گل بلبل، شراب، محتسب، عشق،
محبوب۔ فروغ کے شعروں میں خاک بھی تو نہیں پھر بھی فروغ اردو کا ایک کم سخن مگر گہرا اور حساس شاعر ہے اور شدید محسوسات کو ایک سادی، ہلکی پھلکی زبان میں کچھ اس طرح بیان کرتا ہے جیسے کچھ نہ کہہ رہا ہو یا کوئی خاص بات نہ کہہ رہا ہو یا ایک عام سی بات کہہ رہا ہو یہیں سے شاعر کی عظمت، فکری سلجھاؤ اور احساسات کے اظہار پر اس کی قدرت کا پتہ چلتا ہے۔ الجھا ذہن بات کو الفاظ کے ’’الجھاؤ‘‘ میں پھنسا کر بیان کرنے کی گرج دار کوشش کرتا ہے، لیکن بیان کر نہیں پاتا کیونکہ وہ اپنے محسوسات کی روح سے بیگانہ ہوتا ہے۔ مگر محسوسات کی روح کو پہچاننے والا ذہن جو کچھ سامنے لاتا ہے۔ وہ بات اتنی صاف شفاف ہوتی ہے جتنی کہ ایک گہرے دریا کی تہ میں بہتی ہوئی چیز ہمیں اوپر سے نظر آتی ہے، بشرطیکہ ہم دریا کی تہہ میں بہتی ہوئی چیزوں کو پہچان سکتے ہوں۔ بہت سے شاعر ایسے ہی ہیں جن کے شعر کا موضوع چند ایسی ہی چیزیں ہیں۔ عام سی چیزیں، لیکن جن پر کسی شاعر نے شاید ہی کبھی سوچا ہو یا شاید اس لیے نہ سوچا ہو کہ ایسی پھٹیچر چیز وں پر سوچنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں، ان چیزوں میں محسوسات کو گرمانے والی کوئی بات ہی نہیں یا پھر یہ کہ شاعر میں ان ادنیٰ چیزوں سے متاثر ہونے کی حس ہی نہیں ہوتی۔
اگر امریکہ کے شاعر رابرٹ فراسٹ کی حس اتنی شدید نہ ہوتی کہ وہ راستہ چلتے چلتے ایک کوئے کے پر پھڑپھڑانے سے گرنے والے پھوئے سے متاثر ہو سکتا تو آج آفاقی ادب میں اس کا کہیں نشان تک نہ ہوتا یا وہ فرسودہ الفاظ کی قلا بازیوں کا شکار شاعر ہوتا، مگر جب فراسٹ نے اپنے احساسات و محرکات کی دنیا الگ بسائی اور حس کے نئے تجربات کو دنیا کے سامنے پیش کیا تو وہ ایک کائناتی اور تاریخی شاعر بنا۔ اس کی یہ نظم دیکھیے
برف کی بور
THE DUST OF SNOW
اک کوّا
THE WAY A CRAW
جھاڑ کے جھاڑ پہ سے
SHOOK DOWN ON ME
یوں گرائے گیا
THE DUST OF SNOW
دل کو گرمائے گیا
FROM A REMALCK
موڈ بدلائے گیا
A CHANGE OF MOOD
دن کا اک پہر کچھ بچائے گیا
AND SAVED SAME PART
دن کہ میرا بروگ کھائے گیا
OF A DAY I HAD REUSED
فراسٹ کی دنیا برفیلی بلندیوں کی سنسان دنیا ہے لیکن اس یخ بستہ دنیا میں فراسٹ کا دل گرمانے کے لیے کیسے کیسے ٹھنڈے محرکات موجود ہیں فراسٹ اگر شدید شاعرانہ حس کا مالک نہ ہوتا تو برف کی بور کی ٹھنڈی پوہار اسے اس انوکھے طریقے سے کیسے متاثر کرتی، شاعر کا یہی انوکھا احساس تو فرد کو شاعر اور شاعر کو منفرد بناتا ہے۔
بازاروں میں شوکیس سب نے دیکھے ہوں گے، ونڈو شاپنگ ہر شہری کرتا ہے فروغ نے بھی شوکیس دیکھا اور اسے شاعرانہ افادیت کی نظر سے خوب خوب دیکھا اور اس سے اپنی ویرانیوں کو چھپانے کا کام لیا۔
اس کو دل میں بسا کے میں اس سے
دل کی ویرانیاں چھپائے گیا
دل کی ویرانیاں چھپانے کو
جتنے شو کیس تھے سجائے گیا
لیکن فروغ شہر کی گہما گہمی کا شناور نہیں ہے، وہ آج کی بھاگتی، شور مچاتی دنیا کا باسی ہے لیکن اس کی روح میں آج کا دھواں دار بھڑکتا ہوا شعلہ نہیں ہے اگرچہ وہ کہتے ہیں :
سڑکوں پہ گھومنے کو نکلتے ہیں شام سے
آسیب اپنے کام سے ہم اپنے کام سے
فروغ کی روح تو ایک چنگاری ہے جو شاید کسی کو نقصان تو پہنچا نہیں سکتی لیکن اگر آپ سرد ہوتی ہوئی بھوبل کو انگلیوں سے کریدیں تو ایک سرد تپش، گہرائی کی ٹھنڈی تپش کا احساس ضرور ہو گا، اور شاعر کا یہی مشفا احساس، جو کہ شاید عوام کو کچھ نہیں دے سکتا لیکن خواص کے لیے انداز فکر اور طرز احساس کا ایک ہم عصر نمونہ ثابت ہو سکتا ہے۔
مثلاً اس مجموعے میں رئیس فروغ کیا یک نظم ’’قمر جمیل‘‘ شامل ہے ایک مونس کے لیے کچھ کہنا ہو تو عقیدت کے اظہار کے لیے آسمان اور زمین کھنگالے جا سکتے ہیں۔ لیکن فروغ کی شاعرانہ نظر میں قمر جمیل ایک سمبل(ایک المی اشاریہ) ہے، سمندر کی طرح بہکتی ہوئی عقل ہے جس کا مصرف ہو تو آسمانوں کی خبر آسکتی ہے اور صحیح مصرف پہنچ نہ ملے تو رد عمل کے طور پر چائے کی پیالی، طوفان سے زیادہ کچھ نہیں رہ جاتا۔ پاکستان میں اہل عقل کا یہ المیہ کس قدر شدید ہے یا یوں کہیے کہ ذہن اکلِ حلال کمانے کی نذر یوں ہوا ہے کہ بس سگریٹ کا دھواں چائے کی پیالی کا طوفان، آگے مجبوری، اور مجبوری، رئیس فروغ پر مجبوری اور قنوطیت کا الزام سطحی ہو گا
وہ ایک شہر سے جلا ہوا غیر آباد
رہبانیت سے پیتھوڈین تک
فلسطین سے ویت نام تک
وہ ان بسوں میں بیٹھے ہیں جن کے ڈرائیور جرائم پیشہ ہیں
گھروں کے اندر گیس کے چولہے پھٹتے ہیں
ان کے ریڈیو سیٹ خفیہ اسٹیشن نہیں پکڑتے
ان کے ٹیلی ویژن اسکرین اندھے ہیں
ان کے ٹیلی فون ٹیپ ہوتے ہیں
وہ مصنوعی سیارے چلاتے ہیں
مگر ان کے خیال سینس آف ٹریفک سے محروم ہیں۔
وہ اندھیری راتوں میں اپنے کتوں کی زنجیریں کھلی چھوڑ دیتے ہیں
یا غزل کے یہ اشعار:
دریچے تو سب کھل چکے ہیں مگر
دھواں ہے کہ گھر سے نکلتا نہیں
وہی شب کو شبنم وہی دن کو دھوپ
محبت کا موسم بدلتا نہیں
یا
میرے آنگن کی اداسی نہ گئی
روز مہمان بلائے میں نے
جب سمندر میں تلاطم نہ رہا
اپنے گرداب بنائے میں نے
اگر کسی شاعر میں مزاج کی تندی، شعلہ بیانی اور الفاظ کی دہاڑ نہ ہو تو اسے بے حسی اور یاسیت کا شکار یا دیوجانس کلبی کا پرستان ہی کیوں کہیں، کیا دھیمے سروں میں الاپ کرنے والے گائیک اور نائیک نہیں ہو سکتے۔ کیا بھوبل میں چھپی ہوئی چھوٹی سی چنگاری بارود میں شعلے بھڑکانے کے لیے کافی نہیں کیا پیٹرول کے کنویں میں آگ لگانے کے لیے بڑی آگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیا دھیرے دھیرے سلگتی بیڑی کی تہہ در تہہ راکھ میں دبی ہوئی چنگاری شعلہ انگیز آگ نہیں ہے ’’یارڈنگ برج‘‘ میں کہتے ہیں :
قمر تحسین کہتا ہے کہ یہ ریلنگ میری خود کشی کی ارج سے کمزور ہے،
یا یہ شعر
تپ رہا ہے ریگزارِ زندگی
یار کیوں کرتے ہو جھگڑا دھوپ میں
کیا رئیس فروغ کے شعروں کا یہ چھوٹا سا مجموعہ کلام جگنو کی ٹھنڈی چمک کی طرح زندگی کے احساسات کے بہت سے اندھے موڑ سلجھانے اور ہمارے تخلیقی شعور میں نئے روزن کھولنے کے لیے کافی نہیں ہے کیونکہ اب :
بانسری ملتی نہیں
پیٹرول کے پائپ نظر آتے ہیں
جن کے دائروں میں
فاصلے اور وقت مل کر پل بناتے ہیں
اسی پل پر تو روحِ عصر تصویریں بناتی ہے
یہ روح عصر کی آوارہ تصویریں
مشینی شہر کے سمبل
…….
جہاں ایک باؤلا انجن
خیالی بوگیوں کو شینٹ کرتا ہے
یا یہ تمام حسن کے عناصر ڈھالنے کے لیے رئیس فروغ نے کہا:
حسن کو حسن بنانے میں میرا ہاتھ بھی ہے
آپ مجھ کو نظر انداز نہیں کر سکتے
٭٭٭