سیاہ چشمے کی بائیں جانب کے کھلے حصے میں سے وہ اسے چپکے چپکے دیکھ رہی تھی، جو خود میں گم گارہاتھااور ساتھ ساتھ گٹار بھی بجارہاتھا۔ گاڑی کے ہلکوروں کے ساتھ اس کے ماتھے پر آگے کو لاکر پیچھے کی طرف سجائے گئے بال بھی جھول جاتے۔ اس نے قلمیں بڑھا رکھی تھیں جو کم عمری کے سبب گوزیادہ گھنی نہ تھیں مگر کسی نہ کسی طرح اس کے پسندیدہ اور بیسویں صدی کے سب سے بڑے مغربی گلوکارکے بالوں کے اسٹائل سے ملتی تھیں کہ اسٹیج پر ایک کردار کی ادائیگی کے لیے اسے بال اس کی طرح رکھنا تھے۔شہر کے اسکولوں میں وہ سب سے خوش گلوفنکارچناگیاتھا۔
مقابلے کی تیاریوں کے دوران اس نے ایک دن ماں کو اس گانے کی وجہ تسمیہ بتائی تھی کہ ایک ہوٹل میں کسی نامعلوم نوجوان نے ایک پرزے پر ایک سطر لکھ چھوڑی تھی ’میں ایک تنہا راستے کامسافر ہوں۔‘کسی نے اسی حادثے سے متاثر ہوکر یہ گانا لکھاتھا۔
’’دیکھئے نامام۔۔۔کس طرح ایک نامعلوم نوجوان اتنے بڑے Master Pieceکی بنیاد بن گیا۔ کیاہوا ہوگا اسے۔۔۔میں کبھی کبھی سوچتاہوں۔۔۔ کیوں کی ہوگی اس نے خودکشی۔۔۔وہ کیوں تھا اکیلا۔۔۔ کیااسے۔۔۔ کوئی سمجھتانہیں ہوگا۔۔۔ یا پھر۔۔۔‘‘
راحیل کی لمبی لمبی انگلیاں گٹارکے تاروں پر ٹھہر گئی تھیں۔
’’نہیں بیٹا۔۔۔کبھی کبھی انسان کسی شدید جذباتی دباؤ کے زیراثر سوچ نہیں پاتااچھی طرح۔۔۔ او راس کمزور پل میں اس طرح کی حرکت۔۔۔کر گزرتاہے۔۔۔‘‘
نائلہ کا ممتابھرادل پل پھر کو کانپ سا گیاتھا۔
’’تووہ لمحہ۔۔۔انسان باہمت ہو تو۔۔۔ٹال سکتاہے۔۔۔ اور اگر ٹل جائے۔۔۔ تو ایسا حادثہ کبھی نہ ہو۔۔۔‘‘
تمہیں تومیں سمجھتی ہوں میرے بچے۔۔۔ کوئی سمجھے نہ سمجھے۔۔۔ میں تو تمہارے ساتھ ہوں۔۔۔
گاڑی میں بیٹھی نائلہ سوچتی رہی اور آہستہ سے گردن بائیں جانب موڑ کر اُسے دیکھنے لگی۔ راحیل نے بے رنگ چشمہ پہن رکھاتھا۔اُس میں سے اس کی بند آنکھیں نظر آرہی تھیں۔ چہرے کے تاثرات میں گردوپیش سے بے خبری کاعالم تھا۔۔۔ مگر دونوں ہاتھوں کی محتاط انگلیاں نہایت ماہرانہ انداز میں گٹارکے سخت تاروں کو کچھ ایسی نرمی سے چھیڑ رہی تھیں کہ سُر بادلوں کی طرح فضامیں تیر رہے تھے۔اس نے بیحد سریلا نغمہ چھیڑرکھاتھا۔ اسے پریکٹس کے لیے اپنے گروپ کے باقی ساتھیوں سے ملنے ایک دوست کے وہاں جاناتھا۔نائلہ کو بھی راستے میں ایک جگہ اترناتھا۔ وہ اس کے ساتھ پچھلی نشست پر بیٹھی اس کے گیتوں سے محظوظ ہو رہی تھی۔پھر اس نے ایک تیز دھن والا گانا شروع کیا۔
وہ بالکل مغربی انداز میں، کبھی بے حد اونچے سُر میں تان کھینچتااور کبھی ٹھڈی حلق سے لگاکربھاری سی غراہٹ نما آواز میں گاکر منھ بڑاساکھول دیتااور کبھی ایک دم چوڑا کرکے تمام دانتوں کو نمایا ں کرتاہوا زور دار آواز میں نعرہ سا لگاکر کچھ پل خاموش ہوکر دائیں بائیں دیکھتااور پھر یکلخت دوبارہ دھیمے سُرسے شروع کرکے اونچے سُر تک جاپہنچتا۔
اس عمل کامشاہدہ نائلہ کے لیے نہایت دلچسپ عمل تھا۔ جب وہ چہرے کے سارے پٹھے تان کر دانتوں کی نمائش کرکے ماتھے پر بہت سے آڑے بل ڈال کر کوئی سُر ادا کرتاتو اسے بے تحاشا ہنسی آجاتی جسے وہ بسیار ضبط سے چھپالیتی۔
Put a chain around my neck
And lead me everywhere
So let me be your teddy bear
کیاگارہاہے۔۔۔میرا ٹیڈی بیئر۔۔۔
نائلہ کادل کرتااس سے کہے۔۔۔ ابھی کل تک گول مٹول ساٹیڈی بیئر تھا،وہ سوچتی۔۔۔ دبلا پتلا، لمبا ہوگیا۔۔۔ساری جان گانے کی ادائیگی میں لگانے سے اس کی گردن پر پسینے کی بوندیں چمکنے لگتیں۔ حالانکہ گاڑی کے اندر ٹھنڈک تھی۔پھر نائلہ کا جی چاہتاکہ پرس میں سے رومال نکال کر اس کے چہرے اور گلے پر سے پسینہ پونچھ لے۔ اس سے پہلے کے نائلہ کی منزل آجائے، سرخ ٹی شرٹ میں چھپے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر اس کالمس اپنی ہتھیلی میں محفوظ کرلے۔مگر اس کے پاس ایسا کوئی بہانہ نہ تھاکہ اسے چھولیتی۔
کہ وہ ناراض تھااس سے ۔۔۔شاید۔۔۔مگر اتنے دنوں۔۔۔کیوں۔۔۔ آخر۔
کیاوہ خود بھی اس جیسی تھی۔۔۔
نائلہ سوچنے لگتی۔راحیل کی ثابت قدمی پراسے خوشی ہوتی۔
اُسے تصویر بنانے کا شوق تھا۔
’’اُف،اف۔۔۔گناہ۔۔۔گناہِ کبیرہ۔۔۔‘‘ اماں سرپر آنچل درست کرتی جانے کب آکر اس کے عقب میں کھڑی ہوجاتیں۔
’’ایک تو پڑھائی نہیں کرتی۔۔۔دوسرا۔۔۔ یہ۔۔۔ شکلیں۔۔۔ اللہ۔۔۔ یہ اولاد۔۔۔ جہنم رسیدکروائے گی۔۔۔‘‘ چوری پکڑے جانے سے وہ شرمندہ سی ہوکر رہ جاتی۔
’’اپنی باجی کو دیکھو۔۔۔اوّل آتی ہے اکثر ہی۔۔۔ ورنہ دوئم تو ضروری ہی۔۔۔ اور تم۔۔۔ پڑھوگی نہیں تو فیل ہوجاؤگی۔۔۔ میں نے ہی بگاڑاہے شاید تمہیں۔۔۔‘‘
’’اماں۔۔۔یہ تو۔۔۔ڈرائنگ ہے۔۔۔ اسکول میں۔۔۔‘‘
’’جھوٹ تونہیں بولتیں۔۔۔؟تمہارے ابا سچ کہتے ہیں۔۔۔ کہ میرا ہی قصورہے۔۔۔ تمہاری ہربات مان لیتی۔۔۔ہوں۔۔۔‘‘
’’جھوٹ ہی توبولاجارہاہے۔۔۔ یقینا۔۔۔‘‘ابّاکی آواز پتھر کی طرح کان میں پڑتی۔۔۔ نائلہ پتھر سی دیکھا کرتی۔
’’کہاں لے جائیں گی یہ لکیریں۔۔۔یہ تصویریں تم کو۔۔۔؟‘‘
اباجانے کیسے اسی وقت گھر میں داخل ہوتے۔
’’یہ شریف لڑکیوں کاچلن نہیں ہے۔۔۔‘‘وہ چہرہ اس کی طرف اور نظریں دوسری جانب کرکے کہتے اور چلے جاتے اور اماں پاؤں پٹختی ہوئی ان کے پیچھے۔ایسے میں کتناغصہ آتاتھا۔۔۔ اُسے۔۔۔ دونوں پر۔
جیومیٹری کی کاپی کے سادہ ورق پربنے رنگ برنگے چہرے پر اس کے دو آنسوٹپ سے گرتے۔ پانی کارنگ پانی میں گھل کر بے رنگ سا ہونے لگتا۔ رونے کی خواہش گلے کے اندرپھندا سا ڈالنے لگتی۔
’’اتنی محنت سے۔۔۔میں نے ۔۔۔خراب ہوگئی تصویر۔۔۔یہ اباّ۔۔۔یہ ابّا۔۔۔آخر ہیں ہی کیوں۔۔۔ سب کچھ تو ہوتاہے اماں کے پاس۔۔۔ کھانا۔۔۔جیب خرچ۔۔۔ کتابو ں کے پیسے۔۔۔ کاپیوں کے۔۔۔کاپیوں کے پیسے۔۔۔ اتنے سارے۔۔۔ پھر ابّا بھلا کیوں۔۔۔ رعب جمانے کے لیے۔۔۔ اللہ کرے۔۔۔ اللہ کرے۔۔۔ اللہ کرے۔۔۔کہ ۔۔اللہ نہ کرے۔۔ ایسا سوچتا ہے کوئی اپنے ابا کے لئے۔۔۔‘‘
جانے یہ کس کی آواز تھی۔۔۔آواز تھی بھی یا۔۔۔ جو بھی تھی مگر نائلہ نے سن لی تھی۔۔۔
شاید پہلے کبھی سنی تھی اس نے یہ آواز۔
تصویریں بناناجاری رہا۔۔۔آرٹ فائل مہینے میں دوبارباقاعدگی کے ساتھ گم ہوجایا کرتی ۔۔۔ رنگ اسکول کے ساتھی استعمال کرلیتے تو بے چاری نائلہ کیا کرتی۔۔۔ جواز معقول ہواکرتا۔۔۔ اورامی کی تھوڑی سی ڈانٹ اور تنبیہہ کے عوض ایک نئی آرٹ فائل۔۔۔سودا مہنگا نہیں تھا۔بلکہ کبھی کبھی توکس قدرفائدہ مند۔۔۔
پیلے رنگ کے پتلے ٹین کے مستطیل ڈبے میں بارہ خانے مختلف رنگوں کے۔۔۔ اور ساتھ میں نرم ونازک سنہری بالوں والا موقلم۔۔۔ تصوّرمیں بسی ہزار شبیہات۔۔۔ کمرے کی تنہائی۔۔۔ اب جنت میں بھی کیاہوتا ہوگا۔
زندگی جنت سے بھی حسین تھی۔مگر دنیاکی ہر جنت کی طرح عارضی۔۔۔ کہ اس کے سارے رنگ، راز اور تصوّر طشت از بام ہوگئے۔اسے آج بھی کتنا دکھ ہوتاہے یاد کرکے۔۔۔
گاڑی رک گئی تھا۔نائلہ نے ٹھنڈی آہ بھری اور ونڈوکے باہر دیکھنے لگی۔ سرخ روشنائی سے لکھے Relaxکے دائرے پر باجی کاچہرہ نظر آیا۔۔۔ اس کادل جیسے کہ خود کلامی کرنے لگا۔
ہفتے کادن تھا۔اسکول میں آدھے دن کے بعد چھٹی ہواکرتی تھی۔
باجی دو دن سے کہہ رہی تھیں کہ ان کی ہفتے اور اتوار کی دو دِن کی چھٹی ہے اور وہ اما ں کے ساتھ مل کر میرا کمرا صاف کروائیں گی۔
’’میراکمرہ صاف ہے بالکل‘‘ میں نے باجی کی آنکھوں میں جانے کون سی چمک سے نظریں چراکرکہا تھا۔
’’تم کیاجانو۔۔۔ اپنے پاؤں کے تلوے دیکھو۔۔۔ میں جانتی ہوں کیاصحیح ہے۔۔۔‘‘ انہوں نے ’میں‘ پر زور دیاتھا۔ آخر کو مجھ سے پانچ، چھ برس بڑی تھیں۔
’’رہنے دیجئے ناباجی۔۔۔اگلے ہفتے کرلیں گے۔۔۔ یا اتوارکو میری بھی چھٹی ہوگی نا۔۔۔ تو۔۔۔‘‘
مجھے اپنے کام نہیں ہیں کیااتوارکو۔۔۔؟‘‘ باجی گردن مٹکاتیں۔
’’ٹھیک کہتی ہیں باجی۔۔تم زیادہ دخل مت دو۔‘‘ اماں کو جب باجی پر زیادہ پیار آتا۔ تو اسے باجی بلایا کرتی تھیں۔۔۔ اماں کی یہ بات مجھے بالکل اچھی نہیں لگتی تھی۔۔۔ ‘‘
’’اچھا چلو۔۔۔ اتوارکو ہی کرلیں گے۔۔۔ انہوں نے نہایت حاکمانہ انداز میں رحم کھاکر کہااور اپنے کمرے کی طرف چل دیں۔۔۔
مگرایسا نہیں ہوا۔۔۔باجی۔۔۔دھوکے باز باجی۔۔۔
میں کسی ٹکٹ یافتہ مجرم کی طرح بیٹھک کے دروازے سے لگی تھی۔ تھانے کی دیواروں پر چسپاں جرائم پیشہ افراد کی تصویروں کی طرح میز پرمیری چار آرٹ فائلوں کے موٹے موٹے ورق بکھرے تھے۔ بے شمار چہرے لیے ہوئے۔۔۔ کہیں بڑے۔۔۔کہیں چھوٹے۔۔۔ کوئی بزرگ۔۔۔ کوئی بچہ۔نرم تاثرات لیے ہوئے، دودھ پہنچانے والے حاجی صاحب گوالے کاچہرہ۔۔۔ میری حساب کی سنگدل ٹیچر کاناراض چہرہ۔۔۔ بڑے دانتوں والے چوکیدار بابا کاچہرہ۔۔۔ روتی ہوئی چھوٹی سی لڑکی کا بسورتاہوا۔۔۔ کوئی مسکراتا۔۔۔ کوئی غصہ ور۔۔۔ کوئی گنجا۔۔۔ کہیں لمبے لمبے بالوں والی عورت کا۔۔۔گورا۔۔۔ کالا۔۔۔ ہر چہرہ مجھے اپنے چہرے کی طرح عزیز تھا۔
’’یہ سب کیاہے۔۔۔؟‘‘ابّاکی آنکھیں ابلی پڑ رہی تھیں۔انہوں نے میزپر اپنالمبابازوایک جھٹکے سے جھاڑو کی طرح پھیردیا۔لمبے سے فراک کے اندر میرے گھٹنے کانپ کانپ کرایک دوسرے کے ساتھ ٹکراتے رہے۔
اور بعدمیں باجی کے قبضے میں چلے گئے۔چہرے لہراتے لڑھکتے فرش پر بکھر گئے۔
اماں نے مجھ سے بات کرناترک کیا۔
حساب کے پرچوں میں بمشکل تمام پاس ہونے کی بجائے۔۔۔ میں فیل ہوگئی۔۔۔ اورتعجب کی بات یہ کہ باجی کو پہلے ہی پتاتھاکہ جو سوال وہ مجھے کروارہی تھیں امتحان میں وہی سوالات غلط کرکے میں فیل ہوجاؤں گی۔
دوبارہ باجی کی تحویل میں دینے سے پہلے ابّانے ایک نہایت تجربہ کاراور سینئر قسم کے حساب داں استاد کاانتظام کیاکہ باجی کے خود امتحان سرپر تھے۔
حساب کے استاد گھر آنے لگے۔
ماسٹرجی کے پیلے دانتوں پرہر وقت رالیں جمع رہتیں۔ منھ سے ریشم کے لچھوں ایسے نئے نویلے چوزوں کے درمیان جوں کے تو ں پڑے رہ جانے والے انڈے کی سی بدبو آتی جنہیں باجی مجھے سنگھانے کے بعد پیٹ پکڑ کر دوہری ہوکے ہنساکرتی تھیں۔ اور جیسے چوزوں کے استقبال کے لیے ٹوکری کے گرد کوٹھری میں کھڑی میں اماں کے چہرے پر لاتعلق سی مسکراہٹ دیکھ کر بجھ سی جایاکرتی۔ اس سے کہیں زیادہ تکلیف مجھے ماسٹرجی کے پاس قیامت جیسا ایک گھنٹہ گزارنے میں ہوتی۔
اکثرسرپرسے شملے والا صافہ اتارکرماسٹرجی دونوں ہاتھوں کے میلے ناخنوں سے اپنا گنجاسرکھجاتے ہوئے منھ کھول کھول کر جمائیاں لیتے او رالجبراکے زبانی یادفارمولے دوہراتے ہوئے آنکھیں بندکرکے سمجھایاکرتے۔
جیسے تیسے مڈل اسکول ہوا۔
باجی نے گھر میں مشورہ دیاکہ اگر آرٹس پڑھوں گی تو ڈرائنگ توکرناہی ہوگی۔۔۔ اور سارا وقت میں ڈرائنگ کرتی رہوں گی تو پڑھوں گی کہاں۔۔۔ ا س لیے نویں درجے میں میڈیکل پڑھایاجائے او ریہ کہ وہ مجھے خود گائید کریں گی۔۔۔ کہ آخر ان کی میڈیکل کی پڑھائی کس دن کام آئے گی۔۔۔ کہ۔۔۔ کہ روز GoodیاExcellentملتاتھاانہیں پریکٹیکل کاپی پر۔
گھر میں کوئی نہیں جانتاتھاکہ جس دن باجی نے میری رَف کاپی پر ماسٹر جی کاجمائی لیتے ہوئے سر کھجاتاہواچہرہ دیکھاتھا، اسی دن یہ معاہدہ ہواتھاکہ اگر میں ان کی سائنس کی ڈایگرامز بنایاکروں تو وہ کسی سے نہیں کہیں گی کہ میں نے چہرے بنانے میں دوبارہ وقت ضائع کرنا شروع کردیاہے۔
’’یہ تو۔۔۔بالکل۔۔۔لگتاہے ابھی ہاتھ نیچے کرکے آنکھیں کھولیں گے اور سوال چیک کریں گے۔۔۔ تمہاری کاپی پر۔۔۔‘‘
باجی کئی لمحوں تک تصویرکو دیکھتی رہی تھیں۔۔۔
’’اب تو تم بالکل اصلی صورت جیسا۔۔۔ خیر۔۔۔ یہ کوئی اچھی بات تو ہے نہیں۔۔۔ اماں تو تمہیں کوئی کام تک نہیں بتاتیں کہ وقت نہ ضائع ہو۔۔۔ ویسے۔۔۔ میری ڈایگرامز میں ایسا کوئی وقت نہیں لگے گا۔۔۔ او رپھر میں ان سے کچھ۔۔۔ کہوں گی بھی نہیں۔‘‘
بہرحال۔۔۔
میری ہمدردباجی۔۔۔میں Mathsمیں Nil،PhysicsکےProblemsکیسے Solveکروں گی۔
مجھے سائنس سے ذرا دلچسپی نہیں۔۔ ۔میں کیا پڑھوں گی۔
مگرباجی جو تھیں پڑھانے والی۔
وہ میری استاد مقرر ہوئیں تو ان کامجھے بلاوجہ پیٹنا بھی جائز ہوگیا۔۔۔
چہرے جانے کہاں چلے گئے۔۔۔ اماں کاچہرہ ناراض۔۔۔ اباکاچہرہ مجھے دیکھتے ہی رنگ بدلتا۔۔۔ باجی کا چہرہ۔۔۔ فاتح سے تاثرات لیے۔۔۔ اور میراچہرہ۔۔۔ آئینے میں نظر ہی نہ آتا۔۔۔
تمہیں تمہاری شخصیت مبارک ہو۔۔۔
نائلہ نے پہلو میں بیٹھے راحیل کو کنکھیوں سے دیکھا۔
موسیقی میں گم گردوپیش سے بے خبریہ چہرہ مبارک ہو۔۔۔
اس نے ڈرائیونگ سیٖٹ کے سامنے اوپر کی جانب لگے چھوٹے سے آئینے میں راحیل کی بند آنکھیں دیکھ کر دل ہی دل میں کہا۔
نواں درجہ کسی طرح ہوہی گیاتھا۔
نائلہ سوچنے لگی۔۔۔۔۔۔۔Physiologyکے Diagramsنے کہانی کی طرح سمجھے انسانی نظام کی Descriptionمیں بہت مدد دی۔ ریاضی اور فزکس میں فیل۔۔۔ باقی تمام میں اول۔۔۔
یہ تھا دسویں جماعت کے ششماہی امتحان کانتیجہ۔ اور بورڈ کے امتحانات میں شامل ہونے کے لیے ان سب میں پاس ہونا ضروری تھا۔ بڑی مشکل سے ان پرچوں میں دوبارہ امتحان دینے کی اجازت ملی اور پاس کرلیے مگربورڈس میں اگر ایک بھی مضمون میں پاس نہ ہوئے تو پورے امتحان میں فیل ہونالازمی تھا۔اور پھر سال ضائع ہوجانا طے تھا۔
اور میں تین سال لگاتار پرائیویٹ امتحان دیتی اور فیل ہوتی گئی۔
نئی نئی لیکچرر ہوئی باجی کو جب لڑکے کی اماں اور خالہ دیکھنے آئیں تو چھوٹے صاحبزادے کے لیے، جو پڑھائی چھوڑ کر بھائی کی دکان میں خاصاکام سنبھال لیتے تھے، مجھ پر غور ہوا۔
باجی کے سسرال جانے کے بعد کی آزادی کے تصور میں مگن اور مسرور میں اماں کا پیازی رنگ کا کامدانی دوپٹہ اوڑھے برفی کی طشتری لیے اندر داخل ہوئی تو دونوں بزرگ خواتین نے مجھے باری باری چونک کر دیکھاتھا۔
فیصلہ یہ ہواکہ ایک کندذہن لڑکی کو پڑھانے کی کوشش میں مزید وقت ضائع کرناحماقت ہوگا۔رشتے کو قدرت کی طرف سے اشارہ سمجھ کر قبول کرلیاجائے۔
سارے چہرے روٹھ گئے مجھ سے․․․․
زندگی کے افق پرایک نیاچہرہ ابھرا۔اس کا گھر سنبھالنے میں سارا آرٹ خوب کام آیا۔ اور پھر سگھڑ نکلی میں۔۔۔ کہ جیٹھ جی کی پروفیسر بیوی کی غیر موجودگی میں مجھے گھرکاہرکام خوش اسلوبی سے نبھانے کی ہدایت تھی۔ اور وہ کبھی کبھی بہ آواز بلند خداکاشکر کرتیں کہ کم از کم یہ ذرا سا سلیقہ تو پیداہوامجھ میں۔۔۔ جومیں نے ان ہی کی صحبت میں سیکھاتھا۔۔۔کیونکہ پڑھنے میں مصروف و مشغول ہونے کے باعث انہیں مجھے ہی کام کاج سمجھانا پڑاہے مائیکے میں۔۔۔
اس سے زیادہ وہ کربھی کیاسکتی تھیں کیونکہ جب میری ہی دلچسپی تعلیم میں نہیں تھی تو انہوں نے مجھے گھر سنبھالنے لائق بنانے میں محنت کی۔
رات کے کھانے کی میز پر پھولی ہوئی گرم گرم چتکبری روٹیاں میرے ہاتھ سے لیتے وقت، ان سب باتوں کاانہوں نے کئی دفعہ کھلے دل سے اعتراف کیاہے۔
کھلے دل والی باجی۔۔۔
راحیل نے دوبارہ وہی سریلا نغمہ چھیڑاتونائلہ پھولی ہوئی روٹی چھوڑکر گاڑی کی پچھلی نشست پر لوٹ آئی۔
Since my baby left me
I found out a place to dwell
Its, down at the end of a lonely street
Of heart break hotel
وہ بالکل ایلوس پریسلی کی طرح سرہلارہاتھا۔ دھن بھی دل میں اترے جاتی تھی۔۔۔ آج راحیل کی آواز میں نائلہ نے درد محسوس کیاتھا۔ گانے کااس کے بعد کا حصہ نائلہ کو اور اُداس کرے گا۔۔۔ وہ جانتی تھی۔اور شاید راحیل بھی جانتاتھا۔ اس نے آواز ذرا دھیمی کرلی۔ یہ گانا اسے بہت پسند تھا۔اور اسے اسٹیج پر بھی گانا تھا۔اسے گاتے وقت اداس ہوجانا بھی اچھا لگتاتھا۔
You make me so lonely baby
I get so lonely
You make me so lonely
I could die
نائلہ رنجیدہ نظر آرہی تھی۔۔۔
خدانہ کرے۔۔۔میرے فنکار۔۔۔ آخری لائن سن کر اس نے دل میں کہا۔
آج بہت اداس ہے راحیل۔۔۔ وہ سوچنے لگی۔
اس کاباپ اس سے بہت خفاہے۔۔۔ اور باپ کی ہاں میں ہاں اگر نہ ملائی جائے تو بچے خراب ہوجاتے ہیں۔ باجی نے کہاہے۔
’’میں نے اسے گٹارکیوں لے کر دی۔
میں نے اسے میوزک اسکول کیوں بھیجا۔
شاموں کو بورن ویٹا والا دودھ ہاتھ میں لیے اس کے کمرے کے دروازے کے قریب کھڑے ہوکے اس کا گٹار سن سن کر اس کی حوصلہ افزائی کیوں کی۔
میں ماں ہوں۔۔۔کہ دشمن۔۔۔شرم نہیں آئی مجھے۔
اپناانجام بھول گئی۔۔۔میں۔۔۔
باجی، راحیل کے نویں جماعت کے ششماہی امتحان میں ریاضی کے۱۰۰میں سے ۳۴نمبر دیکھ کر اونچی آوازمیں سمجھا رہی تھیں۔ آوازیں سن کر گھر کے دوسرے لوگ بھی آگئے تو مارے ہمدردی کے باجی کی آواز گلوگیر ہوگئی تھی۔
“O just shut up.”وہ چیخاتھا۔یہ مام کا زمانہ نہیں ہے۔۔۔ شاید اس کی نظروں میں میرا اس کی کاپی کے کورپر پنسل سے کھنچاہوااس کاگٹاربجاتا اسکیچ گھوم گیاتھا۔جودوسال سے اس نے اپنی میز کی دراز میں رکھاہے۔
“just do’nt interfere in my life“وہ اسکول سے ملارپورٹ کارڈ لے کر کمرے سے جانے لگاتو اس کے باپ نے اس کے چہرے پرایک زورکاتھپڑامارا۔
’’بڑوں سے زبان لڑاتے ہو‘‘میں نے فوراً کہا۔
اس نے میری طرف زخمی نظروں سے دیکھا۔۔۔ شفاف رخسار پر پانچ سرخ لکیریں چھپ گئی تھیں۔
کئی دن مجھ سے نظر ملاکر بات نہیں کی تھی۔میں نے سمجھاناچاہا تو کمرے میں گھس کر دروازہ پٹخ کر بند کردیا۔
اس کے بعد میں نے کچھ نہ کہا۔
نائلہ نے تصور میں اس کے چہرے پر ہاتھ پھیرا۔
اسکول کی طرف سے جب والدین کے اجازت نامے پر دستحظ کی باری آئی تو۔۔۔ میں نے چپکے سے دستخط کردئے اور کسی کو پتانہ چلا۔
اب میرے ٹیڈی بیئر کو مجھ سے ناراض نہیں رہناچاہئے۔
نائلہ سوچنے لگی۔
آج وہ اسی ریہرسل کے لیے جارہاتھا۔ اپنے پسندیدہ گلوکار کے گائے سب سے پسندیدہ گانے کی ریہرسل۔۔۔ وہ اس کے گانے گاتے ہوئے اکثر سوچوں میں گم ہوجاتا۔
’’قابل لوگ زیادہ دیر جیتے ہی نہیں۔۔۔ کیوں مام۔‘‘
ایک دن جب اس نے نائلہ کو ایلوس پریسلی کے کئی گانے گاکراور بجاکر سنائے تھے، وہ ایسے ہی اداس تھا۔
ایلوس پریسلی نوجوانی میں ہی انتقال کرگیاتھا۔ بے حد خوش شکل نوجوان تھاوہ۔۔۔ بیضوی چہرہ۔۔۔ اونچا قد۔۔۔ تندرست، چست بدن، سرخ و سفید رنگت، بالوں کارنگ سیاہ کرتاتھاوہ اور پوشاک اپنے وضع کردہ انداز کی جاپانی شہزادوں کی بڑے کالروں والی جیسی کچھ۔ جس سے شانے اور وجیہہ معلوم ہوتے۔چمکیلے رنگوں والی۔ بہت سے رنگ برنگے بٹنوں والی۔ مختلف ڈیزائن کے ہیرے جڑی کمربند والی۔ گاتے ہوئے جب اسٹیج پر تھرکتاتو دلوں کی دھڑکن اس کی تال پر تھرکتی۔ یہ باتیں نائلہ کو راحیل نے بتائیں تھیں۔
نائلہ یاد کررہی تھی کہ ایک بار اس نے کسی شو کے دوران اپنا پسینہ خشک کرکے رومال تماشائیوں کی طرف اچھالاتھاتولوگوں نے اس رومال کو حاصل کرنے کے لیے کسی نایاب نعمت کی طرح انگنت ہاتھ بڑھائے تھے
ٹیلی ویژن پر دیکھاتھانائلہ نے۔
’’موت تو اللہ کے اختیارمیں ہے بیٹا۔۔۔ ایساتو نہیں ہے۔۔۔بہت سے قابل لوگ برسوں جیتے ہیں۔۔۔ بہت سے عام لوگ کم جیتے ہیں، یااس کا الٹ بھی ہوتاہے۔۔۔‘‘
’’مگر مما۔۔۔ میں کیوں اس شدّت سے محسوس کرتاہوں۔۔۔ اس کے بارے میں اتنا زیادہ ۔۔۔ میں دیکھیے۔۔۔ اس کی موت کے تیس سال بعد پیداہوا۔۔۔ پھر بھی۔۔۔ KingتھاوہMusicکا۔۔۔Rock-n-Roll۔۔۔I just adore him mom‘‘
’’کیوں کہ آپ کی نظرمیں وہ سب سے اہم آدمی ہے۔۔۔آپ موسیقی کو جاننے سمجھنے والے ہیں۔۔۔ اور وہ ایک پیدائشی موسیقارتھا۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ایک مکمل فنکارتھاوہ۔۔۔ اُس گمنام شخص کا درد کیسے محسوس کیااس نے۔۔۔ کہ دردکو گانے میں تبدیل کرکے امرکردیا۔۔۔ کتنامشہور ہوگیا Heart Break Hotelکے نام سے وہ مغربی ہوٹل۔۔۔ جب اس نے گانے کے ساتھ ڈانس کرکے لوگوں کادل جیت لیاتھاجب تک گانے کے ساتھ کوئی ناچا نہیں کرتاتھااسٹیج پر۔۔۔وہ ایک دردمند۔۔۔ ایک درد مند دل تھااس کے پاس۔۔۔ امریکن ہوکر بھی وہ افریقیوں کے دکھ بانٹتاتھا۔
گوراہوکربھی اس کے اندر سے افریقیوں کی آواز آتی تھی۔۔۔ انسان کوایساہی سچااور ایماندارہوناچاہیے۔۔۔ہے نا۔۔۔ ہے نامام۔۔۔‘‘
نائلہ کو اچھاسامع پاکر وہ دل کی باتیں کہتا۔۔۔
’’ہاں۔۔۔میری جان۔۔۔ میرابچہ کتنا عقل مند ہے۔۔۔‘‘
وہ اس کاشانہ تھپتھپادیتی۔۔۔
بال سہلادیتی۔۔۔
ماتھا چوم لیتی۔۔۔
’’مما۔۔۔دیکھئے گا۔۔۔سارے اسکولز میں سے ہمارا گروپ ہی فرسٹ آئے گا۔۔۔ اس بار بھی فائنل میں پرفارم کرنے کے لیے۔۔۔ ہم سب بہت dedicatedہیں۔۔۔‘‘
’’انشاء اللہ۔۔۔‘‘ نائلہ دعادیتی۔
انشاء اللہ۔۔۔ گاڑی میں بیٹھی نائلہ نے دھیرے سے گردن اس کی طرف موڑی۔
آج وہ ضرور مجھ سے بات کرے گا۔ میراشکریہ اداکرے گا۔میری گود میں سررکھ کر مجھے منائے گا۔۔۔ معافی مانگے کامجھ سے۔
مگر نائلہ صرف سوچتی ہی رہی۔۔۔ ایسا کچھ نہ ہوا۔وہ اپنی دھن میں گاتابجاتارہا۔
نائلہ کی منزل قریب آرہی تھی۔وہ اس کے سرپر ہاتھ پھیر کر اسے کامیابی کی دعائیں دینا چاہتی تھی۔ بہت دنوں سے اس نے اس کا سر نہیں چھواتھا۔مگر وہ بالکل بے خبرگارہاتھا۔
یہ مجھ سے ایسے نہیں روٹھ سکتا۔ اس چہرے میں تو میں نے آرٹ فائلز کے سبھی چہرے جوڑ رکھے تھے۔اس کے معصوم ہاتھوں کی ماہرانہ جنبش سے چھیڑے جانے والے نغموں کو سنتے ہوئے میں پیلے رنگ کے ٹین کے نازک سے مستطیل ڈبے کے سب رنگ اور ان رنگوں سے مزید بننے والے ان گنت رنگ دیکھ لیتی تھی۔
نائلہ نے نہایت اُداسی سے سوچا۔
میں نے کچھ غلط کہہ دیاہوگا۔۔۔ مگر اس میں بسے فنکارکے ساتھ کچھ برانہیں ہونے دیا۔
اس کے اس Concertکی منظوری دینے کے لیے جانے کیسے کیسے جواب دینا ہوگا مجھے۔۔۔
وہ ایک آہ بھرکررہ گئی۔اس کی آنکھیں آخرکار بھیگ ہی گئیں۔کون سمجھے گامجھے۔۔۔ آخر۔۔۔ اس کے بوجھل دل میں خیال ابھرا۔۔۔
گاڑی ایک جھٹکے کے ساتھ رکی۔اس نے تھکے ہارے سے قدم گاڑی سے باہر رکھے ہی تھے کہ راحیل نے اس کا ہاتھ پکڑلیا۔
’’یہ سب۔۔۔آپ ہی کی وجہ سے ممکن ہوپایاہے مام۔۔۔ مجھے کامیابی کی دعادیجئے۔۔۔ My sweet mom۔۔۔آپ کو جانے کیا جھیلناپڑے گانا۔۔۔؟ مگر میں آپ کے ساتھ ہوں مما۔۔۔ آپ گھبرائیے گانہیں‘‘ اس کی آواز بھراگئی۔
’’صرف آپ۔۔۔آپ مجھ سے ناراض مت رہیے گاکبھی۔۔۔ میں غلط نہیں ہوں نامما۔۔۔؟‘‘
تم کبھی غلط نہیں تھے، میرے فنکار۔۔۔نائلہ اسے دیکھتی رہی۔۔۔ پھرسر ہلکے سے نفی میں ہلاکر اس کے چہرے پر ہاتھ پھیرا اور مسکراتی ہوئی باہر آگئی۔۔۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اظہار تشکر
جدیدادب کا یہ شمارہ اس کی کتابی صورت میں چھپنے اور ریلیز ہونے سے لگ بھگ ایک ماہ پہلے انٹرنیٹ
پر آ رہا ہے۔یہ سب اردوستان ڈاٹ کام کے آرگنائزر جناب کاشف الہدیٰ
کی اردو سے اور ہمارے جدید ادب سے محبت کا نتیجہ ہے۔یہ ان کا اخلاص ہے کہ ہمارے لئے جنوری
کے جدید ادب کودسمبر03 ء ہی میں انٹر نیٹ پر پیش کرنے کا موقعہ مل رہا ہے۔(حیدر قریشی)