جب امریکہ نے 1776 میں برطانیہ سے ایک سال جنگ کے بعد آزادی کا اعلان کیا تو یہاں پر توانائی کے ذرائع یا تو لکڑی تھی یا پھر پٹھوں کی طاقت۔ چند ایک جگہوں پر پانی سے آری چلا کر لکڑیاں کاٹی جاتی تھیں یا کوئلے سے لوہے کے اوزار اور ہتھیار بنائے جاتے تھے۔ لیکن زیادہ تر ایندھن لکڑیوں سے حاصل ہوتا تھا۔ یا پھر گھوڑوں، خچروں، بیلوں اور انسانی کمر کا زور تھا۔
انیسویں صدی میں بھاپ کی ٹرین اور پھر مغرب کی طرف پھیلاوٗ نے اس کو بدل دیا۔
سیاہ کوئلہ اب نیا شہزادہ تھا۔ فیکٹری، فاوٗنڈری، ٹرین اور اوون میں جلایا جاتا تھا۔ 1850 میں کوئلے کا استعمال ایک کروڑ ٹن سالانہ تھا جو 1900 میں سوا تین کروڑ ٹن تک پہنچ چکا تھا۔ کوئلے کی کانوں نے نئی بستیاں بسائیں۔
بیسویں صدی میں کوئلہ پیچھے رہ چکا تھا۔ تیل کو سب سے پہلے پینسلوینیا میں 1859 میں نکالا گیا تھا اور کیروسین بنایا گیا تھا جس سے چراغ جلائے جا سکتے تھے۔ ابتدا میں اس نے زیادہ توجہ حاصل نہیں کی۔ پٹرول کو ابتدا میں بے کار بائی پراڈکٹ سمجھا جاتا تھا اور اس کو ضائع کرنے کے لئے دریا میں پھینک دیا جاتا تھا۔ لیکن کسی نے اس سے کمبسشن انجن بنانے کا سوچا اور پھر پٹرول ایندھن کا سپرمین بن گیا۔
تیل کی ایک بیرل میں اتنی توانائی ہوتی ہے جو کسی اوسط شخص کی آٹھ سال کی روزانہ کی مزدوری سے حاصل ہوتی ہے۔ تیل کے کنویں حاصل کرنا دونوں جنگِ عظیم کا ایک سٹریٹجک حدف رہا تھا۔ آذر بائیجان کے باکو ذخائر وجہ تھی جس باعث جرمنی نے روس پر حملہ کیا تھا۔ اور یہاں کا تیل ہی تھا جس نے روسی آرمی کو شمال کی طرف وہ ایندھن دیا تھی کہ اس نے جرمنی کو روک لیا تھا۔
دوسری جنگِ عظیم کے اختتام تک، گاڑیاں اور ٹرک ریلوے سسٹم سے زیادہ اہمیت لے چکے تھے۔ ٹرین ڈیزل پر چلنے لگی تھی اور مائع ایندھن کی مارکیٹ کا ٹیک آف ہو گیا تھا۔ 1951 میں تیل کی فروخت کوئلے سے بڑھ چکی تھی۔ تیل، گیس اور کوئلے کی فروخت تیزی سے بڑھتی رہی۔ 2000 میں امریکہ نے 1.1 ارب ٹن کوئلہ استعمال کیا جو سو سال پہلے کے مقابلے میں 230 فیصد زیادہ تھا۔ تیل کے 6.6 ارب بیرل استعمال کئے جو سو سال پہلے کے مقابلے میں 16700 فیصد زیادہ تھے۔ جبکہ جلانے والی لکڑی کی مقدار 11.3 کروڑ کورڈ تھی جو سو سال پہلے کے مقابلے میں صرف 12 فیصد زیادہ تھی۔
امریکہ کی آبادی اس اثنا میں 76 ملین سے بڑھ کر 281 ملین ہوئی تھی جو 270 فیصد زیادہ تھی۔ اور یہاں پر اہم نکتہ یہ ہے کہ توانائی کی مانگ میں ہونے والا اضافہ آبادی کے مقابلے میں بہت زیادہ تھا۔ فی کس کھپت بہت زیادہ بڑھی۔ اکیسویں صدی کے آغاز پر اوسط امریکہ تیل کے چوبیس ڈرم ہر سال خرچ کرتا ہے۔ سو سال پہلے، یہ آدھا ڈرم تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ایسا ہی غیرمعمولی اضافہ دوسرے وسائل کے ساتھ ہوا۔ لوہا، نکل، ہیرے، پانی، سالمن مچھلی، نرم لکڑی ۔۔۔ کسی بھی چیز کے ساتھ ایسا ہے۔ اور یہ صرف امریکہ ہی نہیں، تمام دنیا میں یہ اسی طرح سے ہو رہا ہے۔
ہماری نہ صرف آبادی اس ایک صدی میں بے تحاشہ بڑھی بلکہ ایک فرد کی طرف سے ہونے والا ریسورس کا استعمال بھی۔
اور اس فی کس استعمال کے اعداد میں دنیا میں بہت فرق ہے۔ جیرڈ ڈائمنڈ کی کیلولیشن کے مطابق جاپان، مغربی یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا میں رہنے والے کا کنزمپشن فیکٹر کینیا میں رہنے والے شخص سے 32 گنا زیادہ ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یہاں پر ایک اور ناخوشگوار حقیقت ہے۔ جن علاقوں میں یہ کنزمپشن فیکٹر سب سے کم ہے، وہ دنیا کے غریب ترین اور خطرناک ترین مقامات ہیں۔
ہم جس بھی ملک میں رہتے ہوں، ہم سبھی یہ خواہش رکھتے ہیں کہ یہ حالات بہتر ہوں۔ بہت سے لوگ اور خیراتی ادارے اس پر کام کرتے ہیں۔ اس میں حکومتیں، عالمی ادارے، مذہبی تنظیمیں اور مخیر لوگ ملکر کام کر رہے ہیں۔ زیادہ تر ترقی پذیر ممالک پوری محنت کر رہے ہیں کہ وہاں پر آبادی کا معیارِ زندگی بہتر ہو۔ ہم میں سے کون ایسا چاہے گا کہ یہ کوششیں کامیاب نہ ہوں؟ کون اس دنیا سے غربت، بھوک اور بیماری کا خاتمہ نہیں دیکھنا چاہتا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرض کیجئے کہ آپ کے پاس ایک جادو کا بٹن آ گیا ہے۔ اس کو دبا دیں گے تو دنیا کے تمام ممالک میں وہی معیارِ زندگی مل جائے گا جو شمالی امریکہ، مغربی یورپ، جاپان اور آسٹریلیا میں ہے۔ صرف اس کو دبا دینے سے دنیا میں معاشی مصائب حل کئے جا سکیں گے۔ کیا آپ نے یہ بٹن دبا دیا ہے؟
نہیں!!! اس کو نہیں دبانا تھا۔ آپ نے جو دنیا تخلیق کر دی ہے، وہ خوفناک ہے۔ قدرتی وسائل کے استعمال میں گیارہ گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ ویسے جیسے دنیا کی آبادی بڑھ کر 80 ارب ہو چکی ہے۔ یہ سب گوشت، مچھلی، توانائی، پلاسٹک، دھات اور لکڑی کہاں سے آئے گی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب تصور کریں کہ یہ تبدیلی اچانک نہ ہو بلکہ دھیرے دھیرے اگلی چند دہائیوں میں ہو؟
ڈیموگرافر یہ توقع رکھتے ہیں کہ 2050 تک عالمی آبادی سوا نو ارب کے قریب پہنچ کر بڑھنا بند ہو جائے گی۔ لیکن اگر ان سب کو اسی طرح رہنا ہے جیسے آج کی مغربی دنیا میں رہا جاتا ہے تو اس کا مطلب اتنے وسائل کا بندوبست کرنا ہو گا جتنا ایک کھرب آبادی کے لئے!
اور جب اس روشنی میں اسے دیکھا جائے، تو معلوم ہوتا ہے کہ عالمی ریسورس پر انسانی پریشر کا تعلق کل آبادی سے بھی زیادہ لائف سٹائل پر ہے۔
ماڈرنائزیشن اور ترقی ۔۔۔ جو یقینی طور پر قابلِ تعریف مقاصد ہیں ۔۔۔ اس دنیا سے ہماری مانگ میں اضافہ کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...