(Last Updated On: )
تیرے ملبوس کا انداز نرالا سا لگا
بن سنورنے کا ترا ڈھنگ انوکھا سا لگا
کل مرے شانے پر سر رکھ کے جو رویا تھا بہت
آج اُسے آئینے میں دیکھا تو جھٹکا سا لگا
خطۂ زیست میں ہے حسن و نفاست اس سے
اسے چھو لینے سے احساس سنورتا سا لگا
تمتماتے ہوئے رخسار، دیکھتے ہوے لب
جسم کا جسم تمنا سے پگھلتا سا لگا
دن اندھیرے ہوئے راتیں ہوئیں خوابوں سے بعید
وہ ہوا سچ تو ہر اک زاویہ جھوٹا سا لگا
ایسے تنہا ہوئے … جیسے نہیں نگراں کوئی
ایسے مد ہوش کہ احساس بھی سہما سا لگے
وہ بھی روشن ہے کہ ہے جس نے مٹا یا اسلمؔ
مِٹنے والے کے بھی ماتھے پہ اُجالا سا لگا
٭٭٭