۳۱۔ سبزہ زار
اِک چراگہ ہری بھری تھی کہیں
تھی سراپا بہار جس کی زمیں
کیا سماں اُس بہار کا ہو بیاں
ہر طرف صاف ندّیاں تھیں رَواں
تھے اَناروں کے بے شمار درخت
اور پیپل کے سایہ دار درخت
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں آتی تھیں
طائروں کی صدائیں آتی تھیں
۳۲۔ بکری
کسی ندی کے پاس اِک بکری
چرتے چرتے کہیں سے آ نکلی
جب ٹھہر کر اِدھر اُدھر دیکھا
پاس اِک گائے کو کھڑے پایا
پہلے جھک کر اُسے سلام کیا
پھر سلیقے سے یوں کلام کیا
کیوں بڑی بی! مزاج کیسے ہیں؟
گائے بولی کہ خیر اچھے ہیں
۳۳۔ طبیعتوں کا فرق
مکھی، گلہری اور اب بکری۔ ہر مرحلے پر پہلے سے بڑی مخلوق سامنے آ رہی ہے۔ در اصل یہ سب آپ کی اَنا کی مختلف صورتیں ہیں۔ اَنا کو خودی بھی کہتے ہیں یعنی اپنے ہونے کا احساس۔ اِس سفر کے ہر مرحلے پر آپ کی خودی بڑھ رہی ہے۔
مکھی کی گفتگو عامیانہ تھی۔ گلہری دو ٹوک بات کرنے والی بیباک طبیعت رکھتی تھی۔ بکری اُن دونوں کے مقابلے میں زیادہ رَکھ رَکھاؤ والی لگتی ہے اور اُس کی طبیعت میں ٹھہراؤ بھی ہے۔ خودی کے سفر میں یہ آپ کی تیسری منزل ہے۔
گائے نے جس طرح جواب دیا ہے اُس سے بیزاری کا اظہار ہوتا ہے۔ ’’خیر اچھے ہیں۔۔ ۔‘‘ سے لگتا ہے کہ وہ بظاہر تو کہ رہی ہے کہ مزاج اچھے ہیں مگر ابھی کچھ اور بھی کہے گی جس میں کسی نہ کسی کی شکایت ہو گی۔
۳۴۔ شکایت
کٹ رہی ہے بُری بھلی اپنی
ہے مصیبت میں زندگی اپنی
جان پر آ بنی ہے، کیا کہیے
اپنی قسمت بری ہے، کیا کہیے
دیکھتی ہوں خدا کی شان کو میں
رو رہی ہوں بُروں کی جان کو میں
زور چلتا نہیں غریبوں کا
پیش آیا لکھا نصیبوں کا
۳۵۔ شکایت کرنے کا انداز
شکایت کرنے کے بھی انداز ہوتے ہیں۔ گائے کے انداز سے لگتا ہے کہ وہ جن حالات سے خوش نہیں ہے اُنہیں بہتر بنانے کے لیے خود کچھ کرنے کی بجائے دُوسروں کو الزام دینا ہی کافی سمجھتی ہے۔ ابھی قسمت کو برا کہا ہے مگر اب کسی اور پر بھی الزام رکھے گی۔
۳۶۔ اِنسان
آدمی سے کوئی بھلا نہ کرے
اُس سے پالا پڑے، خدا نہ کرے
دُودھ کم دُوں تو بڑبڑاتا ہے
ہُوں جو دُبلی تو بیچ کھاتا ہے
ہتھکنڈوں سے غلام کرتا ہے
کن فریبوں سے رام کرتا ہے
اُس کے بچوں کو پالتی ہوں میں
دُودھ سے جان ڈالتی ہوں میں
بدلے نیکی کے یہ برائی ہے
میرے اللہ! تری دُہائی ہے
۳۷۔ انسان کی برائی
ایک طرح سے گائے نے ویسی ہی بات کہی ہے جیسی فرشتوں نے کہی تھی جب خدا نے اِرادہ ظاہر کیا تھا کہ وہ زمین پر اپنا نائب بنائے گا۔ فرشتوں نے کہا تھا، کیا آپ انسان کو بنائیں گے جو اِتنا خون خرابہ کرے گا جبکہ ہم صرف آپ کی تسبیح کرتے ہیں؟
جواب میں خدا نے فرمایا تھا، ’’میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے!‘‘
۳۸۔ بکری کی گفتگو کا انداز
سُن کے بکری یہ ماجرا سارا
بولی، ایسا گلہ نہیں اچھا
بات سچی ہے بے مزا لگتی
میں کہوں گی مگر خدا لگتی
۳۹۔ سمجھنے سمجھانے کی بات
گلہری کی طرح بکری بھی اپنی بات دو ٹوک کہنے کی قائل ہے اور اُس کی طرح یہ بھی تصویر کا دوسرا رُخ پیش کر رہی ہے مگر اُسے صرف اپنی بات کہنے سے مطلب تھا جبکہ یہ اپنی مخاطب کو قائل بھی کرنا چاہتی ہے۔
۴۰۔ تصویر کا دوسرا رُخ
یہ چراگہ، یہ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا
یہ ہری گھاس اور یہ سایا
ایسی خوشیاں ہمیں نصیب کہاں
یہ کہاں، بے زباں غریب کہاں!
یہ مزے آدمی کے دَم سے ہیں
لُطف سارے اُسی کے دَم سے ہیں
اُس کے دَم سے ہے اپنی آبادی
قید ہم کو بھَلی کہ آزادی!
۴۱۔ تمام چیزوں کے ناموں کا علم
جب خدا نے انسان کو بنایا تو اُسے تمام چیزوں کے ناموں کا علم دے دیا۔ پھر وہی چیزیں فرشتوں کے سامنے رکھیں اور اُن سے کہا کہ وہ ان کے نام بتائیں۔ فرشتے نہ بتا سکے مگر انسان نے تمام چیزوں کے نام ٹھیک ٹھیک بتا دئیے۔ تب خدا نے تمام فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ انسان کے سامنے سجدہ کریں۔
علم ہی کی وجہ سے انسان میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ دنیا کو بہتر سے بہتر بنا سکے۔
۴۲۔ اِنسان کا مقام
سو طرح کا بنوں میں ہے کھٹکا
واں کی گزران سے بچائے خدا
ہم پہ احسان ہے بڑا اُس کا
ہم کو زیبا نہیں گِلا اُس کا
قدر آرام کی اگر سمجھو
آدمی کا کبھی گلہ نہ کرو
۴۳۔ اپنی حقیقت کو پہچاننا
پچھلی دونوں نظموں میں اپنی ذات کو منوانے کی اہمیت سامنے آئی تھی۔ مکھی بھی سلامت رہتی اگر اپنی بات پر قائم رہتی اور گلہری کی بڑائی بھی اِسی سے ظاہر ہوئی کہ وہ پہاڑ کے رعب میں نہیں آئی۔ مگر اِس نظم میں پہلی بار ایک ایسی صورت حال پیش کی گئی ہے جہاں اپنے آپ کو جھکانے میں کسی کردار کی بڑائی ظاہر ہوئی ہے۔
بکری کی حد تک یہ بات بالکل درست ہے کہ انسان کو اشرف المخلوقات بنایا گیا ہے۔ جب خدا نے فرشتوں کو حکم دیا تھا کہ انسان کو سجدہ کریں تو پھر بکری بیچاری کیا چیز ہے۔
۴۴۔ نتیجہ
گائے سن کر یہ بات شرمائی
آدمی کے گلے سے پچھتائی
دل میں پرکھا بھلا برا اُس نے
اور کچھ سوچ کر کہا اُس نے
یوں تو چھوٹی ہے ذات بکری کی
دل کو لگتی ہے بات بکری کی
۴۵۔ تیسری منزل
پہلی نظم میں مکڑا مکھی کو کھا گیا تھا۔ دوسری نظم کا نتیجہ ہمیں معلوم نہیں مگر گلہری نے جس طرح بات کی تھی اُس سے یہ تو نہیں لگتا کہ پہاڑ نے اپنی غلطی تسلیم کی ہو گی کیونکہ گلہری نے پہاڑ کے لیے صلح صفائی کا موقع ہی کہاں چھوڑا تھا۔
اِس نظم کا نتیجہ پچھلی نظموں سے مختلف ہے۔ گائے نے بکری کی بات سمجھ بھی لی ہے اور زبان سے بھی کہا ہے کہ بکری اگرچہ چھوٹی ہے مگر اُس کی بات دل کو لگتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ بکری نے اپنی بات کہتے ہوئے بھی خیال رکھا ہے کہ گائے اپنی توہین محسوس نہ کرے۔
مگر آپ نے یہ بھی محسوس کیا ہو گا کہ یہ نظم در اصل نہ گائے کے بارے میں ہے نہ بکری کے بارے میں بلکہ انسان کے بارے میں ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہی انسان اِس نظم میں موجود نہیں ہے!
وہ آپ ہیں اور آپ اِس وقت باغ میں موجود ہیں۔ تینوں نظموں میں مکڑا، پہاڑ اور گائے بڑے ہیں۔ مکھی، گلہری اور بکری چھوٹی ہیں۔ گویا نظم کے وہ کردار جن سے ہمدردی محسوس کروانی ہے چھوٹے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ نظمیں بچوں کے لیے ہیں اِس لیے باغ کے اِس حصے میں صرف بچے ہی آتے ہیں ( بڑے بھی آ سکتے ہیں مگر بچے بن کر)!اِس باغ کا اُصول ہے کہ جو یہاں کی سیر کرے وہ ہر طرف اپنے آپ کو دیکھے۔ پھولوں، پتوں، پرندوں اور جانوروں میں بھی اُسے اپنا آپ ہی دکھائی دے۔ یہ اِس لیے کیونکہ یہ باغ در اصل آپ کا ہے۔
غور کریں تو یہ محض کاغذ پر لگی روشنائی ہے۔ اگر آپ اِسے پڑھ نہ سکیں اور یہ سب کچھ محسوس نہ کریں تو پھر یہ نظارے بھی کہاں؟یہ ہری بھری چراگاہ، یہ بلند پہاڑ، یہ بکری، گائے، گلہری، پہاڑ، مکڑے اور مکھی کی نوک جھونک یہ سب کچھ آپ کے تخیل میں واقع ہو رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ایک شاعر نے اِسے سوچا، کاغذ پر منتقل کیا اور ایک کتاب میں اِن سب چیزوں کا اپنا وجود ہے۔ اگر پہلی نظم کے کردار مکڑا اور مکھی ہیں تو اُنہیں شیر اور چمگادڑ نہیں پڑھا جا سکتا۔ مگر اِس کے باوجود آپ نے اُن کا تعلق آپ کے سمجھنے سے بھی ہے۔ باغ ایک شاعر نے بنایا تھا مگر اِس کی بہار آپ ہیں۔
اِس نظم میں جس چراگاہ کا ذکر ہے وہ بھی آپ ہی نے بنائی ہے کیونکہ آپ کے تصور نے اُسے ایک نیا وجود بخشا ہے۔ گائے اور بکری آپ ہی کے بارے میں گفتگو کر رہی ہیں۔
پہلی نظم میں آپ کی مثال مکھی سے دی گئی تھی، دوسری میں گلہری سے، تیسری میں بکری سے مگر بکری کی بات میں چھپے ہوئے معانی سمجھ کر اب آپ نے اس باغ میں چھپے ہوئے انسان کو دریافت کر لیا ہے اور یہ بھی معلوم کر لیا ہے کہ وہ انسان آپ خود ہیں۔ اب یہ بات بھی سمجھ میں آ سکتی ہے کہ انسان، جانور، پودے اور فطرت کی تمام چیزیں ایک ہی حقیقت کا حصہ ہیں۔
یہ بات سمجھنے کے بعد وہی ہو سکتا ہے جو اگلی نظم کے شروع میں ہو رہا ہے۔