تیرے دیدار پر اگر میرا اختیار ہوتا۔۔،،
یہ روز روز ہوتا۔۔ یہ بار بار ہوتا۔۔
پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو چاروں سو پھیلی ہوئی تھی۔۔ سرخ اور سفید امتیزاج کے لباس میں وہ اسکے سامنے کھڑی تھی۔۔ اس نے اچک کر اس م چہرہ دیکھنا چاہا۔۔ ہوا بار بار اسکی زلفوں سے چھیڑ خانی کر رہی تھی۔۔ ایک ہاتھ سے بالوں کو پیچھے کرتی گلاب کے پھولوں کے بیچ چلتی وہ کوئی اپسرہ تھی جو دھیرے دھیرے اسکے قریب آ رہی تھی۔۔ وہ بے خود سا اسے تک رہا تھا۔۔
وہ پریوں جیسی لڑکی آہستہ آہستہ اسکے نزدیک آ رہی تھی۔۔ جیسے جیسے وہ نزدیک آ رہی تھی اسکی دھڑکنے تھمتی جا رہی تھیں۔۔
ان گلاب کی پنکھڑیوں پر قدم بڑھاتی وہ خود بھی کھلے ہوئے گلاب جیسی ہی لگ رہی تھی۔۔
وہ اسکے مزید قریب آ رہی تھی۔۔
“رابیل”۔۔۔
اس کی سرگوشی ابھری۔۔
اس نے ہاتھ بڑھا کر اسے چھونے کی کوشش نہیں کی ۔۔۔
وہ اب بلکل اسکے سامنے کھڑی تھی۔۔ اسکے بال اسکے چہرے کو چھو کر گزر رہے تھے۔۔ وہ آنکھیں بند کئے بس اسکی خوشبو محسوس کر رہا تھا۔۔
اگلے ہی لمحے کسی خوبصورت احساس کے تحت اسکی آنکھیں کھلی تھی۔۔ اسنے حیران نظروں سے ارد گرد دیکھا۔۔ وہ اپنے کمرے میں اپنے بیڈ پر موجود تھا۔۔ سورج کی روشنی کمرے میں پھیل رہی تھی۔۔
وہ اسکے اتنے قریب اتنے پاس کھڑی تھی۔۔
یہ سوچ کر ہی اسکے لب مسکرا اٹھے۔۔
مگر وہ تو بس خواب میں اتنے نزدیک تھی۔۔
طرح طرح کی سوچوں کو جھٹکتے وہ اٹھ کھڑا ہوا۔۔
“آپ نے تو مجھے سچ میں پاگل کر دیا ہے پیاری لڑکی۔۔ اب اس کا کچھ علاج کرنا ہی ہوگا”۔۔
دیوار پر لگی اسکی پینٹنگ پر وہ اسکی آنکھوں پر ہاتھ پھیرتے اسکا ریئکشن سوچ کر مسکرایا تھا۔۔
_______
“اوہ ہو میری جان بس۔۔ آنی کی جان کو ٹھنڈ لگ رہی ہے نا۔۔ “۔۔
وہ اسے تولیے میں لپیٹتی گود میں لئے کمرے سے منسلک باتھ روم سے نکلی تھی۔۔
اسے بیڈ پر بیٹھا کر اس نے جلدی سے اے۔ سی کی کولنگ کم کیا۔۔
“آج فرشتے کیا پہنے گی۔۔ بتاؤ آنی کو کیا پہننا ہے آنی کی جان کو”۔۔
اسے بہلاتی اسکے کپڑے نکال کر وہ بیڈ پر اسکے سامنے ہی بیٹھ گئی تھی۔۔
اسنے آنکھیں پٹپٹا کر اسے دیکھا تھا جواباً فرشتے نے بھی آنکھیں پٹپٹائی۔۔ رابیل کو اس میں ایک پرانی جھلک نظر آئ ۔۔ اسنے بےاختیار اسکے پھولے پھولے گال چومے۔۔
“ہاہاہاہا فرشتے بس بچے۔۔ بس میری جان”۔۔
فرشتے نے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے اسکے چہرے کو تھام کر اپنا چہرہ رابیل کے چہرے سے اس انداز میں ٹکرایا تھا کے رابیل کی ناک اسکے منہ میں جا رہی تھی۔۔
یہ اسکا پیار کرنے کا انداز تھا جو وہ رابیل کے گود میں جاتے ہی اسکے ساتھ شروع کر دیتی تھی۔۔ رابیل کھلکھلا کر ہنس پڑی تھی۔۔
کمرے کے اندر آتی فاطمہ بیگم نے نم آنکھوں سے مسکرا کر انھیں دیکھا تھا۔۔ ایسے ہی تو کبھی انکی دونوں بیٹیوں کی ہنسی اس گھر میں گونجا کرتی تھی۔۔ انکی خوشی دائمی ہونے کی دعا کرتی وہ ان دونوں کے قریب آئیں۔۔
“مم مم ما ۔۔ ما ما “۔۔
اسکے ساتھ کھیلتی فرشتے نے اٹک اٹک کر کہا تھا ساتھ ہی اپنا چہرہ رابیل کے چہرے مزید قریب کیا تھا۔۔
“فرشتے نہیں بیٹا میں میں ماما نہیں بیٹا میں نہیں۔۔
وہ لمحوں میں پیچھے ہٹی تھی۔۔ اسکے اس طرح ہٹنے سے فرشتے بری طرح روئی۔۔ وہ یک ٹک اسے دیکھ رہی تھی۔۔ یہ کیا کہ دیا تھا اس بچی نے نہیں وہ یہ تو نہیں ہے۔۔
“کیا بات ہے رابی۔۔ فرشتے رو کیوں رہی ہے؟ تم اٹھا رہی کیوں نہیں ہو اسے”۔۔
انہوں نے باغور اسکا چہرہ دیکھا جس پر ہوائیاں اوڑی ہوئی تھی۔۔
“نن نہیں کچھ نہیں ماما ابھی نہلا کر لائی تھی نا اسے اس لئے شاید رو رہی ہے”۔۔
اس نے بوکھلا کر فرشتے کو اٹھایا جو اس کے اٹھاتے ہی چپ ہو گئی تھی۔۔
“جانتی ہو رابی یہ جو کسی کے پاس بھی چپ نہیں ہوتی تمھاری گود میں آتے ہی کیوں پرسکون ہو جاتی ہے”۔۔
انہوں نے اسے پیار کرتے ہوئے کہا۔۔
اسنے سوالیہ نظروں سے انھیں دیکھا۔۔
“کیوں کے یہ تمہاری گود میں ماں کی خوشبو محسوس کرتی ہے رابی۔۔ بچے کو تو ممتا چاہیے ہوتی ہے بیٹا اور یہ ممتا انھیں جہاں
ملے جس سے ملے یہ اسے ہی ماں کہتے ہیں۔۔ انھیں ماں کی پہچان نہیں کروانی پڑتی ہے ۔۔ انکے لئے ماں وہی ہوتی ہے”۔۔
انہوں نے اسکا چہرہ ہاتھوں میں تھام کر کہا۔۔
“نیچے آجاؤ۔۔ میں عنصر کو بھی بلا لوں سب مل کر چائے پی لینگے”۔۔
وہ اس سے کہتی کمرے سے نکلی تھیں مگر اس کے لئے سوچوں کے کی در کھول گئیں تھیں۔۔
انکے جانے کے اس نے فرشتے کی جانب دیکھا جو اسکی طرف دیکھتی ہنس رہی تھی۔۔
“سے ماما say mama “..
اسے اپنی گود میں بیٹھا کر عرش کی تصویر اسکی گود میں دے کر اس نے انگلی سے عرش کی جانب اشارہ کیا۔۔
“فرشتے ۔۔ یہ ہیں آپ کی ماما بیٹا۔۔ ماما کہو”۔۔
جواباً فرشتے نے چہرہ گھوما کر اسے دیکھا پھر آنکھیں پٹپٹائیں۔ ۔
_____
“ماما جلابیب نکاح کی ڈیٹ لینے آنا چاہ رہا ہے کال آئ تھی اسکی”۔۔
اشر نے چائے ک کپ تھامتے ہوئے فاطمہ بیگم سے کہا ۔۔
“جی ماما وہ ٹھیک ہی کہ رہا ہے اب ہمیں رابیل کی شادی کر دینی چاہئیے۔۔ جو ہونا تھا وہ تو ہو گیا۔۔ زندگی کسی کی نہیں رکتی جب سب کچھ معمول پر آ گیا ہے ۔ ۔ ہمیں رابیل کی زندگی کے بارے میں بھی تو سوچنا ہے نا ماما”۔۔
خلافِ توقع جواب عنصر کی جانب سے آیا تھا۔ وہ بہت کم ہی بولتا تھا۔۔
“ٹھیک ہے بلا لو جلابیب کو آنے والے اتوار کو”۔۔
انکے لہجے میں کچھ ایسا تھا جس پر اشر نے اپنی خوشی میں غور نہیں کیا مگر رابیل نے چونک کر انھیں دیکھا۔۔
“رابی فرشتے کو آج رات عنصر کو دے دینا”۔۔
چائے کا کپ واپس رکھتے ہوئے انہوں نے اطمینان سے کہا۔۔
“ماما فرشتے میرے بغیر نہیں سوتی ہے “۔۔
رابیل نے بےیقینی سے انکی جانب دیکھا جنکے اطمینان میں اب بھی کوئی فرق نہیں پڑھا تھا۔۔
“پر کیوں ماما اچانک آپ رابیل کو اس طرح فرشتے کو دینے کیوں کہ رہی ہے۔۔ یہ اسکے بغیر نہیں رہتی میرے پاس تو بلکل بھی نہیں “۔
عنصر نے الجھتے ہوئے کہا اشر نے بھی ناسمجھی سے انھیں دیکھا تھا۔۔
“بیٹا رابی کی تو چھ دنوں بعد رخصتی ہے تو اسکے بعد فرشتے تمہارے پاس کیسے رہیگی۔۔ پھر کیا کروگے تم۔۔ اور رابی بیٹا فرشتے تمہارے ساتھ تو نہیں جا سکتی نا میری جان جب تم چلی جاؤگی تو ظاہر ہے اسے عنصر کے پاس ہی رہنا ہے “۔۔
انہوں نے دونوں سے ایک ساتھ کہا تھا۔۔
“پر ماما میں ابھی تو نہیں جا رہی نا یہ میرے بغیر بہت روئے گی ماما “۔۔
اسنے تڑپ کر گود میں بیٹھی فرشتے کی جانب دیکھا جو اسکے ہاتھوں میں اپنا چہرہ بار بار چھپا رہی تھی۔۔
“میری جان تمہارے جانے کے بعد بھی تو اسے رونا ہی ہے “۔۔
انہوں نے اسکی طرف دیکھ بغیر کہا تھا۔۔
“ماما مم میں نہیں رہ سکتی اسکے بغیر پلیز آپ اس طرح کی باتیں نہیں کریں”۔۔
دو آنسوں پلکوں کی باڑھ توڑ کر اسکے گال بھگو گئے ۔۔
“ماما یہ آپ کس طرح کی باتیں کر رہی ہیں میری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے۔۔ ”
اسنے رابیل کو ساتھ لگایا۔۔
“مم ماما کو کہیں نا بھیا کک کیا کہ رہی ہیں ماما “۔۔
اس نے ہچکیوں کے درمیان کہا۔۔
“شش تم رو رہی کیوں ہو یار فرشتے کو لیکر کمرے میں جاؤ تم “۔۔
اسکے آنسوں صاف کرتے اس نے سنجیدگی سے کہا۔۔
اس نے نم آنکھوں سے اشر کی جانب دیکھا جس نے آنکھوں کے اشارے سے اسے جانے کہا۔۔
“میں حقیقت بیان کر رہی ہوں اشر جس سے تم سب نظریں چرا رہی ہو۔۔
انکی بات پر عنصر نے پر سوچ نظروں سے انھیں دیکھا جو وہ کہنا چاہ رہی تھیں وہ سمجھنا نہیں چاہ رہا تھا۔ ۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...