عثمان بطور اگرچہ صرف چودہ سال کا تھا، تاہم جب نو دنتی کنگھی کی وادی میں وہ اپنے باپ کے خیموں میں واپس پہنچا تو نہ صرف پکا چھاپہ مار بن چکا تھا بلکہ اپنے وقت کے سب سے مشہور چھاپہ مار سردار کا متوقع جانشین بھی سمجھا جانے لگا تھا۔ بوکو بطور کی اٹھارہ مہینے کی تربیت میں اس نے میدانِ جنگ میں دیوانہ وار گھوڑے کو سرپٹ دوڑانے کی سنسنی خیز سرخوشی کا تجربہ بھی حاصل کر لیا تھا۔ کولھے کے قریب رائفل رکھے وہ گولیاں بھر بھر کر چلاتا رہتا اور اپنے گھوڑے کو اپنے جسم اور ٹانگوں سے قابو میں رکھتا بلکہ اپنے تعاقب کرنے والوں پر زین ہی پر گھوم کر گولیاں چلاتا اور جب حملہ ختم ہونے کا اشارہ کیا جاتا تو دشمن کے نرغے میں سے صاف نکل جاتا اور گھوڑا دوڑا کر پہاڑی کمین گاہوں میں پہنچ جاتا۔ کئی بار یہ ہو چکا تھا کہ اسے دس دس بلکہ پچا س پچاس افراد کے دستوں کی کمان دی گئی لیکن اکثر یہ ہوتا کہ وہ بوکو بطور کے شبدیز کے قریب سے قریب لگا رہتا تاکہ یہ جان جائے کہ بوکو لڑائی میں اپنے آدمیوں کی رہنمائی کس طرح کرتا ہے اور ان پر اپنا اثر کیسے قائم رکھتا ہے۔
جنگی چالوں کے لحاظ سے بوکو بطور کی پسندیدہ حکمت عملی یہ تھی کہ دشمن کو پریشان کیا جائے۔ بجلی کی طرح حملہ کیا اور پہاڑوں میں غائب ہو گئے، تاکہ دوسرا حملہ کہیں اتنی دور کیا جائے کہ چینیوں کے وہم و گمان میں بھی نہ آ سکتا ہو۔ جب یہ صورت حال ہوتی تو ان کے لڑنے والے آدمیوں کے ساتھ نہ ان کے بیوی بچے ہوتے اور نہ ریوڑ اور ان کے پاس کوئی سامان بھی نہیں ہوتا تھا، سوائے سامان جنگ کے جو کوتل گھوڑوں پر لدا رہتا۔ لہذا جب یہ ضرورت محسوس کرتے تو ایک ایک دن میں سو سو میل طے کر لیتے اور چینی اگر تیس میل بھی دن بھر میں طے کر لیتے تو سمجھتے کہ انھوں نے کوئی بڑا کارنامہ کر لیا۔ لیکن آخر میں غالباً روسیوں کی شہ پر بوکو بطور نے ایک ایسی جنگ کا اقدام کیا جس کے لیے اس کے پاس نہ تو مناسب سامانِ جنگ تھا، نہ ذرائع رسل و رسائل ٹھیک تھے اور نہ صحیح قسم کے لڑنے والے آدمی ہی تھے۔ اپنے وطن کے پہاڑوں میں قازق سوار ایک زبردست دشمن ثابت ہوتے تھے۔ ابھی یہاں، ابھی وہاں، نڈر، پھرتیلے اور اپنے علاقے کے چپے چپے سے پوری طرح واقف، مگر گھمسان کی لڑائی میں وہ اتنے کامیاب نہ تھے اور فصیل دار شہر کا محاصرہ کرنا تو سرے سے ان کے بس کی بات ہی نہیں تھی اور مشرقی ترکستان میں ایسے ہی شہر زیادہ ہیں۔
یہی وجہ تھی کہ ١٩١٣ء میں ہی بوکو بطور کو کچھ ایسی ہزیمت اُٹھانی پڑی کہ اس کے لیے صرف دو صورتیں باقی رہ گئیں، یا تو اپنے آپ کو دشمن کے حوالے کر دے، جس کے معنی یہ تھے کہ یقیناً قتل کر دیا جائے یا پھر راہ فرار اختیار کرے۔ اس کے ساتھیوں کے لیے ایک صورت تو یہ تھی کہ چپکے سے کھسک کر کمین گاہوں میں روپوش ہو جائیں اور اس وقت تک چھپے رہیں جب تک چینی انھیں بھول نہ جائیں، یا پھر یہ کریں کہ جہاں کہیں بھی ان کا سردار جائے یہ بھی اسی کے ساتھ لگے رہیں۔ قازقوں کا طریقہ ہمیشہ سے یہی رہا ہے۔ ہر لڑنے والے کو فرداً فرداً مکمل آزادی تھی کہ ان دونوں باتوں میں سے ایک کو پسند کر لے۔ ہر شخص جانتا تھا کہ اگر اس نے دوسری بات کو پسند کیا تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اپنے خیمے اور فصلیں اکھاڑے اور اپنے پورے خاندان، بیوی بچوں، اپنے گلوں اور ریوڑوں کو ساتھ لےکر کم از کم ایک ہزار میل کے سفر پر روانہ ہو جائے اور اس سفر میں ہر وقت خطرے سے دوچار ہونے کے لیے تیار رہے۔ یہ خطرہ چینیوں کی طرف سے بھی ہو سکتا تھا اور تبتیوں کی طرف سے بھی اور سب سے زیادہ اندیشہ بنجر صحراؤں اور پہاڑوں کی طرف سے ہو سکتا تھا کیونکہ ان کا راستہ انہی میں سے ہو کر جاتا تھا۔
بوکو بطور بہت بدقسمت تھا کہ وہ لاسا ایسے وقت میں پہنچا جب تبت کی تاریخ میں اس سے زیادہ چینیوں کا اقتدار پہلے کبھی نہیں تھا۔ ہمارا خیال ہے کہ اس نے اس خطرے کا احساس کر لیا تھا، جبھی تو اس نے عثمان کو الطائی واپس جانے کا حکم دیا تھا۔ ورنہ وہ اس لڑکے کو گھر واپس بھیج دینے کے بدلے ٹھیک ارض موعود تک اپنے ساتھ لے جاتا۔
عثمان نے اپنے گھر کی جانب سفر کارا شہر کے قریب سے شروع کیا تھا۔ یہ ایک فصیل دار شہر ہے۔ تئین شان پہاڑوں کے جنوبی دامنوں میں ایک جھیل کے کنارے۔ عثمان کے مسکن سےکارا شہر تین سو میل کے فاصلے پر ہے۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ گھوڑے پر اس نے یہ سفر ایک ہفتے میں طے کیا۔ اس سفر میں وہ مشہور شہر طرفان میں سے گزرا جو سطح سمندر سے ٩٦٠ فٹ نیچےایک وادی میں ہے۔ طرفان میں اتنی گرمی ہوتی ہے کہ یہاں کے عورت مرد صرف رات ہی کو کھیتی باڑی کر سکتے ہیں لیکن طرفان کے انگور دو انچ لمبے اور ایشیا بھر میں سب سے میٹھے اور رسیلے ہوتے ہیں۔ تربوز بھی یہاں کے اتنے ہی بڑے اور شیریں ہوتے ہیں۔
راستہ جیسا کچھ بھی تھا، کچھ تو مزروعہ زمینوں میں سے تھا اور کچھ لق و دق میدانوں اور صحراؤں میں سے۔ بعض مقام ایسے تھے کہ ان میں پتھریلی زمین پر سے گزرنا ہوتا تھا اور راہ کا تلاش کرنا مشکل ہو جاتا۔ لیکن اس کی نشاندہی اونٹ، گھوڑے اور دوسرے جانوروں کے وہ پنجر کرتے تھے جو تھوڑے تھوڑے سے فاصلے پر پڑے ہوتے۔ چیلوں اور گیدڑوں کی خوش نصیبی سے یہ جانور بیدم ہو کر گرتے اور مرتے رہتے۔ کبھی کبھی راستے کے کنارے پتھروں کا ایک ڈھیر سا نظر آتا جو زبان حال سے کہتا کہ میں تمھارے ہی طرح کے ایک انسان کی ڈھیری ہوں۔ اس راہ میں جو مسافر مر گیا وہ یہاں دفن ہے۔ تنہا مسافر کو خواہ وہ تجربہ کار ہی کیوں نہ ہو، جب ایسی راہ سفر اختیار کرنی پڑتی تو اسے اپنے ہوش و حواس ہر وقت قائم رکھنے پڑتے۔ اور عثمان کو جو ابھی صرف چودہ سال ہی کا تھا اور بھی زیادہ چوکنا رہنے کی ضرورت تھی۔ اس کی کچھ شہرت بھی ہو چلی تھی۔ اگر کوئی چینی افسر یا فوجی اسے دیکھ لیتا اور پوچھ بیٹھتا کہ تم اتنی کم عمر کے قازق اپنے گھر سے اتنی دور یہاں کیا کررہے ہو؟ تو شاید اس سے کوئی جواب نہ بن پڑتا۔ لہذا جب بھی وہ کسی فصیل دار شہر یا بازار میں اپنے اور گھوڑے کے لیے کھانا دانا خریدنے جاتا ہوگا تو ضرور اس کا دل لرزتا ہو گا، مگر جب دن گزرتے رہے ہوں گے اور وہ کسی ایسی پریشانی میں مبتلا نہ ہوا ہوگا تو اس کا خوف روز بروز کم ہوتا چلا گیا ہو گا۔
جب عثمان اپنے باپ کے خیمے پر پہنچا تو کوئی اچھا فربہ برہ اس کے لیے حلال نہیں کیا گیا، کیونکہ قازقوں کا یہ دستور نہیں ہے۔ اتنا لمبا سفر دشمنوں سے بچتے ہوئے طے کر لینے پر بھی اس کے باپ نے اسے مبارکباد نہیں دی۔ بلکہ اگر وہ سلامتی سے اس سفر کو طے نہ کرتا تو اسلام باعی اسے احمق قرار دیتا۔ اس کے علاوہ اسلام باعی کو اس کی احتیاط بھی رکھنی تھی کہ لوگ اس کے بیٹے کی غیر حاضری پر چہ میگوئیاں نہ شروع کر دیں اور کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی دغاباز یا محض افواہ باز چینیوں کو اس راز سے آگاہ کر دے۔
چنانچہ عثمان پھر اپنے باپ کے خیموں میں پہلے کی طرح رہنے لگا۔ گویا پچھلے بیس مہینوں میں کوئی غیر معمولی بات اسے پیش نہیں آئی تھی۔ اس کے واپس آ جانے کے بعد اکثر ایسا ہونے لگا کہ پڑاؤ میں اکثر انجانے آدمی آ جایا کرتے۔ انھیں عثمان پہچان جاتا لیکن اپنی واقفیت کا کوئی اظہار نہ کرتا۔ اس کا باپ قازقوں کی روایتی مہمان نوازی کے مطابق ان کی خاطر مدارت کرتا اور وہ اگلے دن صبح سویرے اس طرح رخصت ہو جاتے جیسے عثمان سے ان کی پہلی کوئی ملاقات نہیں ہے۔ لیکن عثمان کو وہ یہ باور کرا جاتے کہ وقت آنے پر وہ سب اس کی ایک آواز پر اس کے گرد جمع ہو جائیں گے اور چینیوں پر ٹوٹ پڑیں گے۔ عثمان ان کے نام اور مقام اپنے حافظے میں محفوظ کر لیتا اور انھیں کاغذ پر نہ لکھتا، تاکہ پرچول کرنے والی آنکھوں سے یہ راز بچا رہے۔ اسے کاغذ کا اعتبار نہیں تھا۔
ایسے ہی ایک مسافر سے عثمان نے پہلی بار سُنا کہ اس کے پیارے استاد کا سر قلم کر دیا گیا۔ اس کا کوئی ثبوت تو نہیں ہے لیکن یہ کہا جاتا ہے کہ عثمان نے جب یہ خبر سُنی تو اس نے قسم کھائی کہ میں بوکو بطور کی موت کا ہزار گُنا بدلہ لوں گا۔ اپنی زندگی کے بعد کے حصے میں اس نے اپنا یہ اصول بنا لیا تھا کہ مشرقی ترکستان سے چینیوں کا نام و نشان تک مٹا دینے کی کوشش میں لگا رہے۔ بوڑھے، بچے، عورتیں کسی پر ترس نہ کھائے اور ان سے کسی قسم کا معائدہ نہ کرے۔ یہ امر مشتبہ ہے کہ اس جارحانہ اصول کو عثمان نے پہلے اختیار کیا یا چینیوں نے، لیکن یہ ایک ایسا اصول ہے جسے دونوں فریقوں نے ١٩٤٤ء کے بعد بھی ترک نہیں کیا جب مشرقی ترکستان اور خود چین حصول خود مختاری کے لیے چینی اور روسی اشتراکیوں کی ملی جلی فوجوں سے برسرِ پیکار تھا۔
واپس آنے کے چند سال بعد تک عثمان ایک نوجوان قازق کی سی عام زندگی بسر کرتا رہا۔ وہ اپنے باپ کا ہاتھ بٹاتا۔ اپنی عمر کے نوجوانوں کے کھیلوں اور مقابلوں میں شریک ہوتا، نیم وحشی گھوڑوں کو پہاڑوں پر سے گھیر لاتا اور مقامی چینی افسروں کے دیے ہوئے نشان سے انھیں داغتا اور ان کا اندراج کراتا۔ شکاری شاہین جو اس کے گھر میں الطائی لومڑیوں کو شکار کرنے کے لیے پالے جاتے، ان کو سدھانا اس نے سیکھ لیا تھا۔ لومڑیوں کی کھالیں انھیں اپنے کپڑوں میں استر لگانے کے لیے درکار ہوتیں۔ وہ اپنے باپ کی بھیڑوں کا اون بھی کاٹتا، ترقی یافتہ ملکوں کی طرح نہیں کہ سال میں ایک دفعہ اون کاٹا جائے، جب اون خوب اچھی طرح بڑھ آئے بلکہ جب بھی مقامی بازار میں اون کے دام چڑھے ہوئے ہوں یا جب گھر والوں کو نمدے کی ضرورت ہو، اس کام کے لیے عثمان اپنے ایک ملازم سے کوئی ایسی بھیڑ پکڑواتا جس کا اون عرصے سے کاٹا نہ گیا ہو اور ایک بڑی سی قینچی سے، جس سےہمارے ہاں مالی گھاس کے چھوٹے قطعے تراشتے ہیں، اس کا اون کاٹ لیتا۔ ہمارے نقطۂ نظر سے یہ طریقہ بڑا سست اور نفع بخش بھی کم ہے، کیونکہ ایک بھیڑ کا اون کاٹنے میں عثمان کا ایک گھنٹہ صرف ہو جاتا تھا۔ لیکن ہماری ضرب المثل کی طرح قازقوں میں وقت اور دولت ہم معنی لفظ نہیں ہیں۔
جب عثمان کوئی سولہ برس کا ہوا، اس کی تاریخ پیدائش کسی کو معلوم نہیں ہے، تو اس کے باپ نے کہا “اب تمھیں اپنی شادی کی فکر کرنی چاہیے”۔
اسلام باعی نے کہا “میں نے اور تمھاری ماں نے اس معاملے پر بہت غور کیا ہے۔ یہ بالکل صحیح ہے کہ تم پہلونٹی کے ہو۔ تمھیں اس عمر میں شادی کر لینی چاہیے، جب تم بالغ ہو جاؤ تاکہ ہماری نسل ختم نہ ہونے پائے”۔
عثمان نے پوچھا “کیا کوئی مناسب رشتہ آپ کی نظر میں ہے؟”
اسلام باعی نے کہا “ہمارے پڑاؤ میں تو نہیں ہے، یہ تم بھی جانتے ہو؛ لیکن ایک لڑکی ہے جس کی تعریف سُنی ہے، باعی ملّا کی بیٹی۔ وہ ہے تو ہمارے قبیلے ہی کا، مگر ہمارا ہم خیال نہیں ہے۔ اس کی اور بھی کئی لڑکیاں ہیں، اس لیے وہ زرِ شادی زیادہ طلب نہیں کرے گا”۔
عثمان نے پوچھا “کیا قائنی میری محرم نہیں ہے؟ اگر ہے تو اس سے شادی نہیں ہو سکتی۔ شرع نے ایسے رشتے کو حرام قرار دیا ہے”۔
اسلام باعی نے کہا “تم جانتے ہی ہو، ہمارے قبیلے کا یہ رواج چلا آتا ہے کہ اگر چار پشتوں تک بھی ایک جَد نہ ہو جاتا ہو تو نکاح جائز سمجھا جاتا ہے اور وہ کیا مثل ہے: وہ جو اپنی سات پشتوں کے اجداد کے نام نہ بتا سکتا ہو، جھوٹا اور کافر ہے۔ آٹھ پشتوں تک باعی ملا کا اور میرا کوئی جد مشترک نہیں ہے”۔
عثمان کی ماں خاموش بیٹھی ان کی باتیں سُن رہی تھی، اب وہ بولی “جب میں نے تمھارے باپ سے شادی کی تو میں نے ملازمہ کی حیثیت سے ان کی والدہ کے خیمے میں پورے سال بھر شادی سے پہلے خدمت کی۔ پھر جب ملا نے ہم دونوں سے پوچھا: بتاؤ کیا تم دونوں کو یقین ہے کہ تم دونوں یک جا خوش و خرّم رہ سکو گے، تو ہم دونوں نے سچے دل سےکہا: ہاں”۔
اسلام باعی نے کہا “میری باعی بی شا، یہی تمھارے بیٹے کو بھی کرنا ہو گا۔ شادی ہونے تک لڑکی تمھارے خیمے میں ملازمہ کی طرح کام کرے گی۔ مگر ذرا اس کا خیال رکھنا کہ ان دونوں میں کوئی بے وقوفی کی حرکت نہ ہونے پائے، ورنہ مجھے تمھارے فرض کی عدم ادائیگی کی قیمت زر شادی کی صورت میں بھرنی پڑ جائے گی۔ اگر اس لڑکی نے خوشنودی حاصل نہیں کی تو وہ جیسی آئے گی اپنی ماں کو لوٹا دی جائے گی، اس سے آپس میں کسی قسم کا بگاڑ نہیں ہونے پائے گا۔ اور اگر اس لڑکی نے رضامندی حاصل کرلی تو ان دونوں کی شادی کر دی جائے گی”۔
لہذا شادی کرانے کے لیے ایک مناسب آدمی تلاش کر لیا گیا۔ اس نے پہلے عثمان باعی سے طویل اور مفصل گفتگو کی۔ اس کے بعد لڑکی کے باپ کے خیمے میں گیا اور یہ معلوم کیا کہ اپنی لڑکی دینے کے لیے اسے کتنے اونٹ، مویشی، بھیڑ، بکریاں یا گھوڑے لینے ہیں۔ باعی ملا کوئی تیس میل دور رہتا تھا اور رشتہ کرانے والے کو بڑی ہوشمندی اور سلیقہ شعاری کی ضرورت تھی، کیونکہ لڑکی والا ڈرتا تھا کہ لابان کی طرح مرے گرے مویشی پر کہیں لڑکی کا سودا نہ ہو جائے۔ اس لیے شرائط طے ہونے میں خاصی دیر لگ گئی۔ بہرحال یہ معاملہ بھی ختم ہو گیا مگر صرف آزمائش کی حد تک، کیونکہ قازقوں میں یہ رواج ہے کہ ناپسندیدگی کی صورت میں فریقین میں سے کوئی بھی رشتہ واپس لے سکتا ہے۔
لیکن قائنی شروع ہی سے ہر دلعزیزی حاصل کرنے لگی۔ عثمان کی خوشنودی بھی اس نے حاصل کر لی اور اس کے خیموں میں رہنے والوں کی بھی۔ وہ لکھنا پڑھنا جانتی تھی اور شعر کہنا اور گانا بھی جانتی تھی۔ اس کے علاوہ محنت مشقت سے جی نہیں چراتی تھی اور نہ صرف دستکاریوں میں ہوشیار تھی بلکہ ایک پُرانی گھسی گھسائی سنگر کی سلائی کی مشین سے بھی سی لیتی تھی۔ یہ مشین کسی قازق سردار نے کوئی چالیس سال پہلے اپنی بیویوں کے استعمال کے لیے منگائی تھی۔
ہمیں اس کا علم نہیں ہے کہ جب عثمان کی شادی ہوئی تو اس کی پہلی بیوی کی کیا عمر تھی اور نہ ہمیں یہ معلوم ہے کہ اس نے اپنی زندگی میں اور کتنی شادیاں کیں۔ اس کا البتہ ہمیں یقین ہے کہ کسی ایک وقت میں بھی اس کی چار سے زیادہ بیویاں نہیں تھیں، کیونکہ شریعت اسلامی میں ایک وقت میں اس سے زیادہ کی اجازت نہیں ہے اور عثمان اپنے مذہبی اصولوں پر سختی سے کاربند تھا۔ اس کی ایک بیوی اس کے ساتھ خیمہ میں رہتی تھی، باقی بیویوں کے اپنے الگ الگ خیمے تھے۔ قازقوں میں یہ بُرا سمجھا جاتا تھا کہ ایک خیمے میں دو بیویاں رہیں۔
قائنی یہاں آتے ہی بستر کی توشکیں، قالین، کشیدہ کاری کے پردے اور خاص خاص موقعوں پر پہننے کے لیے نفیس لباس تیار کرنے میں مصروف ہو گئی۔ اس عرصہ میں عثمان کے باپ اور ماں اور ملازم ان چیزوں کی فراہمی میں لگے رہے جو رواج کے مطابق دولہا کے ماں باپ کو مہیا کرنی پڑتی ہیں۔ انھوں نے کئی بھیڑوں کا اون اُتروایا، خیموں کے قریب جو چشمہ بہتا تھا اس میں اس اون کو دھو دھلا کر صاف کیا اور اسے زمین پر پھیلا دیا تاکہ اسے پیروں سے مالیدہ کر کے کوئی ¾ انچ موٹا نمدا بنا لیا جائے۔ اس نمدے کی ضرورت عثمان کے نئے خیمے کےلیے تھی۔ خیمے کے ہر حصے کے لیے اس کے فرش کے مطابق نمدا تھوڑا تھوڑا سا بنانا تھا تاکہ خشک ہونے پر اس کے سکڑنے کی گنجائش رہے۔ اون کو پانی میں بھگو کر خوب اونچا اونچا فرش پر پھیلایا گیا، پھر دنوں روزانہ کئی کئی گھنٹے ملازم ننگے پیروں سے اسے مالیدہ کرتے رہے اور حسب ضرورت اس میں اون کا اضافہ کرتے رہے، یہاں تک کہ وہ دب دبا کر خوب دبیز ہو گیا اور ایسا کہ ہوا اور بارش کا اس میں سے گزر نہ ہو۔ عثمان چونکہ ایک سردار کا بیٹا تھا اور اپنے حلقے کا خود بھی سردار تھا اس لیے وہ سفید خیمے میں رہتا تھا۔ جو اس سے کمتر درجے کے لوگ تھے وہ سیاہ یا مٹیالے خیموں میں رہتے تھے۔
جب شادی کا دن آیا تو ملا نے دولہا اور دلہن سے پوچھا “کیا تم دونوں یکجا خوش رہ سکو گے”۔ اس پر دونوں نے کہا “ہاں”۔ ملا نے ان دونوں کے میاں بیوی ہونے کا اعلان کر دیا۔ اس رات ایک بڑی ضیافت ہوئی جس میں دلہن والے اور دولہا والے اور یقیناً ملا جی بھی شریک ہوئے اور دولہا دلہن پہلی بار ایک علاحدہ خیمے میں سوئے۔ اگلے دن سے اسلام باعی کے ذاتی ملازم اور کارکن عثمان کے ماتحت نہیں رہے اور عثمان نے بھی ان سے کام لینا چھوڑ دیا۔ جب تک باپ جیتا رہا، عثمان کو ان پر کوئی اختیار نہیں رہا۔
عثمان کی شادی کو چند مہینے ہی ہوئے تھے کہ الطائی کے پہاڑی درّوں پر خفیف سی بدلیاں چھا گئیں۔ یہ بدلیاں اس دھماکے سے اٹھی تھیں جس نے چار پانچ ہزار میل دور زار کے ظلم و ستم کو برباد کر دیا۔ لیکن اس سے بھی بڑھ کر جبر و تعَدّی کی ایک اور حکومت قائم کر دی تھی۔ ١٩١٧ء کے اکتوبر میں جو انقلاب ہوا تھا (ہماری تقویم کے مطابق یہ مُبینہ انقلاب نومبر میں ہوا تھا) اس میں قازقستان کے تارکین وطن نائمان قازق قطار در قطار روسی چینی سرحد کو عبور کر کے آنے لگے۔ یہ مہاجر اپنے گلے اور ریوڑ لیے گروہ در گروہ آتے رہے۔ ان میں سے کچھ لوگ الطائی کے جنوب مغرب میں خُلدزاکی سرحد کو مصائب جھیل کر پار کر گئے۔ کچھ تارباغتائی پہاڑوں کو گرتے پڑتے پار کر گئے، جہاں سے زنگاریہ کو راستہ جاتا ہے۔ بعض ارتعشِ اسود کی وادی میں سے ہو کر آئے اور بعض خود الطائی کے بلند و پست کو طے کر کے آئے۔
مہاجروں کی یہ آمد اونٹ کی رفتار یعنی تین میل گھنٹہ کے حساب سے ہوتی رہی اور ایک سال سے زیادہ تک جاری رہی۔ یوں کوئی ایک لاکھ قازق موجودہ ممالک سوویت سے اٹھ کر مشرقی ترکستان میں داخل ہو گئے کیونکہ اشتراکیت ان کے روایتی طرز زندگی کےلیے ایک خطرہ ثابت ہونے لگی تھی۔ ان کے ساتھ ساتھ ان کے لاکھوں مویشی بھی تھے۔ اونٹ، گائے، بیل، بھیڑ، بکریاں اور گھوڑے۔ آخر میں ترکِ وطن کی یہ تحریک رُک گئی، کیونکہ لینن کے ماتحت اشتراکیوں نے ایک دم سے یہ ظاہر کرنا شروع کر دیا کہ روس چھوٹی قوموں اور وسطی ایشیا کی مقبوضہ آبادیوں کا پشت پناہ ہے۔ جب دس سال بعد اسٹالین نے اجتماعی زراعت کی تحریک شروع کی اور ناپسندیدہ کسانوں کو زبردستی کانوں اور کارخانوں میں دھکیلنا شروع کر دیا تو قازقوں نے پھر اپنے وطن سے نکلنا شروع کر دیا۔ اس دفعہ کوئی ڈھائی لاکھ قازق قافلے بنا بنا کر جنوب مشرق کی طرف چل کر اپنے خاندانوں، گلوں اور ریوڑوں سمیت مشرقی ترکستان میں پہنچ گئے۔ اس سے قازقستان جو ممالک متحدہ سوویت روس کی دوسری سب سے بڑی جمہوریت ہے، جانوروں سے تقریباً بالکل محروم ہو گیا۔ ١٩٣٣ء میں جب شنگ شی تسائی کی صوبہ داری میں روسی اشتراکیوں نے ان تارکین وطن کا بہت پیچھا لیا تو ان کے اکثر خاندان چند سال کے عرصہ میں دوبارہ سوویت قازقستان میں واپس آ گئے لیکن کچھ مشرقی ترکستان ہی میں رہ پڑے۔ ان میں سے کچھ لوگ تبت اور ہندوستان نکل گئے اور کسی نے ان کی روک ٹوک نہیں کی۔ جو ہندوستان پہنچ گئے وہ یہاں کے موسم کی تاب نہ لا سکے اور ان میں سے بہت سے مر گئے۔
عثمان نے یقیناً ان خانہ بربادوں کو چینی عملداری میں گھسٹتے دیکھا ہوگا اور وہ یہ بھی جانتا ہوگا کہ اشتراکی مظالم سے اپنے طرز زندگی کو بچانے کے لیے یہ مہاجر ایک امید موہوم پر اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے ہیں لیکن ان کی آمد اور ترک وطن کے سبب نے عثمان کو کچھ زیادہ متاثر نہیں کیا اور نہ ان سب قازقوں پر ان کا کوئی اثر ہوا جو ایک اور یعنی چینی جبر و تشدد کا شکار تھے۔ عثمان کی نظروں میں وہ چینی جن سے انھیں ہمیشہ سے سابقہ رہا تھا اب بھی قازقوں کے دشمن ہی تھے اور قازقوں کے دوست روسی تھے مگر دوست کس قسم کے تھے یہ آگے چل کر انھیں معلوم ہوا۔