اس منزل پر پہنچتے پہنچتے فکر کی بلندی،خیال کی نزاکت،غزل کے اسرار و رموز حیدر قریشی کی غزل گوئی کے وہ امتیازی اوصاف بن جاتے ہیں جہاں حقیقت اور رومانیت ،کلاسیکیت اور جدیدیت ،مقامیت اور عالمیت اور ان سب پر غالب ایک مخصوص شاعرانہ کیفیت نے ان غزلوں کو لائقِ مطالعہ ہی نہیں بلکہ عہدِ حاضر کا ایک رزمیہ بنا دیا ہے جس کا پُر شوق مطالعہ ایک نئی جمالیاتی دنیا میں لے جاتا ہے۔جہاں زمان و مکاں ماضی و حال باہم مدغم ہو کر غزلیہ شاعری کی ایک ایسی لَے اور ایک ایسا آہنگ بن جاتے ہیں جہاں شاعری صرف ادب ہی نہیں بلکہ فکر و فلسفہ،تاریخ و تہذیب کا روپ اختیار کر لیتے ہیں۔بعض اشعار تو ایسے ہیں جن کی معنویت و مقصدیت کا دائرہ پھیل کر قوسِ قزح کا روپ اختیار کر لیتا ہے۔ایک آفاقی معنویت کا علمبردار۔
ڈاکٹر علی احمد فاطمی(الہٰ آباد)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدرقریشی ایک ہمہ جہت فنکار ہیں، وہ غزل گو بھی ہیں اور نظم گو بھی، اس طرح ماہیا بڑی چابکدستی سے کہہ دیتے ہیں۔ حمدیہ ماہیوں میں بھی ان کی فنکاری جھلکتی ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ آج کے معاشرے پر بھی ان کی نظرہے۔ڈاکٹر عبدالرب استاد(گلبرگہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدر قریشی نے زندگی کو بہت قریب سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔زیست کے فلسفوں کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔انہوں نے حیات وہ ممات کے مباحث میں الجھ کر موت کو سینے سے لگایا ہے انہوں نے زندگی کو عذاب اور موت کو شباب کی نظر سے دیکھاہے ۔ان کا ایقان ہے کہ موت کا خلوص زندگی کے فریب پر بھاری پڑ جاتا ہے ۔موت سے قبل زندگی کے قرض کی ادائیگی کا خیال ہمیں چونکاتا ہے اور ہر لمحہ دعوتِ فکر دیتا ہے ۔۔۔۔وہ آلام و مصائب سے گھبراتے نہیں بلکہ ان کا مقابلہ کرتے ہیں ۔وہ غموں سے فرار حاصل نہیں کرتے بلکہ ان کی آنکھوں میں آنکھیںڈال کرجینے کا راستہ نکالتے ہیں۔۔۔۔۔۔حیدرقریشی جدید لب و لہجے کے شاعر ہیں ۔وہ جدید خیالات، جدید حسّیات،جدید تشبیہات و استعارات، جدید لفظیات اور جدید تراکیب تراشتے ہیں ۔وہ خیال اور مضامین دونوں کی جدّتوں کو بروئے کار لاتے ہیں ۔ان کی شاعری میں مشینوں کی گڑ گڑاہٹ کا بیان نہیں ملتا لیکن مشینوں کی حکومت نے انسانی احساسات پر جو قبضہ جمانے کی کوشش کی ہے اس سے بیزاری کے نقوش ضرور مل جاتے ہیں۔ ان کے شعروں میں تنہائیوں کا کرب،ہجرت کی تکالیف،سینوں کے داغ،اور دلوں کے زخم کی صدائیں گونجتی ہیں۔وہ گلو بلائز یشن کے حصار میں گھری زندگی اور اس کے مسائل کا عکس پیش کرتے ہیں ۔دنیا تیزی سے ایک عالمی گاﺅں میں تبدیل ہوتی جارہی ہے۔رشتوں کی جڑیں کھو کھلی ہوتی جارہی ہیں۔پیار،محبت اور ایثار و خلوص کی عمارت ٹوٹتی جا رہی ہے ۔جدید ترین قمقموں کی فراوانی کے باوجوداندھیروں کی سلطنت بڑھتی جارہی ہے۔دوریاں سمٹتی جارہی ہیںمگر دلوں کے درمیان فاصلے وسیع ہوتے جارہے ہیں ۔ تنہائیاں ہر طرف اپنا جال بن رہی ہیں۔ایسی حالت میں شاعر کے دل کا اداس ہونا عین فطری ہے ۔ وہ گہری سوچ میں ہے۔کسی مسئلے کی طرف وہ مسلسل سوچ رہا ہے لیکن خیالات کے نہ ختم ہونے والے سمندر میں اس کی ذات مزید ڈوبتی جارہی ہے اور وہ اپنے وجود سے بے خبر اپنی ہی تلاش میں سرگرداں ہے۔ معید رشیدی(دہلی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جرمنی میں مقیم حیدرقریشی ویسے تو اردو کی معروف شخصیت ہیں اور نثرو نظم کے میدان میں اپنی اہمیت و عظمت ثابت کرا چکے ہیں۔ انہوں نے مختلف اصنافِ ادب کو اپنے اظہار کاوسیلہ بنایا ہے۔شاعری میں بھی حیدر صاحب کی شخصیت مثلث کی حیثیت رکھتی ہے اور غزل ، ماہیا ، نظم کے زاویوں میں جلوہ گر ہوتی ہے۔ یہ مثلث ایسا ہے کہ جو نہ صرف ان کی شاعرانہ قدرتِ کلام کو ظاہر کرتا ہے بلکہ متنوع شخصیت کے پہلو بھی اُجاگر کرتا ہے۔ اُن کی غزلیں پڑھ کر بے ساختہ داد دینی پڑتی ہے،۔۔ ماہیا نگاری میں وہ ید طولیٰ رکھتے ہیں اور نظم گوئی میں بھی وہ بہر صورت کامیاب ہیں ۔ کس کو کس پر ترجیح دی جائے؟ اگر قاری کے سامنے یہ سوال کھڑا کیا جائے تو وہ پس و پیش میں پڑ جائے گا کیونکہ مثلث کے تینوں زاویے اُسے دلکش دکھائی دیں گے اور ہر زاویہءنظر سے حیدرقریشی کی تصویر عظمت کا پیکر بن کر اُبھرے گی ۔ڈاکٹر جمیلہ عرشی(جے پور،راجستھان)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدر قریشی بنیادی طور پر غزل گو شعراءمیں شمار کیے جاتے ہیں اور ان کی غزلوں میں مشرقیت سانس لیتی محسوس ہوتی ہے ۔ حیدر قریشی رموزِ شاعری سے واقف ہیں ۔ اس لیے انہوں نے جو کچھ کہا وہ ان کے ذوق اور سلیقے کی بہترین ترجمانی کرتا ہے ۔ حیدر قریشی کی شاعری روایتی اور جدید دونوں موضوعات کا حسین امتزاج ہے ۔۔۔۔۔۔۔حیدر قریشی نے اپنی شاعری میں عشق کو محض تذکرے کے طور پر نہیں اپنایا بلکہ انہوں نے عشق کو اس کی تمام تر حرارتوں اور جذباتی محرکات کے ساتھ پیش کیا ہے ۔ ان کا محبوب روایتی غزل کا خیالی ہیولہ نہیں بلکہ یہ ان کی دنیا کا باسی ہے جو ان کے ارد گرد اپنی تمام تر حقیقتوں کے ساتھ موجود ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔ حیدر قریشی کی غزل میں علم بیان کے ساتھ ساتھ علم بدیع کی خوبصورتی بھی ہے ۔۔۔۔۔حیدر قریشی کی نظموں کے رنگا رنگ موضوعات اپنی مکمل قوت اور توانائی کیساتھ تہذیبوں کے اتار چڑھاؤ اور کائنات کی تخلیق کے روپ سروپ لیے قاری کے حواس پر اثر انداز ہوتے محسوس ہوتے ہیں ۔ جو اپنے دور کے لوگوں کو محبت و امن کی نوید اور پرانی رنجشوں کوبھلا دینے کا درس دیتے ہیں ۔ ان کی نظموں میں لفظوں کی پیچ در پیچ زنجیروں میں زندگی سانس لیتی محسوس ہوتی ہے ۔ منزہ یاسمین(بھاول پور)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر مغربی ممالک میں قیام پذیر اردو کے سارے شاعروں،ادیبوں کا جائزہ لیا جائے تو اپنے اپنے اصنافی دائرے میں سب اچھا کام کر رہے ہیں۔کوئی شاعر ہے،تو کوئی افسانہ نگار۔۔کوئی نقاد اور محقق ہے تو کوئی خاکہ نگار۔۔۔کوئی انشائیہ نگار ہے تو کوئی سفر نامہ نگار۔۔۔کوئی سوانح نگار ہے تو کوئی یاد نگار۔۔۔بعض ادباءنے ایک سے زیادہ اصناف میں بھی کام کیا ہے لیکن حیدر قریشی نے جتنا کثیرالجہت کام کیا ہے اور اس میں جس طرح اپنا عمومی معیار بھی برقرار رکھا ہے اس کے باعث مغربی ممالک کے شاعروں اور ادیبوں میں تو حیدر قریشی کا بالکل الگ ایک مقام بن چکا ہے جس میں وہاں کوئی بھی ان کا مد مقابل دکھائی نہیں دیتا۔پروفیسر فرحت نواز(رحیم یار خاں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(حیدر قریشی) کی تحریروں میں کشمکشِ زیست غالب عنصر ہے۔مگر ان کی شاعری میں تہذیبی جلا وطنی اور سیاسی متعلقات بھی ہیں۔ان کے شعری اسلوب میں سرائیکی لسانیات کااردو میں نفوذ بھی نظر آتا ہے۔شعری صنف ”ماہیا “پر ان کا کام بڑے معرکے کا ہے۔
وہ خواب گر بھی ہیں اور خواب شکن بھی۔۔۔۔۔احمد سہیل(امریکہ)