یہ صرف تعلیم ہی کا نتیجہ تھا کہ سُلطان توصیف ایک غریب باپ کی بیٹی اور معمُولی ماں کی بچی ، داؤد جیسے مُتموّل تاجر کی بہُو بنی۔ باپ کے بعد اُس کا شوہر مُوسیٰ ایک کروڑ پتی سوداگر تھا ، جس کی دوچار نہیں بیسیوں کوٹھیاں اور دس پانچ نہیں سینکڑوں کارخانے اِدھر اُدھر موجود تھے ، بنگال کا شاید ہی کوئی شہر ایسا ہو گا جہاں مُوسیٰ کی تجارت نہ ہو۔ اِس شادی کا سبب اور نکاح کی وجہ توصیف کی تقدیر یا مُوسیٰ کی قدر دانی ، تعلیم کا انجام یا شرافت کا نام جو کچھ بھی ہو اِس نکاح کا نباہ اور اِس کاج کی لاج کا سہرا توصیف کے سر ہے۔ خُدا کی شان نظر آتی تھی کہ وہ مُوسیٰ جس نے کبھی خُدا کے سامنے سر نہ جھُکایا ہو ، بیوی کا کلمہ پڑھ رہا ہے۔ اور وہ توصیف جس کے جہیز کی کُل کائنات ایک صندوق برات کے ساتھ تھا ، دن رات جواہرات میں کھیلتی ، یہ صرف عِلم ہی کا طُفیل ہے اور تعلیم کا صدقہ تھا کہ مَردانہ میں نکاح ہو رہا ہے ، زنانہ میں مہمان بھرے ہیں اور توصیف سُلطان اَس خیال میں غرق ہے کہ بیل منڈھے چڑھتی دکھائی نہیں دیتی دولت جس کے کاٹے کا منتر نہیں ، صُورت جس جادُو کا اُتار نہیں ، دونوں غائب۔ اب لے دے کے رہی سیرت ، محبت ، عادت ، خصلت ، یہ ہی ہتھیار ہیں جن پر فتح کا دارومدار ہے ، خُدایا تُو ہی بیڑا پار کرے تو ہو ، بظاہر تو یہ کشتی منجدھار میں ڈُوبی۔
سُسرال پہنچی تو رئیسانہ شان ، امیرانہ ٹھاٹ ، نوکروں کا زور ، ماماؤں کا شور ، دولت کی کثرت ، روپیہ کی ریل پیل۔ چاہیے کہ باغ باغ ہوتی ، نہال نہال ہوتی۔ مُطلق نہیں ، ہر وقت اپنی دھُن میں غرقاب اور فکر میں شرابور۔ مُوسیٰ امیر کا بچہ لاڈلا اور اکلوتا۔ دنیا اس کے قدموں میں آنکھیں بچھائے اُلفت سے نا آشنا ، محبت سے ناواقف ، فرائض کی وقعت اور حُقوق کی تربیت اِس کی نگاہ میں ہو ہی نہ سکتی تھی۔ ایسے شوہروں کے دل میں گھر کرنا ، لوہے کو نرمانا اور پتھر کو جونک لگانا تھا مگر بندگی کرنے سے کہتے ہیں خُدا ملتا ہے۔ توصیف نے اپنے سامنے صرف رضامندی شوہر کا مقصد رکھا اور اُس کے حصول کے لئے کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کیا۔ یہ صحیح ہے کہ تعلیم کی طاقت بھی کچھ کم وزن نہ رکھتی تھی مگر بحیثتِ مجموعی مُوسیٰ کا پاسہ بہت زبردست تھا۔ وہ تمول کے ساتھ دولتِ حُسن سے بھی مالا مال تھا ، اور اُس کا حق توصیف کے مقابلہ میں قطعاً فائق تھا۔ ان حالات میں بیوی کو قطعاً اس کے سوا چارہ نہ تھا کہ وہ صُورت کی کمی اطاعت سے پُوری کرے۔
نکاح کے وقت موسیٰ کے ماں اور باپ دونوں زندہ تھے اور دونوں عاشقِ زار۔ وہ فطرتاً گوارا ہی نہ کر سکتے تھے کہ بچہ کے دل پر محبت کا چرکہ تو درکنار آنکھ میں ملال کا مَیل تک آئے۔ لیکن جال اور دانہ دونوںسامنے تھے اور موسیٰ کی کیفیت اس وقت اُس پرند کی تھی جو پھندے میں پھنستے ہی جھٹکا مارے اور پَھڑ پھڑا کر نکل جائے۔ اگر توصیف اُس وقت پُورا لاسہ نہ لگاتی تو مُوسیٰ چلا ہی تھا۔ اُس نے ایک تین ہی مہینہ میں وہ خدمت کی کہ اکیس برس کی کھِلائی بُڑھیا کی خدمات دل سے بھُلا دیں۔ ہم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ توصیف کا عورت ہونا اُس کی کمزوری نہ تھی بلکہ دوسرے سامان تھے ، دوسرے اسباب تھے ، دوسرے باعث تھے۔ شکل و صورت کے اعتبار سے وہ کمزور اور یقیناً کمزور تھی۔ اس گڑھے کو بھرنا اس کا فرض تھا۔ اطاعت سے بھرا ، خدمت سے بھرا ، سچ بھرا ، جھُوٹ بھرا غرض جس طرح سے بھرا جائز اور درست۔
باوجود اس اعتراف کے مُوسیٰ اور توصیف کے حقوق برابر تھے۔ ہم توصیف کی اس دُور اندیشی کی لاریب داد دیں گے کہ اُس کا یقین ، اُس کا ایمان ، اُس کا عقیدہ ہمیشہ یہ رہا کہ اُس کے گھر میں میرا اضافہ با معنی ہے اُس وقت ، جب میری ہستی اضافہ کرے مُوسیٰ کی راحتوں میں اُس کی خوشیوں میں اُس کی مسرتوں میں۔ اِس یقین کا ثمر ، اِس عقیدہ کا نتیجہ ، اِس ایمان کا انجام ظاہر تھا ، روشن تھا ، صاف تھا کہ ایک موسیٰ کیا ، ادنیٰ سے اعلیٰ اور چھوٹے سے بڑا ہر متنفس اُس کا گرویدہ تھا۔
—×—
(2)
توصیف کی زندگی کا یہ دور اور بے فکری کے دن پانچ سال تک مُستقل رہے۔ چھٹے سال ساس کی موت نے اُس کی حالت میں ایک خاص تغیر کیا اور اب داؤد کی بہُو گھر کی ملکہ بنی۔ اس اکرام و اعزاز نے ایک اور ذمہ داری بڑھائی اور اب خُسر کی راحت و آسائش کا بار بھی اُسی کے سر تھا۔ اس ترازُو میں بھی توصیف ٹاکم ٹوک اُتری اور اِس خوش اسلوبی سے فرائض ادا کئے کہ داؤد بیٹے سے زیادہ بہُو کا دلدادہ تھا۔ توصیف کی یہ خدمت یا اطاعتِ خیال یا فکر عارضی اور چند روزہ تھی مگر اس کی تہہ میں بیش بہا خزانے اور بیش قیمت جواہرات پوشیدہ تھے۔ رُوحانی یا جسمانی اذیت جو اس سلسلہ میں توصیف نے بھُگتی فانی تھی ، مگر اس کے پھل رہنے والے اور پھول مہکنے والے تھے۔ بڈھا داؤد قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھا تھا دو ہی سال میں رُخصت ہو گیا ، لیکن اس قلیل مدت میں توصیف نے وہ زیور جمع کر لیا جو آخر وقت تک جگمگایا اور وہ پھُول چُنے جو مرتے وقت تک نہ مُرجھائے۔
داؤد کے بعد توصیف اب گھر کی ملکہ تھی۔ جائداد ، علاقہ ، رُوپیہ پیسہ ہر چیز کی مالک اور مُوسیٰ کہنے کو خدائے مجازی اور حقیقتاً معمولی غلام۔
—×–
(3)
بُرا ماننے کی بات نہیں ، مشاہدہ ہے کہ مسلمانوں کے دورِ موجودہ میں دَولت لا مذہبی کی جڑ ہے۔ مسلمان دولتمند ہو کر نماز کا پابند کم ہی دیکھنے میں آیا ہے ، غریب جس نے مُفلسی میں تہجد اور اشراق تک ناغہ نہ کی ، مالدار ہوتے ہی مذہب کو طاق میں رکھ خدا سے ایسا فرنٹ ہوا کہ کبھی واسطہ ہی نہ تھا۔ اس اصول کے تحت مُوسیٰ کا اسلام روشن اور ظاہر مگر ہم اسی کو غنیمت سمجھتے ہیں کہ اس نے بیوی کی نماز روزہ پر کبھی ناک بَھوں نہ چڑھائی اور توصیف کی عبادت میں جو آسمان اور زمین کا فرق تھا اُس کی ذمہ دار وہ خُود تھی یا اُس کی دولت۔
دریائے ہگلی کے کنارے ایک عظیم الشان کوٹھی ہے ، جس کے چاروں طرف ایک سرسبز اور خوشنما باغ مہک رہا ہے جس میں توصیف اپنے شوہر اور چار بچوں سمیت رہتی ہے۔ کسی قسم کا رنج و غم اُس کے پاس آ کر پھٹکتا تک نہیں۔ داؤد نے یہ کوٹھی کئی لاکھ رُوپے کے صَرف سے ایک گاؤں میں بنوائی تھی اور دُور دُور کے معماروں نے اپنی صنعت کے ایسے ایسے نمونے دِکھائے تھے کہ آدمی دیکھ کر دنگ رہ جاتا تھا۔ رنگ برنگ کے پھُولوں سے اِس ایوان کو جنت بنا دیا تھا۔ مِیلوں تک ہوا ان کی خوشبو سے مہکی رہتی تھی۔ طائرانِ خوش الحان کا نغمہ آبشاروں کی سُریلی آوازیں ، دلوں میں خواہ مخواہ اُمنگ پیدا کرتی تھیں۔
بہتر سے بہتر زندگی جو دُنیا میں کسی عورت کی بسر ہو سکتی ہے وہ توصیف کی تھی کہ مُوسیٰ اس کے اشاروں پر کٹھ پُتلی کی طرح کام کرتا اور دیکھ دیکھ کر جیتا تھا۔ گیارہ سال کے عرصہ میں لڑائی جھگڑا تو درکنار کسی قسم کا اختلاف تک سُننے میں نہ آیا۔
شام کے وقت ایک روز توصیف پائیں باغ میں ٹہلتی ہوئی باہر نکلی اور سڑک پر آئی۔ مُوسیٰ ساتھ تھا۔ دونوں میاں بیوی پاؤں پیدل دُور تک نکل گئے۔ آدمی نہ آدم زاد ، سرد موسم ، شام کا وقت مسافت خاک نہ معلوم ہوئی ، یہاں تک کہ دونوں ایک ایسی جگہ پہونچے جہاں ایک عمارت کی ٹوٹی ہوئی دیواریں اور گِری ہوئی محرابیں اُس کے مسجد ہونے کا پتہ دے رہی تھیں۔ توصیف ایک ایسی ماں کے دُودھ سے پلی اور باپ کی گود میں بڑھی تھی جہاں مُفلسی نے مذہب کی وقعت رگوں میں کُوٹ کُوٹ کر بھر دی تھی۔ گو تغیر حالت نے توصیف کے خیالات میں بہت کچھ فرق کر دیا تھا ، مگر اِسلام کی عظمت وہ جہیز میں لے کر سُسرال پہنچی تھی۔ اُس وقت یہ دیکھ کر کہ خانۂ خُدا اس حالت میں ہو اور کتے اور گیدڑ اس میں رہیں ، دل پر ایک چوٹ سی لگی اور اُس نے مصمم قصد کر لیا کہ اس مسجد کو از سرِ نو تعمیر کرا دوں۔ واپسی میں چند قدم کے فاصلہ پر اس نے ایک ٹوٹی سی جھونپڑی دیکھی نہ معلوم کیا دل میں آئی کہ قریب پہنچی اور دیکھا کہ ایک غریب عورت اپنے دو تین بچوں کو لئے خاموش بیٹھی ہے۔ توصیف کو تعجب ہوا کہ اس جنگل بیابان میں یہ بچوں والی ماں کس طرح اپنی زندگی بسر کرتی ہو گی ، پُوچھا ،
”اری تُو کون ہے ؟ اور یہاں کیوں رہتی ہے ؟“
عورت خاموش رہی اور کچھ جواب نہ دیا۔
توصیف : ” نیک بخت جواب کیوں نہیں دیتی ؟“
عورت : ” جی ہاں ، میں یہیں رہتی ہوں۔“
توصیف : ” تُو اکیلی رہتی ہے ؟“
اس سوال کے جواب میں کچھ ایسی داستان پوشیدہ تھی کہ عورت کی آنکھ میں آنسُو ڈبڈبا آئے۔
توصیف : ”رو مت ، حالت بیان کر۔“
عورت : ”بیوی کیا فائدہ ہو گا ، آپ کیوں سُنتی ہیں ؟“
اب عورت کا دل زیادہ بھر آیا تھا۔ اُس کی آنکھوں سے آنسُو بہہ رہے تھے اور اُس کی آواز میں رقت طاری ہو چکی تھی۔
توصیف : ”بتا ، اپنی حالت بتا ، شاید میں کچھ تیری مدد کرسکوں۔“
عورت : ” بیوی وہ سامنے گاؤں ہے۔ اُس کے پاس دو بیگھ زمین اور ایک کنواں میرا ہے ، میرا شوہر کاشت کرتا تھا اور ہم یہاں سب اطمینان سے رہتے تھے مگر پار سال وہ وبا میں مر گیا۔ زمیندار نے اُس کی دوائی ٹھنڈائی بھی کی مگر نہ بچا۔ چالیس رُوپے کا حساب اُس کے مرے پیچھے زمیندار کا نکلا تھا۔ میرے پاس دانت کُریدنے کو تنکا تک نہ تھا۔ کہاں سے دیتی ، اُس نے میرا بچہ لے لیا اور اب مجھے اُس سے ملنے بھی نہیں دیتا ، مجھے اُس کی صورت دیکھے پانچ مہینے ہو گئے۔ کئی دفعہ گئی ، دھُتکار دیا۔“
یہاں پہنچ کر عورت کی ہچکی بندھ گئی اور اُس نے توصیف کے قدموں میں گر کر کہا ،
”بیوی ، میرا بچہ مجھ سے مِلوا دو خُدا تمہاری مامتا ٹھنڈی کرے۔“
مُوسیٰ : ” بس بیگم چلو دیکھو شام ہو گئی۔“
دونوں میاں بیوی اُس عورت کی حالت پر افسوس افسوس کہتے ہوئے گھر آ گئے اور صبح ہی توصیف کے حکم سے مسجد کی مرمت شروع ہوئی ، اور ایک مہینہ کے عرصہ میں نہایت خُوب صورت مسجد تیار ہو گئی۔
—-×—-
(4)
چلّے کی سردی تھی اور کڑکڑاتے جاڑے۔ وقت کی بات اور ہونی شُدنی کہ توصیف کا بڑا لڑکا کلیم خاصا چنگا بھلا کھیلتا مالتا اندر آیا اور پلنگ پر لیٹتے ہی اس شدت کا بُخار چڑھا کہ ماں اور باپ دونوں پریشان ہو گئے۔ بارہ برس کا بچہ اور پہلونٹی کا ، دونوں میاں بیوی کا دَم ہَوا تھا۔ علاج جس قدر توجہ سے ہوتا تھا اُسی قدر حالت ردی ہوتی جا رہی تھی۔ تین دن اور تین رات یہی کیفیت رہی۔ دُنیا بھر کے جتن کر ڈالے ، مگر حالت میں کسی طرح فرق نہ ہوا ، اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ خُود ڈاکٹر بھی مایوسی کی باتیں کرنے لگے۔ چوتھے روز جب کلیم پر بیہوشی طاری ہوئی اور توصیف کلیجہ پر گھونسے مار رہی تھی ، اُس کو اُس عورت کا خیال آیا جس کا بچہ صرف چالیس رُوپے کے واسطے اس سے بِچھڑا تھا۔
دن کے تین بجے تھے ، وہ عورت اپنے بچہ کی یاد میں اپنی جھونپڑی میں خاموش بیٹھی آنسُو بہا رہی تھی کہ توصیف اس کے پاس پہونچی اور کہا ،
”چلو ، میں زمیندار کا رُوپیہ دُوں اور تُم اپنے بچہ کو لے آؤ۔“
عورت پر ایک شادیِ مرگ کی کیفیت طاری ہو گئی وہ اُچھل پڑی اور ہاتھ جوڑ کر کہنے لگی ،
”کیا آپ میرا بچھڑا ہوا کلیم مجھ سے ملوا دیں گی؟“
توصیف : ” کیا تمہارے بچہ کا نام بھی کلیم ہے؟“
عورت : ”جی ہاں۔“
توصیف : ” ہاں چلو ، میرے ساتھ چلو۔“
عورت توصیف کے ساتھ چلی مگر راستہ بھر اُس کی حالت عجیب رہی ، وہ توصیف کا منہ دیکھتی تھی ، بِلبلاتی تھی ، گڑگڑاتی تھی ، ہاتھ جوڑتی اور کہتی تھی ،
” بیگم ، چالیس رُوپے بہت ہیں مگر میں ہاتھ جوڑوں گی اور دُوں گی ، پانچ چھ رُوپے کے برتن تو میرے پاس ہیں یہ لے جائیے ، تین رُوپے کا ایک ہَل ہے ، باقی رُوپیہ جب تک میں نہ دُوں آپ میرے کلیم کو اپنے پاس رکھ لیجئے ، میں دُور سے ایک دفعہ روز صرف دیکھ جایا کروں گی۔“
توصیف اپنے بچہ کی علالت میں اس درجہ مُستغرق تھی کہ اُس کو دُنیا مافیا کا ہوش نہ تھا ، وہ کسی بات کا جواب دیتی تھی نہ دینے کے قابل تھی ، زمیندار کے گھر پر پہنچی تو توصیف کی صُورت دیکھتے ہی اُس کے اوسان جاتے رہے۔ اُس نے رُوپے دیے تو کہنے لگا،
”حضور ، آپ نے کیوں تکلیف کی ، میں وہیں حاضر ہو جاتا۔“
اب ایک عجیب منظر تھا۔ زمیندار نے کلیم کو آواز دی اور ماں کا دل جو بچہ کی جُدائی میں تڑپ رہا تھا مچھلی کی طرح لوٹنے لگا ، وہ کبھی دروازہ کو دیکھتی اور کبھی توصیف کو۔ اُس کے ہاتھ توصیف کی طرف جُڑے ہوئے تھے اور زبان سے صرف اتنا کہہ رہی تھی ،
”بیگم تیری مامتا ٹھنڈی رہے۔“
کلیم باہر آیا۔ ماں کی صُورت دیکھتے ہی دوڑا اور اس کے گلے میں ہاتھ ڈال کر چمٹ گیا۔ اُس وقت عورت نے فرطِ مسرت سے ایک چیخ ماری اور توصیف کے قدموں میں گر کر کہا ،
”اے بیگم خُوش رہ ، بِچھڑا ہوا لال مُجھ سے ملوا دیا۔“
توصیف کا دل اپنے کلیم میں پڑا ہوا تھا۔ بھاگم بھاگ گھر آئی تو ڈاکٹر کے یہ الفاظ اُس کے کان میں پہنچے ،
”اگر اِس دوا سے بُخار اُتر گیا تو خیر ورنہ پھر حالت بہت خطرناک ہو گی۔“
برابر کے پلنگ پر خاموش لیٹ گئی ، رات کے دس بجے ہوں گے ، بچہ کا بدن دیکھا تو بدستُور چنے بھُن رہے تھے ، مایوس ہو کر پھر لیٹی اور یقین ہو گیا کہ اب بُخار اُترنے والا نہیں۔
بارہ بجے کے قریب بُخار اور تیز ہوا اور توصیف اب قطعی مایوس ہو گئی۔ ان ہی خیالات میں غلطاں و پیچاں لیٹی ہوئی تھی کہ آنکھ لگ گئی۔ دیکھتی کیا ہے کہ ایک شخص سامنے کھڑا کہہ رہا ہے ،
”توصیف ! خُدا کا اصلی گھر تو بِچھڑے ہوئے کلیم کی ماں کا دل تھا ، تُو نے اُس کی مامتا کی قدر کی ، تیرا بچہ تُجھ کو مبارک ہو ، تُو نے غریب کلیم کو ملوایا اُٹھ تُو بھی اپنے کلیم سے مِل۔“
توصیف ابھی خواب ہی دیکھ رہی تھی کہ مُوسیٰ کی اِس آواز نے اُس کو چونکا دیا ،
”الٰہی تیرا شُکر ہے بُخار اُتر گیا۔“
گھبرا کر اُٹھی تو بچہ پسینے میں نہا رہا تھا اور بُخار کا پتہ دُور دُور تک نہ تھا۔
1920ء