سیمنٹ سے بنی دیواروں والے کمرے میں لکڑی کی چھت پر لگے پرانے بوسیدہ پنکھے کی گڑ گڑ پورے گھر میں گونج رہی تھی ۔۔حبس والی گرمی میں یقینا اس تاریخی پنکھے کی ہوا نا ہونے کے برابر تھی ۔۔
روفہ نے ایک نظر رمشا کو دیکھا جو عینک ناک کے آخری کونے پر ٹکائے قمیض کی ترپائی کرنے میں پوری طرح محو تھیں ۔۔۔پھر مایوسی سے اپنی چارپائی کے دائیں والی چاپائی کی طرف دیکھا جہاں سیف ساکت سے پڑے تھے ۔
” اماں آپ کی اور میری پورے مہینے کی کمائی ملا کر بھی صرف چودہ ہزار ہوئے ہیں ۔۔”
اس کی آواز میں تھکاوٹ سی تھی ۔۔رمشا کی انگلی میں اچانک ہی سوئی چبھ گئی ۔۔مگر وہ ہمیشہ کی طرح درد پی گئی تھیں ۔۔
” ہاں تو ۔۔رات کے اس پہر یہ بات کرنے کا کیا مقصد ۔۔سو جا اب سویرے آڈر بھی تو تیار کرنا ہے ۔۔”
لاپروائی سے بولیں ۔۔۔روفہ ان کے بات کا رخ موڑنے پر گھورنے لگی ۔۔
” اب اتنی بھی انجان نا بنو اماں ابو جی کے ٹیسٹ اور باقی دوائیوں کے خرچے کے لیے انیس ہزار چائیے اور اس ماہ تو چودہ ہزار ہی بڑی مشکل سے جمع ہوئے ہیں ۔۔۔”
رمشا نے ترپائی کرنے کے بعد قمیض کے گلے پر بٹن لگانے شروع کردئیے ۔۔وہ اس کی باتوں پر توجہ نہیں دینا چاہتی تھیں ۔۔روفہ نے ان کی عدم توہجی پر آنکھیں موند لیں ۔۔
” صبح مجھے چار بجے اٹھا دینا ”
نیند بھری آواز میں ہلکا سا بڑبڑائی ۔۔سیف کے بستر پر ہل چل سی ہوئی تھی ۔۔روفہ نے رخ موڑا تو وہ ماتھے پر بل ڈالے جیسے کچھ بولنا چاہ رہے تھے ۔۔مگر اس امر میں بلکل قاصر تھے ۔۔وہ افسردگی سے رخ موڑ گئی ۔۔۔۔
” اتنی سویرے اٹھ کر کیا کرنا ہے تم نے ۔۔ابھی ایک بج رہا ہے تین گھنٹے کی نیند سے تم نے بیمار ہو جانا ہے ۔۔میں نہیں اٹھانے والی ۔۔”
نفی میں سر ہلا کر انکار کیا ۔۔
” کیوں ۔۔یہ دیکھو ابو جی کو دوائی کی کمی سے جھٹکے لگ رہے ہیں اور آپ کیا چاہتی ہو میں اپنے فالج زدہ باپ کو یوں چھوڑ کر بے حس بن کر نیندیں پوری کروں ۔۔اور نیند تو نا جانے میں نے کتنے عرصے سے پوری نہیں کی ۔مجھے اب فرق نہیں پڑتا ۔۔”
دھیمی آواز میں برہمی سے کہا ۔۔رمشا کو ایک بار پھر ملال سا ہونے لگا ۔۔۔اس کا ہر لفظ سچا مگر کڑوا تھا ۔۔
” اب اٹھا دینا صبح ۔۔جتنی جلدی اٹھوں گی اتنے زیادہ سموسے بن جائیں گے ۔۔میں نے مکھن بھائی سے بات کرلی تھی کل کیا پتا سترہ ہزار تک بات بن جائے ۔۔”
اس کی ہلکی سی سرگوشی گونجی ۔۔۔
رمشا نے اپنی والی چارپائی سے اٹھ کر سیف کی چارپائی کی جانب رخ کیا ۔۔ان کی بےجان آنکھیں لکڑی کی چھت پر بنے چڑیا کے گھونسے پر ٹکی تھیں ۔۔۔احتیاط اور نرمی سے سیف کو کروٹ دلوائی ۔۔
ساتھ پڑی لوہے کی کالی میز سے دوائی کی شیشی اٹھائی جس میں چند قطرے محلول کے باقی تھے ۔۔
سیف کے کمزور وجود سے اذیت سی آنکھوں میں جاگی تھی ۔۔شوہر کی بیماری نے وقت سے پہلے نڈھال اور بوڑھا کردیا تھا ۔۔
روفہ کی گہری سانسیں اس چھوٹے سے کمرے میں گونجنے لگی ۔۔۔
” روفہ بچے معاف کردینا ہم دونوں کو ۔۔۔تمہیں وقت سے پہلے بڑا کردیا ہم نے ۔۔”
اس کے دزار بالوں میں ہاتھ پھیر کر دل میں بولیں ۔۔آنکھوں کے نیچے سیاہ ہلکے اس کی ذہنی بیماری کا پتا دیتے تھے ۔رمشا کو یاد نا پڑتا تھا کبھی اس کے چہرے سے یہ ہلکے غائیب ہوئے ہوں ۔۔۔
کل صبح پھر ایک تھکا دینے والے دن کی شروعات ہونی تھی کوہلو کے بیل کی طرح دونوں ماں بیٹی دن رات محنت کرکے گھر چلاتی تھیں ۔۔
مگر حالات کو رحم پھر بھی نا آتا تھا ۔۔۔
♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢
ڈائینگ ٹیبل پر بیٹھے سب نفوس عالم ملک اور فضا کے انتظار میں ناشنے سے روکے بیٹھے تھے ۔۔اس گھر میں جب تک تمام نفوس موجود نا ہوتے کوئی بھی کھانا شروع نہیں کرتا تھا ۔۔
جلیس نے چوتھی بار کلائی میں پہنی گھڑی دیکھ کر ہائیسم کو اشارے کیے ۔۔۔مگر وہ بھی کندھے اچکا کر رہ گیا ۔۔۔ترتیل کی مسلسل نظریں جلیس کے تیکھے نقوش میں الجھی ہوئی تھیں ۔۔
مگر وہ ہمیشہ کی طرح اس سے بے نیاز موبائیل میں گم تھا ۔۔ہائیسم سے ترتیل کی آنکھوں کا زوایہ اس میں بسے جذبات چپھے نہیں تھے ۔۔آج بھی ترتیل کے جلیس کو لے کر جذبات اس کو سلگا گئے تھے ۔۔
فودیل اس سب سے بے پرواہ اپنے شو کی ٹائیمنگ اپنے سیکٹری سے طے کرنے میں مشغول تھا ۔۔۔
” کیا ہوا بابا آپ اکیلے ہی آگئے ۔۔۔ماما کدھر ہیں ۔۔وہ نہیں آئیں ۔۔ ”
ہائیسم کے سوال پر وہ چپ سے کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئے ۔۔
” آج پھر انہوں نے اپنی طبیعت خراب کر لی ہے ۔پتا نہیں خود کو تکلیف دے کر کیا ملتا ہے انہیں ۔۔”
وہ فضا کی وجہ سے سخت پریشان الجھے ہوئے تھے ۔۔
سب ہی سمجھ گئے تھے وہ کیوں آج پھر بیمار ہوگئی تھیں ۔۔۔یہ آج سے نہیں سالوں سے چلتا آرہا تھا ۔۔
” آخر چھوٹی ماما سمجھتی کیوں نہیں ہیں جو ہو گیا سو گیا ۔۔اب اس کو بدلا نہیں جاسکتا ۔۔یہ سب کرکے وہ سب کے ساتھ ہمیں بھی ٹینشن دیتی ہیں ۔۔”
ناگوار سے لہجے میں بول کر ترتیل کو سینڈوچ کھلانا شروع کردیا ۔۔
فودیل کی بات سوائے ترتیل کے ان تینوں کو کھلی تھی ۔۔
” Faudeel just watch your tongue ..how can you say that .as you know every thing very well…”
ہائیسم نے سپاٹ چہرے سے فودیل کو دیکھا جو اس وقت صرف ترتیل کو ناشتہ کرانے میں مگن ۔۔وہ دونوں صرف چچا زاد نا تھے ایک دوسرے کے بہتریں دوست بھی تھے مگر سب جاننے کے باوجود بھی فودیل کی بات نے اس کو تکلیف دی تھی ۔۔
” دیہان سے کھاو ترتیل پہلے ہی کالج سے کافی لیٹ ہوگئی تم ۔۔اور بیگ کہاں ہے تمہارا آٹھ بج گئے ہیں ۔۔جوس پیو جلدی ۔۔”
جلیس کی بات کو نظرانداز کیے وہ بس اپنی بہن میں گم تھا ۔
اپنی بہن اس کو ہر چیز سے بڑھ کر عزیز تھی ۔۔وجہ اس کی معذوری تھی ۔۔وہ پیدائیشی طور پر دائیں ہاتھ سے مفلوج تھی ۔۔جس کی وجہ سے ایک کل وقتی ملازمہ اس کے ساتھ ہما وقت رہتی نہیں تو وہ اپنی مصروفیت کی بنا پر اس کا بھرپور دیہان رکھتا ۔۔۔
” ترتیل کو ملازمہ بھی کھلا سکتی ہے فودیل تمہیں شاید آفس سے دیر ہورہی ہے ۔۔کہیں ایسا نا ہو تمہارے نانا تمہیں فائر کر دیں ۔۔”
جلیس نے تاک کر وار کیا ۔۔
ترتیل کو یہ بات اپنے محبوب کے منہ سے تیر کی طرح چبھی تھی ۔۔۔
” میں جانتا ہوں مجھے کب کیا کرنا ہے تمہیں بتانے کی ضروت نہیں ۔۔”
لب بھینجے بھڑک کر بولا ۔۔عالم ملک نے دونوں کو ڈانٹ کر چپ کر وادیا ۔۔۔ہائیسم اٹھ کر جا چکا تھا ۔۔اس وقت فودیل اور جلیس کی باتیں اس کو بہت ہی گراں گزر رہی تھیں ۔۔۔
” چلیں بابا میں آپ کو آفس چھوڑ دوں ۔۔بھائی تو چلے گئے ہیں ۔۔آج ویسے بھی مجھے بلڈنگ کا تعمیراتی کام دیکھنے جانا ہے ۔۔”
عالم بھی جلیس کے ہمراہی میں ہی چلے گئے پیچھے وہ دونوں بھائی بہن ہی بچے تھے ۔۔
” آپ جلیس سے لڑائی مت کیا کریں بھائیو۔۔مجھے اچھا نہیں لگتا ۔۔”
شکائیتی سے انداز میں بولی ۔۔فودیل نے چونک کر خود سے چھ سال چھوٹی بہن کو دیکھا ۔۔
” کیوں ۔۔میں کیوں نا لڑا کروں اس سے ۔۔تم نے ایسا کیوں بولا تالی ۔۔۔”
تفتیشی انداز میں اس کی تھوڑی پکڑ کر جھکا سر اٹھایا ۔۔کچھ غلط ہونے کا احساس سا جاگا تھا ۔۔
” مجھے اچھا نہیں لگتا ۔۔جب آپ ان سے لڑتے ہیں ۔۔جب آپ ایک دوسرے پر غصہ کرتے ہیں میرا دل جلتا ہے ۔۔برداشت نہیں ہوتا ۔۔مجھے سمجھ نہیں آتا کون صحیح ہے کون غلط ۔۔۔”
اور یہاں فودیل نے لب بھینجے تھے ۔۔شک تو بہت پہلے سے تھا مگر آج تصدیق بھی ہوگئی تھی ۔۔۔
مگر اپنی بہن کی قسمت سے ہمیشہ اس کو ایک خوف سا کچوکے لگاتا تھا ۔۔اس کی چاند سی بہن پر اس کے ہاتھ کی معذوری ایک بدنما دھبا تھی ۔۔۔
” اپنی پڑھائی پر توجہ دو ترتیل ۔۔فل حال یہ ہی سب کے حق میں بہتر ہے ۔۔جلیس جیسا ستارہ ہر ایک کے بخت کو نہیں چمکایا کرتا ۔۔۔چلو اب ۔۔۔”
ڈھکے چپھے لفظوں میں بہت کچھ کہا تھا جس کو وہ سمجھ کر بھی انجان ہی رہی تھی ۔۔۔۔۔
♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢
کیچن میں سیمنٹ کی شلیف پر پڑے چولہے پر ایک بڑے سے پتیلے میں آلو ابل رہے تھے ۔۔۔اس کی تپش سے یہ کیچن کم تندور زیادہ لگ رہا تھا ۔۔۔خود وہ ٹوٹے فرش پر پیڑھی پر بیٹھی پرات میں میدے کا آٹا گوند رہی تھی ۔۔۔جس کی بعد میں وہ سموسے کی پٹیاں بنانے والی تھی ۔۔
اپنے دائیں طرف پڑی پلیٹ میں ایک موٹی سی کتاب رکھی ہوئی تھی ۔۔جس پر وقفے وقفے سے وہ نظر مار لیتی اور دو تین لائنیں ذہن میں بٹھا لیتی ۔۔۔
آٹا گوند کر اب ابلے آلو چھیلنے لگی گرم ہونے کی وجہ ہاتھ جل کر سرخ پڑ گئے تھے ۔۔مگر اس کو گرم ہی چھیلنے
کی عادت تھی ۔۔یہ وقتی جلن اس کا کچھ نا بگاڑ سکتی تھی ۔۔۔
نمک دانی کھول کر ایک آلو کو لال مرچیں اور نمک لگا کر ساتھ ساتھ کھانے لگی اتنی صبح ناشتہ بنانے میں وقت لگ جاتا اس لیے آلو سے ہی پیٹ پوجا کرنے لگی ۔۔۔
ٹھاہ کی دھمک کے ساتھ اندر آتی ہدا نے سٹیل کا جگ ہڑبڑی میں گر دیا ۔۔۔
” در فٹے منہ تیرے ہدا ۔۔۔سارا جک ڈینگا کر دیا ۔۔۔اماں پرسوں ہی جمعہ بازار سے لائیں تھیں ۔اتنی سویرے کیا لینے آئی ہے تجھے اپنے گھر چین نہیں پڑتا ۔۔اچھاااااا لگ گئی سمجھ مجھے ۔۔۔۔میں تجھے بتا رہی ہوں میں نے ایک آلو بھی تجھے نہیں دینا ۔۔چمٹے مارنے ہیں تیرے ہاتھ پر۔۔ اگر تو نے کالی نظر رکھی آلو پر ۔۔۔”
ہدا دل پر ہاتھ رکھے سانس بحال کرنے میں لگی تھی جوکہ بری طرح پھول چکا تھا ۔۔۔۔۔
” دفعہ دور میں تیرے کاروبار پر بری نظر رکھوں گی ۔۔بچپن کی سہیلی کم بہن ہوں تیری ۔۔اگر تیری محبت میں دو چار سمسے اور ایک آدھ آلو کھا بھی لیئے تو کیا ہوا ۔۔اب طعنے دے گی تو مجھے ۔۔”
خفگی اپنے عروج پر تھی ۔۔روفہ نے ہاتھ ہوا میں مار کر آلو کو بڑی سی پرات میں مسلنا شروع کر دیا ۔۔۔۔
” ہائےےےے اوو ربا ۔۔جو میں کہنے آئی تھی تیری بک بک میں تو بھول ہی گئی بالکل ۔۔”
” کیا کہنے آئی تھی جلدی بول ٹائیم نہیں ہے میرے پاس ابھی پٹیاں بھی بنانی ہیں ۔۔”
پاس پڑے کپڑے سے ہاتھ صاف کیے ۔۔اب اس کا دیھان کتاب پر تھا ۔۔
” وہ نا پوری گلی میں روفہ روفہ ہورہی ہے ۔۔تو پورے محلے میں مشہور ہوگئی ہے ۔۔بلکہ پورے شہر میں ۔۔ہائے قسم سے میں نے جب دیکھا تو میرا تو منہ ہی کھل گیا اور وہ مکھن وہ تو بے ہوش ہونے والا تھا ۔۔”
روفہ کے پلے ککھ بھی نا پڑا تھا ۔۔
” ہدا میں نے اب یہ ڈوئی تجھے مارنی ہے سیدھی طرح بول ۔۔مجھے اب پریشانی ہو رہی ہے ۔۔”
ہدا کے سسپنس پر اس کا پارہ ہائی ہوا تھا ۔۔۔
” ارے اوو میری کملی سہیلی پورے محلے میں بلکہ جگہ جگہ تیرے بینر لگے ہیں ۔۔ایف اے لاہور بورڈ میں پہلی پوزیشن آئی ہے تیری ۔۔۔ چل میرے ساتھ آ کے زرا باہر ایک نظر مار ”
روفہ چھلانگ مار کر اٹھی تھی اب کی بار سٹیل کا جگ اس سے نیچے گرا تھا مگر اس نے نظر پھیر کر دیکھنے کی غلطی نا کی تھی ۔۔۔۔
اندرونے لاہور کی بے حد تنگ ٹوٹی گلی میں کھڑی روفہ اپنی آنکھوں میں جگنو سموئے اپنی سفید ڈوپٹے میں تصویر دیکھ رہی تھی ۔۔جس کے ساتھ بڑے بڑے حروف میں اس کے نمبر چمک رہے تھے ۔۔۔
بے یقینی سی یقینی سی ۔۔۔بوسیدہ مکانوں کی دیواروں پر لگی تصویر کے بینر روفہ کو اپنے بخت کے ست رنگی چمکتے سنہری ورق لگے تھے ۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...