ایسپیکٹ کے اور اس کے بعد ہونے والے تجربات دکھاتے ہیں کہ locality کا مفروضہ غلط تھا۔ کوانٹم دنیا locality کے اصول کی پیروی نہیں کرتی۔
اور اگر فزکس سے ملنے والی یہ خبر آپ کو برے طریقے سے جھنجھوڑ نہیں دیتی تو آپ شاید ابھی تک اس کو سمجھنے نہیں ہیں۔
دو آبجیکٹ، جو کہ دور ہوں، ایسی خاصیت کو شئیر کر سکتے ہیں جو کسی ان میں سے کسی ایک کی نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں پر یہ سوال کرنا فطری بات ہے کہ کیا یہ روشنی کی رفتار سے زیادہ پر انفارمیشن کی ترسیل کی خلاف ورزی نہیں؟ کیا اینٹینگل حالت سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا ہے کہ شوہر سے پوچھا گیا سوال اگر بیوی کی حالت بدل دیتا ہے تو اس سے پیغام رسانی نہیں ہو سکتی۔
اس کا جواب ہے کہ نہیں۔ بیوی کی حالت اور سوالات کا تعلق رینڈم ہے۔ جب تک جوابات کی فہرست کو ملایا نہیں جائے، تب تک اس پراسرار کوریلیشن کا علم نہیں ہوتا۔ اور یہ فہرست خود میں ایک کلاسیکل آبجیکٹ ہے جس کو روشنی سے تیزرفتار پر نہیں بھیجا جا سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسپیکٹ کے تجربے کا ایک اور مطلب بھی ہو سکتا تھا، جس کی بنیاد پر لوکیلیٹی کو زندہ رکھا جا سکے۔ کہیں کسی گہرے طریقے سے یہ فوٹون آپس میں رابطہ کر رہے ہیں اور یہ انفارمیشن ایک پارٹیکل سے دوسرے تک پہنچتی ہے۔ لیکن اگر ایسا ہو تو پھر آپس میں رابطہ کرنے کے لئے روشنی کی رفتار آڑے آتی ہے۔ اور اس کا مطلب وقت میں تاخیر ہو گا۔ اس کی پیمائش سوئچ کو فوٹون کے پہنچنے سے پہلے تبدیل کر کے کی گئی۔ اس سے نتیجہ واضح ہو گیا کہ نہیں، یہ فوٹون آپس میں کسی انفارمیشن کا تبادلہ نہیں کر رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئن سٹائن کا ایک انتہائی اہم پیپر تھا کیونکہ اس سے کوانٹم فزکس کا ایک غیرمتوقع پہلو سامنے آیا تھا۔ اگرچہ اس کی اہمیت کو سمجھنے میں کئی دہائیاں لگیں۔ اور اب تجرباتی طور پر اس کو سینکڑوں کلومیٹر کے فاصلے پر بھی ٹیسٹ کیا جا چکا ہے۔ اب یہ لیبارٹری میں حیرت میں ڈال دینے والے تجربے سے بڑھ کر نیچر کا مظہر ہے جس کو کام میں لایا جا سکتا ہے۔ کوانٹم کمپیوٹنگ میں بھی، اور کوانٹم مواصلاتی سیٹلائیٹ اس کا استعمال پیغامات کو محفوظ بنانے کے لئے کر رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئن سٹائن کا پہلا انقلابی پیپر 1905 میں آیا تھا جب وہ چھبیس سال کے تھے۔ تیس سال بعد ان کا یہ پیپر (EPR) آخری پیپر تھا جس نے فزکس کو ہلا دیا۔
کم ہی لوگ تین دہائیوں تک سائنس کی راہنمائی کر سکتے ہیں۔ آئن سٹائن نے اس کے بعد اپنی تلاش ترک نہیں کی۔ مزید دو دہائیاں وہ کوانٹم مکینکس سے آگے کی گہری تھیوری کی تلاش میں رہے۔ جس رات کا ہسپتال میں انتقال ہوا، تب بھی ان کی نوٹ بک ان کے پاس تھی۔ وہ ناکام رہے تھے اور اس کی سادہ وجہ تھی جو وہ کبھی نہیں سمجھ سکے۔ وہ یہ کہ ان کے لکھے ہر عظیم پیپر کے پیچھے جو مرکزی اصول تھا، یہ فزکس کے لوکل ہونے کا تھا۔ کمزوری یہاں پر تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب بیل نے اپنا پیپر شائع کیا، اس سے چند سال بعد ایک اور زیادہ طاقتور نتیجہ پبلش ہوا۔
بیل کے نتیجے میں ایک حیران کن چیز یہ نظر آتی ہے کہ الف سے پوچھے گئے سوال کے جواب کا انحصار اس پر ہے کہ بے سے پوچھا کیا گیا ہے۔ یہ شاکنگ اس لئے ہے کہ الف اور بے الگ جگہوں پر ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوکیلیٹی کی ضرورت نہیں لیکن نوٹ کریں کہ اس نتیجے کے لئے ان کو الگ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے حیران کن ہونے کی ایک اور وجہ بھی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم جانتے ہیں کہ پوزیشن اور مومینٹم جیسی خاصیتیوں کے جوڑوں میں سے ایک چیز کی پیمائش کی جا سکتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اگر ایک خاصیت کی پیمائش کئے جانا دوسری کو چھیڑ دیتا ہے۔ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سے فرق پڑتا ہے کہ کس خاصیت کی پیمائش پہلے کی گئی۔
لیکن الف اور بے کے معاملے میں ایسا نہیں۔ ان سے پوچھے گئے سوالات کی ترتیب سے فرق نہیں پڑتا۔ خواہ وہ دور ہوں یا ایک دوسرے کے ساتھ۔
اور اگرچہ ترتیب سے فرق نہیں پڑتا لیکن سوالات سے پڑتا ہے۔ الف جو جواب دے گا، اس کا انحصار اس پر ہے کہ بے سے پوچھا کیا گیا تھا۔
منحصر ہونے کے اس مظہر کو contextuality کہا جاتا ہے۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ الف کے جواب کا انحصار کسی مجموعی تناظر پر ہے۔
یہ ہمیں بتاتا ہے کہ نیچر خود contextual ہے۔ کوانٹم مکینکس ہمیں یہ بتاتی ہے اور تجربات اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ اس لئے کوانٹم مکینکس سے آگے کی کسی تھیوری میں بھی ایسا ہونا ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوانٹم مکینکس کی ایجاد چند معمے حل کرنے کے لئے ہوئی تھی۔ ریڈی ایشن، روشنی اور ایٹموں کے بارے میں ایسے تجرباتی نتائج تھے جن کو کوانٹم مکینکس نے سلجھایا تھا۔ لیکن یہ تین فینامینا ۔۔۔ entaglement, nonlocality, contextuality ۔۔۔۔ کہیں زیادہ الجھن پیدا کرتے ہیں۔
ان میں سے ہر ایک اتنا عجیب ہے کہ ان کی بنیاد پر آرگومنٹ دئے گئے تھے کہ کوانٹم مکینکس غلط ہے، کیونکہ یہ تینوں کوانٹم مکینکس کا لازمی نتیجہ تھے۔
اصل چونکا دینے والے چیز یہ تھی کہ بعد میں کئے گئے تجربات نے تھیوری کی پیشگوئی کی تصدیق کر دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یہ کوانٹم فزکس کے وہ تین پہلو ہیں جو رئیلزم کو درپیش سنگین چیلنج ہیں۔ نان لوکل اینٹینگمنٹ ایسے مفروضوں کو غلط ثابت کر دیتی ہے جس میں صرف مقامی فورسز کے تحت خاصیتیں تبدیل ہوتی ہوں۔
ہمارے پاس جو انتخاب ہے، وہ آسان ہے۔ یا تو کوانٹم مکینکس کو مکمل مان لیا جائے اور رئیلزم کو ترک کر دیا جائے۔ یا پھر یہ سمجھا جائے کہ نیچر لوکیلیٹی کی پابند کیوں نہیں اور اس سب کی تُک بنانے کی کوشش کی جائے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...