صبا اکبر آبادی(مرحوم)
خلشِ جانِ مبتلا کیا ہے باعثِ نالہ وبکا کیا ہی
میں بھی سن لوں کہ مدعا کیا ہے دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہی
ہے یہاں شوق اور وہاں پندار ہم رضا جو، وہ باعثِ آزار
جذب بے سود آرزو بے کار ہم ہیں مشتاق اور وہ بے زار
یا الٰہی! یہ ماجرا کیا ہی
آرزوئیں جوان رکھتا ہوں دل میں اک داستان رکھتا ہوں
خامشی کا بیان رکھتا ہوں میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہی
بے خودِ حسرتِ تماشہ ہوں پُرسش آرزو پہ مرتا ہوں
گو بظاہر خموش بیٹھا ہوں میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے
کھول دے رازِ شاہد ومشہود دور کر فرقِ سجدہ و مسجود
عبدیت کس لیے ہے اے معبود جبکہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہی
یہ محبت کے روگ کیسے ہیں یہ فقیرانہ جوگ کیسے ہیں
حسن کے یہ بروگ کیسے ہیں یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں
غمزہ وعشوہ وادا کیا ہی
چاک دامان وآستیں کیوں ہے وحشتِ عشق جا گزیں کیوں ہی
حسن کی شان دلنشیں کیوں ہے شکنِ زلفِ عنبریں کیوں ہے
نگہء چشم سرمہ سا کیا ہے
صبااکبرآبادی(مرحوم)
تضمینِ غالب
ساغر ومُل کہاں سے آئے ہیں پیچ سنبل کہاں سے آئے ہیں
سازیہ گُل کہاں سے آئے ہیں سبزہ وگُل کہاں سے آئے ہیں
ابر کیا چیزہے ہوا کیاہی
جو کریں روز ظلم کی تجدید جن کا شیوہ ہوا ہے جورِ شدید
جن کی کرتا ہے آسماں تقلید ہم کو ان سے وفا کی ہے اُمید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہی
لبِ سائل پہ اور کیا ہوگا لفظ جو ہوگا وہ دعا ہوگا
تونے بھی غالباًسنا ہوگا ہاں بھلا کر ترا بھلا ہوگا
اور درویش کی صدا کیا ہی
کیا جفائیں شمار کرتا ہوں عشق بے اختیار کرتا ہوں
میں فقط تم سے پیار کرتا ہوں جان تم پر نثار کرتا ہوں
میں نہیں جانتا وفا کیا ہی
ہے ستم خوردہ وحزیں غالبؔ رند اور میکدہ نشیں غالبؔ
تیرا عاشق ہے اے حسیں غالبؔ ہم نے مانا کہ کچھ نہیں غالبؔ
مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے