باب پنجم :حصہ دوم
تحریکِ اقبال کے ادبی ثمرات
اقبال کا نظریۂ سخن
فن برائے فن اور فن برائے زندگی کی بحثیں اب فرسودہ ہو چکی ہیں۔ ان سے قطعِ نظر اقبال کے بارے میں اتنی بات طے ہے کہ وہ زندگی کا شاعر ہے اور فن کو زندگی آمیز اور زندگی آموز سمجھتا ہے۔ اس طرح اقبال نے ایک اہم مگر کڑا منصب قبول کیا ہے اور اپنی بے پناہ تخلیقی صلاحیتوں کے بل بوتے پر اردو کے تمام شاعروں سے زیادہ کامیابی سے اس منصب سے عہدہ برآ ہوا ہے۔ وہ اس سے خود نکھر کر اور ابھرکر سامنے آیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے زندگی کو بھی اور زیادہ نکھار اور تازگی عطا کی ہے ؎
علم از سامانِ حفظِ زندگی است
علم از اسبابِ تقویمِ خودی است
علم و فن از پیش خیزانِ حیات
علم و فن از خانہ زادانِ حیات
(کلّیاتِ اقبا ل فارسی ٗ ص ۔37 )
اقبال فن کے ذریعے شخصیت کو درجۂ کمال تک پہنچانے کے لیے مسلسل جدوجہد کی طرف مائل کرنے کے لیے استعمال کرنے کے قائل ہیں کیونکہ ان کے نزدیک ’’ہماری شخصیت جملہ اشیائے کائنات میں حسن و قبح کا معیار ہے ٗ مذہب، اخلاق اور آرٹ سب کو اسی معیار پر پرکھنا چاہیے۔‘‘ (1)
اقبال کے نزدیک شخصیات اور افراد سے قوم بنتی ہے اور ’’کسی قوم کی روحانی صحت کا دارومدار اس کے شعراء اور آرٹسٹ کی الہامی صلاحیت پر ہوتا ہے لیکن یہ ایسی چیز نہیں جس پر کسی کو قابو حاصل ہو۔ یہ ایک عطیہ ہے ٗ اس عطیے سے فیضیاب ہونے والے کی شخصیت اور خود اس عطیے کی حیات بخش تاثیر انسانیت کے لیے اہمیت رکھتی ہے۔ کسی زوال پذیر آرٹسٹ کی تخلیقی تحریک ٗ اگر اس میں صلاحیت ہے کہ وہ اپنے نغمے یا تصویر سے لوگوں کے دل لبھا سکے ٗ قوم کے لیے چنگیز خان کے لشکروں سے زیادہ تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔ ‘‘(2) ایسے زوال پسند فن کاروں کے بارے میں اقبال نے ضربِ کلیم میں ہنرورانِ ہند، کے عنوان سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے ؎
عشق و مستی کا جنازہ ہے تخیّل ان کا
اِن کے اندیشۂ تاریک میں قوموں کے مزار
موت کی نقش گری ان کے صنم خانوں میں
زندگی سے ہنر ان برہمنوں کا بیزار
چشمِ آدم سے چھپاتے ہیں مقامات بلند
کرتے ہیں روح کو خوابیدہ ٗ بدن کو بیدار
ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس
آہ ! بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 240 )
زبور ِعجم میں اقبال نے ایک باب غلام اقوام کے فنون ِلطیفہ کے لیے وقف کیا ہے (3) اقبال کے خیال میں فنِ تعمیر آزاد اقوام کا حصہ ہے اور غلام اقوام موسیقی اور مصوری پر اپنا وقت اور تخلیقی صلاحیتیں صرف کرتی ہیں۔ ان اقوام کے فن کاروں کی موسیقی موت کا راگ ہے اور ان کی حیثیت ایک بیوہ کے نالہ و فغاں سے زیادہ نہیں۔ ان کی شاعری اپنی طرف توجہ مبذول کراتی ہے لیکن آزاد اقوام کی شاعری معنی آفریں اور تہ دار ہوتی ہے۔ غلام قوم کا فن کار پرانی وضع کی ہوئی ڈگر پر چلتا ہے۔ اپنی ذات اور قوتِ تخیل پر اعتماد کرکے اپنا راستہ نہیں تراشتا بلکہ محض قبولِ عام کو اپنی سند اور معیار سمجھتا ہے چاہے وہ معیار کتنا ہی پست کیوں نہ ہوں۔ اس کا فن محض واقفیت کا اظہار ہوتا ہے۔ وہ واقفیت کو تخیل کی ارضیت نہیں دے سکتا۔ آزاد قوم کافن کار اپنی اندرونی تپش ٗ سوز و گداز ٗ اعلیٰ ترین تصوریت ٗ ریاضیت اور حرکتِ حیات کو عشق میں گوندھ کر اپنی تخلیق کے محرّک بناتا ہے۔ اس کا جذبۂ تخلیق خونِ جگر سے مادی اور غیر مرئی اشیاء میں جان ڈال دیتا ہے اور وہ زمانے پر فتح پانے کے لیے سچا آرٹ تخلیق کرتا ہے ؎
رنگ ہو یا خشت و سنگ، چنگ ہو یا حرف و صوت
معجزۂ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود
قطرۂ خونِ جگر، سِل کو بناتا ہے دِل
خونِ جگر سے سدا سوز و سرور و سرود
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔421 )
نقش ہیں سب ناتمام، خون ِجگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 428 )
’’فنونِ لطیفہ ‘‘ ہی کے عنوان سے ضربِ کلیم کی ایک نظم میں اقبال کے فنونِ لطیفہ کے بارے میں نظریات بالکل واضح اور عیاں ہو جاتے ہیں:
اے اہلِ نظر!ذوقِ نظر خوب ہے لیکن جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا
مقصودِ ہنر، سوزِ حیاتِ ابدی ہے
یہ ایک نفس یا دو نفس مثلِ شرر کا
جس سے دلِ دریا متلاطم نہیں ہوتا
اے قطرۂ نیساں! وہ صدف کیا ٗ وہ گہر کیا
شاعر کی نوا ہو کہ مغنی کا نفس ہو
جس سے چمن افسردہ ہو وہ بادِ سحر کیا
بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں
جو ضربِ کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص ۔631 ۔630 )
اقبال کے نزدیک فن کو انسان کے اندر قوت اور ولولہ پیدا کرنا چاہیے۔ وہ اس آرٹ کا قائل نہیں جو اپنے سحر اور افسوں سے شیروں پر نیند طاری کر دے۔ اس کے خیال میں فن حسن ہے اور وہ آرزو پیدا کرتا ہے۔ حسن کا مقصد اقبال کے خیال میں یہی ہے کہ وہ دلوں میں کوئی تمنا اور کوئی خواہش پیدا کرے۔ جس سے عالمِ وجود روشن ہوتا ہے اور اسی پر نامعلوم ممکنات کی ترقی کا دارو مدار ہے۔ فن خود منزل نہیں بلکہ منزل پر پہنچنے کا ایک وسیلہ ہے۔ فن کو روح پرور اور حیات بخش ہونا چاہیے، نہ کہ افیونی اور خواب آور۔ حقیقت کو منعکس کرنا ایسے فن کا مطمحٔ نظر ہے۔ فن کا ایک پہلو اقبال کے نزدیک تعلیمی اور تبلیغی بھی ہے۔ اقبال نے درحقیقت فن کو اور ادب کو معاشرے کی آنکھ کا درجہ دیا ہے بلکہ ایک جگہ تو اقبال نے شاعر کو ’’دیدۂ بینائے قوم‘‘ کہا ہے۔(4)
اقبال فن کو نفس کا آئینہ کہتا ہے۔ قلبی احساسات کے بیان ہی سے ادب میں زندگی سانس لیتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ اس کا ایک رخ ایمائی بھی ہوتا ہے وہ اظہار میں کبھی کچھ کہے بغیر بھی چھوڑ دیتا ہے تاکہ سننے والے کا دل اس خلا کو اپنے طور پر پُر کر دے اور اس کی فکر اور جذبے کو مہمیز کرے (5)یہ ادب میں خالصتاً ایک جدید اضافہ ہے ۔
اقبال کہتا ہے کہ :
’’تمام انسانی سرگرمیوں کا انتہائی مقصد زندگی ہے۔ پرشوکت، پر قوت ٗ مالا مال، زندگی۔ تمام انسانی آرٹ کے پیشِ نظر یہی مقصد ہونا چاہیے اور ہر چیز کی قدر اس کی حیات بخش قابلیت کے مطابق مقرر کی جانی چاہیے۔ بلند ترین آرٹ وہ ہے جو ہماری سوئی ہوئی قوتِ ارادہ کو بیدار کرے اور جو زندگی کے امتحانات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کی ہم میں قوت پیدا کرے۔ ہر وہ چیز جو نیند لاتی ہے،جو ہماری آنکھیں بند کر دیتی ہے اور ہمیں آس پاس کی چیزیں دیکھنے نہیں دیتی، جن کو قابو میں لانے ہی پر زندگی کا انحصار ہے ٗ زوال اور موت کا پیغام ہے۔ آرٹ کی خاطر آرٹ کا واہمہ تنزل اور ادبار کی ایک عیارانہ ایجاد ہے جو زندگی اور قوت کی طرف سے بہکا کر ہمیں دوسری جانب لے جاتی ہے۔‘‘(6) یہی وجہ ہے کہ اقبال نے اپنے طور پر اپنے نظریۂ ادب اور فنونِ لطیفہ کے بارے میں اپنے خیالات کو عملی طور پر اپنی شاعری میں برتا اور دوسرے شعراء اور ادباء کے لیے ایک اعلیٰ مثال قائم کی۔ اس کی شاعری جاں بازی ٗ اولو العزمی، تحریک ٗ جلال ٗ جمال ٗ توازن اورشکوہ سے عبارت ہے۔ اس کا تصور ِفن دور ِحاضر کے تمام اربابِ ہنر کے لیے دائمی قدر کا حامل ہے اور انھیں بھی بطور شاعری ابدیت اور جاودانی عطا کرتا ہے۔
سرسید احمد خان اور ان کے رفقاء نے اردو میں سب سے پہلے باضابطہ طور پر مقصدی ادب لکھنے کی کوشش کی۔ علی گڑھ تحریک نے ہندوستانی مسلمانوں کی زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا۔ اس میں تعلیم اور ادب سب سے زیادہ اہم ہیں۔ علی گڑھ تحریک کے فوراً بعد ہمیں اقبال کی جاندار اور متحرک شخصیت نظر آتی ہے جس نے تن تنہا ہندوستان کے مسلمانوں کی زندگی اور مستقبل پر دور رس اور فیصلہ کن اثرات مرتب کیے۔ یہاں ہم تحریک اقبال کے ثمرات کا جائزہ لیتے ہوئے خود کو ادب کے دائرہ کار تک محدود رکھتے ہیں۔
کلاسیکی غزل سے انحراف
اردو شاعری کی سب سے جاندار اور زرخیز صنف، غزل ہے۔ غزل میں ہیئت کی پابندی بہت سخت ہے۔ دراصل غزل ہے ہی ہیئت کا نام۔ اس کے ساتھ ساتھ دو تین سو سال کے شعری سرمائے کو مدنظر رکھتے ہوئے غزل کی لغات بھی تقریباً متعین ہو چکی تھیں۔ الفاظ کے بارے میں طے کر دیا گیا تھا کہ کون سے لفظ غزل میں آ سکتے ہیں۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب یہ لفظیات اپنے حقیقی معنوں سے جدا ہو گئے اور ابتذال کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ مولانا حالی نے سب سے پہلے غزل اور اردو شاعری میں اصلا ح کا بیڑا اٹھایا۔ اگرچہ مولانا نے اردو شاعری کی نئی بوطیقا بڑی محنت سے مرتب کی لیکن وہ تخلیقی سطح پر قابل ِقدر نمونے پیش کرنے میں ناکام رہے۔ حالیؔ کے بعد اکبرؔ نے اردو شاعری میں نئی لفظیات کو داخل کیا۔ حسرتؔ نے جدید غزل کو نئے مضامین اور اسالیب سے روشناس کروانے کی کوشش کی لیکن اس سلسلے میں سب سے کامیاب اور ہمہ جہت کوشش جس نے آئندہ اردو شاعری پر گہرے نقوش چھوڑے، اقبال کی کوشش ہے۔ اقبال نے جب شاعری کا آغاز کیا تو ہندوستان میں داغ کا طوطی بول رہا تھا۔ داغ اپنی زبان دانی کے لیے پورے ہندوستان میں مشہور تھے۔ اقبال نے ابتدا میں چند غزلیں داغ کی تقلید میں لکھیں ٗ لیکن جلد ہی انھوں نے اپنا راستہ الگ کر لیا۔ اقبال نے اردو شاعری کو نئی زبان دی۔ وہ اپنی طرز کے موجِد اورخاتم بھی خود ہی تھے ۔انھوںنے کلاسیکی غزل سے دو سطح پر انحراف کیایعنی لفظیات اور مضامین میں، اور دونوں سطح پر اس کا اجتہاد بہت کامیاب رہا ۔اقبال نے کلاسیکی غزل کو غیر ضروری جکڑ بندیوں سے آزاد کرکے اسے ایک نئے راستے پر ڈالا۔ اقبال کی غزل کے چند اشعار ہی بتا دیتے ہیں کہ ان کا تعلق کس شاعر سے ہے ؎
اپنی جولاں گاہ زیرِ آسماں سمجھا تھا میں
آب و گِل کے کھیل کو اپنا جہاں سمجھا تھا میں
بے حجابی سے تری، ٹوٹا نگاہوں کا طلسم
اک ردائے نیلگوں کو آسماں سمجھا تھا میں
کارواں تھک کر فضا کے پیچ و خم میں رہ گیا
مہرو ماہ و مشتری کو ہم عناں سمجھا تھا میں
عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں
کہہ گئی رازِ محبت ، پردہ داری ہائے شوق
تھی فغاں وہ بھی جسے ضبطِ فغاں سمجھا تھا میں
تھی کسی درماندہ رہرو کی صدائے درد ناک
جس کو آوازِ رحیلِ کاروں سمجھا تھا میں
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔355 )
اس غزل کا مطالعہ کرتے ہوئے کوئی یہ نہیں کہ سکتا کہ یہ غز ل کسی اور کی ہے۔ یہ نمونۂ حرف اپنے سے ماقبل شاعروں کی غزل سے مختلف ہے بلکہ بعد میں بھی کوئی ایسی غزل کہتا نظر نہیں آتا۔ اقبال کی تقلید میں بہت سے لوگوں نے شاعری کرنے کی کوشش کی لیکن ان کا حشر ایک بڑے برگد کے نیچے اگنے والے ننھے منھے پودوں جیسا ہوا۔ ہاں اقبال کی اجتہادی روش نے بہت سے لوگوں میں حوصلہ پیدا کیا اور انھوں نے غزل کے کلاسیکی مزاج سے انحراف کرنے کی کئی کامیاب مثالیں چھوڑی ہیں۔
اسلوب کی تازگی
ابتدائی دور کی مختصر سی شاعری کو چھوڑ کر اقبال کی ساری شاعری اسلوب کی تازہ کاری کا شہکار ہے۔ اقبال جن خیالات کو منظوم کرنا چاہتا تھا وہ اردو شاعری میں نئی چیز تھی۔ اس لیے انھیں اپنے اسلوب کو بھی نئے سرے سے طے کرنا پڑا۔ اس کے ہاں الفاظ کا درو بست ٗ مصرعے کی بناوٹ ٗ تشبیہات و استعارات کا استعمال ٗ غرض اسلوب کے تمام پہلو اپنے اندر جدت رکھتے ہیں۔ اگر مندرجہ بالا غزل کو ہی سامنے رکھیے تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ غزل اپنی لفظیات ٗ تراکیب اور طرز ِبیان کے اعتبار سے کلاسیکی غزل سے بالکل مختلف ہے۔ اگر ہم کلاسیکی شاعری کے تسلسل میں اس غزل کا مطالعہ کریں تو یہ ہمیں بند فضا میں تازہ ہوا کا جھونکا معلوم ہوتی ہے۔
کم و بیش یہی معاملہ نظم کا ہے۔ اقبال نے نظم میں اپنا اسلوب خود تراشا ہے۔ اردو میں نظم نگاری کا آغاز نظیر اکبر آبادی سے ہوتا ہے۔ نظیر نے اردو نظم کے لیے جو اسلوب اختیار کیا وہ اس کے زمانے کے مروّجہ اسلوب سے بہت مختلف تھا۔ اس لیے اسے قبولِ عام حاصل کرنے کے لیے ایک مدت تک انتظار کرنا پڑا۔ بعد کے دور میں حالی نے اردو نظم میں نئے اسلوب کا اضافہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ شاعری کے اعلیٰ نمونے تخلیق کرنے میں ناکام رہے تاہم انھوںنے نظری پہلو پر خاصہ کام کیا۔ اقبال نے اگرچہ اپنی شاعرانہ معاملات میںنظریہ سازی تو بہت کم کی لیکن اس نے ایسے تخلیقی نمونے ضرور چھوڑے جن کی بنیاد پر آگے چل کر نئی شاعری کرنے والوں نے اپنا نظریہ وضع کیا۔ اقبال کے ان اجتہادی اقدامات نے اردو نظم کو ایک اعلیٰ پائے کی چیز بنا دیا۔
نئے شعری تلازمات اور علامات و استعارات
جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے کہ اقبال نے جن مضامین کو موضوع ِسخن بنایا، وہ نئے تھے۔ اس لیے اس نے اپنے لیے لفظیات ٗ تلازمات ٗ علامات اور استعارات بھی خود تراشے۔ اقبال کی شاعری کو ایک نظر دیکھنے سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ اقبال کے ہاں بے شمار ایسے لفظ مل جاتے ہیں جنہیں اقبال سے پیشتر غیر شاعرانہ تصور کیا جاتا تھا۔ اسی طرح انھوںنے نئے شعری تلازمے بھی تراشے۔ اس کے ساتھ ساتھ پرانے تلازمات کو نئے انداز میں استعمال کیا جس سے شعری تلازمات میں رنگارنگی پیدا ہوئی۔ اقبال نے اپنے شاعرانہ کمال سے بے شمار الفاظ کے معانی میں وسعت پیدا کر دی۔ اقبال نے اپنے شاعرانہ کمال سے بے شمار الفاظ کو علامات کا درجہ دے دیا۔ لالہ ٗ شاہین ٗ کبوتر اور اس طرح کے اور بہت سے لفظ اقبال کے استعمال کے بعد علامات میں ڈھل گئے۔ اقبال نے نئے شعری استعارے تراشے ٗ جن سے اردو کی شعری لغت میں اضافہ ہوا۔ آگے چل کر اقبال کی شعری لغت کے بہت سے الفاظ ٗ علامات ٗ استعارات کو دوسرے شاعروں نے بھی قبول کیا۔ اس میں خاص طور پر تاریخِ اسلام اور اسلامی تہذیب سے متعلقہ الفاظ ٗ علامات قابل ذکر ہیں ؎
یہ حوریانِ فرنگی ٗ دل و نظر کا حجاب
بہشتِ مغربیاں، جلوہ ہائے پابہ رکاب
دل و نظر کا سفینہ سنبھال کر لے جا
مہ و ستارہ ہیں بحرِ وجود میں گرداب
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 371 )
اس کے ساتھ ساتھ اگرمسجد قرطبہ کا مندرجہ ذیل بند دیکھیں تو بات بالکل واضح ہو جاتی ہے ؎
اے حرمِ قرطبہ ٗ عشق سے تیرا وجود
عشق سراپا دوام، جس میں نہیں رفت و بود
رنگ ہو یا خشت و سنگ، چنگ ہو یا حرف و صوت
معجزۂ فن کی ہے، خونِ جگر سے نمود
قطرہء خونِ جگر ٗ سِل کو بناتا ہے دل
خونِ جگر سے صدا ، سوز و سرور و سرود
تیری فضا دل فروز ، میری نوا سینہ سوز
تجھ سے دلوںکا حضور ٗ مجھ سے دلوں کی کشود
عرش معلی سے کم، سینۂ آدم نہیں
گرچہ کفِ خاک کی، حد ہے سپہرِ کبود
پیکرِ نوری کو ہے، سجدہ میسر تو کیا
اس کو میسر نہیں، سوز و گدازِ سجود
کافرِ ہندی ہوں میں ٗ دیکھ مرا ذوق و شوق
دل میں صلوٰۃ و درود ٗ لب پہ صلوٰۃ و درود
شوق مری لَے میں ہے ٗ شوق مری نے میں ہے
نغمۂ ’اللہ ہو‘ میرے رگ و پے میں ہے
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔422 ۔421 )
غزل اور نظم کے دونوں ٹکڑوں کو دیکھنے سے بالکل بجا طور پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ شعری تلازمات، استعارات اور علامات کے اعتبار سے یہ اردو شاعری لیے نیا ذائقہ تھے۔
مضامینِ نو
اقبال نے جس دور میں آنکھ کھولی۔ وہ سماجی تغیرات کا تیز ترین دور تھا، دنیا میں ہر چیز تبدیل ہو رہی تھی۔ ہندوستان میں بھی انگریزوں کی آمد کے بعد سماجی و تہذیبی تغیرات بڑی تیز ی سے رونما ہو رہے تھے۔ جنگِ آزادی میں شکست کھانے کے بعد مسلمانوںپر اضمحلال کی کیفیت طاری تھی۔ اقبال نے اپنی شاعری سے اس کیفیت کو توڑنے کی کوشش کی۔ اقبال نے جدید مغربی علوم کا مطالعہ کر رکھا تھا۔ خاص طور پر مغربی فلسفے کے مطالعے نے اقبال میں امکانات کے نئے دروا کیے۔ انھوں نے اپنی شاعری کو اپنی قوم کی خدمت کے لیے وقف کر دیا۔ اقبال کے ہاں مسلمانوں کے زوال کی شدت ٗ اس زوال سے نکلنے کی کوشش ٗ مسلم تہذیب اور اس سے وابستہ لوزامات کا بیان، مسلم اندلس کی بازیافت ٗ تصورِ خودی ٗ مردِ مومن کا تصور ،شخصیت کی تعمیر و ترقی کے لیے فرد کی اپنی کوششیں ٗ ایسے موضوعات ہیں جو ہمیں اقبال سے پہلے کی شاعری میں کہیں نظر نہیں آتے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے بعض فلسفیانہ تصورات کو بھی خوبی سے اپنے اشعار کا موضوع بنایا ہے۔ ان میں فلسفۂ زمان و مکاں ٗ حیات و ممات ٗ کائنات کے اسرار، مابعد الطبیعیاتی مسائل ٗ نظریۂ علم جیسے دقیق موضوعات شامل ہیں۔ان کا بیان نثر میں بھی خاصہ مشکل ہے لیکن اقبال نے ان موضوعات کو بڑی مہارت اور خوبی کے ساتھ اپنے اشعار میں برتا ہے۔
اگر ہم اقبال کے مضامین کا جائزہ لیں جو اس نے اپنی شاعری میں استعمال کیے ہیں تو ہم خوشگوار حیرت سے دو چار ہوتے ہیں کہ ان میں تنوع بہت زیادہ ہے۔ پھولوںاور جانورں سے لے کر اعلیٰ ترین فلسفیانہ موضوعات ٗ بچوں کے لیے لکھی جانے والی نظموں سے لے کر دنیا کے ذہین ترین افراد کے لیے کی گئی شاعری ٗ اتنی رنگا رنگی اور تنوع ہمیں اردو کے کسی دوسرے شاعر کے ہاں نظر نہیں آتا۔ اگر ہم صرف ان مضامین کی فہرست بنائیں جن پر صرف ’’بانگِ درا ‘‘میں نظمیں شامل ہیں تو کچھ یوں ہوگی۔
ہمالہ ٗ گلِ رنگین ٗ عہد طفلی ٗ مرزا غالب ٗ ابرِ کوہسار ٗ مکڑا اور مکھی ٗ پہاڑ اور گلہری ٗ بچے کی دعا ٗ ہمدردی ٗ شمع و پروانہ ٗ عقل و دل ٗ درد ٗ آفتاب ٗ آرزو ٗ درد ِعشق ٗ گل پژمردہ ٗ سید کی لوح تربت ٗ ماہ نو ٗ انسان ٗ بزم فطرت ٗ پیام صبح ٗ عشق اور موت ٗ زہد درندی ٗ شاعر ٗ موج دریاٗ نالۂ فراق ٗ چاند ٗ بلال ٗ سرگزشتِ آدم ٗ ترانہء ہندی ٗ جگنو ٗ نیا شوالہ ٗ داغ ٗ کنارِ راوی ٗ التجائے مسافر اور ہندوستانی بچوں کا قومی گیت ٗ۔ ہم نے اس فہرست کو صرف بانگ درا کے حصہ اول تک محدود رکھا ہے ورنہ یہ بہت طویل ہو جاتی۔ ان میں بہت سے مضامین ایسے ہیں جو اردو شاعری میں پہلی بار آئے ورنہ اس سے پہلے انھیں شاعری کے لیے شجر ممنوعہ قرار دیا جاتا رہا۔ اقبال کی اجتہادی روش کے بعد بہت سے دوسرے موضوعات کو شاعری میں شامل کرنے میں آسانی رہی۔
غزلِ مسلسل
کلاسیکی شاعری میں غزل کی جو ہیئت متعین تھی ا س میں غزل کا ہر شعر اپنے طور پر خود مختار اکائی ہوتا تھا۔ شعر کے دو مصرعے مل کر مکمل مفہوم کو ادا کرتے تھے۔ شاعر کی خوبی اس سے متعین ہوتی تھی کہ اس نے ایک ہی غزل کے مختلف اشعار میں کتنے موضوعات کو بیان کیا ہے۔ بعض اوقات دو یا تین اشعار میں ایک ہی مفہوم آ جاتا تھااور ان سے پہلے اس بات کی نشاندہی کر دی جاتی تھی کہ یہ قطعہ بند اشعار ہیں۔ اردو میں بہت کم افراد نے یہ کوشش کی ہوگی کہ غزلِ مسلسل لکھی جائے۔ اس سلسلے میں انفرادی مثالیں تو شاید کچھ لوگوں کے ہاں مل جائیں لیکن اس سلسلے میں اقبال کو اولیت حاصل ہے کہ انھوں نے شعوری طور پر اور متواتر غزلِ مسلسل کہی ٗ جس کے سبب اسے قدامت پرستوں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا اور بعض لوگوں نے تو اقبال کی غزل کو غزل ہی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ لیکن اس کے باوجود وقت نے اقبال کے حق میں فیصلہ دیا اور غزلِ مسلسل لکھنے کی روش اردو میں چل نکلی اور آج تک اقبال کے بعد تمام اہم شاعروں نے مسلسل غزلیں لکھیں ہیں بلکہ بعض شاعروں نے ٗ جن میں مجید امجد کا نام سب سے نمایاں ہے ٗ اکثر و بیشتر اپنی غزل میں فکری تسلسل کو برقرار رکھا ہے۔
اقبال نے اردو میں غزل مسلسل کی ابتداء اس لیے کی تاکہ غزل میں بھی طویل اور پھیلے ہوئے موضوعات کو بیان کیا جاسکے۔ اس کے پسِ پردہ شاید بعض جدت پسند نقادوں کی اس تنقید کا جواب بھی شامل تھا کہ غزل میں چونکہ فکری تسلسل نہیں ہوتا اس لیے یہ ایک مربوط صنف نہیں ہے۔ اس کے باوجود کہ آج بھی غزل کا غالب رجحان یہی ہے کہ اس میں مختلف اشعار میں مختلف مضامین ادا کیے جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود غزلِ مسلسل بھی کافی تعداد میں کہی جا رہی ہے۔ اب ہم اقبال کے ہاں سے دو غزلیں نمونے کے طور پر درج کرتے ہیں جو کہ غزلِ مسلسل کی اچھی مثالیں ہیں ؎
پھر بادِ بہار آئی ٗ اقبال غزل خواں ہو
غنچہ ہے اگر گل ہو ٗ گل ہے تو گلستاں ہو
تو خاک کی مُٹھّی ہے ٗ اجزاء کی حرارت سے
برہم ہو ٗ پریشاں ہو ٗ وسعت میں بیاباںہو
تو جنسِ محبت ہے ، قیمت ہے گراں تیری
کم مایہ ہیں سوداگر ٗ اس دیس میں ارزاں ہو
کیوں ساز کے پردے میں مستور ہو لَے تیری
تو نغمۂ رنگیں ہے ٗ ہر گوش پہ عریاں ہو
اے رہروِ فرزانہ ٗ رستے میں اگر تیرے
گلشن ہے تو شبنم ہو ٗ صحرا ہے تو طوفاں ہو
ساماں کی محبت میں مضمر ہے تن آسانی
مقصد ہے اگر منزل ، غارت گرِ ساماں ہو
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔312 )
دوسری غزل ؎
نہ میں اعجمی ٗ نہ ہندی ٗ نہ عراقی و حجازی
کہ خودی سے میں نے سکیھی دو جہاں سے بے نیازی
تو مری نظر میں کافر ٗ میں تری نظر میں کافر
ترا دیں نفس شماری ٗ مرا دیں نفس گدازی
تو بدل گیا تو بہتر کہ بدل گئی شریعت
کہ موافقِ تدرواں ، نہیں دینِ شاہبازی
ترے دشت و در میں مجھ کو وہ جنوں نظر نہ آیا
کہ سکھا سکے خرد کو ، رہ و رسمِ کار سازی
نہ جدا رہے نوا گر، تب و تابِ زندگی سے
کہ ہلاکیء امم ہے ، یہ طریقِ نَے نوازی
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 587 )
غزل مسلسل میں اقبال نے بعض جگہ پر تبدیلی بھی کی ہے کہ غزل کو ردیف کی پابندی سے آزاد کرکے صرف قافیے کے زور سے شعر بنانے کی کوشش کی ہے۔ غیر مردّف غزل لکھنے میں شاعر کی مشکلات میں اضافہ ہو جاتا ہے لیکن اقبال جیسے عظیم شاعر نے ایسی مشکلات پر قابو پا کر بہترین غیر مردّف غزلیں لکھی ہیں۔
نظم کی معنوی وسعت
مضامینِ نو کے حوالے سے ہم بتاتے ہیں کہ اقبال نے اردو شاعری میں بے شمار نئے موضوعات کا اضافہ کیا ہے جب کوئی شاعر شاعری میں نئے مضامین شامل کرتا ہے تو دوسرے لفظوں میں شاعری کو معنوی طور پر وسعت بخشتا ہے۔
اقبال نے صرف ہیئت کی سطح پر نظم میں وسعت پیدا نہیں کی بلکہ معنوی اعتبار سے بھی اسے وسعت دی۔ اس نے نظم کے ڈھانچے کو اپنے تجربات کی مدد سے لچکدار بنایا تاکہ اس میں زیادہ سے زیادہ موضوعات کو سمویا جا سکے۔ پختہ ہیئتیں بظاہر بہت مضبوط نظر آتی ہیں لیکن یہی مضبوطی ان کے فنا کی بنیاد بن جاتی ہے۔ ادب میں مختلف اصناف میں ترمیم و تغیر کا عمل وقت کے ساتھ ساتھ جاری رہتا ہے۔ جن اصناف میں وقت کے تقاضوں کے ساتھ چلنے کی سکت موجود نہیںہوتی وہ رفتہ رفتہ متروک ہو کر مردہ ہو جاتی ہیں اور ان کی جگہ نئی ہیئتیں لے لیتی ہیں۔ نظم اس اعتبار سے خوش قسمت رہی ہے کہ اس میں ہیئت کے بے شمار نمونے موجود ہیں اور شاعر اپنے موضوع کی مناسبت سے اپنے لیے کسی نہ کسی ہیئت کا انتخاب آسانی سے کر سکتا ہے۔ اقبال نے معنوی سطح پر بھی اپنے دور میں موجود پابندیوں کو توڑتے ہوئے بے شمار متنوع موضوعات کو اپنی نظم میں جگہ دی۔ اقبال کی نظمیں پڑھتے ہوئے قاری کو گمان گزرتا ہے کہ نظم ایک ایسی ہیئت ہے جس میں دنیا جہاں کے موضوعات سما سکتے ہیں یوں اقبال نے معنوی سطح پر نظم کو وسعت دے کر اپنے سے بعد آنے والے شاعروں کے لیے راستے کو آسان بنا دیا جو اقبال کے اجتہاد سے ہمت پکڑتے ہیں۔ ان کے بعد آنے والے افرا دمثلاً فیض ٗ میرا جی ٗ راشد ٗ مجید امجد ٗ اختر الایمان ٗ آفتاب اقبال شمیم ٗ مختار صدیقی اور کئی دوسرے معروف شاعروں نے نظم میں معنوی وسعت پیدا کرنے کے لیے سنجیدہ کوششیں کیں۔
زورِ بیان
اقبال اپنی شاعری کے ذریعے اپنی قوم کے لوگوں کو عمل کا پیغام دینا چاہتے تھے۔ اقبال کے سامنے یہ مقصد تھا کہ عالمِ اسلام کو زوال سے نکال کر عروج تک کیسے پہنچایا جائے۔ خاص طور پر وہ ہندوستان کے مسلمانوں کو سیاسی غلامی ٗ معاشی بدحالی اور تعلیمی پسماندگی سے باہر نکالنا چاہتے تھے۔ اس مقصد کے لیے ظاہر ہے کہ ایک ایسی زبان کی ضرورت تھی جس میں قوت اور زور ہو۔ بات اس طرح کہی جائے کہ وہ لوگوں میں جوش و جذبہ پیدا کرے۔ دوسروں میں جو ش و جذبہ پیدا کرنے کے لیے یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ بات کرنے والا خود بھی جوش و خروش کا مظاہرہ کرے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ اقبال کی شاعری ایک پر جوش شاعر کی شاعری ہے۔ اقبال کی شاعری میں زورِ بیان کے پیدا ہونے کی ایک ضمنی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس نے اپنی بہت سی مشہور و معروف نظمیں انجمن حمایتِ اسلام اور دوسری فلاحی تنظیموں کے جلسوں میں پڑھیں جہاں حاضرین کی تعداد ہزاروں تک بھی ہوتی تھی۔ ا ن جلسوں کا ایک مقصد ان تنظیموں کے لیے فنڈ اکٹھا کرنا بھی ہوتا تھا۔ اس لیے لوگوں کو ابھارنے کے لیے پر جوش الفا ظ کا استعمال کرنا پڑتا تھا۔
اقبال کا فلسفہ چونکہ متحرک اور عمل سے عبارت تھااور وہ اپنی قوم کو دنیا کی متحرک اور با عمل قوم دیکھنا چاہتے تھے اس لیے انھوں نے اپنے زورِ بیان سے شاعری میں ایسی روح پھونکی کہ پڑھنے والے بھی اپنے اندر ایک عجیب جوش اور ولولہ پاتے ہیں ٗ لیکن اس کے باوجود اقبال کو پڑھتے ہوئے ہمیں کسی جگہ اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ زور ِبیان سے فنی تقاضے مجروح ہوئے۔ اس کی وجہ کلام اقبال میں فکرو فن کا توازن ہے۔ چونکہ اقبال نے اپنے خیالات کا اظہار مناسب ترین الفاظ میں کیا ہے اس لیے ہمیں کسی جگہ بھی فن سے غفلت برتنے کا احساس نہیں ہوتا۔ مقصدی یا اصلاحی شاعری کرنے والے عموماً دو طرح کی خامیوں کا شکار ہوتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ بعض اوقات ان کا زورِ بیان تخلیقی قوت سے محروم ہو کر نعرہ بازی میں تبدیل ہو جاتا ہے ایسے شاعروں کو پڑھتے ہوئے ہمیں احساس ہوتا ہے کہ یہ ایسے بادل ہیں جن میں گرج کے علاوہ کوئی دوسری صلاحیت موجود نہیں ٗ دوسری خامی یہ پیدا ہوتی ہے کہ بات تو بلند و بالا کرنا چاہتے ہیں لیکن الفاظ ایسے منتخب کرتے ہیں جو ان کے افکار کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ اس طرح کی خامیوں کی نشاندہی اردو کے بہت سے شاعروں کے ہاں کی جا سکتی ہے ٗ لیکن اس کا یہ محل نہیں۔ یہاں تو ہم کلامِ اقبال سے چند مثالیں پیش کرتے ہیں جہاں زورِ بیان بھر پور تخلیقی قوت کے ساتھ آیا ہے اور یاد رہے کہ کلام اقبال میں ایسی چند مثالیں ہی نہیں بلکہ اقبال کا سارا کلام ہی اسی نوعیت اور معیار کا ہے ؎
ہم سے پہلے تھا ٗ عجب تیرے جہاں کا منظر
کہیں مسجود تھے پتھر، کہیں معبود شجر
خوگرِ پیکرِ محسوس تھی انساں کی نظر
مانتا پھر کوئی اَن دیکھے خدا کو کیوں کر
تجھ کو معلوم ہے لیتا تھا کوئی نام ترا
قوتِ بازوئے مسلم نے کیا کام ترا
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔191 )
نظم زمانہ کے آخری دو شعر ؎
جہانِ نو ہو رہا ہے پیدا، وہ عالمِ پِیر مر رہا ہے
جسے فرنگی مقامروں نے بنا دیا ہے قمار خانہ
ہوا ہے گو تندو تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے
وہ مرد ِ درویش جس کو حق نے دیے ہیں اندا، خسروانہ
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔459 )
اوزان اور بحور کا تنوع
اقبال کی شاعری میں اوزان اور بحور کا تنوع بھی بہت دلچسپ ہے لیکن اس پر بحث بہت تکنیکی ہو جائے گی ا س لیے یہاں سرسری طورپر اس کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کیا جا رہا ہے۔ اقبال نے شعر کہنے کے لیے جتنی بحریں اپنے اشعار میں برتی ہیں اس اعتبار سے بھی بہت کم شاعر اردو میں ایسے ہوں گے جو اقبال کا مقابلہ کر سکیں۔ مختصر بحروں سے لے کر طویل ترین بحروں تک، مثنوی کی بحرسے لے کر رباعی کی بحروں تک غرض اقبال نے ہر طرح کی بحر میں طبع آزمائی کی ہے ایک اور بات جس کی طرف اشارہ ضروری ہے ،وہ یہ ہے کہ اقبال نے بعض بحور میں کمی بیشی کرکے بھی استعمال کیا ہے جس سے اوزان کا تنوع اور زیادہ ہو گیا ہے۔ اس سے اقبال کی فنِ عروض پر گرفت کا بھی اندازہ ہوتا ہے ۔اس نے ماہر فنکار کی طرح اپنے اوزار اپنی مرضی سے استعمال کیے ہیں اور ان سے خوبصورت فن پارے تخلیق کیے ہیں۔
اوزان و بحور کے تنوع کی چند مثالیں دیکھیے ؎
صفتِ برق چمکتا ہے مرا فکرِ بلند
کہ بھٹکتے نہ پھریں ظلمتِ شب میں راہی
(بحر رمل زحافی آٹھ رکنی)
ہر اک مقام سے آگے گزر گیا مہِ نو
کمال کس کو میسر ہوا ہے بے تگ و دو
(بحرِ مجتث زحافی آٹھ رکنی)
مری مشّاطگی کو کیا ضرورت حسنِ معنی کو
کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی
(بحر ہزج مثمن مقبوض سالم)
آخرِ شب دید کے قابل تھی بسمل کی تڑپ
صبح دم کوئی اگر بالائے بام آیا تو کیا
(بحرِ رمل مثمن محذوف)
میں جو سر بسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں
(بحرِ کامل مثمن)
عشق کی تقویم میں عصرِ رواں کے سوا
اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام
(بحر منسرح زمانی آٹھ رکنی)
ٹھہرتا نہیں کاروانِ وجود
کہ ہر لحظہ تازہ ہے شانِ وجود
(بحر متقارب مثمن مقصور الآخر)
یہ محض چند مثالیں ہیں وگرنہ اقبال نے بہت سے زحافات اپنی تمام تر لطافتوں ٗ باریکیوں اور نزاکتوں کے ساتھ استعمال کیے ہیں جن کا احاطہ کرنے کے لیے دفتر کے دفتر درکار ہوں گے۔
اقبال کی تحریک کی بہت بڑی دین،اہم فکری مسائل پر غور و خوض کی روایت کو پھر سے جِلا دینا ہے۔ اقبال نے خود بھی فلسفے کے نازک اور دقیق معاملات پر غورو خوض کیا اور گہرے مطالعے ٗ مشاہدے اور تجربے کے بعد نئے نتائج اخذ کیے اور آنے والوں کو نئی راہیں سجھائیں اس لیے ا س ضمن میں بعض اہم مسائل و افکار پر ان کے فکر انگیز خیالات کا اختصار کے ساتھ خاص طور پر ان کی شاعری کے حوالے سے ذکر بر محل ہوگا کیونکہ اقبال نے اعجازِ فن کو سیاسی، سماجی اور دینی تحریکوں اور فلسفوں کو شاعری میں پوری فنی لطافتوں کے ساتھ برتا اور مقبول بنایا ہے۔
اقبال کی تحریک کے فکری ثمرات
اقبال کا نظریہ ء و طنیت و قومیت
اقبال کے نظریۂ وطنیت اور قومیت کے بارے میں ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار کا کہنا ہے کہ ’’حب الوطنی، وطن دوستی اور تصور وطنیت کے لحاظ سے اقبال کی فکر و نظر میں کچھ ارتقائی صورت یا تبدیلی ملتی ہے جسے بعض لوگوں نے فکری تضاد کا رنگ دینے کی بھی کوشش کی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو غالباً یہ ہے کہ وطن کے حوالے سے متذکرہ تینوں اصطلاحات کو مترادف قرار دے لیا جاتا ہے جس کا قدرتی نتیجہ تضاد کی صورت میں نکلتا ہے۔ دوسرے اقبال کے سلسلے میں فکری تبدیلی کے محرکات اور اس کی نوعیت کو پوری طرح سمجھنے کی کوشش نہیں کی جاتی اس لیے وطن (ایک قدرتی حقیقت) اور وطنیت (ایک سیاسی تصور) کی یہ بحث مطالعۂ اقبال کے ضمن میں اکثر کج بحثی کا روپ اختیار کر لیتی ہے۔ ‘‘(7)
اقبال ابتداء میں وطن کی جغرافیائی حیثیت اور مغرب کے تصورِ وطنیت کے قائل دکھائی دیتے ہیں۔ شروع شروع میں تو ان کی وطن سے محبت وطن پرستی کی حدوں تک جا پہنچتی تھی۔ ان کی پہلی اہم نظم ہمالہ میں شیخ عبدالقادر کے مطابق وطن پرستی کی چاشنی موجود ہے (8) اپنی نظم تصویرِ درد میں وہ ہندوستان کی قسمت پر آنسو بہاتے ہیں۔ ترانہ ء ہندی میں وہ انتہائی دلنشین طریقے سے وطن کے ساتھ گہرے لگائو کا اظہار کرتے ہیں۔ اسی طرح ہندوستانی بچوں کا قومی گیت میں اقبال کی وطن کے ساتھ محبت اپنے عروج پر نظر آتی ہے۔ اس نظم کے آخری بند میں اقبال کا والہانہ پن دیکھنے کے قابل ہے ؎
بندے کلیم جس کے، پربت جہاں کے سینا
نوحِ نبی کا آکر ٹھہرا جہاں سفینا
رفعت ہے جس زمیں کی بامِ فلک کا زینا
جنت کی زندگی ہے جس کی فضا میں جینا
میرا وطن وہی ہے ٗ میرا وطن وہی ہے
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 114 )
نیا شوالہ میں تو یہ کِہہ کر انہوں نے وطن پرستی کی انتہا کر دی کہ ع خاکِ وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے۔ (9) کفایت علی نے اپنے مضمون مطبوعہ’’ ادبی دنیا‘‘ لاہور شمارہ ،اکتوبر1934 ء میں بیان کیا ہے کہ ’’ان تمام اشعارمیں جو1905 ء سے پہلے لکھے گئے۔ اقبال کے سیاسی خیالات کا مرکز وطن ہے اور وہ وطنیت کے نہ صرف خود قائل ہیں بلکہ اوروں کو بھی اس کی تعلیم دیتے ہیں لیکن بعد میں ہندوستانیوں کی تاریک ذہنیت ٗ تباہ کن فرقہ وارانہ تعصبات ٗ فسادات اور اتحادِ قومی و احساسِ یگانگت کے فقدان کی وجہ سے ان سے مایوس ہو جاتے ہیں۔ ‘‘(10)
غالباً اسی وجہ سے اور بعد ازاں یورپ کے قیام کے دوران سامراجی ممالک کے تہذیب و تمدن کے مشاہدے کے باعث ان کے وطن پرستانہ جذبات رفتہ رفتہ دھیمے اور ملی جذبات گہرے ہوتے گئے۔ تاہم وطن کی جغرافیائی حیثیت سے اقبال نے کبھی انکار نہیں کیا۔ اتنا ضرور ہوا کہ ان کی وطن پرستی وطن دوستی میں ڈھل گئی۔ دراصل ان کی مخالفت صرف وطنیت کے سیای نعرے سے تھی۔ ان کی پختگی کے دور کی تصانیف جاوید نامہ پس چہ باید کرد اے اقوام شرق! اور مثنوی مسافر میں بھی وطن دوستی کے لطیف احساسات جا بجا جھلکتے ہیں۔’’ جاوید نامہ‘‘ کا وہ حصہ تو خاص طور پر قابل ِذکر ہے جہاں انھوںنے قلزمِ خونیں کے تحت روحِ ہندوستان اور اس کے نالہ و فریاد کی تصویر کشی کی ہے (11) بعد ازاں جب اقبال مغرب کے سیاسی تصور وطنی قومیت کے مضمرات اور ملت اسلامیہ کے لیے اس کے ہولناک نتائج سے پوری طرح آگاہ ہوئے تو انھوں نے زیادہ واضح طور پر اسے مذموم قرار دیا۔ کفایت علی کے خیال میں ’’جن معانی میں اقبال نے وطنیت کو مذموم قرار دیا ہے ٗ وہ اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب کسی خاص ملک کے رہنے والے اپنے ملک کو باقی ممالک کے مقابلے میں غاصبانہ اور جابرانہ طور پر ترجیح دیتے ہوئے محبت کرنے لگیں۔ وطنیت کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اپنے وطن کی خاطر جابر بن جائیں اور باقی ممالک کے باشندوں کو بہ نظرِ حقارت دیکھتے ہوئے ان پر حکومت کرنے کے خواہاں ہوں۔‘‘ (12)
اقبال نے اپنی نظم وطنیت میں وطنیت کا تجزیہ ایک سیاسی تصور کی حیثیت ہی سے کیا ہے۔ وہ ’’رموزِ بیخودی‘‘ میں اسلام کے رکنِ اساسی توحید کو ملتِ اسلامیہ کے توسط سے عالمی انسانی برادری کی تشکیل کا بنیادی نکتہ قرار دیتے ہیں اور پھر ’’در معنی ایں کہ وطن اساسِ ملّت نیست‘‘ کے ذیلی عنوان کے تحت بھی اقبال مغرب کے سیاسی نظریۂ وطنیت پر بحث کرتے ہیں جس میں اسے مذہب اور سیاست کی علیحدگی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں اور میکیاولی کے باطلانہ افکار کا نتیجہ بتاتے ہیں۔(13)
ان تمام حوالوں سے کہیں بھی یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ اقبال وطن اور حب الوطنی کے فطری تصور اور اس سے پھوٹنے والے فطری جذبات و احساسات کی نفی کر رہے ہیں۔ وطن سے انسان کی شناخت ہوتی ہے۔ شاعری کے علاوہ نثری تحریروں میں سے ماڈرن ریویو کلکتہ میں مولانا حسین احمد مدنی کے جواب میں تحریر کردہ مضمون میں اقبال مولانا کے اس بیان پر کہ اقوام کی تشکیل اوطان سے ہوتی ہے، زیادہ واضح طور پر اپنے نظریہء وطنیت کی تشریح کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’میں نظریہء وطنیت کی تردید اس زمانے سے کر رہا ہوں جب دنیائے اسلام اور ہندوستان میں اس نظریہ کا کچھ ایسا چرچا بھی نہ تھا۔ مجھ کو یورپی مصنفوں کی تحریروں سے ابتداء ہی سے یہ بات اچھی طرح معلوم ہو گئی تھی کہ یورپ کے ملوکانہ اغراض اس امر کے متقاضی ہیں کہ اسلام کی وحدتِ دینی کو پارہ پارہ کرنے کے لیے اس سے بہتر کوئی حربہ نہیں کہ اسلامی ممالک میںفرنگی نظریہ ٔوطنیت کی اشاعت کی جائے۔۔۔۔ ہم سب ہندی ہیں اور ہندی کہلاتے ہیں کیونکہ ہم سب کرہ ٔارضی کے اس حصہ میں بود و باش رکھتے ہیں جو ہند کے نام سے منسوب ہے، علیٰ ہذالقیاس ٗ چینی ٗ عربی ٗ جاپانی ٗ ایرانی وغیرہ وطن کا لفظ جو اس قول میں مستعمل ہوا ہے محض ایک جغرافیائی اصطلاح ہے اوراس حیثیت سے اسلام سے متصادم نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔ ان معنوں میں ہر انسان فطری طور پر اپنے جنم بھومی سے محبت رکھتا ہے اور بقدر اپنی بساط کے اس کے لیے قربانی کرنے کو تیار رہتاہے ۔۔۔۔۔۔ مگر زمانۂ حال کے سیاسی لٹریچر میں وطن کا مفہوم محض جغرافیائی نہیں بلکہ وطن ایک اصول ہے ٗ ہیئت اجتماعیہ انسانیہ کا اور اس اعتبار سے ایک سیاسی تصور ہے ۔چونکہ اسلام میں ہئیت اجتمائیہ انسانیہ کا ایک قانون ہے اس لیے جب لفظ وطن کو ایک سیاسی تصور کے طور پر استعمال کیا جائے تو وہ اسلام سے متصادم ہوتا ہے ۔‘‘(14)
اقبال کا خیال ہے کہ جدید دور میں سامراجی ملوکیت وطنیت کے سیاسی تصور ہی کا کرشمہ ہے۔ ڈاکٹر یوسف حسین خان لکھتے ہیں کہ ’’اقبال ملوکیت یا امپیریلزم کو جارحانہ وطنیت ہی کا ایک شاخسانہ تصور کرتا ہے اور اس کو اسلام کی اخلاقی تعلیم کی ضد خیال کرتا ہے۔ قومیت کے علمبرداروں کا نظریہ میرا وطن غلط ہو تو بھی صحیح ہے۔ یہ جھوٹی عصبیت حق و باطل میں تمیز نہیں ہونے دیتی ۔۔۔۔۔ جدید ملوکیت اور سرمایہ داری کا چولی دامن کا ساتھ ہے جس طرح سرمایہ داری قومی دولت میں اضافے کے لیے نئی نئی منڈیوں کی تلاش میں رہتی ہے اسی طرح ملوکیت جو وطنیت ہی کی ایک شکل ہے ،جو نئے نئے علاقوں کو فتح کرکے ان پر اپنا تسلط جمانا چاہتی ہے ۔۔۔۔۔ اس کو اپنا اقتدار وسیع کرنے سے کام ہے چاہے خدا کی بے بس مخلوق پر کچھ بھی گزرے ۔یہی وجہ ہے کہ اقبال سرمایہ داری کو بھی ملوکیت اور وطنیت کے ساتھ منسلک کرکے قابل نفریں گردانتا ہے‘‘۔(15)
جہاں تک اقبال کی وطن دوستی اور جذبۂ حب الوطنی کا تعلق ہے۔ وہ شروع سے آخر تک اسی کا راگ الاپتا رہا۔ وہ اپنی شاعری اور نثری مضامین میں مسلسل برصغیر کی سیاسی غلامی پر مضطرب دکھائی دیتا رہا۔ اس نے ہمیشہ وطن کی آزادی کا خواب دیکھا اور دکھایا ٗ لیکن اس نے وطن سے محبت کو سیاسی قومیت کی صورت دینے سے اجتناب کیا جس کے نتیجے میں بنی نوعِ انسان خطّوں اور علاقوں میں تقسیم ہو کر اپنی برتری اور تسلط قائم کرنے کے لیے ہر وقت ایک دوسرے کے ساتھ برسرِ پیکار ہیں۔ ان کے نزدیک وطنیت عالمگیر انسانی اخوت کے راستے کا پتھر ہے جو صرف اسلامی تعلیمات سے ہی قائم ہو سکتی ہے جو عالمِ انسانی کو رنگ و نسل اور قبیلے کی قیود سے آزاد کرکے ایک ہمہ گیر عقیدے کے ذریعے ایک لڑی میں پرو دیتی ہیں۔
جدید مغربی سیاسی افکار میں وطنیت اور قومیت قریب قریب ہم معنی ہیں۔ اقبال نے وطنیت کے سیاسی تصور کو جس بنا پر رد کیا تھا وہی وجہ مغربی نظریۂ قومیت سے ان کی بدظنی کی بنیاد بنی۔ ان کا خیال تھا کہ قومیت ایک سیاسی نظام کی حیثیت سے قطعاً غیر انسانی اقدار پر مشتمل ہے۔ اس سے بلاوجہ مناقشات اور تنازعات کی بنا پڑتی ہے۔ اپنی نظم’’ وطنیت‘‘ میں انہوں نے اسی تصور کا تجزیہ کیا ہے ؎
اقوامِ جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے
تسخیر ہے مقصودِ تجارت تو اسی سے
خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے
کمزور کاگھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے
اقوام میں مخلوقِ خدا بٹتی ہے اس سے
قومیتِ اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 188 )
رموز ِبیخودی میں در معنی این کہ اساسِ ملت نیست ٗ کے عنوان سے بھی سیاست اور مذہب کی تفریق کو اقبال مغربی قومیت کے تصور اور میکیاولی کی باطل سیاسی فکر کا نتیجہ قرار دیتے ہیں (16) ۔’’ جاوید نامہ‘‘ میں بھی وہ فلک عطارد پر سید جمال الدین افغانی کی زبان سے مذہب اور وطن کے تفرقے پر اظہار خیال کرتے ہیں (17) ۔ 1910 ء کے آخر میں ’’ملتِ بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ میں اقبال اگرچہ اسلامیانِ ہند کی تعلیمی حالت اور اس کے مضر اثرات اور زبونیٔ قوم کی عام حالت کی اصلاح پر اظہار ِتشویش کرتے ہیں تاہم نظری بحث میں وہ اسلام کے اجتماعی نظام کا بھی جدید عمرانی تصورات کی روشنی میں جائزہ لیتے ہیں اور ملت اسلامیہ کی اجتماعی حیثیت اور اقوامِ عالم میں انفرادیت کو تین امور کے حوالے سے پیش کرتے ہیں۔
1۔ ملت اسلامیہ کی عام ہیئت ترکیبی ۔2 ۔ مسلم تہذیب و ثقافت کی یک رنگی یا وحدت ۔3 ۔ سیرت و کردار کا ایسا نمونہ جو مسلمانوں کی قومی ہستی کے تسلسل کے لیے لازم ہو۔ (18)
اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اقبال کا تصورِ قومیت عقیدے پر مبنی ہے اور ظاہر ہے کہ عقیدہ بغیر وطن کے فروغ نہیں پا سکتا۔ یہاں پر یہ وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ اقبال قوم اور ملّت کو ہم معنی سمجھتے ہیں اور مسلمان قوم سے وہ ہمیشہ ملّت مراد لیتے ہیں اور ملّت کے لغوی معنی دین یا مذہب کے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’میں نے لفظ ملّت قوم کے معنوں میں استعمال کیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ عربی میں یہ لفظ اور بالخصوص قرآن مجید میں شرع اور دین کے معنوں میں استعمال ہوا ہے لیکن حال کی عربی ٗ فارسی اور ترکی زبان میں بکثرت سندات موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ملّت قوم کے معنوں میں بھی مستعمل ہے (19) ۔ اقبال کا تصوّرِ ملت اسلامی تعلیمات کے مطابق اخوت اور بھائی چارے کے وسیع نظام کے قیام سے ہیئت اجتماعیہ اسلامیہ قائم کرنے سے عبارت ہے۔ عقیدے کی بنیاد پر اقبال کا تصورِ قومیت دو دائروں میں گھومتا ہے۔ ’’ایک مقامی دائرہ ہے جس میں مقامی جغرافیہ اہمیت رکھتا ہے۔ اس مرکز کو عقیدوں کے اولین کیمپ یا حصار کا درجہ حاصل ہے۔ اس کے بعد دوسرا دائرہ وسیع تر وطن کا ہے یعنی وہ سب اقالیم جن میں مشترک عقیدے کی حکمرانی ہو ٗ ان مشترک عقیدوں والے دوسرے وطن بھی اپنے ہی وطن کی طرح سمجھے جاتے ہیں۔ فرق صرف انتظامی سہولت کا ہوتا ہے کہ ہر یونٹ کو اپنی جگہ ہیئت منتظمہ بنانے کا حق حاصل ہوتا ہے مگر اساسی اصول اور عقیدے ہر جگہ مشترک ہوتے ہیں جو مقاصدِ عالیہ کے لیے آپس میں اشتراک و اتحاد رکھتے ہیں۔ تیسرا دائرہ اوطان کا ہے جنہیں حلیف کہا جاسکتا ہے۔‘‘ (20) اقبال کا یہ سطحی تصور کوئی ناقابلِ عمل تخیل نہیں۔ مسلمانوں کے سیاسی تجربے میں خلافت و امامت کو یہ حیثیت حاصل رہی ہے ۔ اقبال کا تصورِ وطن و قومیت اسی عقیدے امامت و خلافت کا پر تو ہے۔
قوم کے مقابلے میں ملّت کے لفظ کی دینی لحاظ سے فوقیت کے بارے میں اقبال کا کہنا تھا کہ ’’ملت سب جماعتوں کو تراش کر ایک نیا اور مشترک گروہ بنائے گی۔ گویا ملت یا امت جاذب ہے اقوام کی۔ خود ان میں جذب نہیں ہوتی۔‘‘(21) ان خیالات سے واضح ہے کہ وحدتِ مذہب ٗ وحدتِ تمدن ٗ تاریخ، ماضی اور مستقبل کی امید اقبال کے نظریہ ملت کے اجزائے ترکیبی ہیں۔ رنگ ٗ نسل اور جغرافیائی حد بندیاں ان کے نزدیک وسیع انسانی برادری کے قیام میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ ان کے نزدیک ’’ دین نہ قومی ہے نہ نسلی نہ پرائیویٹ بلکہ خالصتاً انسانی ہے۔ اسلام ہی بطور دین وہ ضابطۂ حیات ہے جس کے پاس گونا گوں انسانی مسائل کا حل موجودہے۔‘‘ (22) اور ’’اسلام قیدِ وطن سے آزاد ہے۔ اس کا مقصد ہے ایک ایسے انسانی معاشرے کی تشکیل جو مختلف نسلوں اور قوموں کو باہم جمع کرتے ہوئے ایک ایسی امت تیار کرے جس کا اپنا مخصوص شعورِ ذات ہو۔‘‘(23) یہ شعورِ ذات اقبال کے خودی اور بے خودی کے فلسفے میں اجتماعی خودی کی اصطلاح میں بھی ظاہر ہوا ہے۔ یہ اجتماعی خود ی وحدت کے احساس سے پیدا ہوتی ہے اور یہ وحدت عقیدہ ہائے توحید و رسالت اور اخوت سے ملتی ہے ؎
فرد قائم ربطِ ملّت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 217 )
اپنی ملّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
دامن دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیّت کہاں
اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملّت بھی گئی
(کلیاتِ اقبال ٗ ص۔ 277 )
بلکہ اقبال نے تو بذاتہِ مذہب کو وطن قرار دے دیا ہے ع
اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 187 )
اقبال نے عروج و زوالِ مسلسل پر بہت غور و فکر کیا ہے اور اس ضمن میں جن اصولوں کی طرف اشارہ کیا ہے انھیں بھی اقبال کے تصورِملّت کی جامعیت کے لیے اس میں شامل سمجھنا چاہیے۔ اس نے تن آسانی، عیش پرستی اور غلط کاری کو حیاتِ اقوام کی کمی کا باعث قرار دیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ ملت کی اجتماعی خطائیں معاف نہیں کی جاتیں اور خدا ان کی سزا ضرور دیتا ہے(24) ؎
فطرت افراد سے اغماض تو کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیںملّت کے گناہوں کو معاف
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔559 )
چنانچہ قرآن مجید کے اصولوں کے مطابق افراد اور قوم کو اپنے اپنے اعمال کی ذمہ داری اٹھانی پڑتی ہے۔ مِلّی سطح پر احساسِ ذمہ داری کا فقدان ملّت کے زوال کا سبب بن جاتا ہے۔ یہ جواب دہی فرد کی ملّت کے سامنے اور فرد و ملّت کی خدا کے سامنے، دونوں کی بقاء کی ضمانت فراہم کرتی ہے۔ روشن خیالی اور صحت مندانہ اختلاف رائے سے زندگی آگے کی طرف سفر کرتی ہے اور اجتماعی زندگی میں تغیر و تبدل سے قوموں کی تقدیر بدلتی ہے۔ قناعت کی بجائے بہتر زندگی کے لیے جدوجہد ملّت اسلامیہ کے لیے از بس ضروری ہے۔(25)
اقبال ہیئت اجتماعیہ اسلامیہ قائم کرنے کے لیے دنیا کے تمام مسلمان ملکوں کو ایک لڑی میں پرونے کا خواہش مند ہے ؎
بتانِ رنگ و بو کو توڑ کرملّت میں گم ہو جا
نہ تورانی رہے باقی، نہ ایرانی، نہ افغانی
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 300 )
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 295 )
اقبال کے نزدیک اسلام ایک ازلی، ابدی ،آفاقی اور عالمگیر نوعیت کاپیغام ہے اور ہر زمانہ اور ہر قوم کے لیے رشد و ہدایت کا سرچشمہ ہے اس لیے اس کے پیرو کاروں کو رنگ ٗ نسل ٗ قبیلے اور ملک کے امتیازات مٹا کر یکجا ہو جانا چاہیے اور مسلمان ملکوں کی ایک الگ لیگ آف نیشنز قائم کرنی چاہیے۔ وہ مغربی وطنیت کے تصور پر قائم اس دور کی لیگ آف نیشنزپر اس طرح طنز کرتے ہیں ؎
اس دور میں قوموں کی محبت بھی ہوئی عام
پوشیدہ نگاہوں سے رہی وحدتِ آدم
تفریقِ مِلل حکمتِ افرنگ کا مقصود
اسلام کا مقصود فقط ملتِ آدم
مکہ نے دیا خاکِ جنیوا کو یہ پیغام
جمعیتِ اقوام کی جمعیتِ آدم
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 570 ۔571 )
اقبال کے خیال میں مسلم ملکوں کے اتحاد میں رکاوٹ اس وجہ سے پیدا ہو رہی ہے کہ ان کی حد بندیاں اور تشکیل مغربی نظریۂ وطنیت کی بنیاد پر ہوئی ہے۔ ان کی بقا اسی میں مضمر ہے کہ وہ ایک مربوط ملّت کی صورت میں منظم ہو جائیں۔ او آئی سی او اور اس سے منسلک بعض اداروں کے قیام سے اقبال کے افکار کا اثر کسی حد تک ظاہر ہونا بھی شروع ہو گیا ہے اور اب یہ توقع بندھ رہی ہے کہ اقبال کے جامع تصورِ ملت کے تحت مسلمان ملّتِ واحدہ کی شکل میں ایک عالمگیر برادری میں کبھی نہ کبھی ضرور ڈھل جائیں گے۔
اقبال اور عظمتِ انسان
اقبال کی شاعری میں عظمت انسانی کے حوالے سے انسان کا ذکر طرح طرح کی ترکیبوں اور اسم ہائے صفات میں ہوا ہے۔ مثلاً مردِ مومن، انسانِ کامل ٗ بندہ ء آفاقی ٗ مرد ِخدا ٗ مرد ِحق ٗ عاشق زندہ دل ٗ مردِ خود آگاہ وغیرہ ٗ دوسری طرف اقبال نے عظمتِ انسانی کے مثالی پیکروں کے نمونے بھی پیش کیے ہیں جن میں حیدرِ کرار ٗ ابو بکر ٗ عمر ٗ بلال ٗ حسین ٗ عثمان، بوذرؓ ، صوفیائے کرام ٗ سلاطین ،مردانِ حر اور دانشور شامل ہیں۔ اقبال کے عظمتِ انسانی کے تصورات جا بجا اس کی تحریروں میں پائے جاتے ہیں۔ انسان کے لیے عظمتِ انسانی کے حصول کے مراحل اور خصوصیات میں ’’اسرارِ خودی‘‘ و ’’رموز ِبیخودی‘‘ میں خودی کی تربیت کے درجات ٗ عقل و عشق کے تقابل ٗ اطاعت ٗ ضبطِ نفس ٗ نیابتِ الہیٰ اور ان سے منسلک ذکر و فکر ٗ فقرِ غیورٗ حریت ٗ جبروت ٗ خود آگاہی ٗ مشکل پسندی ٗ ذوقِ تسخیر مردانگی ٗ حکمت و دانش ٗ سوزو گداز ٗ او لوالعزمی ٗ ندرت ٗ علمیت ٗ صداقت ٗ عدالت ٗ شجاعت ٗ ایمان اور یقین جیسے اوصاف جو آپس میں ایک دوسرے پر منحصر ہیں، شامل ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ اقبال کے عظمت انسانی کے نظریات ابن مسکویہ ٗ ابن العربی ٗ عبدالکریم الجیلی ٗ نطشے اور بعض مغربی مفکرین کا پرتو ہیں جبکہ اقبال نطشے کو مجذوب کہتا ہے ؎
اگر ہوتا وہ مجذوبِ فرنگی اس زمانے میں
تو اقبال اس کو سمجھاتا مقامِ کبریا کیا ہے
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 385 )
یہ مقامِ کبریا وہ ہے جو خودی کی تربیت کے تین مراحل اطاعت ٗ ضبطِ نفس اور نیابت الہٰی طے کرنے کے بعد انسان کو حاصل ہوتاہے۔ جب انسان اپنی ذات کو صوفیہ کے تصورِ و حدت الوجود کے مطابق خود کو اللہ تعالی کی ذات میں جذب کرکے فنا کی منزل تک نہیں بلکہ خدا کی ذات سے الگ اپنی ذات کا تشخص اور پہچان قائم کرنے کے بعد خود کو خدا کے نائب فی الارض اور خلیفۃ اللہ کا اہل ثابت کرتا ہے۔ اقبال زوالِ آدم کے تمام آثار کے باوجود اسی لیے اعتماد کے ساتھ خدا کے ساتھ مکالمہ کرتا ہے ع زوالِ آدم خاکی زیاں تیرا ہے یا میرا، اور پھر یہ بھی کہتا ہے کہ ؎
باغِ بہشت سے مجھے حکمِ سفر دیا تھا کیوں
کارِ جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 347)
انسان کا منصب خدا کے نائب کے طور پر اس دراز کارِ جہاں کو اس کی منشا کے مطابق سر انجام دینا ہے اور پھر اسی مقام کو حاصل کرنا ہے جو اس نے کبھی کھو دیا تھا ؎
عَروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہِ کامل نہ بن جائے
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔351 )
نبی جو انسان ِکامل اور عظمتِ انسانی کا سب سے اعلیٰ نمونہ ہے۔ معرفت الہٰی سے خدا سے ہمکلامی کا شرف حاصل کرتا ہے اور اس سے اقبال بنی نوع انسان کے لیے نصب العین اخذ کرتے ہیں ؎
سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفٰے سے مجھے
کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔364 )
دوسری طرف اقبال فطرت کو انسان کی جولاں گاہ سمجھتا ہے ؎
عروجِ آدمِ خاکی کے منتظر ہیں تمام
یہ کہکشاں ، یہ ستارے یہ نیلگوں افلاک
(کلیاتِ اقبال ٗ ص۔394 )
اور اقبال کے نزدیک انسان کی عظمت یہ ہے کہ وہ کہکشاں، ستاروں اور افلاک کے انتظار کی مدت کم سے کم کرنے کی کوشش کرتا رہے۔
اقبال کے نزدیک انسان حیات و کائنات کے قوانین کا اسیر نہیں بلکہ حیات و کائنات کو اسیر کرنے والا ہے۔ وہ عنانِ فطرت اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے، وہ وقت کا شکار نہیں، شکاری ہوتا ہے۔ کافر مادے کی تسخیر میں مصروف ہے جب کہ مومن باطنی قوتوں سے نئے جہانوں کو تخلیق کرتا ہے ؎
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 557 )
اقبال نے ان بری عادات کا ذکر بھی کیا ہے جو عظمتِ انسانی کو ضعف پہنچاتی ہیں۔ ان میں حرص ٗ خوف ٗ غم ٗ وسوسہ ٗ ناتوانی ٗ نرمی کا بے جا استعمال، احتیاج ٗ مجبوری اور حد سے زیادہ انکسار شامل ہیں۔ احتیاج انسان کو دستِ سوال دراز کرنے پر مجبور کرتی ہے جو انسان کی توہین ہے۔ (26)
انسان جب نیابتِ الہٰی کی سیڑھی عبور کرتا ہے تو اس کا وجود الوہی ہو جاتا ہے ۔ ایک حدیث کے مطابق اللہ نے فرمایا ہے ’’کہ انسان مسلسل اطاعت و عبادت سے میرا قرب حاصل کرتا ہے یہاں تک کہ آخر میں وہ میرے اوصاف کا آئینہ بن جاتا ہے پھر میں اس کے کان بن جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے ٗ میں ہی اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے ٗ میں ہی اس کی زبان بن جاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے، میں ہی اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ کام کرتا ہے اور میں ہی اس کے پائوں بن جاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے ‘‘۔ اقبال کے افکار اسی حدیث کا عکس ہیں ؎
ہاتھ ہے اللہ کا، بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں، کار کشا و کار ساز
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 424 )
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآں
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 573 )
مومن کے کردار اور گفتار میں اللہ کی برہان اس مستیٔ کردار سے پیدا ہوتی ہے جو اقبال کے نزدیک مومن کو کم درجے کے انسان یعنی کافر سے جدا کرتی ہے۔ دل و نگاہ کی مسلمانی اور کردار کی پختگی عشق کے طفیل حاصل ہوتی ہے۔ اقبال نے ’’اسی اندرونی کیفیت، اسی ولولہ انگیز محرک اور زبردست فعالی قوت کو عشق کا نام دیا ہے اور خودی کے سفر میں یا انسانی زندگی کے ارتقاء میں اسے سب سے بڑا رہنما قرار دیا ہے‘‘۔ (27)
مردِ خدا کا عمل ٗ عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصلِ حیات، موت ہے اس پر حرام
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔420 )
انسانی عظمت کے اعلیٰ درجات کے حصول کے لیے انسان میں جلالی اور جمالی دونوں کیفیات کا پایا جانا ضروری ہے ۔ ایسا انسان درویشی و سلطانی ٗ قاہری’ دلبری کی صفات کا بیک وقت حامل ہوتا ہے۔ وہ نرم دمِ گفتگو اور گرم دمِ جستجو ہوتا ہے۔ مصافِ زندگی میں سیرتِ فولاد اور شبستانِ محبت میں صفتِ حریر و پرنیاں رکھتا ہے۔ حلقہ ٔیاراں میں بریشم کی طرح نرم اور رزم حق و باطل میں فولاد ہوتا ہے۔ وہ ایسی شبنم ہے جو جگرِ لالہ میں ٹھنڈک پیدا کرتی ہے اور وہ طوفان ہے جس سے دریائوں کے دل دہلتے ہیں۔انسان کو مردِ حر، حق گو اور بیباک ہونا ہی زیب دیتا ہے۔یہی آئینِ جوانمرداں ہے۔ اس کے زورِ بازو سے تقدیریں بدل جاتی ہیں۔ اقبال کا انسان کامل نطشے کے مرد برتر کی طرح تکبر و غرور کا مجسمہ نہیں فقرو استغنا کا پیکر ہے۔ نگاہِ فکر میں شانِ سکندری ہیچ ہو جاتی ہے۔ ایسے فقر سے اسرارِ جہانگیری کھلتے ہیں، فقر خانقاہی فقط اندوہ دگلیری ہے۔ سچا فقر افلاک سے حریفانہ کشمکش رکھتا ہے۔ وہ خانقاہوں سے نکل کر رسمِ شبیری ادا کرنے کا نام ہے ’’اقبال کے انسانِ کامل کی نمود فقر ہی سے ممکن ہے اور فقر کی ۔۔ ایک بڑی خصوصیت یقین ہے ۔۔۔ جسے مذہبی اصطلاح میں ایمان کہتے ہیں۔ انسانِ کامل کے نمود کے ساتھ آزادی احتجاج سے آزادی کا نام ہے تاکہ انسان کو کسی کے سامنے دستِ سوال دراز نہ کرنا پڑے ٗ اس آزادی سے حاصل ہونے والا یقین تقدیرِ الٰہی کو بدل سکتا ہے۔‘‘ (28)
اقبال کے تصوّرِ عظمتِ انسانی کی تصویریںجاوید نامہ میں خطاب بہ جاوید کے زیرِ عنوان بھی ملتی ہیں، اس کے مطابق ایک نوجوان کے لیے سوزِ لا الٰہ اور علمِ حق ضروری ہے۔ علم ِحواس ناقابل اعتبار اور نقص سے پُرہے۔ اخلاقی و روحانی تربیت کے دوران اپنی ضروریات جس قدر ممکن ہو کم کرنا ہوتی ہیں۔ مزید برآں اخلاص مندی ٗ خوفِ سلطان و امیر سے آزادی، عدل اور فقر و استغنا میں توازن، ذکر و فکر ٗ ضبطِ نفس اندر شباب ٗ لذّتِ پرواز اور اعلیٰ نصب العین کے لیے جدوجہد مثالی انسان بننے کے لیے لازمی خصائص ہیں (29) مزید برآں اخلاص ِعمل ٗ شریعت کی پاسداری، احترام ِآدمی بھی پسندیدہ عادتیں ہیں۔ ’’ ارمغان ِحجاز‘‘ میں یہی خصوصیات عظمت کی پہچان بتائی گئی ہیں۔ طلوع ِاسلام میں بھی مرد ِمسلمان پر اظہار خیال کیا گیا ہے۔
ان تحریروں سے اقبال کے عظمتِ انسانی کے بارے میں خیالات کافی حد تک سامنے آ جاتے ہیں اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ مسلمان صوفیہ کے انسان ِکامل اور نطشے کے فوق البشر سے اقبال کا عظیم اور مثالی انسان مختلف اور اپنی نرالی آن بان اور مخصوص شخصیت کے باعث زیادہ متاثر کرتا ہے اور زیادہ حقیقی، متحرک ، فعال ، جاندار، متوازن اور قابلِ عمل کردار ہے ۔
اقبال اور الٰہیات
اقبال فکر اور وجود کی یکجائی پر ایمان رکھتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ مغربی تصورات کا عقلی خدا ان کے اس خدا سے مختلف اور مکمل ہے جو وجدان سے بھی منکشف نہ ہوتا ہو۔حی وقیوم خدا کا وجود تکوینی ،غایاتی اور کلیاتی دلائل سے ثابت نہیں کیا جا سکتا۔اقبال کے خیال میں تکوینی دلیل محض محدود کا انکار کر کے لا محدود تک پہنچنے کی کوشش ہے اور محدود کا انکار کرکے لا محدود از خود باطل ہو جائے گا۔غایات سے مراد ہے کہ ہر شے کا کوئی مقصد ہوتا ہے جس سے ایک صنّاع یا کاریگر متشکل ہوتا ہے نہ کہ خالق۔ کلیاتی پہلو صرف ذاتِ کامل کو مصور کرتا ہے جس میں صرف حئی ہونا بھی شامل ہے۔ان افکار کے برعکس اقبال کا تصور ذاتِ باری انسان اور کائنات کو اپنے جلومیں لیے ہوئے ہے۔اقبال کا کہنا ہے کہ جس چیز کو ہم فطرت کہتے ہیں وہ حیاتِ الٰہی کا فقط ایک تیز رو لمحہ ہے ۔۔۔قرآن کے نگاریں الفاظ میں وہ عادت اللہ ہے اس لیے فطرت بھی خدا کے اثبات کے لیے ناکافی ہے البتہ وجدان بتا سکتا ہے کہ ’’حیات ایک مجتمع انا ہے۔‘‘(30) ۔اقبال نے ایک ذرے سے لے کر سورج تک کائنات کو ایک انا تصور کیا ۔نظریۂ وجود وفکر قرآنی آیات کی روشنی میں ایک ایسی ہستیٔ واحد کا وجود ثابت کرنے میں ممد ہوتا ہے جو ظاہر اور باطن میں ہے اور ظاہر وباطن میں دوئی نہیں ہوتی۔ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم کے مطابق’’وہ خدا کا تصور ایک لامحدود انا ،ایک کائناتی خودی ،ایک ہستیٔ مافوق،ایک تخلیقی عزم للقوۃاور لا انتہا ممکنات رکھنے والے فرد کے طور پر کرتے ہیں۔وہ خود ایک لامحدود انا ہے اس لیے اپنا اظہار لا تعداد داناؤں کی تخلیق سے کرتاہے جو خداکی دائمی طور پر تخلیقی حرکیت میں زندہ رہتے اور اس میں نقل وحرکت کرتے ہیں۔چونکہ خدا آزادہے اور اس لیے ہر فرد کا جوہرِ خاص بھی آزادی ہے اور ایک عظیم خالق کے جذبہء تخلیق میں شامل ہونا اس کے لیے مقدر ہے۔‘‘(31) اقبال اپنے خطبے مذہبی وجدان کی فلسفیانہ جانچ، میں کہتے ہیں کہ ’’از روئے قرآن کائنات اضافہ پذیر ہے۔خدا اپنی آفرینش سے اس میں اضافہ کرتا رہتا ہے۔‘‘(32)
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دما دم صدائے کن فیکون
(کلّیاتِ اقبال۔ ص۔364 )
حکمائے اسلام کے عمیق تر مطالعے کی دعوت میں اقبال زمان ومکان کے راز کو سب سے بڑا راز قرار دیتے ہیں’’اس کو جان لینا سرِّ کائنات اور صفاتِ حق تعالیٰ کا جان لینا ہے۔‘‘(33) یہ بھی قرآن میں ہے کہ خدا ارض و سماوات کی سب چیزوں کو جانتا ہے۔کوئی تین آدمی خلوت میں باہم ہم کلام نہیں ہوتے۔وہ جہاں کہیں بھی ہوں گے خدا ان کے ساتھ ساتھ ہو گا۔(34) قرآن ہی میں ہے کہ خدا زمین اور آسمان کے ایک ایک ذرے کے وزن کا شاہد ہے اور یہ بھی کہ وہ انسان کی اس کے وجدان کے ساتھ سر گوشیوں کو بھی سنتا ہے اور اس کی شہ رگ سے زیادہ قریب ہے یعنی خدا کا کوئی نہ کوئی مکان ضرور ہے،لیکن اقبال اتصال اور انفصال کی کیفیتوں کا اطلاق ذاتِ الٰہی پر نہیں کرتا۔ دراصل انائے مطلق کائنات کے ساتھ اس طرح متصل ہے جیسے روح جسم کے ساتھ البتہ’’مکانی آزادی کے بلند ترین نقطے پر انسانی روح کی رسائی ہے جس کا بے نظیر جوہر یہ ہے کہ نہ وہ ساکن ہے نہ متحرک ‘‘اس سے بھی بڑھ کر مکانِ الٰہی تو مکان لامکاں ہے ’’جو تمام جہات اور ابعادسے مطلقاً آزاد ہے اور اس نقطۂ اتصال کا حامل ہے جہاں تمام موجوداتِ لامحدود واصل یکد گر ہو جاتی ہیں‘‘ (35) دوسری طرف مادہ اور روح تمام کے لیے زمانے الگ الگ ہوتے ہیں۔مادی اجسام ’’مرور‘‘کی صفت رکھتے ہیںجبکہ مادی موجودات کا ایک سال غیر مادی موجودات کا ایک دن ہوتا ہے ۔’’زمانِ الٰہی دوام و ابد سے بالاتر ہے۔اس کی ابتداء ہے نہ انتہا۔زمانِ الٰہی میں تمام تاریخ کائنات، علتی تسلسل سے آزادہو کر ایک واحد فوق الاوام ’’اکنون ‘‘(یعنی اب) میں جمع ہے‘‘(36) اس واحد فوق الاوام میں ’’خدا ایک سکونی اصلیت نہیں بلکہ ایک حرکی سیلان ہے اور اس کے تمام مظاہر اور مخلوقات اس لیے ہیں کہ وہ بھی اپنے طور پر تخلیق کریں‘‘۔(37) اقبال کے خیال میں زندگی کے مختلف مراحل اور درجات خودی کے ارتقاء کے درجات ہیں۔خودی درجہ بدرجہ بلند ہو کر انسان میں اپنے انتہائی درجے تک پہنچتی ہے۔اس کی تربیت کے مدارج، اطاعتِ الٰہی ،ضبط نفس اور نیابت الٰہی اور آخری مرحلے کے بعد انسان کے اندر زبردست تخلیقی قو ت پیدا ہو تی ہے۔اس میں صفاتِ الٰہیہ کا ظہور ہونے لگتا ہے۔معراجِ مصطفٰے ،انسانی خودی کے عروج کا انتہائی درجۂ کمال ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی رسائی کہاں تک ممکن ہے۔معراج ِمصطفٰے تو ایک نبی کا معجزہ ہے تاہم اس سے پتا چلتا ہے کہ گردوں عالمِ بشریت کی زد میں ہے۔خداانائے مطلق ہے اور وہ انائیں تخلیق کرتا ہے انسان کے نفس کی انانیت دوسرے موجودات سے زیادہ ترقی یافتہ ہوتی ہے اور اسی لیے وہ خدا کے مرکزِ ذات کے نزدیک تر ہوتا ہے۔ وہ اگر دنیا کو اپنے مزاج اور تمناؤں کے مطابق نہیں پاتا تو وہ بنیادِ موجودات کو درہم برہم کر دیتا اور ذرات کوترکیب ِنو بخشا ہے اور اپنی قوت سے ایسا زمانہ پیدا کرتا ہے جو اس کے مزاج کے لیے ساز گار ہوتا ہے(38) ۔لیکن اقبال نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ خدا اور انسان کے درمیان اس گہرے ربط کے باوجود ’’انسان کے مقصود کے ساتھ پیروی اور کہیں کہیں ناکامی بھی وابستہ ہے‘‘لیکن خدا کی ذات میں جو کچھ ابھی ممکن سے موجود نہیں ہوا، وہ اس کے تخلیقی امکانات کا معرضِ وجود میں آنا ہے اور اس کے اندر ناکامی کو کوئی دخل نہیں۔اس کی ہستی کی جامعیت اور اس کا کمال تخلیقِ مسلسل کے منافی نہیں۔‘‘(39) اس کے باوجود انسان ہی خدا کے ہنر کا شاہکار ہے۔ وہ کسی حد تک اپنی تقدیر کا مختار بھی ہے۔مذہب بھی ایک طرح سے خدا کی بے پایاں اور لامتناہی بظاہر مافوق الفطرت قوتوں پر ضرورت سے زیادہ زور دیتا رہا ہے۔اس قدر زیادہ کہ انسان اور کائنات کی اس کے سامنے کچھ حقیقت نہیں رہ جاتی ۔مذہب کے مطابق کُن ادا کرنے سے کائنات خدا نے پیدا کی اور پھر عالم میں انسان کو اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا ،انسان دنیا میں خدا کا نائب ہے اور اسی لیے خدانے اسے اپنی صورت پر تخلیق کیا۔اگر فرشتے با خبر تھے تو خدا ان سے زیادہ با خبر ہو گا کہ وہ انسان کو بنا کر اپنا نکتہ چیں پیدا کر رہا ہے ۔اقبال نے اس نکتہ چیں کا کردار بار بار اپنی شاعری میں ادا کیا ہے ؎
قصور وار غریب الدّیار ہوں لیکن
ترا خرابہ فرشتے نہ کر سکے آباد
میری جفا طلبی کو دعائیں دیتا ہے
وہ دشتِ سادہ وہ تیرا جہانِ بے بنیاد
(کلّیاتِ اقبال،ص۔348 )
خدا کے سامنے اس کے ہمزاد کے طور پر اس کی بے تکلفی یوں اقبال کے ہاں ظاہر ہوتی ہے ؎
باغِ بہشت سے مجھے حکمِ سفر دیا تھا کیوں
کارِ جہاں دراز ہے اب مرا انتظار کر
(کلّیاتِ اقبال،ص۔347 )
کائنات، انسان اور خدا کے رشتے سے ہی اقبال نے خدا سے یہ سوالات کیے ہیں ؎
اگر ہنگامہ ہائے شوق سے ہے لا مکاں خالی
خطا کس کی ہے یا رب لا مکاں تیرا ہے یا میرا
اسی کوکب کی تابانی سے ہے تیرا جہاں روشن
زوالِ آدمِ خاکی، زیاں تیرا ہے یا میرا
(کلّیا تِ اقبال،ص۔346 )
ان شعروں سے خدا کا شخصی تصور مترشح ہے جس سے اقبال ہمکلام ہے۔قرآن نے خدا کو زمینوں اور آسمانوں میں نور سے تشبیہہ دی ہے۔اقبال نے تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ میں اس حوالے سے خدا اور کائنات کے باہمی تعلق پر بحث کی ہے اور شاعری میں بھی اسے یوں نظم کیا ہے ؎
مجو مطلق دریں دیرِ مکافات
کہ مطلق نیست جز نورالسمٰوات
(کلّیاتِ اقبال فارسی،ص۔437 )
خدا کے کلاسیکی تصور کے مقابلے میں اقبال نے جس تغیر پذیر خدا کا تصور پیش کیا ہے۔اس کے نزدیک خدا کی لامحدودیت مجتمع ہے وسعت پذیر نہیں۔ اس میں ایک لا مختتم حرکی سلسلہ ہے لیکن یہ بذاتہٖ وہ سلسلہ نہیں ہے۔(40) ؎
درونش خالی از بالا و زیر است
ولے بیرونِ او وسعت پذیر است
(کلّیاتِ اقبال، فارسی ۔ص۔438 )
خدا کے نقطہء نظر سے پہلے یا بعد کا کوئی زمانی تصور ہی نہیں ہے۔ تخلیقِ زماں ایک مسلسل عمل ہے۔(41) ؎
ٹھہرتا نہیں کاروانِ وجود
کہ ہر لحظہ تازہ ہے شانِ وجود
(کلّیاتِ اقبال ،ص۔ 454 )
اقبال انسان، خدا اور کائنات کے تعلق کا بہت بڑا شاعر تھا اور شعورِ ذات کی تبلیغ کرتا تھا اس میں ایک شاعری کی تخیل آفرینی، کسی اہلِ نظر کی بصیرت اور فلسفی کی فکر نے مل کر ظہور کیا تھا۔اس کے اس موضوع پر تصورات میں ہمیں ان کی شخصیت کے ان پہلوؤں کی جھلک ملتی ہے۔
اقبال اور تصوّف
ما بعد الطبیعاتی حقیقت پسندی کے ضمن میں اقبال کے متصوفانہ افکار کا ذکر پہلے بھی آچکا ہے تاہم تصوف پر اقبال کے نقطۂ نظرمیں اس کی انفرادیت کو مزید واضح کرنے کے لیے اس اضافے کی ضرورت ہے کہ اقبال نے جس ماحول میں پرورش پائی، اس پرتصوف کے اثرات غالب تھے۔ابتداء میں گھر پر انہوں نے’’ فصوص الحکم‘‘ اور فتوحات مکیہ کے درسوں میں شرکت کی ۔اس کے والد ایک صوفی بزرگ تھے جن کا ایک وجدانی قصہ عطیہ بیگم نے بیان کیا ہے جس کے مطابق انھیں خواب میں کابل سے آنے والے ایک قافلے میں کسی بیمار شخص کے بارے میں معلوم ہوااور وہ شہر سے دور قافلے کے پڑاؤ میں اس کا علاج کرنے گئے۔(42) ماہنامہ ’’ضیائے حرم‘‘کے اپریل 1975 ء کے ایک شمارے میں سید نوراحمد شاہ قادری نے اپنے مضمون میں اوان شریف میں اپنے والد کی معیت میں قاضی سلطان محمود کی خدمت میںحاضری اور سلسلہ ٔ قادریہ میں اقبال کی بیعت کا ذکر کیا ہے۔(43) شاہ سلیمان پھلواری کے نام ۹ مارچ۱۹۱۶ء کے ایک خط میں اقبال نے خود بتایا ہے کہ ’’حقیقی اسلامی تصوف کا میں کیونکر مخالف ہو سکتا ہوں کہ خود سلسلۂ عالیہ قادریہ سے تعلق رکھتا ہوں ‘‘۔(44) بعد ازاں ڈاکٹریٹ کے لیے ایران میں مابعد الطبیعات کا ارتقاء کے موضوع پر مقالہ لکھنے کے دوران تصوف کے بارے میں ان کا شعور بہت پختہ ہو گیا ۔یہی وجہ ہے کہ ’’بانگ ِدرا‘‘میں تصوف اور وحدت الوجودی نظریے کے بارے میں بہت سے اشعار مل جاتے ہیں۔بہر حال وحدت الوجودی فلسفے سے اقبال کے شغف کی مدت مختصر رہی۔وہ اسلامی تصوف کا معترف اور مداح رہا۔لیکن جو اقوال ،افعال اور تعلیمات خلافِ شریعت ہوں، چاہے وہ کسی سے بھی نسبت رکھتے ہوں، اقبال ان عناصر اور اجزاء کے خلاف رہا ہے۔تصوف کے افکار میں ترکِ دنیا،تجرد،گوشہ نشینی،ترک لذائذ ،عبادات میں شدت اور فنافی الذات کی روایات عام رہی ہیں۔اس طرح تصوف اور بے علمی کو لازم و ملزوم بلکہ مترادف خیال کیا جانے لگا تھا۔متصوفین کے نزدیک دنیا دکھوں کا گھر تھا اور مومنوں کے لیے جہنم۔اس لیے حقیقت اولیٰ کے طالب کو سگِ دنیا کا لقب دیا جاتا تھا یعنی ان معنوں میں عیسائیوں کی رہبانیت اوربدھ بھکشوؤں کے ترکِ دنیا میں کوئی تفریق نہ رہی تھی۔دوسرے اقبال کا فلسفہ تحریک اور جہد وعمل کا فلسفہ ہے اس لیے وہ ا س نظریے کو مسلمانوں کے ذہنی زوال کا باعث سمجھتے تھے۔مثنوی اسرارِ خودی کے دیباچے میں تصوف کے ان بے روح عقائد کی مخالفت وہ ان الفاظ میں کرتا ہے کہ ’’مختصر یہ کہ ہندو حکماء نے مسئلہ وحدت الوجود کے اسباب میں دماغ کو اپنا مخاطب کیا مگر ایرانی شعراء نے اس مسئلہ کی تفسیر میں زیادہ خطرناک طریق اختیار کیا یعنی انھوں نے دل کو اپنی آماجگاہ بنایا اور ان کی حسین وجمیل نکتہ آفرینیوں کا آخر کار نتیجہ یہ ہوا کہ اس مسئلہ نے عوام میں پہنچ کر تمام اسلامی اقوام کو ذوقِ عمل سے محروم کر دیا۔(45) حافظ ایران کے نامور صوفی شاعر تھے۔ اقبال نے اسرارِ خودی میں ان کے افکار پر سخت نکتہ چینی کی۔اس نے حافظ کی سہل انگاری، تن آسانی اور حجرہ نشینی کی تعلیم اور جبر وقدر کے غلط نظریے کے تباہ کن نتائج پر عبدالرحمن طارق کے ساتھ ایک ملاقات میں روشنی ڈالی جس کا ذکر اس نے اپنے مضمون ’’مئے شبانہ‘‘ میں کیا ہے۔اقبال نظریہ ء وحدت الوجود کو عجمی تصوف کا نام دیتا تھا جو ان کے نزدیک مسلمانوں کے سیاسی اور عسکری تنزل کا ذمہ دار ہے۔اس نظریے نے مسلمانوں میں نفیٔ ہستی کے خیالات کو رواج دیا تھا۔چنانچہ اس نے وجودی صوفیہ اور ان کے افکار کے خلاف پر جوش جہاد شروع کیا اورا بن عربی کی تعلیمات کو ’’کفرو زندقہ‘‘ قرار دیا (46) اور حافظ شیرازی کو ’’فقیہِ ملّتِ میخوارگاں ‘‘،اگرچہ بعد ازاں اقبال نے حافظ شیرازی کے خلاف اشعارکو اسرارِ خودی سے نکال دیا تھا لیکن اپنے خیالات تبدیل نہیں کیے تھے(47) وحدت الوجود کی مخالفت کی ایک اور وجہ انہوں نے خواجہ حسن نظامی کے نام 30 دسمبر 1915 ء کے ایک خط میں یوں بیان کی ہے کہ ’’صوفیہ کو توحید اور وحدت الوجود کا مفہوم سمجھنے میں سخت غلطی ہوئی ہے۔یہ دونوں اصطلاحیں مترادف نہیں بلکہ مقدم الذکر کا مفہوم خالص مذہبی ہے اور موخر الذکر کا مفہوم خالص فلسفیانہ ہے۔توحید کے مقابلہ میں یااس کی ضد کثرت نہیں جیسا کہ صوفیہ نے تصور کیا ہے بلکہ اس کی ضد شرک ہے۔وحدت الوجود کی ضد کثرت ہے اس غلطی کا نتیجہ یہ ہوا کہ جن لوگوں نے وحدت الوجود یا زمانہء حال میں فلسفہء یو رپ کی اصطلاح میں توحیدکو ثابت کیا وہ مو حد تصور کیے گئے۔حالانکہ ان کے ثابت کردہ مسئلے کا تعلق مذہب سے نہ تھا بلکہ نظامِ عالم کی حقیقت سے تھا۔عبادت کے قابل صرف ایک ذات ہے باقی جو کچھ نظامِ عالم میں نظر آتا ہے وہ سب کی سب مخلوق ہے۔‘‘(48) اسرار ِخودی میں اقبال نے تصوف کے بعض غیر اسلامی شعائر پر جو نکتہ چینی کی تھی اس پر سخت اعتراضات ہوئے۔ان اعتراض کرنے والوں میں خواجہ حسن نظامی اور اکبر الٰہ آبادی بھی شامل تھے۔اقبال نے اس دور کے مختلف دانشوروں کو تصوف پر اپنے اعتراضات کی نوعیت اور فلسفیانہ زاویوں کی توضیح بہت سے خطوط اور مضامین میں کی ہے۔(49)
اقبال درحقیقت عجمی تصوف کا مخالف تھا جس میں رہبانیت در آئی تھی۔ اس کے خیال میں وحدت الوجود کا فلسفہ ہندوفلسفے کا عکس ہے اور دوسری طرف ایرانی شعراء کے تخیلات کا کارنامہ ہے۔اقبال کو صوفیہ کے زہد وتقویٰ سے نہیں بلکہ غلوفی الزہد پر اعتراض رہا جس سے تصوف ایک ایسا نظام تمدن بن گیا تھا جس کی نا توانی میں مسلمانوں کے لیے بے جا کشش پائی جا تی ہے۔وحدت الوجود کا نظریہ نو فلاطونیت کے ذریعے اسلام میں داخل ہوا تھا اس لیے اقبال نے یونانی فلسفی افلاطون پر بھی طنزوتعریض کی اور اسے گو سفندِ قدیم کا لقب دیا۔(50)
راہب اول فلاطونِ کلیم
از گروہِ گو سفندانِ قدیم
گوسفندے در لباسِ آدم است
حکم او برجانِ صوفی محکم است
(کلّیاتِ اقبال، فارسی،ص۔49 ۔50 )
افلاطون مادی دنیا کے وجود پر یقین نہیں رکھتا تھااور اسے نظروں کا فریب سمجھتا تھا۔اس لیے اقبال کے خیال میں جو شخص دنیا کو محض خواب وخیال ،ایک دھوکا اور وہم سمجھے وہ تسخیرِ کائنات کے لیے سر گرمِ عمل کیوں کر ہو سکے گا ۔ اس لیے اقبال افلاطونی اور نو فلاطونی فلسفے کے پیروکاروں اور مفکرین کے اس سکر آفریں فلسفے کو مسلمانوں کو عملی طور پر کمزور اورجدو جہدکی صلاحیت سے عاری کرنے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔صوفی سے اپنی بیزاری کا اظہاراقبال نے ’’اسرارِ خودی‘‘ کے افلاطون سے متعلق اشعار میں اسی وجہ سے کیا ہے کہ اس کا اندازِ فکر افلاطونی ہے ۔ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم کے مطابق’’اقبال رومی کی طرح اثباتِ خودی کا معلم ہے اس لیے وہ ہر ایسے تصوف سے نالاں ہے جو ترک اور فنا پر زور دیتا ہے اور اخلاقی و حیات آفریں پہلو سے گریز کرتا ہے۔اصل جہاد خانقاہوں کے زاویوں میں بیٹھ کر محض ذکر اور فکر سے نفس کشی کی مشق نہیں۔ ‘‘(51) مولانا روم تصوف اور صوفیہ کے متعلق کہتے ہیں کہ ’’صوفی توکل پر زور دیتا ہے لیکن تو کل کا یہ مطلب نہیں کہ انسان جدوجہدترک کر دے۔‘‘(52) جدوجہد کا ایک اور نام جہاد بھی ہے۔غلط تصوف کے ساتھ صبرو استغنا ء اور توکل کی غلط توضیحات بھی مسلمانوں میں رواج پانے لگیں۔اقبال نے اس تصور کے خلاف بھی قلم اٹھایا ہے اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ اقبال’’تصوف کوغیر اسلامی عناصر سے پاک کرکے اسلام کی روح پرور ارتقاء پسند تعلیم کو اجاگر کرنا چاہتا ہے‘‘(53)
اقبال اور تصور ِزمان ومکان
علامہ اقبال نے اپنے تصور زمان و مکاں کی وضاحت کے لیے اشاعرہ ابن عربی،رازی ،دوانی ، عراقی جیسے مسلمان مفکروں اور زینو نطشے ،کانٹ آین سٹائن،الیگزینڈر جیسے مغربی علماء کے نظریۂ زمان ومکاں پر بحث کی ہے اور ان کے نقائص اور محاسن کا احاطہ کرتے ہوئے ابنِخلدون اور برگساں کی حرکیت سے بھی آگے بڑھ کر اس مسئلے پر معروضی اور موضوعی دونوں پہلوؤں سے روشنی ڈالی ہے اور الٰہیاتی اسرارو رموز بھی بیان کیے ہیں۔سادہ لفظوں میں زمان ایک حقیقت ہے اور زندگی نام ہے زمان میں ایک مسلسل حرکت کا ۔قرآن مجید نے اختلافِ لیل و نہار میں خدائے عزوجل کی نشانیوں کی طرف انسان کو توجہ دلائی۔احادیث میں دہر یا زمان کو ذاتِ الٰہی کا مترادف قرار دیا گیا ہے اور زمانے کو برا کہنے سے روکا گیا ہے۔
ابتدائی فلسفہ دانوں کے زمان کے بارے میں تصورات کا خلاصہ یہ ہے کہ زمان غیر حقیقی ہے(افلاطون،زینو)زمان منفرد آنات کا تواتر ہے اور متصل آنات کے درمیان خلائے زمانی ہوتا ہے(اشاعرہ )کائنات میںتبدیلی جستوں میں واقع ہوتی ہے۔یعنی دو مختلف حالات کے درمیان کائنات اور اس کے ساتھ زمان ساکت ہو جاتا ہے ۔اس کی تقسیم جوہری اور غیر مسلسل ہے(طبعین)زمان ایک قسم کی روانی ہے(نیوٹن)ان نکات کی روشنی میں ذات باری کا ادراک نہیں ہو سکتا کیونکہ اس سے اس قادر ِمطلق کی تخلیقی فاعلیت پر زد پڑتی ہے۔اسلامی فکر زمان کو ایک زندہ حقیقت کے طور پر پیش کرتی ہے۔یہ فکر سکونیت کے یونانی نظریات کی تردید کرتے ہوئے البیرونی کے ریاضی تفاعل اور ضابطہء ادراج اور ابنِ مسکویہ کے نظریہ ارتقاء میں حرکیت زمانی کو ظاہر کرتی ہے۔(54) اقبال کے نزدیک ’’حرکت فی نفسہِ فطرت کا ایک نا قابلِ تقسیم عمل ہے۔ہر حرکت خواہ وہ تیرکی پرواز ہو ،زندگی کا ایک نا قابلِ تقسیم فعل ہو گا ‘‘۔(55) کائنات کے اندر مظاہر کا عبور فی الزمان ہستی کی حقیقت تک پہنچنے کا وسیلہ ہے اور حقیقت ِمطلقہ زمانِ مطلق ہے جس کے اندر فکرو حیات و کائنات ایک دوسرے میں داخل اور پیوستہ ہیں ’’ لہٰذا زمان ِمطلق کا ادراک خدا تعالیٰ کا عرفان ہے جو تربیتِ خودی کے مراحل کا اہم عنصر ہے۔انفرادی خودی کے حوالے سے اس نوعیت کی’’وحدت‘‘ہمیں ایسے نفس کے اندر ہی دکھائی دے سکتی ہے جو زندگی کے تمام کوائف پر محیط ہو اورجو انفرادی زندگی اور فکر کا سر چشمہ ہو‘‘(56) انفرادی اور اجتماعی خودی کے درمیان حرکیت اور وقت کے حوالے سے یہ تفریق کی جا سکتی ہے کہ انائے مطلق یا حقیقتِ اخریٰ زمانِ مسلسل نہیں بلکہ زمانِ خالص میں ہوتی ہے جہاں تبدیلی’ تغیر ‘ارتقاء نقص سے کمال کی طرف نہیں ہوتا بلکہ وہاں تغیر کے معنی تکوین مسلسل کے ہیں(57) ۔جبکہ فرد خواہش کی پیروی میںکامیابی اور ناکامی کے نشیب و فراز میں رہتا ہے اور ایک حالت سے دوسری حالت میں سفر کرتا رہتا ہے۔یہ دوسری بات ہے کہ فرد اپنی خودی کے مدارج طے کرتا ہوا اس مرحلے پر پہنچ جائے کہ ناظر اور منظور ایک ہو جائیں اور ناظر منظور میں اپنی توجہ اس قدر جذب کرے کہ اسے اپنا شعور باقی نہ رہے اور انا ئے مطلق کے زمان میں تدریجِ لمحات سے ناظر بھی ماورا ء ہو جائے لیکن ایسا اس صورت میں ممکن ہے کہ ’’ناظر میں ادراک کی صلاحیت ہو اور دوسری طرف منظور ایسا ہو جو ناظر کی استعداد سے ادراک میں آنے کو قبول کرے‘‘(58) یعنی ع
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
(کلّیاتِ اقبال،ص۔384 )
زمان فعالیتِ الٰہی کی ایک کیفیت ہے۔ خودی سے انسان میں تسخیرِ کائنات کا شعور اور ولولہ پیدا ہوتا ہے اور وہ فعالیت الٰہی اور اس ذات باری کی خلاّقی کی صفات سے مملو ہوتا ہے۔زمانِ الٰہی مرور سے آزاد ہوتا ہے۔ اس سے انسان کو بھی بقائے دوام حاصل ہو سکتی ہے اور وہ اپنی تقدیر خود بنانے پر قادر ہو سکتا ہے۔قرآن حکیم کے مطابق زمانِ الٰہی ’’ام الکتاب‘‘ہے’’جس کے اندر تمام تاریخ سببِ تسلسل کے حال سے آزاد ہو کر ایک با لا ابدی آن میں جمع ہو گئی ہے۔ جاوید نامے میں یہی مضمون’’زروان‘‘یا روح زمان ومکاں کی زبان سے اداکیا گیا ہے ؎
من حیا تم، من مماتم من نشور
من حسابِ دوزخ و فردوس وحور
آدم و افرشتہ در بندِ من است
عالمِ شش روزہ فرزندِ من است
ہر گلے کز شاخِ می چینی منم
امِّ ہر چیزے کہ می بینی منم
(کلّیاتِ اقبال فارسی،ص۔498 )
اس اعتبار سے کائنات زمان کے اندر واقع ہوئی ہے۔حقیقت زمان اور کائنات کے اس رشتے پر مسجدِ قرطبہ کے یہ اشعار بے حد معنی خیز اور فکر انگیز ہیں ؎
سلسلۂ روز و شب نقش گر حادثات
سلسلہ روز وشب اصلِ حیات و ممات
سلسلہ روز و شب، تارِ حریر دو رنگ
جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات
سلسلۂ روزو شب، سازِ ازل کی فغاں
جس سے دکھاتی ہے ذات، زیرو بمِ ممکنات
تجھ کو پرکھتا ہے یہ، مجھ کو پرکھتا ہے یہ
سلسلۂ روز و شب، صیرفیٔ کائنات
تو ہو اگر کم عیار، میں ہوں اگر کم عیار
موت ہے تیری برات، موت ہے میری برات
تیرے شب و روز کی اور حقیقت ہے کیا
ایک زمانے کی رو ،جس میں نہ دن ہے نہ رات
(کلّیاتِ اقبال،ص۔ 420 ۔419 )
ان شعروں کے بطن سے بقا اور حیات و ممات کے تصورات کا زمانے سے تعلق بھی پھو ٹتا دکھائی دیتا ہے۔اس بارے میں اقبال نے اپنے خطبات میں بقا کو ایک توانا اور مستحکم شخصیت کا حق قرار دیا یعنی موت اور آخرت ایک بے حادثہ لازماں ابدیت نہیں بلکہ اپنے مختلف زمانی نظام کا نام ہے(59) ۔جہاں پہنچ کر فرد کسی اور تناظر میں اپنی فعالیت کا اظہار کرتا ہے۔مردِ خود آگاہ صاحب تقدیر ہوتا ہے۔’’عالم مادی پر زمانہ سوار ہوتا ہے اور انسان کے اختیار میں ہے کہ وہ زمانے کا راکب بن جائے اور زمانے کا راکب بننا ہی زمانے کو شکست دینا ہے۔‘‘(60) اقبال نے اپنی بہت سی دوسری نظموں کے علاوہ ’’نوائے وقت ‘‘میں بھی یہی پیغام دیا ہے۔ اقبال کے خیال میں وقت خودی کے بحر میں تلاطم پیدا کرتا ہے۔ اگر خودی اس پر قابو پانے میں کامیاب نہ ہو تو یہ طوفانِ بلا خیز تباہی و بربادی کا باعث بنتا ہے اور اگر اسی کی خودی اس بے مہار قوت کی باگیں موڑ سکے تو انسان کے تخلیقی امکانات کی وسعت کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اسی سے انسان اپنی تقدیر کا خود راکب بن سکتا ہے اور نیابتِ الٰہی کا مستحق ٹھہرتا ہے۔’’یہ زمانے میں رہتے ہوئے زمانے پر فتح حاصل کرتا ہے۔‘‘(61) عام کائناتی وقت سے آزاد ہو کر وہ اپنا دوران ِخالص تراشتا ہے اور اس سے سرور حاصل کرتا ہے۔کائناتی وقت کو اقبال مکانی سمجھتا ہے اقبال آگاہ کرتا ہے کہ ’’اصلی وقت یادوراں کو خط سے ممتاز کیا جائے جہاںدورانِ خالص کا سرور مردِ حرکا امتیاز ہے وہاں مکانی زمان کی قیدو ، عبد یا محکوم کی نشانی ہے۔مرد حر کی فعال خودی ماضی، حال اور مستقبل کا احاطہ کرتی ہے اور اسی لیے دوران میں بسر کرتی ہے ایسا شخص’’لی مع اللہ وقت‘‘کہنے کی قدرت رکھتا ہے۔روز وشب کا اسیر یہ بات کہنے کا حوصلہ نہیں کر سکتا۔(62) یہ دوران خالص مکانی خصوصیات کے ساتھ وسعتِ خالص ہے۔اقبال شکستِ زمان کے معجزے کو عصری تاریخ میں کار فرما دیکھنا چاہتا تھااس کی آرزو تھی کہ محض فرد ہی اپنی تقدیر رقم نہ کریں اور زمانے کے راکب نہ بنیں بلکہ ایک پوری ملت ایسی ہو جو ان دو ابعاد کے نقطۂ اتصال کی زندہ نشانی بن جائے۔‘‘اقبال نے شاید اس راز کو پالیا تھا کہ یہ ایک شاعرانہ تخیل ہے اور مثالیت پسندی سے عبارت ہے اس لیے حقیقت میں اس اتصال کو پانا شاید ممکن نہ ہو اس لیے ارتقا ء کے اصولوں میں اس نے بعد ازاں انفرادی ترقی کو روحانی حوالوں سے اپنا رہنما اصول بنایا’’اقبال کے مردِ مومن کا عروج اس اہم حقیقت کے عرفان کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ نوع نہیں بلکہ فرد ہی تاریخ میں اعتبار یا استناد حاصل کر سکتا ہے۔اور وہی سارے آفاق کو اپنے اندر سموسکتا ہے،وہ زمان و مکان پرکمند آور ہوتا ہے، یہی مرد مومن اپنے عشق کی طاقت سے سیل ِوقت کو روک لیتا اور اپنے عشق کی مہر ثبت کرتا ہے اور بقا کا درجہ پا لیتا ہے۔(63) ضروری نہیں کہ اقبال کے تصورات ِزمان ومکاں حتمی ہوں۔ان افکار پر ابتداء ہی سے غورو خوض ہوتا رہا ہے اور اقبال نے اپنے سے پہلے آنے والے مفکرین کے تصورات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی رائے کو مدلل اور الہٰیاتی زاویوں سے ا جاگر کیا ہے۔ان کے تصور اتِ زمان و مکاں کی ا ہمیت ان کے حرفِ آخر ہونے میں نہیں۔ ان کی خرد افروزی میں ہے۔اگر مسلمانوں کو دنیا میں اپنی امتیازی حیثیت کو قائم رکھنا ہے تو ان کے لیے اتنے اہم فکری موضوعات کو تازہ اورزندہ رکھنا ضروری ہو گا۔اسلامی نقطۂ نظر سے زمان و مکاں کی اہمیت دنیا کی حقیقت اور عام زمان و مکاں میںانسان کی جہد وعمل کے نتائج کو عالمِ آخرت سے وابستہ کرنے میں ہے۔اس سے انسان پر اور انسان کی کاوشوں پر اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے اور یہی اعتماد زندگی کے تسلسل کی ضمانت ہے۔
اقبال نے شعر وادب کے ذریعے جن مقاصد کے حصول کی کوشش کی ان کے بیان کے لیے ان کے شارحین اور محققین نے طویل کتابیں تصنیف کی ہیں اور ہنوز اقبال کے افکار کی توضیح تشنہ سمجھی جاتی ہے۔ تاہم اختصار کے ساتھ ہم ان کے مقاصد کو انسانی قوتوں کی صحیح نشوونما ،شخصیت کی اٹھان،ذہن کی تربیت،فرد کی ذاتی حیثیت اور فرد اور جماعت کے تعلقات ،اس پر سماج کے اثرات اور تمدن عالم اور کائنات میں انسان کے مقام اور ان سب مسائل کے متعلق ان کے خیالات میں تلاش کر سکتے ہیں۔ارتقائیت اور حرکت وعمل ان کے ہاں تازہ خیالات سے مربوط ہیں اور تازگی تخلیقی وقت سے پیدا ہو تی ہے۔ اپنی نظم تخلیق میں انہوں نے یہی نکتہ واضح کیا ہے ؎
جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
وہی زمانے کی گردش پہ غالب آتا ہے
جوہر نفس سے کرے عمرِ جادواں پیدا
(کلّیاتِ اقبال،ص۔613 )
دراصل اقبال کے پیش نظر اوائل صدی کا ہندوستان تھا اور ان میں بسنے والے ہندی مسلمان۔ان کے نزدیک مسلمانوں کے انحطاط کا باعث یہ تھا کہ انھوں نے کشمکشِ حیات سے منہ موڑ لیا۔مقابلے کی طاقت گنوا دی،دنیا کو نا پائیدار اور بے ثبات سمجھ کر اس سے کنارہ کشی اختیار کی۔قرآن کریم کی عملی تعلیمات سے رو گردانی کی،کٹھ ملائیت،تصوف اور یونانی فلسفے کے اثرات نے انہیں تسخیر عالم سے بے گانہ کر دیا ۔ان حالات میں اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کی ضرورت درپیش تھی۔اقبال نے ابتداء ہی سے کوشش کی کہ قوم کے جمود کو توڑ کر انسان کی شخصیت کی نشوونما پر زور دیا جائے۔اس نے انسان کو ایک انسان کے طور پر زندگی کرنے کا درس دیا ؎
یقین ،افراد کا سرمایۂ تقدیرِ ملّت ہے
یہی قوت ہے جو صورت گرِ تقدیرِ ملّت ہے
تو رازِ کن فکاں ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہو جا
خودی کا راز داں ہو جا ،خدا کا ترجماں ہو جا
(کلّیاتِ اقبال،ص۔304 ۔303 )
اقبال کے مطابق حرکت عمل کا جوہر ہے اور عملی کشمکش زندگی کا راز ہے۔ وہ علم اور عمل میں توازن کا قائل تھا ،وہ ایسا علم نہیں چاہتا تھا جو عملی قوت کو کمزور کرے اور اخلاقی قدروں سے انسان کو بیگانہ کر دے۔اس نے اپنے خطبات میں لکھا ہے کہ’’اگر طاقت اور قوت بصیرت سے محروم ہیں تو اس کا نتیجہ بجز ہلاکت اور بے دردی کے اور کچھ نہیں ہو گا۔ہمارے لیے دونوں کا امتزاج ضروری ہے تاکہ عالمِ انسانی روحانی اعتبار سے آگے بڑھ سکے۔(64) اس مضمون میں ان کا شعر ہے ؎
علمِ بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور دل کا نور نہیں
(کلّیاتِ اقبال،ص۔375 )
وہ اسلامی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات پر ایمان رکھتے تھے کہ انسان اپنے ماحول اور قدرت سے ربط قائم کرنے سے نہیں گھبراتا۔ وہ دنیا اور اس کی پوشیدہ طاقتوں کو قبول کرتا ہے اور عالمِ آفاق یعنی روح اور مادہ دونوں کے باہمی ربط کو ایک حقیقت تسلیم کر لیتا ہے۔سید نذیر نیازی کے مطابق اقبال کی ’’فکر کا حقیقی سر چشمہ ۔۔۔قرآن مجید ہے۔۔۔صاحبِ خطبات نے اگر عہدِ حاضر کے الفاظ اور مصطلحات سے کام لیا تو ہم گرفتار انِ فرنگ کی خاطر ،اس لیے کہ ان کا خطاب دراصل ہم سے ہے اور ہماری وساطت سے جدید علمی دنیا سے ‘‘(65) اسی طرح ڈاکٹر رضی الدین صدیقی ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ’’اقبال کا کلام شاعرانہ پیرایۂ بیان میں اور جدید علوم کی روشنی میں سراسر قرآن کریم کی تشریح ہے۔ اگر مثنوی مو لانا روم کو آٹھ سوبرس قبل’’قرآن در زبان پہلوی‘‘سمجھا گیا تو ہم کلام اقبال کو الف ثانی میںو ہی مرتبہ دے سکتے ہیں۔‘‘(66)
اقبال کے خیال میں حقیقت تک پہنچنے کے دو وسیلے ہیں ایک’’علم وعقل‘‘ جسے اقبال خیر کہتے ہیں دوسرا‘‘عشقِ نظر‘‘۔حقیقت کے حصول میں منطق اور استدلال بھی کام آتے ہیں اور کشف اور الہام بھی۔اقبال ان تمام وسیلوں کی متوازن آمیزش سے انسانِ کامل کی ذہنی تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ جب انسان ارتقاء کی منازل طے کرکے ایک مکمل اور منفرد ہستی بن جاتا ہے تو اس کی فتوحات کی کوئی حد نہیں ہوتی ۔وہ زمین و آسمان پر خدا کا نائب بن جاتا ہے اور اس میں خلاّقیت پیدا ہو جاتی ہے۔خودی،اجتماعی خودی بے خودی،ملّت کے ساتھ فرد کے اتصال کے نظریات، اقبال کے انھی خیالات سے پھوٹتے ہیں اور انھیں میںضم ہوتے ہیں۔ان افکار کے ذریعے وہ ملتِ اسلامیہ کی بقاء اور ترقی کے خواہاں ہیں۔وطن اور ملّت کے بارے میں وہ اپنا ایک مخصوص نظریہ رکھتا ہے۔اس نے اپنی شاعری اور نثر کے ذریعے مسلمان قوم کو ایک لائحہ عمل دیا جس کے ذریعے ملّتِ اسلامیہ پھر سے اپنے گمشدہ عروج و عظمت کو حاصل کر سکتی تھی ۔اس دورمیں ہمارے قومی وجود کو سخت خطرات لاحق تھے لیکن اقبال کوملّتِ اسلامیہ کی خوابیدہ قوتوں پر اعتماد تھا ۔اس دور میں ہندی مسلمانوں کی بیداری اور بعد ازاں مسلمان ملکوں کی سامراجی طاقتوں کی غلامی سے آزادی میں اقبال کی فکر کارفرما رہی ہے۔اپنے خطبات میں انہوں نے مسلمانوں کی جس لیگ آف نیشنز کا ذکر کیا تھا او آئی سی شایداسی کا کمزورسا ابتدائی روپ ہے جس کے تحت مشترکہ اسلامی بنک اور ICESCOجیسے ادارے بن چکے ہیں۔ ایران کے حالیہ انقلاب میں علی شریعتی اور دیگر ایرانی دانشور اقبال کے فلسفے کے اثرات کا اثبات کرتے رہے ہیں۔ خود اقبال نے عشرت رحمانی کے نام اپنے تیس اگست 1931 ء کے مکتوب میں لکھا ہے کہ ’’آپ کا حسنِ ظن میری نسبت بہت بڑھ گیا ہے حقیقت میں، میں نے جو کچھ لکھا ہے اس کی نسبت دنیائے شاعری سے کچھ بھی نہیں اور نہ کبھی میں نے Seriously اس طرف توجہ کی ہے۔باقی رہا یہ امر کہ موجودہ بیداری کا سہرا میرے سر پر ہے یا ہونا چاہیے اس کے متعلق کیا عرض کروں۔مقصود تو بیداری سے تھا اگر بیداریء ہندوستان کی تاریخ میں میرا نام تک بھی نہ آئے تو مجھے قطعاً اس کا ملال نہیں لیکن آپ کے اس ریمارکس سے بہت تعجب ہوا۔ کیونکہ میرا خیال تھاکہ اس بات کا شائد کسی کو احساس نہیں۔ مولوی ابوالکلام صاحب آزاد کے تذکرہ کا دیباچہ لکھنے والے بزرگ نے جن الفاظ میں محمدعلی،شوکت علی اور میری طرف اشارہ کیا ہے ان سے میرے اس خیال کو اور تقویت ہو گئی ہے لیکن اگر کسی کو اس کا احساس نہ ہوتو مجھے اس کا رنج نہیں کیونکہ اس معاملہ میں خداکے فضل وکرم سے بالکل بے غرض ہوں۔‘‘ (67) ایک اور خط کے اقتباس میں جو ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان نے درج کیا ہے۔ اقبال کا کہنا ہے کہ ’’مقصود صرف یہ ہے کہ خیالات میں انقلاب پیدا ہو اور بس۔‘‘(68)
ان خطوط سے واضح ہے کہ اقبال کا تخلیقِ شعروادب کا بنیادی مقصد مسلمانوں کی ا نفرادی اور اجتماعی بیداری تھا اور وہ اس لحاظ سے خوش قسمت تھے کہ ان کی تحریک نے ان کی زندگی میں ہی اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا تھا اورا ن سے مسلمانوں کی زندگی میں انقلاب کے آثار کھائی دینے لگے تھے۔
حواشی و حوالہ جات
1۔ اقبال : مکتوب بنام نکلسن : بحوالہ ’’ادب اور فنون لطیفہ سے متعلق اقبال کا نظریہ ‘‘ ازڈاکٹر عندلیب شادانی مشمولہ ماہنامہ ’’ماہ نو‘‘ ، لاہور۔ ستمبر۔1977 ء ، ص۔81 ۔
2۔ اقبال : دیباچہ مرقّعِ چغتائی (دیوان ِغالب ) ، جہانگیر کلب ، لاہور ،س۔ن ،صفحہ نمبر ندارد ۔
3۔ اقبال : کلیّاتِ اقبال فارسی ، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور ، 1989 ء
ص۔573 تا587 ۔
4۔ اقبال : کلّیات ِاقبال اردو ، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، 1989 ء ، ص۔61 ۔
5۔ (شیخ) اکبر علی: ـ’’اقبال کی شاعری میں آرٹ کا تصور‘‘ مشمولہ اقبالیات کے نقوش مرتبہ ڈاکٹر سلیم اختر، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور ،1977 ئ، ص۔ 538 ۔544 ۔
6۔ ایضاً: ص ۔545 ۔
7۔ (ڈاکٹر) غلام حسین ذوالفقار :اقبال ایک مطالعہ ، اقبال اکادمی پاکستان ،لاہور، 1987ء ، ص ۔59 ۔
8۔ (شیخ ) عبدالقادر : دیباچہ ’’بانگِ درا‘‘ مشمولہ کلیاتِ اقبال اردو مذکور ،ص ۔31 ۔
9۔ ایضاً : ص ۔88
10۔ کفایت علی :’’اقبال و طنیت ، پین اسلامزم اور سیاسی تحاریک ’’مشمولہ اقبالیات کے نقوش‘‘ مرتبہ (ڈاکٹر) سلیم اختر مذکور، ص۔ 199
11۔ اقبال: کلیات ِاقبال فارسی مذکور ، ص ۔142 ۔143
12۔ کفایت علی: ـ اقبال و طنیت پین اسلامزم اور سیاسی تحاریک ’’مشمولہ کتاب مذکور ،
ص ۔202
13۔ اقبال : کلیات ِاقبال فارسی مذکور ،ص۔ 115 تا 117
14۔ (ڈاکٹر) غلام حسین ذوالفقار:کتاب مذکور ، ص۔ 70 ۔71
15۔ (ڈاکٹر) یوسف حسین خان : روحِ اقبال، آئینہ ادب ، لاہور ،1984 ء ، ص ۔297 ۔
16۔ محمد اقبال :کلیات ِاقبال فارسی مذکور، ص۔ 115 ۔114 ۔
17۔ ایضاً : ص۔450 ۔451 ۔
18۔ اقبال :’’ملّتِ بیضا پر ایک عمرانی نظر ‘‘ مشمولہ مقالات ِاقبال مرتّبہ سید عبدالواحد معینی ، آئینہء ادب ،لاہور ، 1988 ء ، ص۔159 ۔
19۔ (ڈاکٹر) سید عبداللہ :مسائلِ اقبال ،مغربی پاکستان اردو اکیڈمی ،لاہور ، 1974 ء ، ص۔ 345 ۔
20۔ (علامہ )محمد اقبال :’’جغرافیائی حدود اور مسلمان ‘‘ مشمولہ مقالات اقبال مرتبہ سید عبدلواحد معینی مذکور ، ص۔262 ۔
21۔ ایضاً : ص۔273 ۔
22۔ ایضاً ـ: ص۔266 ۔
23۔ (سید )نذیر نیازی: اقبال کے حضور،اقبال اکادمی پاکستان، لاہور ،1981 ء ،
ص۔ 15 ۔
24۔ (ڈاکٹر) محمد ریاض : تقدیر امم اور اقبال ، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، 1983 ء ، ص۔146 تا 159 ۔
25۔ اقبال : کلیّات اقبال اردو مذکور، ص ۔548 ۔
26۔ (ڈاکٹر) سید عبداللہ : کتاب مذکور ، ص۔ 266 ۔268 ۔
27۔ (سید )وقار عظیم :ـ’’اقبال ؛شاعر اور فلسفی ،تصنیفات، لاہور ، 1968 ء ،ص۔ 266 ۔
28۔ عزیز احمد اقبال نئی تشکیل ، گلوب پبلشرز ، لاہور ،سنہ ندارد، ص ۔ 305 ۔306 ۔
29۔ اقبال : کلیاتِ اقبال فارسی مذکور ، ص۔199 ۔208
30۔ ایسا ندرو بوسانی:’’ اقبال کا فلسفہء مذہب اور یورپ ‘‘ مشمولہ ماہنامہ ماہِ نو لاہور ،ستمبر 1977ء ، ص ۔140 ۔141 ۔
31۔ (ڈاکٹر )خلیفہ عبدالحکیم : مقالات ِحکیم جلد دوم اقبالیات، مرتبہ شاہد حسین رزاقی ، ادارہ ثقافت اسلامیہ ، لاہور ، 1969 ء ،ص۔ 64 ۔
32۔ (ڈاکٹر) خلیفہ عبدالحکیم :فکرِ اقبال، بزم ِاقبال، لاہور ، 1968 ء ص۔175 ۔
33۔ محمد اقبال : انوارِ اقبال مرتبہ بشیر احمد ڈار ، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور ، 1977 ء ،
ص۔ 258 ۔
34۔ ایضاً :ص۔ 259 ۔
35۔ ایضاً :ص۔ 262 ۔
36۔ ایضاً :ص۔ 263 ۔
37۔ (ڈاکٹر )خلیفہ عبدالحکیم :مقالاتِ حکیم مذکور، ص ۔ 67 ۔
38۔ ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی: اقبال اور مسلکِ تصوف ،اقبال اکادمی پاکستان ،لاہور ، 1977ء ص ۔276 ۔
39۔ (ڈاکٹر )خلیفہ عبدالحکیم: فکرِ اقبال مذکور ، ص ۔719 ۔
40۔ رفعت حسن : “God and Universe in Iqbal’s Philosophy” مشمولہ مجلہ ’’اقبال ریویو‘‘ لاہور ،اپریل ۔ جون 1987 ئ، ص۔31 ۔
41۔ رفعت حسن : مقالہ و مجلہ مذکور ،ص۔31 ۔
42۔ عطیہ بیگم :اقبال ، مترجمہ ضیاء الدین احمد برنی، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور، 1981ء ، ص۔ 16 تا19 ۔
43۔ (سید) نذیر نیازی : کتاب مذکور ، ص ۔25 ۔
44۔ اقبال : مکتوب بنام شاہ سلیمان پھلواری مشمولہ انوار ِاقبال مذکور، ص۔ 188 ۔
45۔ اقبال: دیباچہ مثنوی ’’اسرارِ خودی ‘‘ مشمولہ مقالات اقبال، مرتبہ سید عبدالواحد معینی مذکور، ص۔ 157 ۔
46۔ محمد اقبال :اقبال نامہ ، حصہ اول مجموعہ مکاتیب ِاقبال، مرتبہ شیخ عطاء اللہ ، شیخ محمد اشرف ، لاہور 1951ء ، ص۔ 44 ۔
47۔ (ڈاکٹر )ابو سعید نور الدین :اسلامی تصوف اور اقبال، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور ، 1977ئ، حاشیہ، ص ۔ 257 ۔
48۔ محمد اقبال :خطوط اقبال ‘‘ مرتبہ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، مکتبہ خیابانِ ادب ،لاہور، 1976ئ، ص۔ 117 تا118 ۔
49۔ تفصیل کے لیے دیکھئے اقبال نامہ، مرتبہ شیخ عطاء اللہ حصہ اول ،ص۔ 54 ۔55 ،
حصہّ دوم، ص ۔35 تا37 ، انوارِ اقبال ، مرتبہ بشیر احمد ڈار ،ص۔ 268 تا277 اور ص۔ 180 تا183 ۔
50۔ (سید) علی عباس جلال پوری : اقبال کا علمِ کلام، مکتبہ ء فنون ، لاہور ، 1972 ء ،
ص ۔92 ۔
51۔ (ڈاکٹر) خلیفہ عبدالحکیم : مقالات ِحکیم مذکور ، ص۔135 ۔
52۔ (ڈاکٹر) ابو اللیث صدیقی: کتاب مذکور ، ص ۔388 ۔
53۔ (ڈاکٹر )خلیفہ عبدالحکیم :مقالات حکیم ‘‘ مذکور، ص ۔136 ۔
54۔ (سید )بشیر الدین :’’اقبال کا تصور ِزمان ‘‘ مشمولہ اقبالیات کے نقوش مرتبہ ڈاکٹر سلیم اختر مذکور، ص۔340 ۔339 ۔
55۔ اقبال: دوسرا خطبہ،ــ’’مذہبی وجدان کی فلسفیانہ جانچ‘‘، مشمولہ فکرِ اقبال مرتبہ(ڈاکٹر) خلیفہ عبدالحکیم مذکور، ص۔699 ۔
56۔ ایضاً:ص۔715 ۔
57۔ ایضاً: ص۔719 ۔
58۔ (ڈاکٹر) برہان احمد فاروقی: ’’اقبال کا تصوّرِ زمان و مکان‘‘، مشمولہ، منتخب مقالات: ’’اقبال ریویو‘‘ مرتبہ (ڈاکٹر) وحید قریشی، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، 1983ئ، ص۔131 ۔
59۔ (ڈاکٹر) عالم خوندمیری: ’’ زماں۔ اقبال کے شاعرانہ عرفان کے آئینے میں‘‘۔ مشمولہ، ماہنامہ ’’نقوش‘‘، لاہور۔ اقبال نمبر 2 ، دسمبر۔1977 ء ص۔ 136 ۔
60۔ ایضاً: ص۔ 138 ۔
61۔ ایضاً: ص۔ 139 ۔
62۔ ایضاً: ص۔ 139 ۔
63۔ ایضاً: ص۔ 142 ۔
64۔ اقبال: تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ مترجمہ(سید) نذیر نیازی،بزمِ اقبال، لاہور،1983 ئ، ص۔138 ۔
65۔ ایضاً: ص۔ 735 ۔
66۔ (مولانا) سعید احمد اکبر آبادی: خطباتِ اقبال پر ایک نظر، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور،1987 ء بحوالہ رضی الدین صدیقی؛ مقدمہ روحِ اقبال از(ڈاکٹر) یوسف حسن خان، مذکور، ص۔19 ۔
67۔ اقبال : بحوالہ ماہنامہ ماہِ نو، لاہور، اقبال نمبر شمارہ نمبر5 ، جلد نمبر30 ، ستمبر۔1977 ئ، ص۔100 ۔
68۔ (ڈاکٹر) غلام مصطفٰے خان: اقبال اور قرآن ، ادارہ ثقافتِ اسلامیہ، لاہور، 1977 ئ، ص۔39 ۔