ڈاکٹر وزیر آغا:پتھر ہوتے وجود کا دکھ”بہت عمدہ افسانہ ہے۔ اگر آپ اسی رفتار اور انداز سے آگے بڑھتے رہے تو بہت جلد صف اول کے افسانہ نگاروں میں شمار ہونے لگیں گے”۔
ڈاکٹر قمر رئیس:”کہانیاں علامتی ہیں لیکن معاصرجدید کہانیوں سے الگ اور انوکھی۔ یہاں تاریخ کنگناتی ہے۔ انسانی تہذیب سرگوشیاں کرتی ہے اور ان کی کوکھ سے آج کے جلتے ہوئے مسائل پھنکار مارتے نکلتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ پرکشش کہانیاں جو سوچنے پر اکساتی ہیں”۔
ڈاکٹر انور سدید:”حیدرقریشی بظاہر ادب کی کئی اضاف میں ایک طویل عرصے سے بڑی پختہ کاری سے تخلیقی کام کر رہے ہیں تاہم ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جب وہ افسانے کے دیار میں قدم رکھتے ہیں تو فطرت اپنے اسرار کی گتھیاں ان پر بانداز دگر کھولتی ہے۔ “روشنی کی بشارت”ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ہے لیکن وہ نئے افسانہ نگار نہیں۔ ان کا شمار ساتویں دہے کے ان افسانہ نگاروں میں کرتا مناسب ہوگا جو تجریدیت سے معنی کا نیا مدار طلوع کرتے اور سوچ کو نئی کروٹ دیتے ہیں۔”روشنی کی بشارت” کے افسانوں میں حیدرقریشی کرنوں کے تعاقب میں سرگرداں نظر آتا ہے لیکن جب اسے سدھارتھ کا معصوم چہرہ نظر آجاتا ہے تو اسے اطمینان ہو جاتا ہے کہ اس کل جگ میں زندہ رہنے کا جواز موجود ہے۔
ڈاکٹر حمید سہروردی:حیدرقریشی کے افسانے پر یم چند اور یلدرم کے اسلوب و مزاج کی آمیزش اور آویزش سے اپنا ایک نیا افسانوں مزاج اور ڈکشن تیار کرتے ہیں۔ ان کا تجربہ ہم سب کا تجربہ بن جاتا ہے۔ ان کی بصیرت تیز اور روشن ہے اور وہ افسانے کی میڈیم سے روزمرہ زندگی کے انگنت تجربوں کو کچھ اس طرح سے گرفت کرتے ہیں کہ زبان و قلب سے بے ساختہ حیرت اورا ستعجاب کے کلمات ادا ہوتے ہیں۔ حیدر قریشی اپنے رنگ و مزاج کو اپنے ہر افسانے میں افسانوی زبان کے تخلیقی و اکتسابی امتزاج کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ ان کی خوبی نہ صرف ڈکشن میں ہے بلکہ موضوعات کے برتاﺅمیں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔
میں ذاتی طور پر حیدرقریشی کو جدید تر افسانوی میدان میں کامیاب و کامران سمجھتا ہوں۔ ان کا یہی انداز توازن و تناسب کے ساتھ برتا جائے تو وہ اپنی انفرادیت برقرار رکھیں گے اور وہ حضرات جو جدید اور جدید تر افسانے کے باب میں شاکی ہیں اطمینان حاصل کرلیں گے”۔
ڈاکٹر فہیم اعظمی:”حیدر قریشی الہامی قصص ، اساطیر ، ذاتی اور معاشرتی مسائل کو آپس میں مدغم کر کے ایک ایسا آئینہ تخلیق کرتے ہیں جس میں پیدائش سے موت تک زندگی کا عکس نظر آتا ہے۔ بیشتر کہانیوں میں میجر کردار خود کہانی کار کی ذات ہوتی ہے اور اس طرح حیدرقریشی فلسفیانہ ،مذہبی اور اخلاقی قدروں پر رائے بھی دیتے ہیں تو کسی غیر متعلق یا خارجی خیال آرائی کا احساس نہیں ہوتا اور سب کچھ کہانی کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔
حیدرقریشی کی کہانیاں زمینی زندگی کے معمولی واقعات سے شروع ہوتی ہیں جنہیں فلو بیر کے لفظوں میں SLICES OF LIFEکہا جا سکتا ہے مگر ان میں جلد ہی مذہبی، عقیدتی اور رحانی رنگ بکھرنے لگتا ہے اور ان کی اٹھان عمودی ہوجاتی ہے۔ پھر ان کہانیوں کی فضا زمین اور آسمان کے بہت بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ اکثر کہانیوں کا اسلوب داستانی معلوم ہوتا ہے لیکن لہجہ کا دھیما پن، علامتوں ، تمثیلوں اور تلازمے کا استعمال انہیں داستانی رنگ سے الگ بھی کرتا ہے۔کہیں کہیں مذہبی عقائد کا اظہار بھی ہوتا ہے مگر جمالیاتی طور پر ان میں نہ کوئی خطابیت پیدا ہوتی ہے اور نہ کسی آئیڈیل یا انفرنل دنیا میں داخل ہونے کی ترغیب ہوتی ہے۔ حیدر قریشی کی کہانیوں میں زبان اور حوالہ جات اس وقت، زمانے اور علاقے کی حدوں کا تاثر ضرور دیتے ہیں جب اور جہاں ان کی کہانیوں نے جنم لیا کیونکہ اس سے کسی تخلیق کار کو مفر نہیں، لیکن ان کہانیوں کا مجموعی سپکڑم زمان اور مکاں کی قید سے آزاد ہوتا ہے اور دنیا کے کسی بھی حصے کا قاری ان کہانیوں میں امکانی سچائی دیکھ سکتا ہے”۔
اکرم محمود(امریکہ):آپ کے پانچ افسانے پڑھے ہیں۔کیا بات ہے۔بتا نہیں سکتا کہ کیسا لطف آیا۔بلا مبالغہ بار بار ایسا محسوس ہوا کہ کسی کیفیت نے میرے پورے جسم کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے۔افسانہ ختم ہونے پر بھی یہ گرفت ختم نہیں ہوئی۔
٭٭٭