ڈاکٹررشید امجد
(اسلام آباد)
حیدر قریشی ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں۔نظم و نثر دونوں میں اُن کی انفردیت حیثیت ہے۔’’جدید ادب‘‘ کے مدیر کی حیثیت سے بھی اُن کا کام اہم ہے۔اس جریدے کے خاص نمبر اب حوالے کا درجہ رکھتے ہیں۔حیدر قریشی میری نسل کے بعد آنے والی نسل کے ادیب و شاعر ہیں۔ہم لوگوں نے ساٹھ کی دہائی کے بعد علامتی رویوں کو اپنایا اور نئی لسانی تشکیلات کے حوالے سے لکھنے کا آغاز کیا۔حیدر قریشی کے جریدے ’’جدید ادب‘‘ نے نئے رویوں اور رجحانات کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔بطور افسانہ نگار اور شاعر حیدر قریشی کی اپنی ایک پہچان ہے۔تخلیقی جہتوں کے ساتھ ساتھ انھوں نے تنقیدی میدان میں بھی اپنی اہمیت قائم رکھی۔ماہیا اور جدید نظم کے حوالے سے ان کے مضامین نے نئی جہتوں کا آغاز کیا۔اُن کی بنیادی خوبی اُن کا کھرا پن اور سچ کہنے کا حوصلہ ہے جس کی وجہ سے انھیں کئی بار تیز و تند حملوں کا شکار بھی ہونا پڑا لیکن اُنھوں نے ثابت قدمی سے ان سب اعتراضات کے نہ صرف جواب دیئے بلکہ اپنے موقف کوپوری دلیل سے واضح کیا اور کر رہے ہیں۔
حیدر قریشی کے فکرو فن پر کئی جامعات میں کام ہوا ہے اور ہو بھی رہا ہے۔عامر سہیل کا یہ مقالہ حیدر قریشی کی ادبی خدمات کا احاطہ کرتا ہے۔ مقالہ نگار نے جستجو اور لگن کے ساتھ حیدر قریشی کے بنیادی مزاج اور اُن کے تنقیدی اور تحقیقی کام کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ اس مقالے کی اشاعت سے جہاں مقالہ نگار کے اس تحقیقی کام کی اہمیت واضح ہو گی وہیں حیدر قریشی کے فکر و فن کے کئی پہلو بھی نمایاں ہوں گے جو اُردو ادب کے قاری کے لیے دل چسپی کا سبب ہوں گے۔
حیدر قریشی کا کام بہت پھیلا ہوا ہے ایک مقالے میں اس کا احاطہ ممکن نہیں لیکن عامر سہیل نے امکان بھر کوشش کی ہے کہ بنیادی پہلوؤں کی نشان دہی کرتے ہوئے حیدر قریشی کے کام سے ادبی قاری کو متعارف کرا سکیں اور وہ اپنی اس کاوش میں کامیاب رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر لدمیلا وسیلئیوا
(ماسکو،روس)
حیدر قریشی کی ادبی خدمات کے عنوان سے عامر سہیل کا ایم فل اردوکا مقالہ زیرِ نظر ہے۔۔۔۔۔یہ مقالہ کتابی صورت میں چھپنے جا رہا ہے اور میرا کام اس پر اپنے مجموعی تاثرات ظاہر کرنا ہے۔۔۔ ۔۔ حیدر قریشی ایک عرصے سے اردو کی ادبی دنیا میں اپنی تحریروں سے پہچانے جاتے ہیں اور ان کی ادبی سرگرمیاں دنیا کے ہر ُاس کونے میں مشہور ہوچکی ہیں جہاں اردو کا نام ہے۔اکثر حیدر قریشی کا ذکر یورپ میں اردوادب کے سفیر کی حیثیت سے کیا جاتا ہے۔حیدر قریشی کی کثیرالجہت تخلیقات پرکئی باوقار ادیب اپنی رائے لکھ چکے ہیں اور برصغیر کے دونوں ممالک میں یونیورسٹیوں کے طالب علم ان کی ہمہ پہلو ادبی خدمات کے موضوع پر اپنے علمی مقالے بھی لکھ چکے ہیں۔
عامر سہیل نے بھی یہی موضوع چُن کر حیدر قریشی کے ادبی سفر کو اپنے زاویے سے دیکھنے کی اور خود اپنے طریقے سے اس پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔اپنا علمی کام عامر سہیل نے بڑی محنت اور لگن سے کیا ہے۔ ۳۱۶ صفحات پر مشتمل اس ضخیم تحریرکو حیدر قریشی پر موجودہ ادب میں ایک نمایاں اضافہ کہنا بالکل بجا ہوگا۔
میرے خیال میں اس مقالے کا موضوع بذاتِ خود بڑی اہمیت کا حامل ہے اور عصری دنیا میں اردو زبان اور زبان والوں کے متعدد مسائل سے تعلق رکھتا ہے۔یہ مسائل کئی طرح کے ہیں جو نہ صرف اردو کی ’’نئی بستیوں‘‘ سے بلکہ برِ صغیر پاک و ہند سے بھی وابستہ ہیں۔ایک نہایت اہم عالمی پیمانے کا مسئلہ مغربی دنیا میں اپنی جگہ کے حصول یا دوسرے الفاظ میں ایک نئی،اجنبی دنیا میں خود اپنی تلاش کا،مشرقی ممالک سے آنے والے تارکین وطن کا مسئلہ ہے،جس کے نفسیاتی،مذہبی،اقتصادی،سیاسی،ثقافتی جیسے کئی پہلو ہیں۔قومی شناخت کا دوسرا اہم ترین مسئلہ براہ راست طور پر قومی زبان اور ادب سے وابستہ ہے۔یہاں خالص ادبی مسائل کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جو موضوع کے انتخاب اور کرداروں کی نوعیت سے لے کر نئی طرزِ تحریر اور نئے اسلوب اپنانے کی کوششوں تک کا احاطہ کرتا ہے،وغیرہ وغیرہ۔یہ سارے مسائل بہترین طور پرمغربی ملکوں میں آباد اردو ادیبوں کی تخلیقات میں منعکس ہوتے ہیں،جن کے درمیان حیدر قریشی کی تصانیف کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔زیر نظر مقالے میں ایک منفرد زاویہ نظر سے حیدر قریشی کی ادبی کارکردگی کا مطالعہ کیا گیا ہے۔اس کی روشنی میں سارے مذکورہ بالا مسائل اجاگر ہوجاتے ہیں اور ان پرگہری سوچ کے لیے دعوت دیتے ہیں۔
آج کل دیارِ مغرب میں بسے ہوئے اردو لکھنے والوں کو اپنے آباو اجداد کے مادرِ وطن کی تہذیبی و ثقافتی روایات کو بھلا نہ دینے اور نوجوان نسل کو اپنی قومی شناخت کو باشعورطور پر محسوس کرانے کا ایک سنجیدہ فرض درپیش ہے جس کی عمل آوری میں حیدر قریشی کی جیسی تحریریں مددگار ہو سکتی ہیں۔دوسری طرف یہی تصانیف اردو ادب کے پورے دھارے سے الگ نہ ہوتے ہوئے برصغیرکے اردو کے قارئین کو اپنے نئے مقام اور اپنے خصوصی مسائل سے روشناس کرانے کے ساتھ ساتھ اپنے تخلیقی تجربات سے پاکستان اور ہندوستان کے اردو ادب کو مالا مال کرتی ہیں۔حیدر قریشی کی مختلف اصناف کی تصانیف کے عامر سہیل کے مطالعے کے بنا پر قاری اسی طرح کے نتائج پر پہنچ سکتا ہے۔
عامر سہیل کے مقالے کی معلوماتی حیثیت بھی خاص طور سے قابلِ تعریف ہے۔مقالہ نگارنے ایک تو بڑے سلیقے سے حیدر قریشی کے پورے ادبی ذخیرے کی اوران پر لکھی ہوئی اور ان سے تعلق رکھنے والی تحریروں کی مکمل فہرست بنائی ہے۔خود حیدر قریشی کی تصانیف کی درجہ بندی کرکے مقالہ نگار نے ہر صنف کی تفصیلات پیش کیں اور ان کی سب تصانیف پر موجود تنقیدی سرمائے کاتعارف کرایا ہے۔عصری دور کے کسی اور اردو ادیب کی تصانیف اور اس سے منسلک ادب کے بارے میں زیادہ وسیع،واضح اور باترتیب تفصیلات کی مثال ڈھونڈنا مشکل ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر محمد الطاف یوسفزئی
(شعبہ ء اُردو۔ہزارہ یونیورسٹی،مانسہرہ)
اُردو ادب کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو مغرب کا جدید منظرنامہ جو صورت ِ حال متعارف کراتا ہے اُس میں حیدر قریشی کا حصہ بہت نمایاں ہے۔ ان کا متنوع تصنیفی سرمایہ ہر سنجیدہ قاری کو دعوت ِ فکر دیتا ہے ، میں یہ بات پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ بلند سطح کے ذوق ِ سلیم اور گہرے پس منظری مطالعے کے بغیر حیدر قریشی جیسے ہمہ جہت اور صاحبِ طرز ادیب کی تحریروں سے حظ اُٹھانا محال ہے۔اپنی تبحر علمی اور خوش ذوقی کی بنا پر جس سادگی و پرکاری سے عامر سہیل نے حیدر قریشی جیسے کثیر الجہت ادیب کو ایم فل کے مقالے میں سمیٹ کر قاری کے سامنے پیش کیا ہے وہ بجائے خود اُن کی ناقدانہ اور محققانہ صلاحیتوں اور طباعی کی روشن دلیل ہے۔
میرے خیال میں یہ حیدر قریشی کی خوش بختی ہے کہ اُنھیں ایک ایسا قلم کار میسر آیا جس نے رسمی تبصرہ نگاری اور عمومیت سے گریزکرتے ہوئے جدید اُصول ِ تحقیق اور متوازن تنقیدی جوہر کی بدولت اُن کے ادبی مقام پر تفصیلی اظہار ِ خیال کیا ہے۔حیدر قریشی کی متنوع اور رنگا رنگ تحریروں کی تفہیم و تحسین کے سلسلے میں عامر سہیل کی یہ علمی کاوش حوالے کی کتاب ثابت ہو گی جس سے شائقین ادب کے لیے مستفید ہونے کی راہیں نکلتی رہیں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹرعابدسیال
(شعبۂ اردو۔نمل یونیورسٹی۔اسلام آباد)
حیدرقریشی معاصر اردو ادبی دنیاکی جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ ان کی ادبی شخصیت کی کئی جہات ہیں جن میں تخلیقی حوالے سے افسانہ نگاری، خاکہ نگاری، انشائیہ نگاری، سفرنامہ نگاری، یادداشتیں، غزل، نظم اور ماہیاان کی پہچان ہیں ۔ انھوں نے تخلیقِ ادب کے ہر میدان میں نہ صرف یہ کہ خاطرخواہ ذخیرہ بہم کیا ہے بلکہ معیار اور انفرادیت کے اعتبار سے بھی ان کی نظم و نثر اپنا ایک مقام رکھتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تحقیق اور تنقید کے حوالے سے ان کی خدمات بہت قابل توجہ ہیں۔ اردو میں ماہیے کی مقبولیت کے ابتدائی زمانے میں ماہیے کی ہیئت اور مزاج کی شناخت اور تعین کے حوالے سے ان کا مدلّل اور مفصل کام یاد رکھے جانے کے قابل ہے۔ اس کے علاوہ ان کے متعدد مضامین اور متفرق تحریریں ملکی و بین الاقوامی جرائد میں تواتر کے ساتھ چھپتی رہی ہیں، جرأتِ اظہار اور صاف گوئی جن کا نمایاں وصف ہے۔ یہ سارا کام بجا طور پر اس قابل ہے کہ اس کو تحقیق وتجزیہ کا موضوع بنایا جاتا اور حیدرقریشی کی شخصیت اور فن کے متنوع گوشوں کو اجاگر کیا جاتا۔ یہ کام میرے عزیز اور قابل دوست عامرسہیل نے سرانجام دیا ہے۔
عامرسہیل خود ایک خوش خیال شاعر بھی ہیں اور تحقیق کے مردِمیدان بھی۔ تخلیقی ادب کی رمزواشارت کے آشنا بھی ہیں اور تجزیہ و تنقید کی پہلوداریوں کے واقف بھی۔ یہ کتاب ان کے تحقیقی مقالے کا ایک اور روپ ہے جس پر ایک طرف انھیں ہزارہ یونیورسٹی، مانسہرہ سے ایم۔فل (اردو) کی ڈگری عطا کی گئی ہے اور دوسری طرف قارئین و شائقینِ اردو ادب اس کی پذیرائی کریں گے۔ سندی تحقیق میں کم ہی مقالے ایسے ہوتے ہیں جو امتحانی ضرورت سے آگے بڑھ کر باقاعدہ ادبی تصنیف کا درجہ پا سکیں۔ عامرسہیل کی یہ تصنیف نہ صرف ان کے لیے باعثِ تحسین ہے بلکہ ان کے شعبے اوریونیورسٹی کے لیے بھی باعث اعزاز ہے کہ وہاں ہونے والا تحقیقی کام باقاعدہ اشاعت پذیر ہو رہا ہے۔ میرے لیے اس کتاب کی اشاعت دوگونہ مسرت کا باعث ہے کہ اس کے ممدوح میرے کرم فرما ہیں اور مصنف میرے دوست۔میں ہر دو شخصیات کو کتاب کی اشاعت پر مبارک باد پیش کرتاہوں۔