صبا اکبر آبادی
( صبا اکبر آبادی نے ۱۹۲۸سے ۱۹۳۸کے درمیان مکمل دیوانِ غالب کی تضمین کی تھی۔ جو آج تک کتابی صورت میں شائع نہیں ہوئی ہے،اس بارغالب کی ایک غزل کی تضمین شائع کی جارہی ہے۔ریحانہ احمد)
جل بُجھیں گے شبِ فرقت کی سحر ہونے تک دل لہو ہو گا مداوائے جگر ہونے تک
ہم تو مر جائیں گے الفت کی نظر ہونے تک آہ کو چاہیئے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
رفعتِ مرتبہ کے کیا کوئی آسان ہیں ڈھنگ دیکھنے پڑتے ہیں دنیا کے ہزاروں نیرنگ
کبھی موجوں سے لڑائی کبھی طوفان سے جنگ دامِ ہر موج میں ہے حلقۂ صد کامِ نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہو نے تک
امتحاں ہائے محبت کی نہ حد ہے نہ حساب طاقتِ ضبط کے آثار جگر میں کمیاب
کشمکش میں ہے گرفتار دلِ خانہ خراب عاشقی صبر طلب اور تمنا بیتاب
دل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک
جانتے ہیں کہ جفا تم سے ہے اب ناممکن ہائے قاصد ہی نہیں نامہ بری کا ضامن
تم جب آؤ گے تو ہستی کے گزر جائینگے دن ہم نے مانا کہ تغافل نہ کروگے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم،تم کو خبر ہونے تک
حسرتِ لطف میں باقی ہے دلِ زار و دونیم دل کی ہستی شبِ غم تک ہے زمانے میں مقیم
بادِ صر صر ہے مرے حق میں محبت کی نسیم پرتوِ خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم
میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہو نے تک
جیتے جی غم کی حکومت کبھی اندوہ کا راج فکر سر کی ہے کہیں اور کسی کو غمِ تاج
زندگانی میں صباؔ کس کا سنبھلتا ہے مزاج غمِ ہستی کا اسدؔ کس سے ہو جز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک
( غیر مطبوعہ)