اگر آپ اچھی صحت رکھتے ہیں، تب بھی عمررسیدہ ہونے کے اثرات سے فرار نہیں۔ مثانے میں لچک کم ہو جاتی ہے۔ اس کا مطلب ٹوائلٹ کی طرف زیادہ چکر ہیں۔ جلد میں لچک بھی کم ہو جاتی ہے۔ یہ خشک ہو جاتی ہے۔ خون کی رگیں آسانی سے ٹوٹ جاتی ہیں۔ جن سے داغ اور زخم پڑ جاتے ہیں۔ امیون سسٹم اتنا چوکس نہیں رہتا۔ جلد کے نیچے چربی کی تہہ کم ہوتی ہے۔
زیادہ سنجیدہ یہ کہ دل کی ایک دھڑکن میں پمپ ہونے والا خون کم ہو جاتا ہے۔ دل کمزور ہونے لگتا ہے۔ دوسرے اعضا تک پہنچنے والے خون کی مقدار کم ہو جاتی ہے۔ چالیس سال کی عمر کے بعد گردے میں جانے والے خون کی مقدار ہر سال ایک فیصد کم ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیویارک کے آئن سٹائن کالج آف میڈیسن کی نے 2016 میں نتیجہ نکالا کہ خواہ میڈیکل کئیر کتنی ہی ترقی کیوں نہ کر لے، زیادہ تر لوگوں کے لئے 115 سال کی عمر سے اوپر جانا ممکن نہ ہو گا۔ جبکہ SENS Research Foundation کے ڈاکٹر آبرے گرے کا کہنا ہے کہ اگلی نسل میں ہی ایک ہزار سال تک پہنچ جانا ممکن ہو جائے گا۔
مستقبل کی پیشگوئیوں کا فیصلہ مستقبل میں ہی ہو گا۔ آج کیلئے ہم یہ بتا سکتے ہیں کہ دس ہزار میں سے ایک شخص سو سال کی عمر تک پہنچتا ہے۔ Gerontology Research Group ان لوگوں کا ریکارڈ رکھتا ہے جن کی عمر 110 سال ہو گئی ہو۔ (انہیں supercentenarian کہا جاتا ہے)۔ چونکہ پیدائش کی تاریخ کے ریکارڈ دنیا کے کئی علاقوں میں اچھے نہیں ہیں اور دوسرا یہ کہ کئی وجوہات کی بنا پر زیادہ عمر والے لوگ اپنی عمر اس سے زیادہ بتاتے ہیں جو ہوتی ہے، اس لئے یہ کسی کو اپنی فہرست میں احتیاط سے ہی شامل کرتے ہیں۔ اس فہرست میں 70 کے قریب لوگ ہیں۔ یہ شاید اصل تعداد کا نصف ہو۔
ستر لاکھ میں سے ایک شخص کا امکان ہے کہ عمر 110 سال تک پہنچے۔ اور اس عمر تک پہنچنے میں سب سے زیادہ مدد آپ کی صنف کرتی ہے۔ خواتین کیلئے اس عمر تک پہنچنے کا امکان مردوں کے مقابلے میں دس گنا ہے۔ یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ تاریخ میں ہر جگہ پر اور ہر معاشرے میں خواتین کی اوسط عمر مردوں سے چند سال زیادہ رہی ہے۔
ریکارڈز میں سب سے طویل عمر پانے والی فرانس کی جین لوئی کالمینٹ رہی ہیں۔ ان کی وفات 1997 میں ہوئی تو ان کی عمر 122 سال اور 164 دن تھی۔ انہوں نے زندگی بھر کوئی ملازمت نہیں کی۔ خوش و خرم اور صحت مند زندگی گزاری۔
مردوں میں یہ ریکارڈ جاپان کے جیرومون کمورا کے پاس ہے جن کی وفات 2013 میں ہوئی۔ ان کی عمر 116 سال اور 54 دن تھی۔ سرکاری ملازم رہے اور دیہی علاقے میں طویل ریٹائرمنٹ گزاری۔
آخر کیا وجہ تھی کہ انہوں نے اتنی لمبی عمر پائی؟ اس کا کوئی جواب نہیں جو دیا جا سکے۔
ڈینیل لیبرمین کہتے ہیں کہ اسی سال تک کی عمر تک پہنچ جانے کی وجہ آپ کا صحتمند طرزِ زندگی ہوتا ہے لیکن اس کے بعد یہ زیادہ تر جینیات کا ہاتھ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طویل عمری میں کئی ناقابلِ فہم علاقائی اعداد و شمار بھی ہیں۔ کوسٹاریکا میں صحت کی سہولیات اچھی نہیں۔ یہاں پر لوگوں کی اوسط زندگی امریکہ کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ اور یہاں پر نکویا جزیرہ نما ہے جو کوسٹاریکا کا پسماندہ ترین علاقہ ہے۔ یہاں پر رہنے والے سب سے زیادہ عمر پاتے ہیں۔ اور یہاں موٹاپا اور بلڈپریشر بھی اوسط سے زیادہ ہے! یہاں پر ٹیلومئیر کی لمبائی زیادہ ہے۔ تھیوری یہ ہے کہ مضبوط سماجی تعلقات اور خاندانی روابط اس کی وجہ ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر یہ تنہا زندگی گزاریں یا اپنی بچوں سے بقاعدگی سے ملاقات نہ ہوتی ہو تو ٹیلومئیر کی یہ سبقت ختم ہو جاتی ہے۔ یہ ایک غیرمعمولی حقیقت ہے کہ سماجی روابط کی نوعیت فزیکل صورت میں اپنا اظہار ڈی این اے کے اندر کرتی ہے۔
امریکہ میں 2010 میں ہونے والی سٹڈی بتاتی ہے کہ اچھے سماجی تعلقات کی عدم موجودگی کسی رسک سے موت کے خطرے کو دگنا کر دیتی ہے۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...