٭٭ حیدر قریشی کی شاعری درحقیقت ان کی زندگی کا ایسا آئینہ ہے جس میں ان کی زندگی کے تقریباً سبھی اُتار چڑھاﺅ اور دُکھ درد دیکھے جاسکتے ہیں۔
ڈاکٹر شفیق احمد(بھاول پور)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭غزل میں اس کا کام لب سوز۔لب دوز کی حدود تک پہنچاہوا ہے ۔اس کے اوپر جاکر ذھن کے پھیلاﺅ کاکام بھی کرتا ہے ۔میرا خیال ہے اگر وہ اپنی غزل کا انتخاب چھپوا دے تو بڑے بڑوں کے چراغ بجھ جائیں ۔میں نے ہمیشہ اُسے غزل پر زیادہ توجہ دینے کو کہا ہے کہ مَیں اسکی غزلوں کے پس منظروں کو ذاتی طور پر جانتا ہوں۔مَیں نے اس کی لگتی بھی دیکھی ہے اور ٹوٹتی بھی۔پھر ٹوٹنے میں ” تڑک “ کی آواز بھی سنی ہے اسکی غزل ”میری لگدی کسے نہ دیکھی ۔تے ٹٹڈی نوں جگ جان دا ۔“کی آواز ہے۔اس کی غزل کی اس ”ٹوٹتی ہوئی“ کو بھی زمانہ سنے گا اور اس سننے میں وہ سب کچھ دیکھ بھی لے گا۔ اکبر حمیدی(اسلام آباد)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭مجھے پہلے کی طرح آپ کے کام کی صلاحیت کے معجزے پرحیرت بھی ہے اور صد رشک بھی۔سمجھ میں نہیں آتا ہے آپ 24 گھنٹوں کو48 گھنٹوں یا اس سے بھی زیادہ کس طرح بنا لیتے ہیں؟ ۔اگلی ملاقات ہو گی(انشاءاﷲ) تو آپ سے یہ منترسیکھنے کی کوشش کروں گی۔
ڈاکٹر لڈمیلاوسیلئیوا(ماسکو)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ میں انہیں(حیدر قریشی کو)مغربی دنیا میں اردو کا سب سے بڑا ادیب مانتا ہوںاور ان کی صلاحیتوں کے سامنے اپنی ہیچ مدانی کا اعتراف کرتا ہوں ۔حیدر ،ون مین ادبی رائٹنگ کی انڈسٹری ہیں۔۔۔۔ ۔میرے برخوردار ہیں۔مجھ سے عمر میں دس برس کم،لیکن کام وصلاحیت میں سو سال بڑے ۔ڈاکٹر ظہور احمد اعوان(پشاور)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ تخلیقی ادب میں کسی نئی یا غیر معروف صنف کو رائج کرا دینا اپنے آپ میں اتنی بڑی بات ہے کہ اسے تاریخ ہمیشہ ایک ادبی واقعے کے طور پر یاد رکھتی ہے۔’آزاد غزل‘کو متعارف کرانے کے لئے جتنا مظہر امام کو یاد رکھا جائے گا،شائد اس سے کہیں زیادہ ’ماہئے‘کو پھرسے رواج اور قبولیت دلانے کے لئے حیدر قریشی کی یاد آئے گی۔
کتنی حیرت کی بات ہے کہ پچھلے کئی عشروں سے جرمنی میں خاموشی،مگر نہایت سرگرمی سے ادب کی تخلیق و ترویج میں مصروف یہ فنکار صرف ماہیے ہی نہیں لکھ رہا ہے بلکہ اس نے غزل، نظم، افسانے،انشائیے،خاکے اور سفر نامے لکھنے اور تنقید و تحقیق کے شعبے میں بھی اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہے۔ایسے قلم کار کی ادبی قدروقیمت اور تخلیقی جہات کا اندازہ لگانے کے لئے ضروری ہوجاتا ہے کہ اسے اور قریب سے دیکھا اور دکھایا جائے۔
نصرت ظہیر(دہلی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭عمرِلاحاصل کا حاصل اورجدید ادب نے اُس رات بھی اورآج رات بھی صبح تک مجھے جگائے رکھا۔ہمارے درمیان بہت کم ایسی ادبی شخصیات ہیں جنھوں نے ادب کے اتنے سارے منطقوں میں نہ صرف قدم رکھابلکہ خوب خوب سیر کی اور اپنے تجربوں اورمشاہدات کواپنے تخلیقی سفر کاحصہ بنایا۔میں آپ کی ان کاوشوں کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔یوں ہی ایک اور خیال آیا ہے کہ ”خان پور سے جرمنی تک“ کااحاطہ کیجیے۔آپ جس ڈھنگ سے کردار بناتے ہیںاوراُن کرداروں کوایک خاص ڈھب سے کہانیوں کے نشیب و فراز سے گزارتے ہیں بہت Realisticہیں۔”خان پور سے جرمنی تک“ کی ان کئی دہائیوں میں ایسے بے شمار کردار ہوںگے اورایسے دلچسپ اور صبر آزماواقعات ہوں گے جو آپ کی تخلیقی اپچ کے محتاج ہوں گے۔
ایوب خاور (لاہور)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭حیدر قریشی ایک کثیرالمطالعہ‘وسیع النظر‘کشادہ ذہن‘پختہ فکر اور تازہ کار تخئیل کے حامل ایک با شعور تخلیق کار ہیں۔اپنے گردو پیش ‘ قریب و بعید‘زندگی کے داخلی اور خارجی عوامل‘ گوناگوں تجربات‘روزمرہ درپیش واقعات‘خوشگوار و ناخوشگوار حادثات و سانحات‘ مختصر یہ کہ حیات و ممات سے متعلق لوازمات جن سے وہ گزرتے رہے ہیں‘جنہیں وہ جھیلتے رہے ہیں‘کم و بیش ان تمام کیفیات کو ان سے پیدا شدہ نتائج کے ساتھ اشعار میں سمو لیا ہے۔ان کی غزل رنگینیٔ تخیّل کا محض نگار خانہ نہیں‘جیتی جاگتی زندگی کے رنگا رنگ حقائق کا منظر نامہ پیش کرتی ہے۔
انہوں نے اپنے غزلیہ اشعار کے وسیلے سے نامعلوم خلاؤں میں محض الفاظ و خیالات کے طوطا مینا اڑانے کے بجائے زندگی کی رگوں میں دوڑنے پھرنے والے ‘زندگی کی اوبڑ کھابڑ سطح پر رواں دواں تلخ و ترش اور کھٹے میٹھے حقائق کی اثر انگیز ترجمانی کی ہے۔انہیں دنیا سے جو کچھ ملاہے اسے لوٹانے کے بجائے اس کے ردو قبول کی مشترکہ کیفیت کو ایک دلکش طرز اظہار کے وسیلے سے دنیا کے روبرو پیش کر دیا ہے۔وہی سب کچھ جسے شاعری کی اصطلاح میں سماجی بصیرت اور عصری حسیت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔حیدر قریشی کے دامن نگاہ میں کائنات کی اتنی وسعتیںسمٹ آتی ہیںجن کی سمائی کی تنگنائے دل میں گنجائش نہیں ہے۔ڈاکٹر محبوب راہی(انڈیا)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭حیدر قریشی کی غزل میں تغزل کا رنگ و آہنگ اپنے تمام تر لوازمات کیساتھ نظر آتا ہے جو کہ ان کی شاعری کا امتیازی وصف ہے ۔۔۔۔۔حیدر قریشی کی غزل قدامت کے ساتھ ساتھ جدیدیت کا رنگ بھی رکھتی ہے ۔ اس کی غزل میں علم بیان کے ساتھ ساتھ علم بدیع کی خوبصورتی بھی ہے نیز وہ غزل کہتے کہتے اپنے قبیلہ ءشاعری کے علاوہ اپنے علاقے کو بھی نہیں بھولتا ۔
منزہ یاسمین(بھاول پور)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭حیدر قریشی کی دنیا صرف عشق و محبت کے رنگین افسانوں سے مزّین نہیںبلکہ ان کی شاعری میں عصرِ حاضر کا وہ کرب بھی شامل ہے جس سے اس عہد کا ہر ذی شعوراور حساس انسان دوچار ہے۔قصرِ سیاست کی عیاریوں کے ساتھ عام انسان کی بدلتی نفسیات، مادّیت پرستی کے بڑھتے رجحان پر ان کا قلم لکھتا ہے اور خوب لکھتا ہے۔خیالات کا بہاؤ انہیں نیرنگیٔ دوراں کے نئے جہانوں کی سیر کراتا ہے۔ڈاکٹر نجمہ رحمانی(دہلی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔