جسم اپنا ایکولیبریم برقرار رکھتا ہے اور اسے ہومیوسٹیسس کہتے ہیں۔ یہ اصطلاح بنانے والے فزیولوجسٹ والٹر کینن تھے۔
کینن ایک ذہین اور متجسس انسان تھے۔ ایک بار ان کے ذہن میں سوال آیا کہ بھوک میں پیٹ میں گُڑگُڑ کیوں ہوتی ہے؟ انہوں نےاس کے لئے تجربہ اپنے سٹوڈنٹ واشبرن پر کیا۔
کینن نے اپنے ایک اور سٹوڈنٹ کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ ایکسرے مشین کے آگے بیٹھ کر کھانا کھائے تا کہ وہ اس دوران جسم کی حرکات دیکھ سکیں۔ عضلاتی حرکات سے خوراک کو معدے تک پہنچانے (peristalsis) کا مشاہدہ کرنے والے وہ پہلے سائنسدان تھے۔
ان کے تجسس کی انتہا نہیں تھی۔ وہ جسم کی خودکار حرکات (جیسا کہ سانس لینا، خون پمپ کرنا یا کھانا ہضم کرنا) اور خون کے پلازمہ کے ماہر تھے۔ انہوں نے امگڈالا اور ہائپوتھالیمس پر اہم تحقیق کی۔ اینڈرنالین کے کردار کا fight or flight ردِ عمل میں پتا لگایا (اور یہ بھی انہیں کی ایجاد کردہ اصطلاح ہے)۔ شاک کے لئے پہلا علاج ایجاد کیا۔
کینن نے 1932 میں اپنے برسوں کی تحقیق اور حاصل کردہ علم کو ایک مشہور کتاب The wisdom of the body میں قلمبند کیا۔ اس کا موضوع تھا کہ جسم خود کو توازن میں رکھنے کی کس قدر غیرمعمولی صلاحیت رکھتا ہے۔
ان کے کام کو ان کی زندگی میں تو زیادہ توجہ نہیں ملی لیکن اب انہیں بہت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک چیز جسے کینن سمجھ نہ سکے، وہ یہ کہ جسم کو خود کو برقرار رکھنے کے لئے خلیاتی سطح پر کس قدر زیادہ توانائی درکار ہوتی ہے۔ اس کی دریافت میں بہت وقت لگا۔ اور یہ کسی تحقیقی ادارے میں نہیں ہوئی بلکہ یہ کرنے والے برطانیہ کے ایک تنہا خبطی سائنسدان تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم اب جانتے ہیں کہ خلیے کے اندر اور باہر چارجڈ ذرات ہوتے ہیں جنہیں آئیون کہا جاتا ہے۔ ان کے درمیان خلیاتی جھلی میں ایک چھوٹا سا air lock ہے جسے آئیون چینل کہا جاتا ہے اور یہاں برقیاتی buzz پیدا ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ صرف ایک سو ملی وولٹ ہے لیکن بہت کم فاصلے کا مطلب یہ ہے کہ اس کا مطلب تین کروڑ وولٹ فی میٹر ہے جو آسمانی بجلی کے برابر ہے۔ آپ کے خلیات میں سے جو بجلی گزر رہی ہے، وہ آپ کے گھر کی بجلی سے ایک ہزار گنا زیادہ ہے۔ اپنے چھوٹے سکیل پر آپ بہت ہی energetic ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو شے خلیات میں توانائی کی ذمہ دار ہے، وہ ایک کیمیکل ہے جسے اڈینوسین ٹرائی فاسفیٹ یا ATP کہا جاتا ہے۔ جسم کی جن چیزوں کا آپ نے نہیں سنا ہوا، یہ ان میں سب سے زیادہ اہم ہے۔ اس کا ہر مالیکیول ایک چھوٹی سی بیٹری کی طرح ہے۔ یہ توانائی کو ذخیرہ کرتا ہے اور اس وقت اسے چھوڑتا ہے جب خلیے کو اس کی ضرورت پڑے۔ تمام خلیات، خواہ جانوروں کے ہوں یا پودوں کے، ان میں یہی مالیکیول یہ کام کرتا ہے۔ اس کی کیمسٹری خاصی پیچیدہ ہے۔ ہمارے لئے ابھی یہی جاننا کافی ہے کہ ہم اپنے خلیات کا کام جاری رکھنے کے لئے اس پر منحصر ہیں۔ ہر روز ہمارا جسم بیس ہزار کھرب کھرب مالیکیول پیدا اور استعمال کرتا ہے۔ یہ ہمارے جسم کے وزن کے برابر ہیں۔ ATP کے نقطہ نظر سے آپ محض ATP پیدا کرنے کی مشین ہیں۔ باقی سب بائی پراڈکٹ ہے۔ لیکن چونکہ یہ بنتے ساتھ ہی خرچ ہو جاتا ہے، اس لئے ایک وقت میں یہ صرف ساٹھ گرام موجود ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کا پتا چلتے ہوئے خاصی دیر لگی۔ اور جب یہ پتا لگا لیا گیا تو کسی نے اس پر یقین نہیں کیا۔ یہ دریافت کرنے والے سائنسدان پیٹر مچل تھے۔ انہوں نے اپنے گھر میں ہی تحقیق کا مرکز بنایا ہوا تھا۔ کندھوں تک لمبے بال اور کانوں میں بالیوں کے ساتھ وہ اپنے حلیہ سے سائنسدان نہیں لگتے تھے۔ اور حد کے بھلکڑ تھے۔ اپنی بیٹی کی شادی پر انہیں کوئی خاتون نظر آئیں تو ان سے ملاقات کرتے ہوئے کہا کہ “آپ کچھ شناسا لگتی ہیں لیکن ٹھیک سے پہچان نہیں پا رہا”۔ خاتون نے جواب دیا کہ “میں آپ کی پہلی بیوی تھی اور اپنی بیٹی کی شادی پر آئی ہوں”۔
مچل کے جسم کی توانائی پر خیالات کو ہر ایک نے مسترد کر دیا۔ کسی نے تبصرہ کیا ہے کہ “اس میں کچھ حیرت کی بات نہیں تھی۔ ان کے خیالات کے پیچھے شواہد کمزور تھے”۔ لیکن وقت کے ساتھ وہ درست نکلے اور 1978 میں انہیں کیمسٹری کا نوبل انعام دیا گیا۔ گھر کی لیبارٹری سے کام کرنے والے کسی بھی سائنسدان کے لئے یہ غیرمعمولی کامیابی تھی۔
برطانوی بائیوکیمسٹ نِک لین کہتے ہیں کہ مچل کی شہرت ڈی این اے دریافت کرنے والے واٹسن اور کرک جتنی ہونی چاہیے تھے۔ ان کی دریافت اس سے کم نہیں تھی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...