تین گھنٹے دماغ کے گھوڑے دوڑانے کے بعد بالآخر زہرہ کو سمجھ آ ہی گیا کہ منورہ کو کس ٹاپک پر پریکٹس کرانی ہے۔ اب وہ منورہ کا انتظار کر رہی تھی کہ کب ٹیوٹر اسے پڑھا کر جاۓ تو وہ اسکو ٹاپک کا بتاۓ۔ وقت گزاری کے لیے باہر آ گٸ جہاں اسکا چھوٹو سا دوست ارباز اپنے بھاٸ کا گھوڑا لایا ہوا تھا۔ ارباز پٹھان تھا یہ ننھا پٹھان زہرہ کو بہت پسند تھا جب وہ پٹھان لہجے میں بات کرتا تو زہرہ کا دل چاہتا یہ ایسے ہی باتیں کرتا رہے۔
ماٸدہ بیگم کو گھر میں جانور پالنا پسند نہیں تھا اسلٸیے زہرہ باوجود شوق کے گھر میں گھوڑا نہ رکھ پاٸ گھڑ سواری بھی اس نے ارباز کے بڑے بھاٸ شہباز سے سیکھی تھی چونکہ شہباز کو زہرہ ٹیوشن دیتی تھی تو اس نے اس کو سکھا دیا۔ ارباز نے زہرہ کو دیکھا تو اس کے پاس چلا آیا۔
زہرہ باجی تم آج اکیلا کیوں ہے۔ تمارا بَین کدھر ہے۔
وہ پڑھ رہی ہی تو میں بور ہو رہی تھی۔ یہ شہباز نیا گھوڑا لایا ہے ۔ میں اس پر بیٹھوں۔ زہرہ اشتیاق سے بولتی ہوٸ گھوڑے کے پاس جانے لگی کہ ارباز نے روک لیا۔
نہ نہ باجی یہ گھوڑا بوت خبیث کا بچہ ہے کسی کو بھی بیٹھنے نَیں دیتا۔ شہباز نے بوت مشکل سے یاں تک لایا ہے اور دیکھو اسکو باندھ کے گیا ہے۔ ارباز اسکو سمجھاتے ہوۓ بولا۔
تم اسکی فکر نہ کرو چھوٹے خان میں ہینڈل کر لوں گی اور دوسری بات تم کو منع کیا تھا نہ گالیاں مت دیا کرو۔
مگر باجییی ام نے کب گالی دیا۔ ارباز حیران سا بولا۔
ابھی جو تم خبیث کا بچہ کہہ رہے تھے۔
اچھا باجی اب ام گالی نی دے گا اگر دیا تو تم بے شک ام کو جوتے سے مارنا۔
زہرہ کو اسکی بات سن کر ہنسی تو بہت آٸ مگر ضبط کر گٸ۔ چلو ٹھیک ہے آٸندہ مت دینا۔
اوۓۓۓ باجیییییی نَٸیں جاٶ یہ گھوڑا تم کو گرا دے گا پھر شہباز لالہ ام کو مارے گا۔
کچھ نہیں کہے گا اگر شہباز اسکو قابو کر سکتا ہے تو پھر زہرہ بھی کر سکتی ہے اب تم چپ ہو جاٶ اور اُدھر جا کر بیٹھ جاٶ۔ اور ہاں یہ فون رکھو اور اس میں ویڈیو بنانا پھر میں سٹیٹس لگاٶں گی۔ زہرہ خضر دی گریٹ نے جنگلی گھوڑے کی سواری کی۔
اووو باجی خوابوں سے بار آ جاٶ ام تم کو بتا رہا ہے یہ گھوڑا تم کو گراۓ گا۔ پھر تم کیا لکھے گا کہ جنگلی گھوڑے کو قابو کرتے زہرہ زخمی ہو گٸ آپ سب دعا کرو۔ ارباز بتیسی نکالتا ہوا بولا۔
اوۓ خان کے بچے چپ چاپ ویڈیو بناٶ۔
خیر زہرہ پھنے خان بنی گھوڑے کی رسی کھول چکی تھی جبکہ ارباز نے کیمرہ سیٹ کر دیا تھا ۔
جیسے ہی زہرہ نے رسی کھولی تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔
******************************
اگلی صبح ہیری جانے کے لیے تیار تھا دو گھنٹوں بعد اسکی فلاٸٹ تھی۔
مام بابا نکلنا ہے ابھی۔۔۔۔ مگر ابھی کیوں فلاٸٹ تو دو گھنٹے بعد کی ہے نہ۔
جی بابا مگر پہلے مجھے ہیڈ کوارٹر جانا ہے ۔ اسکے بعد وہی سے نکل جاٶں گا۔
چلو ٹھیک ہی پھر جاٶ اللہ کی امان میں۔ ہیری ہارون صاحب سے مل کر ندا بیگم کے پاس آیا۔
مام کیا آپ ابھی تک مجھ سے ناراض ہیں ایسے تو میں نہیں جا پاٶں گا۔
نہیں میں ناراض نہیں ہوں بس تم یہ یاد رکھنا کہ تمہاری ماں تمہیں نہیں کھو سکتی۔ ندا بیگم جذباتی ہو رہی تھی تو ہیری شرارتی انداز میں بولا۔
اگر ملک کو پیارا ہونے کے بجاۓ میں کسی لڑکی کو پیارا ہو گیا تو آپ کو تو پتا ہی ہے نہ کہ آپ کا بیٹا کتنا ہینڈسم ہے۔
ایک لگاٶں گی تم کو کبھی سدھرنا مت تم۔
جاٶ اللہ تمہیں کامیاب کرۓ۔ ندا بیگم نے سر پہ بوسہ دیتے ہوۓ کہا تو یہ پل ہیری کو بھی کمزور کر گیا وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ واپس لوٹے گا یا نہیں ۔
تو میری ماں کو کیا چاہیے پاکستان سے ۔
ماں کو پاکستان سے اپنا بیٹا سلامت چاہیے۔ ندا بیگم کھوٸ کھوٸ بولیں۔
مام میں آپ ہر خوشی لا کر دوں گا۔ یہ عہد اس نے خود سے باندھا تھا۔ اس کے ذمے دو عہد تھے جو اسے ہر حال میں نبھانے تھے۔
ماں باپ سے مل کر ہیری باہر آیا تو دیکھا جیکی اداس سا بیٹھا تھا۔ اسے جیکی پر بے انتہا پیار آیا جو اس کے لیے اداس ہو رہا تھا۔ سچ میں محبت میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ یہ کسی کو بھی آپ کا کر سکتی ہے۔
ارے چیمپ اب تم نے مجھے رلانے کا ارادہ کیا ہے کیا چل موڈ ٹھیک کر پھر ہم سیلفیز لیں۔ جیکی دم ہلا تا کھڑا ہو گیا کیونکہ جیکی سیلفیز کا دیوانہ تھا پھر چاہے اسکا موڈ کیسا بھی کیوں نہ ہو سیلفی سے بالکل ٹھیک ہو جاتا تھا۔
وہ دونوں پوز بنا رہے تھے کہ ہیری کو لینے گاڑی آ پہنچی۔ سو وہ بیگ اٹھاۓ گھر پر الوداعی نظر ڈالتا روانہ ہو گیا۔
******************************
زہرہ نے جیسے ہی رسی کھولی گھوڑا دوڑنے لگ گیا ساتھ میں زہرہ میں گھسیٹی جا رہی تھی۔ اب منظر کچھ یوں لگ رہا تھا جیسے زہرہ گھوڑے کے گلے لگی ہوٸ ہے اور گھوڑا کسی ہیرو کی طرح دوڑا چلا جا رہا ہے۔منظر خوفناک تھا مگر دیکھنے والوں کے لیے کسی انٹرٹینمنٹ شو سے کم نہ تھا۔ زہرہ چلا رہی تھی جبکہ ارباز ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہا تھا۔
اووو باجییییییی گھوڑے کو قابو کرو تم یہ کونسا کرتب کر رہا ہے۔ ارباز کے لیے یہ خوفناک نہ تھا کیونکہ گھوڑے کے ساتھ ایسے لٹکنا اس کا مشغلہ تھا پہلی دفعہ حادثاتی طور پر جبکہ بعد میں اس کے لیے کھیل بن گیا تھا ۔ مگر زہرہ کے لیے یہ تجربہ نیا تھا وہ گھڑ سواری میں ماہر تھی مگر گھوڑا اتھرا تھا اس سے رک نہیں رہا تھا۔
شکر خدا کا کہ گھوڑا چڑھاٸ یا اتراٸ کے بجاۓ سیدھے راستے پر بھاگ رہا تھا۔ ورنہ زہرہ کا کیا ہوتا یہ تو اسکو بھی نہیں پتہ تھا۔
یا اللہ جی اس بار بچا لیں آٸندہ میری توبہ جو میں اس خبیث کے بچے پر بیٹھوں۔ ڈر اور غصے کی وجہ سے وہ بھی ارباز کی طرح ہی بول رہی تھی۔ اوۓ ارباز مجھے بچاٶ زہرہ چلا رہی تھی۔
مگر نہ جی ارباز صاحب تو کیمرہ مین بنے ویڈیو بنا رہے تھے۔
اوۓ باجی اگر تم اس طرح چلاۓ گا تو پھر تم نہیں یہ گھوڑا ہیرو بن جاۓ گا اس لیے شور نہ کرو۔
بیغیرت انسان کمینے ہو تم بہت۔ توبہ توبہ باجی ام تو سوچتا تھا تم اچھی لڑکی ہے مگر تم بھی گالیاں نکالتاہے وہ بھی ام کو ام کو تو لالہ نے بھی کبھی کمینہ نَٸیں کہا چلو بیغیرت کے لیے ام تم کو معاف کر دیتا ہے کیونکہ مورے بھی ام کو بےغیرت کہہ دیتا ہے کبھی کبھی مگر تم ام کو کمینہ بھی کہہ رہا ہے جاٶ ام تمارا ویڈیو نَٸیں بناۓ گا۔ چھوٹا خان ناراض ہو کر جا چکا تھا۔
زہرہ رونے والی تھی کہ اچانک شہباز آتا دکھاٸ دیا اس نے جب صورتحال دیکھی تو فوراً سے پہلے پہنچ کر گھوڑے کو روکا جو گول چکر میں ہی بھاگتا جا رہا تھا۔
گھوڑے کو روکا تو زہرہ جس کی ہمت جواب دے گٸ تھی دھڑام کر کے نیچے گری اور پیر میں موچ لگوا بیٹھی۔
باجی ام نے ارباز کو منع کیا تھا کہ گھوڑے پر کوٸ نہ بیٹھے اس نے بتایا نہیں کیا۔
شہباز غصے میں تھا۔
اس نے بتایا تھا مگر میں ضد کر کے بیٹھی تھی۔ زہرہ آنسو صاف کرتے ہوۓ بولی اب بھی وہیں پہ بیٹھی ہوٸ تھی۔
ارباز پہ اس وقت اسے بہت غصہ تھا مگر پھر بھی اسے صاف بچا گٸ کیونکہ شہباز غصے کا تیز تھا اور اسوقت جتنے غصے میں تھا ارباز کی خیر نہیں تھی۔
چلو باجی ام تم کو گھر چھوڑ دے۔ زہرہ نے اٹھنے کی کوشش کی مگر اٹھ نہ سکی۔
خان میرا پیر درد کر رہا ہے میں نہیں چل سکتی۔ زہرہ روہانسے لہجے میں بولی۔
اوہ تو اب تم کیسے جاۓ گا اچھا ام تمارے گھر سے کسی کو بلا کے لاتا ہے۔ شہباڑ چلا گیا کچھ ہی دیر بعد پریشان سے خضر صاحب آ گۓ وہ ابھی ڈیوٹی آف کر کے آۓ تھے تبھی اب تک یونیفارم میں تھے۔
زہرہ بیٹا کیسے چوٹ لگ گٸ آپ کو ؟؟؟؟ خضر صاحب از حد پریشان تھے وہ دونوں بیٹیوں کو کانٹا چبھتا بھی نہ دیکھ سکتے تھے۔
کچھ نہیں بابا بس میرا پیر مڑ گیا تھا۔ زہرہ کی آواز بھراٸ ہوٸ تھی چیخ چیخ کر گلا بیٹھ گیا تھا۔
خضر صاحب نے اسے اٹھایا اور گھر لے آۓ شہباز نے اسکا فون پکڑایا اور اپنے گھر چلا گیا جہاں اب ارباز کی تھوڑی بہت کلاس لگنی تھی۔
**********************************
خضر صاحب زہرہ کو گھر لاۓ تو ڈاکٹر پہلے ہی موجود تھا جب شہباز انھیں بلانے آیا تو ماٸدہ بیگم نے ڈاکٹر کو کال کر دی۔
جانتی تھیں زہرہ میڈم کوٸ بڑی چوٹ ہی لگوا کر بیٹھی ہوں گی۔
ڈاکٹر میڈیسن لکھ کر دیتا آرام کرنے کی ہدایت دیتا چلا گیا۔ ماٸدہ بیگم نے اسکے لیے ہلدی والا دودھ لایا اور وہ جو اتنی دیر سے ڈاکٹر کی وجہ سے خاموش تھیں ڈانٹنا شروع ہو گٸیں۔ اس دوران زہرہ خاموشی سے دودھ پیتی رہی آدھا گھنٹہ تمیز و تہزیب کا لیکچر سننے کے بعد بے زار سی بولی۔
مما میں اب آرام کر لوں ڈاکٹر آرام کا کہہ کر گۓ ہیں۔ اور ماٸدہ بیگم کا تو بس نہیں چل رہا تھا اسکا چہرہ تھپڑوں سے لال کر دیں۔ ڈھیٹ کہیں کی۔۔۔۔۔
اور زہرہ منہ بناتی لیٹ گٸ ایک حادثہ بھی میرے ساتھ ہوا اور لیکچر بھی میں ہی سنوں پتہ نہیں وہ کونسی ماٸیں ہوتی ہیں جو رو رو کر ہلکان ہو جاتی ہیں ۔ ایک میری ماں ہیں انکا بس چلے تو میرا دوسرا پیر بھی توڑ دیں اور ساتھ میں باتیں الگ سے سناٸیں۔ ہونہہ
زہرہ کے اپنے ہی غم تھے۔
*************************************
خضر صاحب روم میں آۓ تو دیکھا یونٹ سے کال تھی۔ مطلب انکا بلاوا آیا تھا۔ وہ ماٸدہ بیگم کو انفارم کرتے چلے گۓ۔
یونٹ پہنچے تو ان کے دوست جنرل ابراہیم موجود تھے۔ جنرل ابراہیم راولپنڈی ہیڈ کوارٹر میں تھے۔
واٹ آ پلیزنٹ سرپراٸز آپ یہاں کیسے؟؟؟ سب خیریت ہے نہ۔۔۔۔
یار تمہیں تو پتا ہے ہم فوجی بہت کم ہی خیریت کی خبر لاتے ہیں۔ کہیں نہ کہیں کوٸ نہ کوٸ مسٸلہ سر اٹھاۓ ہی رہتا ہے۔
ہاں وہ تو ہے مگر اس وقت ۔۔۔۔۔۔
ہممممممم چاٸنہ نے اپنا بہت ہی قابل آفیسر بھیجا ہے تا کہ وہ یہاں رہ کر یہاں کے حالات کا چاٸنہ کو بتاۓ تاکہ کل کو پاک سر زمین پہ یہ الزام نہ آۓ کہ ہم نے خود سے جھوٹی خبریں بنا کر ہمدردی بٹوری ہے۔ بھارت کی پست ذہنی سے کون واقف نہیں ہے۔
مگر دھیان رہے اس بات کا پتہ کسی کو نہ چلے ہم نہیں چاہتے ہمارے مہمان کو کسی مصیبت کا سامنا کرنا پڑے۔ یہ اسکی فاٸل ہے جس میں ساری ڈیٹیلز ہیں دو دن میں وہ یہاں پہنچ جاۓ گا۔
اوکے یو ڈونٹ وری میں خیال رکھوں گا۔
گڈ فوج کو تم پہ فخر ہے۔
اوکے اب میں نکلتا ہو ٹیک کٸیر۔ وہ سیلوٹ کرتے چلے گۓ۔
جبکہ خضر صاحب فاٸل اسٹڈی کرنے لگے۔ جوں جوں وہ انفارمیشن پڑھتے جا رہے تھے ان کے چہرے کا رنگ تبدیل ہو رہا تھا۔
ہارون ندا اتنے عرصے کے بعد ہیری کی ڈیٹیلز میں ان دونوں کی تصویریں بھی تھیں جن کے بعد شک کی گنجاٸش ہی نہ تھی۔
یا اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے انکا بھانجا آرہا تھا وہ اپنے رب کا جتنا شکر کرتے کم تھا۔ بےشک اللہ کے ہر کام میں مصلحت پوشیدہ ہے۔
انھوں نے اسی وقت ہیڈ کوارٹر میں رپورٹ کر دی کہ آنے والا مہمان ان کے گھر ٹھہرے گا۔ سارے بات سننے کے بعد اجازت دے دی گٸ۔
وہ خوشی خوشی گھر آۓ یہ خوشخبری انھیں اپنی ہمسفر سے بانٹنی جو تھی۔
***************************
منورہ زہرہ کے فون میں وہ ویڈیو دیکھ رہی تھی جو ارباز نے بناٸ تھی۔ اور باوجود کوشش کے اپنی ہنسی روک نہیں پا رہی تھی جبکہ زہرہ اسے کھا جانے والی نظروں سے گھور رہی تھی۔
اوکے منو شاید تم نے پارٹیسیپیٹ نہیں کرنا اسکول فنکشن میں۔ زہرہ دھمکاتے ہوۓ بولی۔
نہیں نہیں اپیا ام سوری اب نہیں ہنسوں گی پرامس۔
تو کیا آپ نے ٹاپک سوچا۔
ہاں سوچ لیا۔ زہرہ اطمینان سے بولی۔
واٹ؟؟؟؟؟ اپیا آپ نے بتایا کیوں نہیں ۔
بتانا تھا پر تم بزی تھی پھر یہ سب ہو گیا۔
اچھا تو پھر بتاٸیں نہ۔
میں ضرور بتاٶں گی مگر تب جب تم میرے لیے آٸسکریم لے کر آٶ گی۔ چلو شاباش اٹھو اور لے کر آٶ۔
مگر اپیا یہ چیٹنگ ہے اور ویسے بھی سردی میں آپ آٸسکریم کھاٸیں گی تو بیمار ہو جاٸیں گی۔ منورہ کو اسوقت اٹھ کے جانا سوہان روح لگ رہا تھا۔
اوکے پھر میں سونے لگی ہوں ویسے بھی ابھی فنکشن میں ایک مہینہ پڑا ہے۔ وہ اسے دھمکا رہی تھی اور منورہ جانتی تھی کہ اگر ابھی اسکی بات نہیں مانی تو وہ ایک ہفتے تک نہیں بتاۓ گی۔ اسلٸیے ناچار اسے اٹھنا پڑا اور جا کر آٸسکریم لے آٸ۔
چلیں اب بتاٸیں۔ منورہ بے صبری سے بولی۔
صبر مجھے پہلے کھا تو لینے دو۔
اپیاااااااا۔۔۔۔۔۔ اوکے اوکے بتا رہی ہوں تم مجھے بہرا کر دو۔
تو ٹاپک ہے۔
Thumblina……