وہ اس وقت ڈاؤن ٹاؤن، دبئی کے وسیع ہوٹل کی دوسری منزل پر موجود اپنے کمرے کی گیلری میں کھڑا سگریٹ کا کش لگا رہا تھا۔۔
اتنے بڑے ملک میں مختلف تہذیب کے لوگوں کے درمیان موجود ہو کر بھی وہ خود کو اکیلا محسوس کرتا تھا، اسکی آنکھوں کے سامنے ازلفہ کا چہرہ گردش کررہا تھا جبکہ اسکی نظر سامنے ریسٹورینٹ پر جمی تھی اسکی گیلری سے وہ ریسٹورینٹ صاف دکھائ پڑتا تھا۔۔۔
ابھی وہ ازلفہ کی یادوں میں کھویا ہوا ہی تھا جب اسنے اس ریسٹورینٹ سے ایک سیاہ فام جوڑے کو باہر نکلتا ہوا دیکھا جس میں موجود لڑکی نے منی اسکرڈ اور شرٹ پہنا ہوا تھا جبکہ لڑکا جینز اور ٹی شرٹ میں تھااس جوڑے کے درمیان بےتکلفی واضح تھی اور دیکھ کر لگتا تھا کہ وہ دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔۔
زمان ان دونوں کو دیکھ کر اپنی محبت کی مماثلت ان کے رشتے سے کرنے لگا مگر چند لمہوں کی دیر تھی اور اچانک تصویر کا دوسرا رخ زمان کی آنکھوں کے سامنے تھا۔۔
اس جوڑے کے طرف دوڑتا ہوا ایک گورا آرہا تھا جسے دیکھتے ہی وہ سیاہ فام لڑکی خوشی کا اظہار کرنے لگی اور آگے بڑھ کر اسکے سینے سے لگ گئی کچھ دیر وہ تینوں ایک دوسرے سے باتیں کرنے لگے پھر وہ لڑکی اسکی باہوں میں ہاتھ ڈالے اسکے ہمرا سڑک کی دوسری طرف چلی گئی جبکہ وہ سیاہ فام لڑکا بھی ان دونوں کی الٹ سڑک کی دوسری طرف چل دیا۔۔
زمان کے چہرے پر یہ منظر دیکھ کر شدید ناگواری گزری۔۔
اور اسکو ایک دفعہ اپنے اور ازلفہ کے مسلمان ہونے پر فخر محسوس ہوا کیونکہ وہ جانتا تھا ایک مسلمان مرد نا کسی عورت کو ٹشوپیپر کی طرح استعمال کرکے پھیکتا ہے نہ خود کسی عورت کہ لیے ٹشو پیپر بنتا ہے ہاں کچھ لوگ ہوتے ہیں انسانیت سے گرے ہوئے۔۔
اسنے منہ سے سگریٹ کا دھواں نکالا اور پھر سگریٹ پھینک کر موبائل نکالنے لگا۔۔ وہ اپنی جان سے پیاری بیوی کو کال کر رہا تھا مگر دو تین رنگ کے باوجود بھی کال ریسیو نہ کی گئی۔۔
ہممم۔۔ موبائل نہیں اْٹھا رہی شاید سو رہی ہوگی۔۔ اسنے ہونٹ بھینچ کر کہا۔۔
مسٹر زمان۔۔ یہ آواز فیبیان کی تھی جو اسکی پشت پر کھڑا تھا اسکی آواز پر ایک لمہے کو زمان چونکا۔۔
آپکو یہ ہوٹل سمجھ آگیا ہے؟ فیبیان نے پوچھا۔۔
ہاں ٹھیک ہے مجھے یہاں کوئ پرابلم نہیں ہے۔۔ اسنے موبائل جیب میں رکھتے ہوئے کہا۔۔
دیٹس گریٹ۔۔ تو پھر کل صبح میں آپکو پک کروں گا، آپ کل چل کر آفس دیکھ لیے گا۔۔ اسنے کہا۔۔
اوکے۔۔ جیسا آپکو مناسب لگے۔۔ زمان نے کہا جس پر وہ مسکرانے لگا۔۔
_____________________________________
ایک زور دار تھپڑ کی آواز پورے گھر میں گونج اْٹھی یہ تھپڑ منہاج کہ گال پر شاہ زیب ملک نے رسید کیا تھا جسکی گونج ملک ہاؤس کے گھر کی درودیوار کو ہلا چکی تھی۔۔
منہاج تھپڑ کھا کر لڑکھڑاتا ہوا پیچھے کو گیا مگر اس نے خود کو سنبھال لیا تھا۔۔
جب میں تمھیں یہاں چھوڑ کر گیا تھا تو پھر زلان نے کیسے سوئیمنگ پول کی یہ حالت بنائ؟؟
شاہ زیب ملک بری طرح دھاڑرہے تھے انکے آس پاس کھڑے تمام ملازم کے حلق خشک ہوچکے تھے۔۔
کہاں ہے اس وقت زلان؟؟ انہوں نے زوردار آواز میں سوال کیا۔۔
جی وہ۔۔۔ وہ۔۔صبح سے گھر میں نہیں ہیں ۔۔ اسنے ہکلاتے ہوئے جواب دیا۔۔۔
جمال۔۔ جاؤ اور کہیں سے بھی ڈھونڈ کر لاؤ اس لڑکے کو۔۔۔
انکی آنکھوں میں خون اتر چکا تھا جمال سیٹھی انکا حکم پاتے ہی اپنے بندوں کے ساتھ نکل گیا۔۔
اس عورت کے لیے یہ ناجانے اب کیا کیا کرےگا۔۔ وہ خود کلامی کر رہے تھے۔۔ جبکہ منہاج گال پر ہاتھ رکھا سہما ہوا کھڑا تھا۔۔
_____________________________________
امسہ اور ازلفہ مسکراتی ہوئ یونورسٹی کے اندر داخل ہورہی تھیں آج موسم میں زرا ٹھنڈ بڑھنے کی وجہ سے ان دونوں نے ہی شال اوڑھی ہوئ تھیں۔۔
ممّا آج میں یونیورسٹی سے کلاس بنک کروں گی مجھے شاپنک پر جانا ہے سارہ کے ساتھ۔۔
اسنے اپنے ساتھ چلتی ہوئ امسہ سے کہا۔۔
اچھا ٹھیک ہے مگر زیادہ دیر مت کرنا تم شاپنگ پر جاتی ہو تو واپسی آنے کا ہوش ہی نہیں رہتا۔۔
امسہ کے کہنے پر اسنے مسکراتے ہوئے منہ بنایا۔۔
وہ دونوں تو آج ہر دن کی طرح ویسی ہی لگ رہی تھیں جسی تھیں مگر یونیورسٹی میں ہر شخص کا انداز کچھ عجیب تھا اسٹوڈینٹس ان دونوں کو دیکھ کر کھسر پھسر کررہے تھے جبکہ کچھ تو انکو دیکھ کر قہقہہ لگارہے تھے۔۔
ازلفہ نے یہ سب نوٹس میں لیتے ہوئے ایک دفعہ خود کا بغور جائزہ لیا۔۔
ممّا مجھے کچھ گڑبڑ سی لگ رہی ہے، سب ہمیں ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں؟؟ ازلفہ نے آہستگی سے کہا۔۔
ہاں مجھ بھی کچھ عجیب ہی لگ رہا ہے۔۔ انکو بھی تشویش ہوئی۔۔
ازلفہ اپنی کلاس میں جاچکی تھی جبکہ مس امسہ نے لائبریری کا رخ کرلیا،
ارے پروفیسر امسہ آپ کہاں جارہی ہیں آپکو تو پرنسپل نے اپنے آفس میں بلایا ہے۔۔
وہ لائبریری کی جانب بڑھ ہی رہی تھیں جب پروفیسر شازیہ نے ان سے کہا۔۔
اچھا۔۔ مجھے تو نہیں پتا۔۔ خیر میں ابھی جاتی ہوں۔۔
انہوں نے ان سے کہا اور آفس کی طرف مڑگئیں۔۔
آفس کے سامنے چئیر پر ادھیڑ عمر کے بھاری بھرکم وجود کے مالک پرنسپل عثمان احمد بیٹھے تھے۔۔
آفس میں مکمل سکوت تاری تھا بس اس سکوت میں خلل پیدا کرنے والی وہ گھڑی تھی جو دیوار پر لٹکی ٹک ٹک کی آوازیں لگا دہی تھی۔۔
آئیے مس امسہ بیٹھیے۔۔
انہوں نے چئیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جس پر امسہ بیٹھ گئ۔۔
کیسی ہیں آپ؟؟ مس امسہ سے انکا پہلا سوال تھا۔۔
جی بلکل ٹھیک ہوں شکر ہے اس رب کا۔۔ وہ مسکرائیں۔۔
دیکھیئے مس امسہ آپ نے اتنے سال ہمارے لیے اس یونیورسٹی کے لیے بہت محنت کی ہے ہم آپکی قابلیت کو مانتے ہیں مگر میں یا اس یونیورسٹی کا کوئ بھی فرد کبھی آپ کے بارے میں کوئی غلط بات نہیں کریگا یہ آپ بھی بخوبی جانتی ہیں۔۔
وہ گردن ہلاتے ہوئے آہستگی سے بول رہے تھے۔۔
لیکن ہم آپکی وجہ سے اپنی یونیورسٹی کی بدنامی نہیں کرواسکتے نا ہی کوئی اسکینڈل بنوا سکتے ہیں۔۔
انہوں نے سنجیدگی سے کہا جس پر امسہ کا دل بیچین ہوگیا۔۔
آپ کس بارے میں بات کررہے ہیں سر مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے۔۔
امسہ نے بے چین ہوکر پوچھا۔۔
چلیں کوئ بات نہیں اگر آپ انجان بن رہی ہیں تو میں خود بتادیتا ہوں محترمہ میں آپ کے اور زلان ملک کے ریلیشن کے بارے میں بات کررہا ہوں۔۔ اور انکے منہ سے یہ جملہ ادا ہوتے ہی امسہ کے جسم سے جیسے جان نکل گئیں وہ سکتے کہ عالم میں رہ گئیں۔۔
دیکھیں آپ کے اور اس لڑکے کے درمیان جو بھی رشتہ ہے میں اسکے بارے میں بات نہیں کروں گا، آپ شادی کرنا چاہتی ہیں اس عمر میں وہ بھی اس لڑکے سے تو میں کیا کوئی بھی کچھ نہیں بولے گا مگر پھر بھی اس عمر میں یہ سب جبکہ آپکی بیٹی کا نکاح بھی ہوچکا ہے بڑا عجیب لگتا ہے۔۔
عثمان احمد کی باتیں انکے دل میں خنجر کی طرح گھپ رہی تھیں انکا جی چاہ رہا تھا کہ زمین پھٹے اور وہ زندہ اس میں سما جائیں عثمان احمد آسان الفاظوں میں ان پر کیچڑ اچھال رہا تھا اور وہ اپنا دامن اب اس سے بچا بھی نہیں سکتی تھیں وہ بے بسی کی مورت بنی بیٹھی تھیں۔۔
آپ کو معلوم بھی ہے پوری یونیورسٹی میں آپکے اور شاہ زیب ملک کے بیٹے کے افئیر کی باتیں چل رہی ہیں، ہر دوسرا اسٹوڈینٹ آپ دونوں کے ٹاپک پر بات کرتا دکھائی دیتا ہے اتنی چرچا تو آج تک یونیورسٹی میں کسی بات پر نہیں ہوئ۔۔۔۔۔۔
خیر یہ آپ کا پرسنل میٹر ہے آپ جو چاہیں کریں بس مجھ پر ایک مہربانی کردیں کہ آپ اس جاب سے استفہ دےدیں۔۔
پروفیسر نے ان کے سامنے ایک پیپر رکھتے ہوئے کہا۔۔
جبکہ انکا صبر اب جواب دے چکا تھا وہ آنکھوں کے کنارے پر ٹہرے آنسوؤں کو الوداع کہہ رہی تھیں جو بہتے ہوئے انکے چہرے کو تر کر رہے تھے۔۔۔
ارے مس امسہ آپ جزباتی نہ ہوں۔۔ عثمان احمد انکو روتا دیکھ کہنے لگا۔۔
پین دیجیئے۔۔ امسہ کانپتے لبوں کے ساتھ اتنا ہی کہہ سکی۔۔
پروفیسر کے پین دینے پر وہ لرزتے ہاتھوں کے ساتھ ہونٹ کاٹتی ہوئ سائن کررہی تھیں۔۔
انہوں نے کسی قسم کا کوئ احتجاج نہیں کیا نا ہی اپنی شرافت کا کوئ ثبوت دیا کیونکہ زلان ملک نے انکے لیے ایسا کوئ بھی راستہ باقی نہ چھوڑا تھا جس راستے کے سہارے وہ کوئ صفائ پیش کرتیں۔۔
سائن کرتے ہی وہ اپنے کانپتے وجود کو گھسیٹتی ہوئی آفس سے باہر نکلیں وہ مر مر کر چل رہی تھیں انکو ہر شخص خود پر ہنستا ہوا نظر آرہا تھا انکا دل چاہا وہ مرجائیں زلان ملک انکو زلت کے اس عروج پر پہنچا چکا تھا جہاں آکر وہ اپنی روزی روٹی کمانے کا زریعہ بھی گوا چکی تھیں۔۔
وہ آج اس یونیورسٹی سے زلت کا سرٹیفیکیٹ لے کر جا رہی تھیں جس کے بوجھ سے انکا سارا جسم جھکا ہوا تھا
_____________________________________
کینٹین میں بےہنگم شور مچا ہوا تھا جبکہ وہ سارہ کے ساتھ کونے پر رکھی ٹیبل پر بیٹھی لنچ کررہی تھی۔۔
ہیلو صبا کیسی ہو؟؟ اسنے صبا سے کہا جو انکی ٹیبل کے پاس آکر کھڑی ہوئی تھی۔۔
میں تو ٹپ ٹاپ ہوں مجھے کیا ہونا ہے، بائے دی وے تم سناؤ تمھارے گھر تو شادی کی تیاریاں چل رہی ہونگی ۔۔
صبا نے ٹیبل پر رکھے فرینچ فرائز کھاتے ہوئے کہا۔۔
ہاں یار شاپنگ تو چل رہی ہے مگر اتنی نہیں کیونکہ میری رخصتی میں ابھی کافی ٹائم ہے۔۔
اسنے چہکتے ہوئے کہا۔۔
آآ۔۔۔۔نہیں مس ازلفہ میں آپکی نہیں آپکی ممّا کی شادی کی بات کررہی ہوں۔۔ صبا کے چہرے پر عجیب سا رنگ تھا۔۔
کیا مطلب۔۔ ازلفہ کا چہکتا ہوا چہرہ زرد ہوگیا۔۔
اووہ کم آن ازلفہ اب بنو مت یو نو میں مس امسہ اور زلان ملک کی شادی کی بات کررہی ہوں۔۔
صبا کا کہنا تھا کہ ازلفہ بدک کر کھڑی ہوگئ۔۔
کیا بکواس کررہی ہو تم ہوش میں تو ہو؟؟ ازلفہ کا دماغ گھوم چکا تھا۔۔
اووہ میڈم جسٹ رلیکس او کے یہ غصہ نا اپنی سوکولڈ ممّا کو دکھانا۔۔ شاید تمھیں پتہ نہیں ہے کہ پوری یونیورسٹی میں تمھاری ممّا اور زلان ملک کے افئیر کی باتیں چل رہی ہیں۔۔ہنہ۔۔۔
صبا نے چڑ کر منہ بنایا۔۔
ک۔۔ک کیا؟؟ اسکی رگوں میں گردش کرتا خون جم گیا۔۔
جی ہاں مس ازلفہ۔۔۔
ہم تو سمجھتے تھے پروفیسر امسہ بہت ہی سمپل سی لیڈی ہیں بٹ آئ رئیلی ڈڈنٹ نو، کہ وہ اس قدر چیپ حرکت بھی کرسکتی ہیں۔۔۔ اس عمر میں اتنا ہینڈسم لڑکا پھسایا ہے وہ بھی پولیٹیشن کا بیٹا، سو کریزی یار آئی کانٹ بلیواٹ۔۔
وہ ہاتھ کے اشارے سے بھویں چڑھا چڑھا کر بول رہی تھی جبکہ ازلفہ کا خون کھول رہا تھا وہ مذید صبا کی بکواس سننے کے موڈ میں نہیں تھی۔۔وہ سرخ چہرے کے ساتھ اپنا بیگ اٹھائے بھاگتی ہوئی یونیورسٹی سے باہر کی جانب بڑھنے لگی۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...