ کو اپنا کام مکمل کرنے کے لئے آج زیادہ لوگوں کی ضرورت ہے کیونکہ احمد بیمار ہے اور حسن شہر گیا ہوا ہے“ اس کی حیرت کو بھانپتے ہوئے کشمالہ نے تفصیل بتائی۔
”میں اپنے گروپ میں لڑکیوں کو شامل نہیں کرتا۔“ ان پر ایک نظر ڈالتے ہوئے وہ جانے کے لئے مڑ گیا۔
”کیوں آپ کو لگتا ہے لڑکیاں کمزور ہوتی ہیں؟“ کشمالہ اس کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔
”نہیں لڑکیاں کمزور نہیں ہوتیں ۔۔۔ لیکن دشمن کے مقابل آنے پر وہ کسی کی بھی کمزوری بن سکتی ہیں ۔۔۔ اور میں اپنی کوئی کمزوری ساتھ لے کر نہیں چلتا“ اس نے رسانیت سے سمجھانا چاہا۔
”اگر ایسی کوئی مشکل آئی تو ہم آپ کو اختیار دیتے ہیں کہ آپ اپنے ہاتھوں سے ہمیں گولی مار دینا“ کشمالہ نے بڑے آرام سے مشورہ دیا۔
”یہ کام آسان نہیں ہے۔۔۔ تم لوگ بس اپنی پڑھائی پر توجہ دو“ ریحان کے صاف انکار کرنے پر ان کے چہروں پر مایوسی نظر آنے لگی تھی ۔
“ہمیں مشکلوں سے لڑنے کی عادت ہے۔۔۔ پلیز بھائی مان جائیں“ خنساء نے بھائی کی منت کرنی چاہی۔
”خنساءیہ تمہاری پسند کی کوئی چیز نہیں ہے جو مارکیٹ سے منگوانے کے لئے ضد کر رہی ہو ۔۔۔ یہ خون کا کھیل ہے“ ریحان نے بہن کو لتاڑا۔
”دھرتی کے کچھ بوجھ کم کرنے کی ذمہ داری ہم پر بھی ہے لیکن اگر آپ ساتھ نہیں دیں گے تو ہمیں یہ کام اکیلے ہی کرنا پڑے گا“ کشمالہ نے آخری حربہ استعمال کرتے ہوئے دھمکی دی۔ جو کاری گر ثابت ہوئی۔ویسے بھی وہ کل کے واقعے سے تھوڑا پریشان ہو گئی تھی اور جلد سے جلد میجر آتش کو سبق سیکھانا چاہتی تھی۔
” ٹھیک ہے میں گروپ کے باقی افراد سے بات کروں گا لیکن یہ یاد رکھنا ہر کام میں ہم تم لوگوں کو شامل نہیں کریں گے۔۔۔ اور تم لوگوں کو ہماری ساری شرطیں ماننی ہوں گی“ انہیں کسی طور ٹلتے نہ دیکھ کر ریحان نے نا چاہتے ہوئے بھی ہامی بھر لی۔
”ٹھیک ہے ہمیں منظور ہے“ انہوں نے یک زبان ہو کر کہا وہ چاروں اس بات پر ہی خوش ہو گئیں تھیں کہ وہ کسی حد تک مان گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سردی کی شدت بڑھتے ہی پہاڑوں نے چاندی کی چادر اوڑھ لی۔ سر سبز قد آور درختوں پر اٹی سفید اجلی اجلی برف اتنی دلکش لگتی کہ دیکھنے والی آنکھ دیکھتی رہ جائے۔ کڑاکے کی سردی کی وجہ سے ہر طرف چہچہاتے پرندے بھی اپنے گھونسلوں میں جا دبکے تھےاور تین دن سے ہوتی مسلسل برف باری نے ذرائع آمدورفت مفلوج کرکے لوگوں کو گھروں تک ہی محدود کر دیا تھا۔ ایسے میں وہ تینوں گھر کے پیچھے موجود پہاڑ پر چڑھے موسم کا مزہ لیتے ہوئے ایک دوسرے پر برف کے گولے بنا بنا کر پھینک رہے تھے۔ جب اس کھیل سے تھک گئے تو وہ عدیمہ کی فرمائش پر سنو مین بنانے میں اس کی مدد کرنے لگی اور داور انگلی سے برف پر کچھ لکھنے میں مصروف ہو گیا۔
”آپا دیکھیں میں نے اپنا نام ٹھیک لکھا ہے نا۔۔۔ مجھے سارے اسپیلنگ یاد ہیں“ داور کے پرجوش انداز سے کہنے پر وہ عدیمہ کو چھوڑ کر اس کی طرف آگئی۔
”نہیں پھر غلط لکھا ہے ڈی کے بعد اے آنا تھا تم نے ڈبلیو لکھ دیا۔۔۔تم کب سیکھوں گے داور“ برف کی سفید چادر پر لکھے اس کے نام کے چند حروف کو مٹاتے ہوئے اس نے خفگی کا اظہار کیا ۔داور چھ سال کا ہو گیا تھا لیکن پڑھائی میں کمزور ہونے کی وجہ سے یاد کیا ہوا سبق بھی جلدی بھول جاتا تھا۔
”آپایہ مرنے کے بعد ہی سیکھے گا“ عدیمہ نے سنو مین کے سر پر برف کا گولا رکھتے ہوئے مذاق اڑایا۔
“اللہ نہ کرے۔۔ ہر وقت فضول مت بولا کرو کتنی بار کہا ہے زیادہ بولنے سے عقل چلی جاتی ہے“ عدیمہ کی بات پر وہ دہل گئی تھی۔ کشمالہ کو عدیمہ پر برہم ہوتے دیکھ کر داور نے ایک جتاتی ہوئی نظر اس پر ڈالی تھی جواب میں وہ بھی منہ چڑا کر اپنے سنو مین کی طرف متوجہ ہو گئی۔
”مالا۔۔۔ بہن بھائی کو لے کر نیچے آجاؤ شام ہو رہی ہے“ ابھی اس نے داور کا نام مکمل ہی کیا تھا کہ پہاڑوں کے دامن سے آتی اماں کی آواز پر ان دونوں کو ساتھ لئے گھر کی جانب چل دی۔
”آپا میرا نام تو برف میں دب جائے گا“ دوبارہ سے برف باری شروع ہوتے دیکھ کر داور کو اپنے نام کی فکر لاحق ہوئی۔
”کوئی بات نہیں ہم کل آکر پھر لکھ لیں گے“ کشمالہ نے اسے تسلی دی۔
”عدیمہ دھیان سے چلو کہیں گر کر چوٹ نہ لگوالینا“ اس نے اچھلتی کودتی عدیمہ کو ٹوکا اور جُھک کر داور کے جوتوں کے کھلے تسمے بند کرنے لگی۔ کہا جاتا ہے بڑی بہنیں ماں کے جیسی ہوتی ہیں اور وہ اس بات کی عملی تفسیر تھی۔ اپنے چھوٹے بہن بھائی کا خیال بچوں کی طرح ہی رکھتی تھی۔
”آپا۔۔۔ لا۔۔۔لالالاش “ وہ جو داور کے جوتوں کے تسمے بند کر نے کے بعد آخری گرہ لگا رہی تھی عدیمہ کی خوف زدہ آواز سن کر فوراً سیدھی ہو ئی اور دوڑتی ہوئی اس تک آئی تھی۔ عدیمہ سے چند قدم دور برف سے جھانکتا ہوا ایک انسانی ہاتھ نظر آرہا تھا۔ لمحہ بھر کو اس کے چہرے کا رنگ فق ہوا اور پھر وہ بے اختیار داور کی طرف مڑی اس نے برف سے جھانکتے ہاتھ کو اپنے پیچھے چھپانے کی کوشش کی تھی۔
”داور نیچے جا کر ابا کو بھیجو اور ان سے کہو محلے سے کسی کو ساتھ لے کر یہاں آ جائیں“ وہ جانتی تھی داور اچانک سے دیکھ کر ڈر جائے گا اسی لئے اس نے وقتی طور پر اسے وہاں سے بھگانا چاہا۔
”آپا کیا ہوا ؟۔۔ عدیمہ کو کوئی چوٹ لگی ہے؟“ اس نے عدیمہ کی صرف چیخ سنی تھی اس کے الفاظ ٹھیک سے نہیں سن سکا تھا اسی لئے معاملہ سمجھ نہیں آیا۔
”جتنا کہا ہے اتنا کرو۔۔۔ داور جلدی“ اس کے سختی سے کہنے پر وہ بندر کی طرح چھلانگیں لگاتا اگلے ہی پل نیچے تھا۔
داور کے جانے کے بعد اس نے اپنی توجہ عدیمہ کی طرف مبذول کی جو اب بھی متوحش نظروں سے اس ہاتھ کو دیکھ رہی تھی جس پر پھر سے ہلکی ہلکی برف گرنے لگی تھی۔ کشمالہ نے پاس جا کر اسے اپنے ساتھ لگا لیا لاش پر سے برف ہٹانے کی اس میں بھی ہمت نہیں تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ دیر بعد ہی امجد صاحب اپنے ساتھ والے گھر میں مقیم اکمل صاحب کو لئے اوپر آئے تھے۔
”کیا ہوا بیٹا سب ٹھیک ہے ؟ ۔۔۔کہیں چوٹ تو نہیں لگی؟“ انہیں پریشان کھڑے دیکھ کر امجد صاحب نے تشویشناک لہجے میں پوچھا ۔ کشمالہ نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے اس ہاتھ کی طرف اشارہ کیا جس کے اب صرف ناخن نظر آرہے تھے۔ اس کے اشارہ کرنے پر امجد صاحب اور اکمل صاحب نے بیک وقت اس طرف دیکھا اور دونوں کے ہی رنگ اڑے تھے۔
”ٹھیک ہے تم دونوں نیچے جاؤ ہم دیکھتے ہیں“ اپنے لہجے کو نارمل رکھتے ہوئے انہوں نے انہیں وہاں سے جانے کا کہااور ہاتھ میں پکڑی دو چھتریوں میں سے ایک کشمالہ کی طرف بڑھائی جسے اس نے تھام لیا۔ عدیمہ ابھی تک سہم کر اس کے ساتھ چمٹی ہوئی تھی۔
ان دونوں کے واپسی کی طرف بڑھتے قدم دیکھ کر وہ ہاتھ سے ہی برف ہٹانے لگے۔ دل ہی دل میں دعا کر رہے تھے کہ کوئی جانا پہچانا چہرہ دیکھنے کو نہ ملے لیکن برف ہٹانے پر جو چہرہ سامنے آیا اس نے ان دونوں کے ہی اعصاب شل کر دیے تھے ۔ وہ تیرہ سالہ بلال تھا اکمل صاحب کا لخت جگر۔۔۔۔
اگلے ہی پل اکمل صاحب کی دلخراش چیخوں سے پہاڑ لرز اٹھے۔ وہ دنوں بھی دہل کر رک گئیں۔ پہاڑ کے دامن میں بسے گھروں سے کئی لوگ نکل کر چیخوں کی سمت دوڑے تھے اور ان میں سب سے آگے وہ تھی۔ برف سے ٹھنڈے ہوتے بے جان وجود کو دیکھ کر اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ پھیل گئی۔ وہ ایسے کیسے مر سکتا تھا ابھی کچھ دن پہلے ہی تو اس نے کہانی سننے کی فرمائش کی تھی جسے وہ فرصت نہ ملنے کی وجہ سے ابھی تک پورا نہیں کر سکی تھی اور اب وہ کہانی سنے بنا ہی چل دیا تھا۔ کشمالہ کو لگا اب وہ کبھی کوئی کہانی نہیں سنا سکے گی۔ بلال کے جسم پر جگہ جگہ جما ہوا خون اس پر ہوئے ستم کی داستان سنا رہا تھا لیکن اس جنگل کے قانون میں اُس داستان کو سننے والا کوئی نہیں تھا۔ مرنے والے کو کیوں مارا گیا اور مارنے والا کون ہے یہ راز اب مرنے والے کے ساتھ ہی دفن ہو جانا تھا۔ وہاں ایسا ہی ہوتا تھا ان کا خون اتنا سستا تھا کہ پانی کی طرح بہایا جاتا ۔یہ وہاں کی عام روایت تھی کہنے والے کہہ سکتے تھے اب تک تو انہیں عادت ہو گئی ہو گی پر یہ ان لوگوں کا دل جانتا تھا کہ ہر بار کسی اپنے پیارے کی لاش دیکھ کر ان کے دل پہ کیسے آرے چلتے تھے۔
کچھ ہی دیر میں محلہ لوگوں سے بھر گیا ہر طرف آہ و بکا تھی۔۔۔ چیخ و پکار تھی۔۔۔ کچھ نوجوان خون بے بسی اور غصے کے ملے جلے جذبات لئے بدلہ لینے کی آگ میں جل رہے تھے وہ اور کر بھی کیا سکتے تھے۔ تھانے تک خبر پہنچی تو رسمی کاروائی کرنے پولیس بھی چلی آئی۔۔۔ اہل خانہ سے چند سوال و جواب کے بعد اپنے رجسٹر بند کئے اور واپسی کی راہ لی۔۔۔ یہ بھی وہاں معمول کی کاروائی تھی۔ وہاں سب جانتے تھے قانون کے ہاتھ کتنے ہی لمبے کیوں نہ ہوں وہ مجرم تک کبھی نہیں پہنچ سکتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام کے اس پہر ہر طرف پُر ہول سناٹے کا راج تھا۔ بلال کی موت کے بعد سے لوگوں نے گھر سے نکلنا بند کر دیا تھا۔ گھروں کے پیچھے سے جھانکتے پہاڑ بھی اداسی کی لپیٹ میں آگئے تھے ایسے لگتا تھا جیسے انہوں نے چاندی کی چادر کے بجائے بیوگی اوڑھ لی ہو اور وہاں کوئی بیوہ عدت میں آ بیٹھی ہو۔ اس نے اپنے گرد شال لپیٹتے ہوئے ایک مجرمانہ سی نظر کچن میں کھانا بناتی ماں پر ڈالی جن کے چہرے پر اطمینان تھا اگر انہیں پتا چل جاتا وہ ان سے جھوٹ بول کر کہاں جا رہی ہے تو ان کا اطمینان اڑنچھو ہو جاتا ایک لمحہ کو شرمندگی نے اسے گھیرا لیکن پھر سر جھٹک کر دہلیز پار کر گئی۔ باہر قدم رکھتے ہی یخ بستہ ہوا نے چھوا تو اسے بے اختیار جھر جھری آگئی۔ چادر کو دوبارہ اچھے سے لپیٹتے ہوئے اس نے قدم آگے بڑھا دئیے۔ اسے گلی کے کونے میں موجود اپنی دوست کے گھر جانا تھا۔ وہ صرف پڑاؤ تھا ان کی منزل کوئی اور تھی۔ خنساء کے گھر پہنچ کر اس نے اپنا لباس تبدیل کیا لباس کے ساتھ اس کا حلیہ بھی بدل گیا تھا۔ کوئی اسے دیکھ کر نہیں پہچان سکتا تھا کہ وہ کشمالہ امجد ہے ڈھیلے ڈھالے مردانہ کرتا شلوار کے ساتھ بالوں پر دوپٹّے کو پگڑی نما باندھے وہ نوعمر لڑکا لگ رہی تھی وہاں موجود دوسری لڑکیاں بھی اُسی جیسے حلیے میں تھیں۔ تیاری مکمل کر کے وہ خنساء کے گھر سے نکل آئیں ان کا رخ بستی کے باہر تھا جہاں ان کا انتظار کیا جا رہا تھا۔
”چلو جلدی چلیں۔۔۔کہیں گاڑیاں ہاتھ سے نہ نکل جائیں“ان کے قریب پہنچنے پر گروپ لیڈر ریحان نے کہا اور وہ سب مین روڈ سے ہٹ کر جنگل کے راستے پہ چلنے لگے۔ وہ دس بارہ لوگوں کا گروپ تھا جس میں تقریباً ایک ہی عمر کے لڑکے لڑکیاں شامل تھے۔یہ ان کی چوتھی واردات تھی پہلی تین وارداتوں کی کامیابی کے بعد وہ پہلے سے زیادہ نڈر ہو گئے تھےان کی چال میں عجب سی سرکشی اور بلا کا اعتماد تھا۔ ہر بار نئی جگہ کا انتخاب کیا جاتا اور وہ جگہ بستی سے اتنی دور ہوتی کہ کوئی چاہ کر بھی بستی والوں پر شک نہیں کر سکتا تھا۔ یہ ان کا دشمن سے بدلہ لینے کا اپنا طریقہ تھا اور آج وہ سب بلال کی پرسرار موت کا بدلا لینے آئے تھے۔
”گاڑی گزر تو نہیں گئی؟“ ریحان نے منزل پہ پہنچ کر شاہ بلوط کے درخت پر چڑھے علی سے پوچھا جس کی ڈیوٹی دور بین سے گاڑیوں پر نظر رکھنا تھی اور وہ اس کام کے لئے کافی دیر سے وہاں موجود تھا۔
”نہیں بھائی۔۔۔ کچھ ہی دیر میں آتی ہو گی“ علی نے دور بین پر سے نظریں ہٹائے بغیر جواب دیا۔
”خبر پکی تھی نا۔۔؟؟“ اس نے پاس کھڑے احمد سے پوچھا جس نے انہیں یہ خبر دی تھی۔
”ایک دم پکی بھائی“ احمد کی یقین دہانی پر وہ سب کو ان کی پوزیشنز سمجھانے لگا تھوڑی دیر کے لئے ان کی آوازوں سے جنگل میں شور برپا ہوا اور پھر بھید بھری خاموشی چھا گئی۔ وہ سب اپنی اپنی پوزیشن سنبھالے سانس روکے بیٹھے تھے۔پندرہ منٹ کے بعد ان کا انتظار ختم ہوا اور روڈ پر ان کی مطلوبہ گاڑیاں دکھائی دیں۔ جھینگوں کی مخصوص آواز میں دئیے گئے سگنل پر وہ سب الرٹ ہو گئے۔ جیسے ہی پہلی گاڑی ان کی مقرر کردہ حدود تک آئی ایک جھٹکے سے رک گئی اس کے پیچھے آتی باقی دو گاڑیوں کو بھی بریک لگی تھی ۔گاڑی میں ہوئی خرابی دیکھنے کے لئے اگلی گاڑی سے ایک باوری شخص اترا وہ جیسے ہی گاڑی کا پھٹا ہوا ٹائر دیکھنے کے لئے جھکا دائیں طرف سے آتی سنسناتی ہوئی گولی نے اسے ڈھیر کر دیا ۔ یہ کام اتنی خاموشی سے ہوا تھا کہ گاڑیوں میں بیٹھے افراد لاعلم رہے۔اگلے ہی پل وہاں گھمسان کا رن پڑا تھا ان فوجی گاڑیوں پر دونوں اطراف سے تابڑتوڑ پتھر اور گولیاں برسائی جانے لگیں چند لمحوں میں ہی وہ اپنے شکار کو جوابی کاروائی کا موقع دئیے بغیر ہی ڈھیر کر چکے تھے۔وہ لوگ ایک اور مشن میں سُرخرو ہو گئے تھے۔
”لے کے رہیں گے آزادی۔۔۔۔کشمیر بنے گا پاکستان“ جنگل ان کے نعروں سے گونج اٹھا۔ آسمان نے سالوں پہلے یہ نعرہ برصغیر کی گلیوں میں سنا تھا اور آج تھوڑے سے ردوبدل کے بعد وہ یہ نعرہ کشمیر کے جنگل میں سن رہا تھا۔۔۔۔ستر سال گزرنے کے بعد بھی ان کی قدریں مشترک تھیں آزادی اور پاکستان۔
۔۔۔۔۔۔
نادر کاکوروی اور آئرلینڈی شاعر تھامس مور کی نظم نگاری کا تقابلی مطالعہ
نادؔر کاکوروی اردو کے ممتاز شاعر اور تھامس مور آئرلینڈ کے انگریزی زبان کے شاعر ہیں، دونوں شعرا کی شاعری...