ڈاکٹر شاہین مفتی
منشی پریم چند کی زندگی،شخصیت اور فن پر گزشتہ کئی برس سے بہت کچھ لکھا جا رہا ہے، اسی ضمن میں ڈاکٹر شکیل الرحمن کی کتاب ’’فکشن کے فن کار…. .پریم چند‘‘ نظر سے گزری۔ شکیل الرحمن خود بھی افسانہ نگار ہیں اس لیے فکشن نگاری کی مختلف جہتوں سے خوب واقف ہیں۔ چنانچہ اس کتاب میں انہوں نے پریم چند کی شخصیت، ناول نگاری، اور افسانہ نگاری کا جو نفسیاتی تجزیہ پیش کیا ہے وہ قابل تعریف ہے۔
شخصیت سازی کے عمل میں انہوں نے پریم چند کے ہاں محشر خیال اور شہر آرزو کی تلاش کے لیے مصنف کے شخصی تصادمات کو جس طرح اکٹھا کیا ہے اس سے حیرت اور مسرت کے ساتھ ساتھ بصیرت کے دروازے بھی کھلتے ہیں، لالہ دھنپت رائے جو ۳۱ جولائی ۱۸۸۰ء کو ’’لمہی‘‘ بنارس میں پیدا ہوئے، شکیل الرحمن انہیں ’’موبی ڈک‘‘ سے مماثل قرار دیتے ہوئے ویل مچھلی کے کانٹوں کو ان کی روح میں چبھتا ہوا محسوس کرتے ہیں۔ آغاز میں لالہ دھنپت رائے نواب رائے الہ آبادی کے نام سے لکھتے رہے اور یہ تحریریں ہفتہ وار اخبار ’’آواز خلق میں شائع ہوتی رہیں۔ اس زمانے میں وہ ٹیگور اور بنکم چندر چٹرجی کی تحریروں سے متاثر تھے۔ پریم چند کی بظاہر سیدھی سادھی زندگی اپنے اندر کئی طوفان چھپائے ہوئے تھی۔ کم سنی میں والدہ کی موت، سوتیلی ماں کی آمد، باپ کی بے اعتنائی، غربت و افلاس، بے روزگاری، ایک کم صورت عورت سے شادی، اس کی علاحدگی اور موت، اسی دوران ایک دوسری عورت سے تعلقات اور پھر ایک بیوہ شریمتی شیورانی دیوی سے دوسری شادی، اسکول کی معمولی سی ملازمت کے دوران جگہ جگہ تبادلے اور اس کے ساتھ ساتھ مصنف کی ازلی و ابدی تنہائی، اس تنہائی کی رفاقت میں بوڑھی دادی کی موجودگی اور پرانے ملازم قزاقی کی مہربان دوستی۔
بچپن میں ہی پریم چند ایک خاص طرح کی ہیرو پرستی اور انسان دوستی کے جذبات میں بہہ گئے تھے مختلف شہروں اور گاؤں میں رہنے کے باعث وہ مزدوروں، کسانوں اور عام لوگوں کی زندگی کے مسائل کے بھی زیادہ قریب آنے لگے۔ ’’سوز وطن‘‘ کے نام سے ان کے افسانوں کا مجموعہ دیہات سدھار اور وطنیت کے تصورات کے باعث انگریز سرکار کی جانب سے ضبط کر لیا گیا اور اس پر مقدمہ چلایا گیا۔ ضلع ہمیرپور کے کلکٹر کا کہنا تھا ’’تمہاری کہانیوں میں فرسٹریشن بھرا ہوا ہے اگر انگریزی راج میں تم نہ ہوتے تو آج تمہارے دونوں ہاتھ تراش لیے جاتے، تم کہانیوں کے ذریعے بغاوت پھیلا رہے ہو‘‘ ۔ اس ٹکراؤ کے بعد پریم چند نے دو سو پینتالیس افسانے لکھے۔ ان کی آزادی کی آواز صرف انگریزوں سے نجات کے لیے نہیں تھی بلکہ وہ ہندوستانیوں کو نفسیاتی، معاشی اور سیاسی الجھنوں سے بھی آزاد دیکھنا چاہتے تھے۔
مصنف کی زندگی اور زندگی کی سرد مہری کا جائزہ لیتے ہوئے شکیل الرحمن اس نتیجے پر پہنچتے ہیں :
’’زندگی بڑی کافر ہے، اس لیے عزیز بھی ہے، آخری سانس لیتے ہوئے گوئٹے نے کہا تھا ’’روشنی اور زیادہ روشنی‘‘ پریم چند کی آخری شب بھی روشنی کی آرزو میں گزری‘‘ (ص،۲۱۶)
ناول نگار ی کے باب میں تنقید نگار نے فنکار کی زندگی اور معاشرت کے طبقاتی تضادات، عدم تعاون، آزادی کی تحریک کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ مصنف طلسم ہو شربا، چہار درویش اور شرر و سرشار کے ناولوں سے متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ ٹالسٹائی کے انداز تحریر سے بھی متاثر تھا۔ اس لیے اس کے ابتدائی ناولوں میں وہ رومانی انداز نظر بھی ملتا ہے جو کرداروں کی انفرادی خصوصیات، واقعاتی تجسس اور جذباتی پیچیدگیوں کا نمائندہ ہے۔ پریم چند کی تحریروں میں آریاسماجی خیالات اور مندروں کے تماشے غور طلب ہیں۔ ہم خرماں وہم ثواب، جلوۂ ایثار اسی قسم کی تحریریں ہیں جہاں کرداروں کا فطری ارتقاء اصلاحی نقطہ نظر کے نیچے آ کر دب گیا ہے۔ ’’بازار حسن‘‘ سے پریم چند کے سیاسی خیالات جڑ پکڑنے لگتے ہیں لیکن اس ناول میں بھی تکنیکی خامیوں کے ساتھ اصلاحی نظریہ اتنا حاوی ہے کہ فنی صداقتیں کمزور ہو جاتی ہیں۔ ’’نرملا‘‘ ایک مختصر رومانوی المیہ ہے جسے ناول نگار ایک سماجی عمل کی صورت میں دیکھتا ہے۔ ’’پردۂ مجاز‘‘ بھی ایک رومانوی ناول ہے جسے ہندی میں ’’کایا کلپ‘‘ کے نام سے لکھا گیا، ’’گوشتہ عاقبت‘‘ گاؤں کی زندگی کی کشمکش کی کہانی ہے۔ ’’غبن‘‘ متوسط طبقے کی کھوکھلی اور سطحی زندگی کی مثالیت پسندی کا نمونہ ہے۔ ’’میدان عمل‘‘ کو ہم پریم چند کے ’’آئیڈیلزم‘‘ کا شاہکار کہہ سکتے ہیں، اگر چہ اس میں وحدت اثر موجود نہیں، شعوری انکشافات کے باعث یہاں تکنیکی نزاکتیں بھی گم ہو گئی ہیں، لیکن مقصدیت، کسانوں کی جدوجہد، مزدوروں کا عدم تعاون، سول نافرمانی کی تحریکیں مل جل کر اس ناول کو ایک دستاویزی ناول میں تبدیل کرتی ہیں، ان کرداروں کے توسط سے …. .۱۹۳۰ اور ۱۹۳۳ کے ہندوستان کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہیں ’’ٹائپ کرداروں‘‘ کے مباحث بھی اٹھائے گئے ہیں جنہیں آخر کار ’’سوشل ٹائپ کرداروں‘‘ کے حوالے سے نئی نسل کے شعور کا پیکر قرار دیا گیا ہے۔
’’چو گان ہستی‘‘ جو ایک ہزار صفحات پر مشتمل ناول ہے اسے بھی پریم چند کے اہم ناولوں میں شمار کیا جاتا ہے یہاں بھی کردار مثالیت پسندی کا نمونہ پیش کرتے ہیں، یہ ناول طوالت اور غیر نفسیاتی کردار ی ارتقاء کے باعث کئی مقامات پر اچھا ناول بنتے بنتے رہ گیا ہے۔
’’گؤدان‘‘ کا موضوع ہندوستان کسان ہے جو اگر مزدور بھی بن جائے تو اس کی زندگی کا المیہ اپنی جگہ قائم رہتا ہے۔ یہ ناول اردو فکشن میں ہندوستان کی مخصوص معاشی اور معاشرتی زندگی کی تطہیر کے لیے لکھا گیا اور اس میں سے حب الوطنی کی خوشبو آتی ہے۔
شکیل الرحمن نے پریم چند کی افسانہ نگاری کا جائزہ لیتے ہوئے افسانے کے کرداروں کے لیے خاص عنوانات چنے ہیں۔ ’’تیسرا آدمی‘‘ ، ’’عورت(۱)‘‘ ، ’’عورت (۲)‘‘ ، ’’بچے کا ذہن‘‘ ، ’’کھلاڑی پن‘‘ ، المیہ کردار ‘‘ وغیرہ۔
کتاب کا یہ حصہ انتہائی محنت اور محبت سے تحریر کیا گیا ہے۔ المیہ کرداروں میں افسانہ ’’کفن‘‘ کے گھیسو اور مادھو کے ذہنی تصادم کو طبقاتی زندگی کا المیہ قرار دیا گیا ہے۔ یہ کردار جوبظاہر معاشرے کی خرابیوں کے محض حصہ دار نظر آتے ہیں۔ ان کے رجحانات کی جڑیں ان کی سائیکی کے ساتھ ساتھ معاشرتی عوامل اور تحرکات کے تضادات میں تلاش کی جا سکتی ہیں۔
پریم چند نے اپنی چند تحریروں میں زندگی کو تماشاگاہ اور انسانوں کو کھلاڑی کہہ کر پکارا ہے۔ چو گان ہستی کا سور داس کہتا ہے :
’’ہماری بڑی بھول یہی ہے کہ کھیل کو کھیل کی طرح نہیں کھیلے۔ کھیل میں دھاندلی کر کے کوئی جیت بھی جائے تو کیا ہاتھ آئے گا، کھیلنا تو اس طرح چاہیے کہ نگاہ جیت پر رہے، پر ہار نے سے گھبرائے نہیں۔‘‘
زندگی کے میدان میں اتر نے والے کھلاڑی کی طرح پریم چند کا تخیل کھیل اور کھلاڑی کے مناسبات اکٹھے کرتا چلا جاتا ہے۔
’’کہاں ہے انصاف، کہاں ہے ؟ ایک غریب آدمی کسی کھیت سے بالیں نوچ کر کھا لیتا ہے، قانون اسے سزا دیتا ہے۔ دوسرا امیر آدمی دن دہاڑے دوسروں کو لوٹتا ہے اور اسے عزت ملتی ہے۔‘‘ (منگل سوتر)
سازش، نفرت، گھٹن، احساس شرمندگی اور ندامت سے انصاف، آزادی اور فتح کاعمل اور بھی پیچیدہ ہوتا چلا جاتا ہے۔
دھنپت رائے کی ابتدائی زندگی جس قسم کی ٹھوکروں میں بسر ہوئی ہے اس نے اس کے کم سن کرداروں کو بھی مجروح کیا ہے۔ یہاں گریز، تکلیف اور سرد مہر دانائی ان کا انتظار کرتی ہے، رام لیلا، عیدگاہ، قزاقی، سوتیلی ماں، ماں کا دل، دو بیل، دودھ کی قیمت، مہاتیرتھ ایسی ہی کہانیاں ہیں جو بڑی بڑی باتوں سے بچوں کے چھوٹے چھوٹے جذبات سے خالی کر کے دلائل اور مصلحتوں سے بھر دیتی ہیں، یہ بچے ہیرو پرست ہیں ان کا نفسیاتی رد عمل کھردرے بزرگانہ طور طریقوں سے جڑا ہے۔ عقیدت نفرت میں تبدیل ہو گئی ہے۔ ہمدردی غیر محسوس طریقے سے پدرانہ جبر کی پرچھائیں بن گئی ہے۔ معصوم ارتفاعی اظہار کے لیے صرف تصورات بچے ہیں۔
’’دایہ کو اپنے سامنے حقیقی شکل میں موجود نہ پا کر اب بچہ اس کے تخیل میں ہی محو رہتا، وہی اس کی آغوش تھی، وہی محبت۔‘‘ (مہاتیرتھ)
شکیل الرحمن نے پریم چند کے نسوانی کرداروں کو دو طرح کے کرداروں میں تقسیم کیا ہے، عورت کی نفسیات کا جائزہ لیتے ہوئے وہ ان مختلف متحرک کرداروں کو نرگسی عورتوں اور محبت سے شاداب لڑکیوں میں ڈھونڈتے ہیں، یہ محبوبانہ کردار آئینے میں صرف اپنی شکل دیکھتے ہیں۔ دو بہنیں، اسی خود پسندی کی ایک مثال ہے۔ الفت ذات میں ڈوبی ہوئی یہ عورتیں شکست کے احساس کو غیر شعوری طور پر بھی قبول کر نے کو تیار نہیں، پریم چند کے افسانے ’’بازیافت‘‘ کی نرگسی عورت اسی انفرادیت کی خاص مثال ہے اس قسم کے افسانوں میں ’’فریب نظر‘‘ اور التباسات کی موجودگی ان عورتوں کو اپنی کاملیت کا یقین دلاتی ہے۔‘‘
’’اب میری زندگی اندھیری رات ہے یا ہولناک جنگل یا شمعِ مزار، لیکن میری حالت پر غم کا اظہار مت کرو، مجھ پر جو گزرے گی میں اس کو کامل انسان کی نجات کے خیال سے بخوشی سہ لوں گی۔‘‘
اپنی دنیا میں کھوئی ہوئی یہ عورت تنہائی کی سرشاری میں مگن ہے۔ ’’مجھے تو یہ کہنے میں ذرا بھی شرم نہیں آتی کہ ان کی بیماری سے مجھے حاسدانہ مسرت ہوتی ہے۔‘‘
یہ نرگسی عورتیں کچھ مقامات پر اپنے وجود سے نفرت میں بھی مبتلا ہیں۔ ان عورتوں کے مطالعے میں پریم چند اعصابی خلل، ہیجانات اور خواہش کے انوکھے اظہار کو عورتوں کی ذہنی زندگی سے وابستہ کرتے ہیں۔ توجہ طلبی، فکری الجھاؤ، نفسیاتی تعصب، تحفظ ذات، اشاعت ذات، توہمات اور احساس شکست کے خوف میں مبتلا یہ عورتیں ہمیں خواب پریشاں جیسے افسانوں میں نظر آتی ہیں۔
خوبصورت، بدصورت عورتوں کے اس گلدستے میں ’’طلوع محبت‘‘ لیے ایک عورت بن سنور کر بیٹھی ہے اور اپنے انداز گفتگو اور انداز فکر سے چاہے جانے کے احساسات کا اظہار کر رہی ہے۔
پریم چند نے اپنے ناولوں اور افسانوں میں جو دوسری عورت دریافت کی ہے وہ معاشرتی مسائل، طبقاتی زندگی، ہنگامی حالات اور اقداری کشمکش کی نمائندہ ہے۔ ’’لیلیٰ، مجبوری، مزار الفت، ابھاگن، چکمہ، بیوی سے شوہر، ترشول، داروغہ کی سرگزشتہ، آشیاں برباد، نگاہِ ناز، لاش، انجام محبت، اغوا، موت کا خوف، راجپوت کی بیٹی اور ایسے ہی درجنوں افسانے محبت کے اعتماد اور اعتبار کی تلاش کے افسانے ہیں، یہاں بیوائیں ہیں، طوائفیں ہیں، یتیم لڑکیاں اور شوہر پرستی ہے، نا انصافی کے خلاف احتجاج ہے، عورت کی تباہ حالی ہے، یہ کردار ظلم وجبر اور تشدد کے اسیر ہیں۔ اکثر کردار متوسط طبقے اور قدیم جاگیر دار انہ قدروں میں جنم لینے والی عورتوں کے ہیں، بیوہ عورتوں کے مسائل پر یم چند کی فکشن کا بہت ہی پسند یدہ موضوع ہے۔ انہی میں کچھ عورتیں شوہر کی زندگی میں بھی بیوہ کی سی زندگی بسرکر رہی ہیں۔
شکیل الرحمن کی کتاب کا سب سے جاندار مطالعہ ’’تیسرا آدمی‘‘ کے عنوان میں سمویا گیا ہے، یہ کتاب بقول مصنف ۱۹۶۰ء میں لکھے گئے مضامین پر مشتمل ہے۔ اس لحاظ سے یہ پچاس سال پرانا مطالعہ ہے، تحریروں میں ’’تیسرے آدمی‘‘ کی دریافت کے لیے مصنف نے لکھا ہے :
’’شہر اور گاؤں کی روزانہ زندگی میں ’’تیسرے آدمی‘‘ سے اکثر ملاقات ہوتی رہتی ہے، یہ کارخانوں میں بھی ہے اور کھلیانوں میں بھی، سیاسی زندگی میں بھی تیسرا آدمی اپنا خاص مقام رکھتا ہے، گھریلو زندگی میں اس کی شخصیت ایک معمہ بن جاتی ہے۔ کبھی اپنی بربادی پسند کرتا ہے تو ایک گھر آبا دہو جاتا ہے اور کبھی شخصیتوں کے درمیان آتا ہے تو صرف اپنے مفاد پر نظر رکھتا ہے …انتقام کے جذبے سے سرشار ہو کر کبھی کسی پرامن گھر میں ’تیسرا آدمی‘ داخل ہوتا ہے اور اس کی بے چینی اس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک کہ وہ گھر ویرانہ نہ بن جائے … یہ تیسرا آدمی خواجہ اہل فراق بھی ہے اور خضر راہ بھی، رقیب بھی دوست بھی… محسوس ہویا نہ ہو ہر شخص کسی نہ کسی لمحے تیسری شخصیت کا روپ اختیار کرتا ہے … اس تیسری شخصیت کے بغیر داخلی اور خارجی اقدار کی نقاب کشائی نہیں ہوتی۔‘‘ (ص۳۴۔ ۳۳)
مصنف نے اس تیسرے آدمی کی تلاش کے لیے برادر کراموزوف، مادام بواری، دی پوٹریٹ آف اے لیڈی، تلاش بہاراں، خدا کی بستی، ٹیڑھی لکیر، گؤدان اور شکست جیسے ناولوں کا حوالہ دیا ہے وہ جذباتی اور نفسیاتی تصادمات میں تیسرے آدمی کی نفس پروری، رعونت، ہوس پرستی اور خود غرضی کے نمونے ڈھونڈ کر لایا ہے۔ ایک مقام پر وہ اسی تیسرے آدمی کی موجودگی کو شدید ڈرامائی تصادم کا پیش خیمہ قرار دیتا ہے، تیسرا آدمی ہمیشہ اصل کرداروں کے کمزور لمحوں کا متلاشی ہے، الفاظ کی لامتناہی زنجیر ایک کڑی سے دوسری کڑی کو جوڑتی چلی جاتی ہے۔ ایک موقع پر دو سکھیاں کی ہیروئن پدماکہتی ہے :
’’ابھی شادی ہوئے ایک سال بھی نہیں ہوا اور میری یہ حالت ہو گئی کہ دوسروں کو مجھے بہکانے اور مجھ پر اپنا جادو چلانے کا حوصلہ ہو رہا ہے۔‘‘
پریم چند نے انسانی جبلت کو جس طرح ٹٹولا ہے اس سے یہ تیسرا شخص ایک یادگار بن گیا ہے، کبھی یہ یاد بن جاتا ہے کبھی پرچھائیں، کبھی مہمان، کبھی دوست، کبھی تعلیم یافتہ دانشور، کبھی اجڈ دہقان، یہ ایک تیسری طاقت ہے جو کہانی کے انتشار کو منضبط کرتی ہے۔ یہ آدمی بنیادی حقیقتوں کی جانب اشارہ دیتا ہے اور مشورے کے دوران غیر شعوری طور پر اپنی خواہشات پوری کرتا چلا جاتا ہے۔ افسانہ نگار چند اشاروں میں اس کے خدوخال اور شخصیت کو سمجھا دیتے ہیں۔
شکیل الرحمن چاہتے تو اس ’’شخص دگر‘‘ میں وجودیت کی اصطلاح The Role of other کے ساتھ ساتھ اپنی ہی تحریروں میں فکشن نگار کی موجودگی کی بھی نفسیاتی گرہیں کھول سکتے تھے لیکن انہوں نے اس تیسرے شخص کی موجودگی کو کردار ی موجودگی تک ہی محدود رکھا ہے۔
یہ کتاب جسے عرفی پبلی کیشنز نے گوڑگاؤں، ہریانہ، ہندوستان سے شائع کیا ہے۔ پریم چند کی فکشن نگاری کی تحقیق کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر شکیل الرحمن کے انفرادی مطالعے کا بھی ایک شاندار نمونہ ہے۔
(گجرات، پاکستان)