؎؎
”ماہیا“ پنجابی شاعری کی مشہور مقبول صنف ہے ۔اردو میں حید ر قریشی نے اسے رائج کیا اور کچھ اس طرح رائج کیا کہ ماہیاماہیا کرتاوہ خود ماہیا بن گیا۔اس نے اس صنف کا پودا اردو کی سرزمین میںکچھ یوں کاشت کیا کہ اس کی آبیاری کے لئے لکھنے والوں کی ایک بڑی ٹیم جمع کرلی۔ماہیا کے لئے وضاحتی اور تعارفی مضامین بھی لکھے اور ماہیئے بھی ۔(عمرِ لاحاصل کا حاصل پر لکھے گئے مضمون سے اقتباس)
حیدر قریشی کے اردو ماہیے پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ اس نے اس صنف کے مزاج کو پہچانا ہے‘ جانا ہے ۔ اپنے اندر اس صنف کو اتاراہے۔اس کے بعض ماہیے تو ایسے ہیں جن کی مثال اردو ماہیا تو کیا پنجابی ماہیا میں بھی مشکل ہی سے ملے گی۔انہیں پڑھ کر انسان اداس ہوجاتا ہے اور اس کے دل و دماغ پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔(محبت کے پھول پر مضمون سے اقتباس) اکبر حمیدی(اسلام آباد)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدرقریشی کے ماہیوں کو دیکھنے سے اندازہ ہوتاہے کہ ان کے یہاں تشبیہیں انوکھی اور اصلیت پر مبنی ہیں۔مناسبات لفظی اور تلمیحات کا برمحل استعمال ہے۔ سادگی انتہاکی ہے۔ان میں جوش بھرا ہواہے جوپڑھنے والے کے جذبات کو برانگیختہ کرنے کا ہنررکھتاہے ان کے علاوہ ہندی، انگریزی، جرمن اور پنجابی زبان کے الفاظ سبک روی سے مستعمل نظر آتے ہیں۔ اور کہیں کہیں سندھی اور سرائیکی الفاظ بھی راہ پاگئے ہیں۔ یہ قاری پرگراں نہیں گذرتے بلکہ قاری ان سے لطف اندوز ہوتاہے۔ یہ ایک عمدہ فنکار کی نشانی ہے۔ ڈاکٹر عبدالرب استاد(گلبرگہ یونیورسٹی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدر قریشی کے ماہیے پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے جہاں ایک طرف اپنے ارد گردکی زندگی کو ایک مفکر کی آنکھ سے دیکھا ہے وہاں دوسری طرف انسان کی عمومی خوشیوں ، یادوں ، سوگواریوں ،غموں،آ ٓسوں، امیدوں، حسن پرستیوں، شباب د وستیوں ،آنسوﺅں، قہقہوں، ستم ظریفیوں، بیوقوفیوں ،تنہائیوں،حضوریوں،مہجوریوں اوردوریوں کا پرتاثیر انداز سے جائزہ لیا ہے۔
ڈاکٹر سعادت سعید(لاہور)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدر قریشی کی کتاب ”محبت کے پھول“یقیناً اردو ماہیے میں ایک سنگِ مِیل کی حیثیت رکھتی ہے۔سب سے خوبصورت بات یہ ہے حیدر قریشی کا اردو ماہیاDictionکی تبدیلی کے باوجود سراسر پنجابی ماہیا ہے اور یہ ان کی بہت بڑی contributionہے ۔انہوں نے موضوع کے اعتبار سے ماہیے کو وسعت ضرور دی ہے مگر اس کی اصلی شناخت کو مجروح نہیں ہونے دیا‘بلکہ اس کی چال میں ایک بانکپن آگیا ہے۔میں ان کے ماہیوں سے بے حد لطف اندوز ہوا ہوں۔Inspireبھی ہوا ہوں۔میرے خیال میں ہر حساس قاری اس مجموعے میں دئیے گئے ماہیوں سے شاعر کی عظمت کا قائل توہوگا ہی۔۔۔ساتھ ساتھ وہ پنجابی ماہیے کو ایک نئے رُوپ میں دیکھے گا اور یقیناً اسے سراہے گا۔نیاز احمد صوفی(لاہور)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدر قریشی کی تخلیقی صلاحیتوں میں سے جو فیض اور جو حسن اردو ماہیے کو نصیب ہو رہا ہے اس کی اڑان ترقی کی انتہا سے کچھ دور نہیں ۔ حیدر قریشی کی ماہیا نگاری اور ”اردو ماہیے“ سے بے پناہ وابستگی اس بات کا یقین دلاتی ہے کہ” اردو ماہیے “کا مستقبل خوش آئیند اور تابناک ہے۔
شگفتہ الطاف(بھاول پور)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہیے کو زندہ رکھنا تو خیر ایک ”فرضِ منصبی“ جیسی اصطلاح معلوم ہوتی ہے اور ایک تخلیق کارکا خون جب لفظوں کی رگوں میں دوڑ کر انہیں ماہیا
¾ غزل
¾ نظم
¾ افسانہ یا کسی اور صورت میں زندگی دے یا یوں کہیے کہ اس کے چہرے پراپنے رنگ بکھرا جائے تو صنف کی حفاظت پر بات کر کر کے ہم دراصل تخلیق اور تخلیق کار دونوں کی روحوں کو ٹھیس پہنچاتے ہیں۔ ماہیے کو ”پروان چڑھانے “ کے حوالے سے حیدر قریشی صاحب کا ذکر بارہا ہوا ہے اور ہوتا رہے گا مگر اہم بات ان کا کلام ہے جو اس صنف میں بھی اتنا ہی توانا اور تازہ ہے جتنا غزل اور نظم میں
¾ ورنہ غور کیجئے تو لوگ صنف سے جڑ کر تخلیق کی خوبصورتی اور گہرائی کے بجائے سطحی عوامل
¾ مثلاً ہندی /فارسی لغت یا لہجے میں پھنس کر رہ جاتے ہیںاور تخلیق کے بجائے صنف کی خدمت کے حوالے سے پہچانے جانے پر اکتفا کر لیتے ہیں۔ایک مستند
¾ نابغہ
¿ روزگار ادیب کی یہی سب سے بڑی پہچان ہے کہ وہ ان ”تجاوزات“کے پیچھے چھپ نہیں جاتااور حیدر قریشی صاحب کی زبردست تخلیقی صلاحیت اس بات کا ثبوت ہے۔
فیصل عظیم(امریکہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔