دنیا تیسرے میلینئم میں داخل ہو چکی ہے۔اس نئے میلینئم کے آغاز ہی میں بہت کچھ ٹوٹتا ہوا اور بہت کچھ بنتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔جدید تر ایجادات کی دلفریب حشرسامانیوں سے لے کر سیاسی و اقتصادی مفادات کی قہرناکیوں تک تبدیلیوں کا ایک سلسلہ ہے جس کا انت ابھی معلوم نہیں ہے۔اردو دنیا بھی اپنی ساری تاریخ،اپنی پوری ثقافت اور اپنے سارے ادبی و غےر ادبی سرمایہ کے ساتھ نئے میلینئم میں داخل ہو چکی ہے۔ اس کے سامنے بھی بہت کچھ حوصلہ افزا اور امید افزا ہے اور بہت کچھ تشویشناک۔
کسی زبان کے عروج اور زوال میں اس کے بولنے والوں کے عروج و زوال کا بہت دخل ہوتا ہے۔ہندو مسلم اتحاد والی قدیم تہذیب نے اردو زبان کو جنم دیا تھا۔اس تہذیب کے عروج کے ساتھ اس زبان کو عروج ملتا گیااور جیسے جیسے مسلمانوں کے ساتھ نفرت بڑھنے لگی یا انگرےز کی سازش سے نفرت کو ہوا دی جانے لگی ویسے ویسے اردو کے لئے مسائل کھڑے ہوتے گئے۔انگرےزوں کے ابتدائی دور میں ہندوستان میں اردو زبان کی بڑی خدمت کی گئی لیکن اس کے ساتھ اردو زبان کو تقسیم کردیا گیا۔
جب سے اردو کو لکھنے کا چلن ہوا تب سے انیسویں صدی تک اس کانام ہندی ،ہندوی چلتا رہا اور اس کا رسم الخط یہی رہا جسے اردو کہا جاتا ہے۔انیسویں صدی میں جب سیاسی اغراض کے لئے مذہبی تفرقہ بازی کو ہوا دی گئی تب ہندو لکھنے والوں کو دیوناگری رسم الخط کی طرف مائل کیا گیا۔۔اس کے لئے باقاعدہ ان کے دھارمک جذبات کو ابھارا گیا اور یوں ہندوستان کے ہندو دوستوں نے فرقہ پرستی کی بنیاد پر ہندی اور اردو تنازعہ کی پہل کر دی۔ہندوؤں کی طرف سے ایسا ہوا تو اس کے ذمہ دار اس زمانہ کے بعض مسلمان رہنمااور ادیب بھی ہیں جنہوں نے جلتی پر تیل گرانے کا کام کیااور اسی انداز میں اردو کو مسلمانوں کی زبان قرار دینا شروع کردیا۔فرقہ پرستی نے برصغےر کی سب سے بڑی اور اہم زبان کو دو رسم الخط میں تقسیم کرکے دو الگ الگ تہذیبوں کے ساتھ جوڑ دیا۔ اب وہی زبان اردو اورہندی کے دو ناموں سے اپنی الگ پہچان رکھتی ہے۔
اپنی سہولت کے لئے میں اردو کو تین بڑے مراکز میں تقسیم کررہا ہوں ۔پاکستان ،ہندوستان اور برصغےر سے باہر کے تمام علاقوں اور جزےروں میں بکھری ہوئی پاکٹس۔
قیام پاکستان کے نتیجہ میں اگرچہ اردو کو ابھی تک وہاں وہ مقام نہیں مل سکا جس کا وعدہ قائد اعظم نے کیا تھا،اس کے باوجود ملکی سطح پر یہ زبان پورے ملک میں رچ بس چکی ہے اور وہاں اس زبان کو ان معنوں میں کوئی خطرہ نہیں ہے جن معنوں میں اسے ہندوستان میں خطرات درپیش ہیں۔اگرچہ پاکستان میں ملک کا مقتدر طبقہ انگرےزی کا دلدادہ ہے اور انگرےزی اداروں کے پڑھے ہوئے لوگ ہی زیادہ تر اقتدار پر قابض ہیں۔اردو کے تعلیمی اداروں کے فارغ التحصیل لوگ واجبی حد تک ہی شریک اقتدار ہیں۔اور تو اور ایم اے اردو ہونا باعثِ عزت نہیں سمجھا جاتا۔اس کے لئے میں ایک واضح مثال دوں گا۔جنرل ضیاع الحق جب ملک کے اقتدار پر قابض تھے تب ایک خاتون نے کسی تقریب میں ان سے ملازمت دلانے کی درخواست کی تو جنرل صاحب نے پوچھا آپ نے کس سبجیکٹ میں ایم اے کیا ہے؟خاتون نے بتایا کہ اردو میں۔۔۔ اس پر جنرل ضیاع الحق نے کہا آپ نے کسی ڈھنگ کے مضمون میں ایم اے کیا ہوتا تو کوئی ملازمت مل جاتی۔اردو اور ہندی کے تنازعہ کوسب سے زیادہ ہوا فرقہ پرستوں نے دی تھی لیکن المیہ دیکھیں کہ پاکستان میں وہ مسلمان فوجی آمر ایم اے اردو کی ڈگری کو بے توقےرکر رہا ہے جو خود ایک فرقہ پرست تھا۔بہر حال ایسی افسوسناک صورتحال کے باوجود پاکستان میں اردو زبان کو کسی سے کوئی خطرہ نہیں ہے اور وہاں اس زبان کے پنپنے اور پھلنے پھولنے کے وسیع تر امکانات موجود ہیں۔۔اس کے شےریں ثمرات سے اردو دنیا بہرہ ور ہو رہی ہے۔
ہندوستان میں جیسا کہ میں اوپر بھی کہہ چکا ہوں فرقہ پرستی کی لہر کی وجہ سے اردو اور ہندی دو زبانیں بنا دی گئیں۔رسم الخط کی طرف علیحدگی کا عمل دیوناگری والوں کی طرف سے ہوا اور انگرےز کی ”لڑاؤ اور حکومت کرو“کی پالیسی کے عین مطابق ہوا۔اردو زبان مشترکہ تہذیب کی علامت ہے جبکہ فرقہ پرستی اس اشتراک کو توڑنے کا کام کرتی ہے۔ہندوستان میں جب اردو اور ہندی میں سے کسی ایک کوقومی زبان بنانے کا مرحلہ آیا تھا تب سارا جھگڑا رسم الخط کا ہی تھا۔ہندوستانی اسمبلی میں تمام تر جوڑ توڑ کے باجود اردو اور ہندی کے کے حق میں ووٹ برابر پڑے تھے۔تب اسپیکر نے اپنا کاسٹنگ ووٹ ہندی کے حق میں دے کر اردو کو دربدر کردیا۔دربدر اس لئے کہ پھر پورے برصغےر میں رابطے کی سب سے اہم اور موثر زبان کو نہ صرف علاقائی زبان بنا دیا گیا بلکہ علاقائی سطح پر بھی اسے دوسرے اور تیسرے درجے کی زبان بنا کر رکھ دیا گیا۔یہ سب کچھ سرکاری سطحوں پر ہوتا رہا ہے۔ سرکاری طور پر اردو کی جو امداد کی جا رہی ہے وہ اتنی بھی نہیں ہے جتنی بعض دوسری اہم علاقائی زبانوں کو دی جاتی ہے۔پھر اس امداد کا ایک بڑا حصہ اردو کے فروغ کے بجائے اس کے کرتا دھرتا افراد کی ذاتی اغراض کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔ظاہری دکھاوے کے لئے کچھ نہ کچھ تو بہر حال دکھادیا جاتا ہے۔خےر یہ الگ موضوع ہے۔۔۔۔ہندوستان میں اب فرقہ پرستی کی ہوا میں بہت شدت آچکی ہے۔گجرات کا سانحہ اس فرقہ پرستی کے تیوروں کی نشاندہی کرنے کے لئے کافی ہے۔ایسے ماحول میں ہندوستان میں مشترکہ تہذیب کی امین اردو کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جوہندوستان میں مشترکہ تہذیب کا دعویٰ کرنے والے مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ اس کے باوجود اردو ہندوستان میں زندہ سلامت ہے۔ یہ اس سخت جان زبان کا کمال ہے ۔
برصغےر سے باہر بکھرے ہوئے سنٹرز کو سمجھنے کی سہولت کے لئے ان کو مزید تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔مغربی ممالک میںاردو ۔۔۔عرب ممالک میں اردو۔۔۔اور ان دونوں سے ہٹ کر باقی ممالک اور جزائر میں۔۔۔۔
ان تینوں بکھرے ہوئے مراکزمیں برصغےر کے تارکین وطن کے لئے اردو بنیادی طور پر رابطہ کی زبان ہے۔ادبی طور پر یہاں زیادہ تر وہی شاعر اور ادیب ہیں جو پاکستان اور انڈیا سے شاعری کرتے ہوئے ان ممالک کو سدھارے تھے۔کچھ لوگ ترکِ وطن کے طویل عرصہ بعد یکایک شاعر اور ادیب بن گئے تو وہ ایک الگ مسئلہ ہے جس پرابھی ذراآگے چل کر بات ہوگی۔یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ان بکھرے ہوئے چھوٹے چھوٹے مراکز یا اردو کی پاکٹس میں ایسے شاعراور ادیب بالکل نہیں ہیں جو وہیں پلے بڑھے ہوں اور پھر اسی ماحول سے ابھر کر انہوں نے اردو میں شاعری شروع کی ہو۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان ساری اردو پاکٹس میں سارا رونق میلہ تارکین وطن شاعروں اور ادیبوں کے دم سے ہے۔اور اب جو نائن الیون کے بعد عالمی سطح پر ان بیشتر ممالک کی طرف مہاجرت کا سلسلہ رُک سا گیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہاںتخلیقی طور اب مزید پیشرفت کے امکانات کم ہو رہے ہیں۔ ان تینوں پاکٹس میں مےری نظر مغربی ممالک پر زیادہ ہے اس لئے اسی حوالے سے زیادہ بات کر سکوں گا۔عرب ممالک میں اردو بہت سی دوکانوں پر بول چال کی حد تک چل جاتی ہے لیکن اس کے باوجود بحیثیت تحرےری زبان وہاں اس کی بنیاد نہیں بن سکی ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ اردو کو عربی سے جوڑ کر دونوں طرف سے جو فرقہ پرستانہ باتیں کی جاتی رہی ہیں،وہ غلط ہیں۔اردو اپنے فطری مزاج اور اور داخلی کلچر کے باعث خالصتاً برصغےر کی زبان ہے اور بر صغےر کی پہچان ہے۔۔۔۔
برصغےر سے باہر کی تمام پاکٹس میں جو لوگ ا ہم ادبی تقریبات کا اہتمام کرتے رہتے ہیں،ادب کے تئیں ان کی خدمات قابلِ تحسین ہیں۔یہ سلسلہ ماریشس سے لے کر دبئی تک اور لندن سے لے کر نیویارک تک پھیلا ہوا ہے۔اسی طرح ان ساری پاکٹس میں جہاں جہاں سے اردو اخبارات و رسائل نکل رہے ہیں وہ اردو کی خدمت کی ایک صورت ہے۔اخبارات رسائل،ادبی تقریبات یہ سب اردو کی چہل پہل اور رونق کا سبب ہیں۔لیکن اگر خالصتاََ ادبی سطح پر بات کی جائے تو مغربی ممالک میں تخلیقی سطح پر کوئی ایسا بڑا بریک تھرو دیکھنے میں نہیں آیاجس سے کہا جا سکے کہ اردو کے ادبی سرمایہ میں کوئی غےر معمولی اضافہ ہوا ہے۔گیان چند جین،شان الحق حقی اور اسی معیار کے دوسرے ادباءپاکستان اور ہندوستان میں ہی اپنے میدانوں میں معتبر کام کر چکے ہیں۔مغربی ممالک میں قیام پذےر ہونا ان کی شناخت نہیں ہے۔وہ شاعر اور ادیب جو مغربی ممالک میں طویل قیام کی پہچان رکھتے ہیں اور دلجمعی کے ساتھ ادبی خدمت میں مشغول ہیں،ان سب کی ادبی پہچان ادب کے مرکزی دھارے کے حوالے سے ہی ہوتی ہے۔مغربی ممالک کی تخصیص کے ساتھ ان کی انفرادیت ادبی طور پر سامنے نہیں آتی۔مثلاََ شاعری میں ابھی تک روایتی اور ترقی پسند انداز کا ملا جلا رنگ رائج ہے۔البتہ کبھی کبھی یادِ وطن کے حوالے سے بعض اچھے اشعار ضرور سامنے آجاتے ہیں ۔
یہاں کے افسانہ نگاروں کا ایک اہم موضوع ہجرت یا ترکِ وطن ہے۔اس موضوع پر بہت کہانیاں لکھی گئی ہیں ۔لیکن ہجرت کے موضوع پر ۷۴۹۱ءکے بعد پاکستان اور ہندوستان میں جس پائے کی کہانیاں لکھی جا چکی ہیں،مغرب کے ہمارے اردو افسانہ نگار اس سطح کو مس بھی نہیں کر سکے۔شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ ۷۴۹۱ءکی ہجرت نے دلوں میں گہرے گھاؤ پیدا کئے تھے۔۔۔۔سب دکھی تھے۔جبکہ مغرب میں آبسنے والے وطن سے زیادہ آرام کی دنیا میں آتے ہیں ۔یہاں کا کھلا ماحول انہیں شاید ان کیفیات سے آشنا ہونے ہی نہیں دیتا جو تخلیقی کرب کا لازمہ ہے۔مغربی چکا چوند میں جنس نگاری کی طرف رغبت فطری بات ہے۔لیکن اس میں بھی خرابی یہ ہوئی کہ منٹو ، عصمت چغتائی اور ممتاز مفتی اس حوالے سے جتنا کچھ اردو کو دے گئے ہیں،اس کے بعد مغرب کے اردو افسانہ نگار جنسی لذت تو کشید کر لیتے ہیں لیکن فن کی اس سطح تک نہیں پہنچ پاتے جو ایک معیار کے طور پر پہلے سے اردو میں موجود ہے۔ افسانے کی دنیا میں جہاں ہمیں اپنے ثقافتی تصادم کا سامنا کرنا پڑا ہے اور جہاں مختلف ثقافتی المیے سامنے آتے ہیں وہاں چند اچھی کہانیوںنے تبدیلی کا احساس دلایا ہے۔مثلاََ سعید انجم کا” جھوٹ سچ“۔۔ہرچرن چاولہ کا”گھوڑے کا کرب“ اور قیصر تمکین کا”اندھےری روشنی “۔۔۔۔۔تاہم ثقافتی تصادم کی عام کہانیاں بھی اخباری رنگ میں زیادہ بیان کی گئی ہیں یا پھر خواتین کے زیب النساءطرز میں لکھی گئی ہیں۔ مغرب میں شاعروں اور ادیبوں نے مغربی سائنسی ترقیات اور جدید تر صورتحال کو تاحال گہری اور تخلیق کارکی نظر سے نہیں دیکھا۔یہی وجہ ہے کہ ان موضوعات سے ان کے افسانے خالی ہیں۔اس کے باوجود وہ سارے اوریجنل تخلیق کار داد اور تحسین کے مستحق ہیں جو پردیس میں بیٹھ کر اپنے دیس کی زبان کو نہ صرف یاد رکھے ہوئے ہیں بلکہ اس کی محبت میں اپنی بساط کے مطابق تخلیقی کام بھی کئے جا رہے ہیں۔ان سب کا جذبہ قابلِ قدر ہے۔
یہاں تک تو ان لکھنے والوں کا ذکر تھا جو چھوٹے بڑے جیسے بھی ہیں لیکن اوریجنل لکھنے والے ہیں۔اب اس المیہ کا ذکر بھی یہاں ناگزےر ہے کہ مغربی ممالک میں جعلی شاعروں اور ادیبوں کی ایک بڑی کھیپ پیدا ہو چکی ہے۔تارکین وطن میں سے ایک قابلِ ذکر تعداد ایسے افراد کی ہے جو ایک عرصہ سے مغربی ممالک میں آباد ہیں۔ یہاں کے بڑے مشاعروں میں یہ عبرتناک منظر دیکھنے کو ملتا ہے کہ کم از کم ایک تہائی شاعر مکمل بے وزن کلام سنا رہے ہوتے ہیں اور داد پارہے ہوتے ہیں۔رزق کی فراوانی اور نام آوری کے شوق میں بعض نے تو بے وزن شاعری کے مجموعے بھی فخر کے ساتھ چھپوا رکھے ہیں۔ایسے لوگ جتنا ہوتے ہیں اتنا سمجھ میں تو آجاتے ہیں۔لیکن ان کے دوش بدوش اب ایسے شعراءکی کھیپ تیار ہو چکی ہے ،جو چالیس ،پچاس سال کی عمر کے بعد یکایک شاعر بن کر نمودار ہوتے ہیں اور دو برسوں میں ان کے تین چار مجموعے چھپ کر سامنے آجاتے ہیں۔پاکستان اور انڈیا میں ایسے ضرورت مند استاد شاعر موجود ہیں جو معقول معاوضہ پر پورا شعری مجموعہ لکھ کر دے دیتے ہیں۔ جعلسازی کے فروغ کے اس خطرناک رجحان پر بروقت گرفت نہ کی گئی تو یہاں اصل اور نقل کا فرق کرنا ہی مشکل ہو جائے گا۔ یہ اردو ادب کا جنازہ نکالنے والا کام ہو رہا ہے۔
جہاں تک جدید ترین ٹیکنالوجی آئی ٹی کا تعلق ہے اردو اس میدان میں تھوڑی بہت پیش رفت کر رہی ہے۔پاکستان اور انڈیا کے بیشتر اہم اخبارات ”جنگ“۔”نوائے وقت“ ۔”منصف“ حیدرآباد ۔ ”انقلاب“ ممبئی ۔ ”سیاست“حیدرآباد اور امریکہ اور دبئی کے بعض اردو اخبار بھی انٹرنیٹ پر آن لائن دستیاب ہیں۔اس سے ایک فائدہ تو یہ ہوجاتا ہے کہ جس اخبار کو ممبئی یا لاہور کا شہری صبح ناشتے کی مےزپر دیکھ پاتا ہے مےرے جیسے قارئین ان سے کئی گھنٹے پہلے کسی مغربی ملک میں بیٹھے اس اخبار کا انٹرنیٹ ایڈیشن پڑھ لیتے ہیں۔خبر کی ترسیل کی اس برق رفتاری میں اردو اخبارات کا کردار اطمینان بخش ہے بلکہ کسی حد تک قابلِ فخر ہے۔اخبارات کے علاوہ بہت سی اردو ویب سائٹس بھی مسلسل قائم ہو رہی ہیں۔شروع میں تو اردو رسم الخط کے بجائے رومن میں اردو کو متعارف کرایا جا رہا تھا۔۔۔لیکن اردو پروگرام ان پیج کی آمد اور ڈیویلپمنٹ کے بعد تھوڑ اسا شوق رکھنے والوں کے لئے اردوویب سائٹ کا قائم کرنا کافی آسان ہوگیا ہے۔اس سلسلہ میں چند جنرل اردو ویب سائٹس کا ذکر کردینا ضروری سمجھتا ہوں۔اردو دوست ڈاٹ کام انڈیا کے صوبہ مغربی بنگال کے شہر ۲۴پرگنہ سے خورشید اقبال نے چند سال پہلے قائم کی تھی۔اس میں قارئین کی دلچسپی کے متعدد دیگر سیکشن ہیں لیکن ادب کے حوالے سے ان کے چار رسالے قابلِ ذکر ہیں۔ماہنامہ ”کائنات“پہلا مکمل آن لائن ادبی رسالہ ہے جو دو سال سے زائد عرصہ سے ہر ماہ باقاعدگی سے شائع ہو رہا ہے۔ماہنامہ ”اردو ورلڈ“اسی سائٹ کا ادبی خبر نامہ ہے۔ماہانہ”ادبی البم“ادیبوں کی تصاوےر پر مشتمل تصوےری رسالہ ہے۔اور سہ ماہی ”اردو ماہیا“ ہر تین ماہ بعد شائع ہونے والا نئی شعری صنف ماہیا پر مکمل ادبی رسالہ ہے۔”اردو ماہیا“ کے گزشتہ پانچ شمارے نہ صرف کتابی صورت میں شائع کئے گئے بلکہ ان کی الیکٹرونک بک یعنی سی ڈی بھی ریلےز کی جا چکی ہے۔ان سارے کاموں کا سب سے زیادہ کریڈٹ خورشید اقبال کو جاتا ہے۔۔۔بنیادی طور پر مظفر پور(بہار) سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان کاشف الہدیٰ نے امریکہ سے اردوستان ڈاٹ کام کے نام سے ایک عمدہ جنرل ویب سائٹ قائم کر رکھی ہے۔اس ویب سائٹ میں ویسے تو رونق میلہ قسم کا سارا مواد ملتا ہے لیکن اس کے میسیج بورڈ پر اردو رسم الخط اور رومن رسم الخط ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔امریکہ سے اس نوعیت کی ویب سائٹ کا قائم ہونا بجائے خود اردو کے فروغ کی اہم سرگرمی ہے ۔پاکستان سے علی چوہدری کی اردو پوائنٹ ڈاٹ کام اور ہارون عباس کی القمرآن لائن ڈاٹ کام دو اچھی جنرل ویب سائٹس ہیں۔۔۔دونوں ویب سائٹس کی پیشکش کا انداز کسی حد تک ملتا جلتا ہے تاہم القمرآن لائن نے اپنے ادبی سیکشن میں ”ادبی تہلکہ“ کے زےر عنوان ”اردو ادب میں سرقہ اور جعلسازی کی روایت“کے تحت اس نوعیت کے ادیبوں کو ٹھوس شواہد کے ساتھ آن لائن کر رکھا ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ لائن حاضر کر رکھا ہے۔ جو ان کی سائٹ کی منفرد پیش کش ہے۔اسی طرح کراچی سے اردو کلاسیک ڈاٹ کام،دہلی سے اردو نیٹ ڈاٹ کام اور متعدد دیگر تفریحی اور جنرل ویب سائٹس اردو میں قائم کی جا چکی ہیں۔ان سائٹس کا اپنا اپنا حلقۂ قارئین ہے۔شاعروں اور ادیبوں کی انفرادی ویب سائٹس بنانے کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے۔غالب اور اقبال کے بارے میں ایک سے زائد ویب سائٹس قائم ہیں۔ اس عہد کے شاعروں میں فیض سے لے کر جون ایلیا تک شعراءکے کلام پر مشتمل متعدد ویب سائٹس نہ صرف قائم ہیں بلکہ شاعری کے شائقین کے لئے ہمہ وقت آن لائن دستیاب ہیں۔ویب سائٹس کے حوالے سے اپنا ذکر کرنا کچھ اتنا مستحسن تو نہیں ہے لیکن پھر بھی حاضرین کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ مےری پندرہ میں سے گیارہ کتابیں مکمل طور پر آن لائن ہیں۔حیدر قریشی ڈاٹ کام پر ان کو دیکھا جاسکتا ہے۔انٹرنیٹ پر پہلا آن لائن ادبی میگزین کائنات تھا ۔اس کے بعد ملے جلے آن لائن میگزین تو آتے رہے۔اس حوالے سے آسٹریا سے نکلنے والے رسالہ آسٹرین ٹائمز کی مثال دی جا سکتی ہے۔یہ آسٹریا میں اردو کمیونٹی کا نیم سیاسی،نیم سماجی اور نیم ادبی رسالہ ہے۔اس کی ہارڈ کاپی شائع ہوتی ہے اور آسٹرین ٹائمز ڈاٹ کام پر من و عن پورے صفحات آن لائن ہوتے ہیں۔اردو میں متعدد ادبی رسائل باقاعدگی سے چھپ رہے ہیں۔لیکن ابھی تک کسی رسالے کے مدےر نے اپنے ادبی رسالے کو مکمل طور پر آن لائن نہیں کیا۔غالباََ سب سے پہلے اجمل کمال نے اپنا ادبی رسالہ”آج“آن لائن کیا تھا لیکن وہ پورا پرچہ بھی نہیں لاسکے اور اسے انٹرنیٹ پر ریگولر بھی نہیں رکھ سکے۔۔۔نےز پروگرام”اردو۔ ۸۹ “ہونے کے باعث اسے اوپن کرنے میں بھی دقت پیش آتی ہے۔حال ہی میں صلاح الدین پروےز نے اپنے ادبی رسالہ ”استعارہ“کی عمدہ ویب سائٹ بنائی ہے لیکن وہ ا بھی ویب سائٹ پر مکمل رسالہ پیش نہیں کر سکے۔۔۔جزوی طور پر ہی رسالے کے بعض اہم مندرجات آن لائن کئے گئے ہیں۔”استعارہ“کے بعد اب بالکل ابھی اور اسی جولائی کے مہینے میں مجھے اپنا ادبی رسالہ ”جدید ادب“از سر نو جاری کرنے کی توفیق ملی ہے ۔اس کا پہلا شمارہ کتابی صورت میں ریلےز ہو گیا ہے(میں چند کاپیاں ساتھ لایا ہوں)اور مکمل طور پر پورے کا پورا رسالہ ویب سائٹ جدید ادب ڈاٹ کام پربھی دستیاب ہے۔توقع کی جانی چاہئے کہ اب دیگر اہم ادبی جرائد کے مدےران ویب سائٹس کی موثر اور تےز تر رفتار کارکردگی سے فائدہ اٹھانے کی طرف راغب ہوں گے۔
آئی ٹی کے حوالے سے ایک اہم پیشرفت یہ ہے کہ جنوبی ایشیا کے رائٹرز کے بعض فورم بھی سرگرم عمل ہیں۔یاہو کا رائٹرز فورم تو اتنا فعال ہے کہ اس کے ریگولر ممبرز کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔یہ زیادہ تر اردو کے لکھنے والے ہیں ۔لیکن ان کا دائرہ کار پورے جنوبی ایشیا کی زبانوں پر پھیلا ہوا ہے۔غالباََ تیکنیکی دشواریوں کے باعث انہیں انگرےزی کا سہارا لینا پڑتا ہے۔اگر ایسے فورمز کی جانب سے یا پھر خالصتاً اردو فورم بنا کر اپنے حلقۂ احباب کو اردو پروگرام کی فراہمی آسان کر دی جائے اور اسے سکھانے کا کوئی ابتدائی مرحلہ بھی طے کر لیا جائے تو اردو کے لکھنے والے اردو ہی میں ایک دوسرے سے زیادہ بہتر طور پر رابطہ کر سکیں گے۔ یاہو کے رائٹرز گروپس میں ایک خالص اردو فورم کی ابھی ضرورت ہے۔جس کے سارے رابطے اردو رسم الخط میں ہوں۔اگر دوسرے دوست تعاون کریں تو میں خود اس سلسلے میں بہت سا کام کرنے کے لئے تیار ہوں۔
یہ تیسرے میلینئم کے آغاز پر اردو کے منظر نامہ کی ایک جھلک تھی۔۔۔ہلکی سی جھلک۔۔۔۔اس سارے منظر کو متعدد دیگر زاویوں سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔اردو والے اگر سیاسی،اقتصادی اور اجتماعی طور پر ایک موثر قوت بن جائیں تو اردو زبان کا جو سرمایہ دنیا کی نظروں سے اوجھل ہے ( عالمی مقتدر حلقوں کی جانب سے جان بوجھ کر اوجھل کیا گیا ہے) وہ خودہی ان کی نظروں میں آجائے گا۔ لیکن یہاں یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں اردو کو کسی بین الاقوامیت یا عالمگےریت کی اب زیادہ ضرورت نہیں ہے۔ہمیں اردو کی بین الاقوامیت کی بجائے اس کی مقامیت پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔اگر اردو کی مقامیت مضبوط ہے تو اس کی بین الاقوامیت از خود واضح ہوتی رہے گی۔ بین الاقوامی مقتدر حلقوں کی تو اپنی سیاسی اور اقتصادی ترجیحات ہیں۔۔۔ان کی ترجیحات میں اےران تھا تو فارسی پر بڑا کام ہونے لگا تھا۔عربوں کا تیل نچوڑنا تھا تو عربی کو محبت کی نظر سے دیکھا جارہا تھا۔عرب ادباءکو نوبل پرائز دئیے جا رہے تھے۔جاپان کی اقتصادی اہمیت پیش نظر تھی تو جاپانی ادب عالمی توجہ کا مرکز بن گیا۔سواگر ہمیںاس نوعیت کی اہمیت حاصل کرنے کا کوئی مسئلہ درپیش ہے تو اس کے لئے سرحدوں کی تخصیص کے بغےر پوری اردو دنیا کواقتصادی اور سیاسی سطح پر اپنی پوزیشن مستحکم کرنا ہو گی۔یہ کام متعلقہ شعبوں کے رہنماؤں کا ہے۔اور مستقبل قریب میں اردو دنیا کے کسی رہنما سے اس نوعیت کی کسی بہتری اور بھلائی کی توقع نہیں ہے۔بحیثیت ادیب اردو کی ترویج و ترقی کے لئے جو کچھ ہم شاعروں اور ادیبوں سے بن پڑ تا ہے کرتے چلے جائیں اور اس کے اچھے اثرات کی توقع کے ساتھ آنے والے وقت سے اچھی امید رکھیں۔اس وقت اتنا ہی ممکن ہے۔
(مطبوعہ ماہنامہ اخبارِاردو اسلام آباد۔شمارہ اکتوبر 2003)