اخبارات و رسائل کے مطالعے کا مجھے بچپن سے شوق تھا۔ یہ شوق ورثے میں ملا کیوں کہ والد صاحب اچھے شاعر اور ادیب تھے۔گھر میں بہن بھائی بھی اردو میں پڑھا کرتے تھے۔ میری پرائمری تعلیم آغا خان اسکول میں اردو میڈیم سے ہوئی تھی۔ اسکول میں اساتذہ جو نوٹس لکھاتے تھے پابندی سے انہیں کاپیوں میں فیر کیا جاتا تھا ۔ تمام امتحانات میں اول رہا۔ کمرہ جماعت میں بھی بلند خوانی کرائی جاتی تھی۔ اسکول کی نصابی کتابوں کے علاوہ محلہ کے کتب خانے میں جاکر اخبارات و رسائل پڑھنے کا شوق ہوا۔ ہمارے محلہ پھولانگ نظام آباد میں جماعت اسلامی کے شعبہ ایس آئی یو کی جانب سے کتب خانہ قائم کیا گیا تھا۔ اس کتب خانے میں اردو انگریزی اخبارات کے علاوہ رسالہ نور‘کھلونا‘ہلال وغیرہ آیا کرتے تھے۔ کبھی کبھی باپوجی واچنا لیہ اور ضلع گرندھالیہ لائبریری بھی جایا کرتا تھا جہاں رسائل ہزار رنگ صدہارنگ شمع روبی وغیرہ آیا کرتے تھے۔ گھر میں کبھی روبی ‘بیسویں صدی اور شمع رسائل بھی آیا کرتے تھے۔ ہائی اسکول میں میرے دوست اسلم لوہیا کو ابن صفی کے ناول پڑھنے کا شوق ہوا۔ میںنے بھی ابن صفی کے ناول پڑھے۔ لیکن زیادہ نہیں پڑھے۔ مجھے فریدی حمید کے ناولوں سے زیادہ عمران سیریز کے ناول اچھے لگتے تھے۔ بہنیں کتب خانے سے ناول منگایا کرتی تھیں لیکن مجھے اردو کے رومانی ناولوں میں کچھ دلچسپی نہیں رہی۔ اخبارات میں اخبار سیاست کے مطالعے نے میری اردو زبان دانی کو کافی متاثر کیا۔ بعد میں اردو نثر میں میںنے جو کچھ لکھا میں اس کا ثمرہ روزنامہ سیاست کے مطالعے کو ہی دینا چاہتا ہوں۔ اس کے علاوہ رسالہ نور کی سادہ نثر نے بھی مجھے بہت متاثر کیا۔ اس وقت اخبارات یا رسائل میں خط یا مضمون بھیجنے کا کچھ اندازہ نہیں تھا۔ حیدرآباد آنے کے بعد انٹر اور بی اے کے بعد ہی شائد میں نے مضمون نگاری کی جانب توجہ دی۔ اخبارات میں جب میں نے دیکھا کہ جاگنے کی راتوں خاص طور سے شب معراج‘شب برات اور شب قدر کے خصوصی سپلمنٹ میں قارئین اور ماہرین کے مضامین شائع ہوتے ہیں تو میرے دل میں بھی یہ خواہش پیدا ہوئی کہ میں بھی مضمون لکھوں۔ اخبار میں نام شائع ہونے سے خوشی ہوتی تھی ۔ مضمون بھیجنے کا طریقہ کار معلوم کیا کہ اخبار کے ایڈیٹر کے نام مضمون لکھ کر اخبار کے پتے پر بھیجنا ہوتا ہے چنانچہ میں نے رہنمائے دکن‘منصف اور سیاست اخبارات کے لیے متبرک راتوں کی مناسبت سے مضامین لکھ کر بھیجے۔ دیگر اخبارات اور کتابوں سے میں مواد حاصل کرتا اور انہیں ایک ترتیب میں سادہ زبان میں لکھ کر بھیجا کرتا تھا ۔ جس دن مضمون شائع ہونے کی توقع تھی اس دن مہدی پٹنم جاکر اخبارات خریدے جاتے اور مضمون کی اشاعت پر خوشی ہوتی۔ والد صاحب نے مشورہ دیا تھا کہ ایک کتاب میں مضامین کٹ کرکے پیسٹ کرتے جائیں اس طرح تخلیقات محفوظ رہا کریں گی۔ چنانچہ البم کی شکل میںمیں اپنے مضامین محفوظ کرتا گیا۔ ایم اے کے دوران آل انڈیا ریڈیو پر جو یووا وانی پروگراموں مین شرکت ہوتی تھی اخبار میں ریڈیو پروگرام میں شرکاء کے نام بھی ڈالے جاتے تھے چنانچہ ریڈیو پروگرام کی کٹنگ بھی محفوظ کی جانے لگی۔ معراج کالونی کے قیام کے دوران ہماری مسجد حبیب النساء میں جناب عابد خان صاحب نے مفتی محمد شفیع صاحب کی تفسیر معارف القرآن کے درس کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ رمضان کے دنوں میں اور چھٹی کے دنوں میں مسجد میں رکھی تفسیر کی جلد کو میں انفرادی طور پر بھی پڑھنے لگا۔ کسی آیت کی تفسیر کے ذیل میں اس تفسیر میں جو تفصیلات دی گئی ہیں وہ دلچسپ اور معنی و مفاہیم سے بھرپور ہیں۔ کئی آیات کی تفسیر کے ذیل میں بڑے بڑے مضامین ہیں۔ ان مضامین کو پڑھ کر میں نے روزنامہ سیاست کے منگل کے ایڈیشن کے لیے معلوماتی مضامین لکھے۔ ان مضامین میں شہد کی مکھی‘پانی کی حفاظت کا نظام قدرت‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعائیں وغیرہ۔ جب ان مضامین کی اچھی خاصی تعداد جمع ہوگئی تو اردو اکیڈیمی کی جانب سے ایک اطلاع آئی کہ اردو کے ادیبوں کی کتابوں کی اشاعت کے لیے مالی امداد دی جارہی ہے۔ چنانچہ میں نے اپنے شائع شدہ معلوماتی مضامین کے زیراکس کے ساتھ ’’قوس قزح‘‘ معلوماتی مضامین کے عنوان سے مسودہ داخل کیا۔ کچھ ماہ بعد ا س مسودہ کو منظوری ملی۔ اردو اکیڈیمی کے جناب جنید صاحب نے اس کتاب کی کمپوزنگ کی۔ اور طہٰ پرنٹ کے مجیب صاحب نے قوس قزح کتاب شائع کی۔ میری فرمائش پر مدیر سیاست جناب زاہد علی خان نے کتاب کا تعارف لکھا۔ اس کتاب کے مضامین آج بھی اردو میڈیم کے طالب علم دلچسپی سے پڑھتے رہتے ہیں۔ میری پہلی کتاب کی اشاعت کے کچھ سال بعد اردو اکیڈیمی سے سلسلہ وار میری کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ چلتا رہا۔ اب تک دس تا گیارہ کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔جن میں قوس قزح(۲۰۰۵) مضامین نو(۲۰۱۲ء) سائنس نامہ(۲۰۱۴ء) عزیز احمدکی ناول نگاری(۲۰۱۵ء) برطانیہ میں اردو اور حبیب حیدرآبادی( ۲۰۱۶ء) دریچے( ۲۰۱۷ء) کہکشاں( ۲۰۱۸ء) اردو کی منتخب نظمیں( ۲۰۱۹ء) گلدستہ نقد(۲۰۲۰ء) ادب و ادیب( ۲۰۲۱ء) اخلاقیات اور انسانی قدریں(۲۰۲۳ء) اور یہ کتاب پل دو پل کی زندگانی ۔آپ بیتی(۲۰۲۳ء)شامل ہیں۔ پہلی کتاب کی اشاعت کے بعد کچھ وقفہ رہا اس کے بعد تمام کتابیں ہر سال ایک کتاب کے اعتبار سے اردو اکیڈیمی کی جزوی مالی امداد سے شائع ہوتی رہیں۔ پہلی کتاب کی کمپوزنگ باہر جناب جنید صاحب نے کی اس کے بعد میں نے کمپیوٹر پر اردو ٹائپنگ ان پیج سیکھ لی۔ اردو کے تمام اخبارات ‘رسائل اور ویب سائٹ کے ذمہ داران چاہتے ہیں کہ انہیں جو کچھ بھی اشاعتی مواد بھیجا جائے وہ ان پیج میں ٹائپ کرکے بھیجا جائے ۔چنانچہ میری ان کتابوں میں شامل مواد کو میںنے ہی ٹائپ کیا ہے۔ اردو والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ زمانے کے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہوں اور اپنا تصنیف و تالیف کا کام خود کمپیوٹر پر کریں اس سے کمپوزنگ کے اخراجات بچیں گے اور اپنی تحریر خود ٹائپ کرکے تصحیح کرنے سے اغلاط کا امکان بھی کم رہے گا۔ عزیز احمد کی ناول نگاری میرا ایم فل کا تحقیقی مقالہ ہے جو تحقیق و تنقید سے تعلق رکھتا ہے ۔برطانیہ میں اردو اور حبیب حیدرآبادی میرا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے جس کا تعلق تحقیق و تنقید سے ہے۔ گلدستہ نقد اردو کے مختلف شعراء اور ادیبوں پر لکھے گئے میرے تبصرے و تعارفی مضامین پر مشتمل کتاب ہے۔ اس کے علاوہ تمام کتابیں ادبی‘معلوماتی اور تحقیقی مضامین پر مشتمل کتابیں ہیں۔ میرے مضامین تلنگانہ ریاستی اردو اکیڈیمی کے ترجمان رسالہ قومی زبان‘ قومی کونسل برائے فرووغ اردو زبان کے ماہنامہ اردو زبان‘نیا دور‘ ویب سائٹ ادبی میراث‘مضامین ڈاٹ کام‘تعمیر نیوز‘ ادب نامہ‘ روزنامہ منصف‘سیاست اور دیگر اخبارات و رسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ادھر کچھ عرصے سے میرے مزاحیہ مضامین اور انشائیے روزنامہ منصف کے ادارتی صفحے کے کالم زیر و زبر میں شائع ہورہے ہیں اب تک دس پندرہ مضامین شائع ہوچکے ہیں ان مضامین کو انشائے عصر کے نام سے شائع کیا جارہا ہے۔ تحقیقی و تنقیدی مضامین لکھنے کے دوران میں نے سوچا کہ تخلیقی مضامین بھی لکھے جائیں۔ مشہور مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی‘کرنل محمد خان‘مجتبیٰ حسین‘ پطرس بخاری‘یوسف ناظم وغیرہ کو میں نے پڑھا ہے۔ جب کبھی کوئی مزاحیہ مضمون یا انشائیہ پڑھتا ہوں تو لگتا ہے کہ اس طرح کے مضامین لکھے جاسکتے ہیں بہرحال مزاح نگاری اور انشائیہ نگاری کی جانب رجحان بڑھ رہا ہے دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے۔ جب میرا ڈگری کالج ظہیر آباد میں ۲۰۰۶ء میں تبادلہ ہوا تھا۔ اس وقت طلباء کے لیے ماڈرن لینگویج اردو کے تحت سال اول دوم سوم میں تاریخ ادب کے مختلف موضوعات کو مجھے پڑھانا تھا۔ چنانچہ میں نے پہلے سال طلباء کو نوٹس لکھائے بعد میں جب کالج کے طالب علم محمد احمد فرزند جناب منیر صاحب رپورٹر سیاست ظہیر آباد سے پتہ چلا کہ وہ ان پیج جانتے ہیں تو میں نے ان سے کہہ کر اردو کے تمام نوٹس کمپوز کرائے اور طلباء کو زیراکس کرواکر دئیے۔ بعد میں جب انٹرمیڈیٹ کی نئی کتاب آئی تو بعض خانگی اور عارضی لیکچررز نے مجھ سے مطالبہ کیا کہ میں اس کتاب کی شرح لکھوں اس وقت تک مجھے بھی ان پیج کمپوزنگ آگئی تھی چنانچہ میں نے انٹرمیڈیٹ اردو نصابی کتاب کی شرح تفہیم ادب کے عنوان سے لکھی جس میں شعر کی تشریح بہ حوالہ متن تعارف تشریح معہ مرکزی خیال دی گئی تھی اسی طرز پر اسباق کے خلاصے بھی آسان زبان میں لکھے گئے تھے اردو کے لیکچررز اور طلباء نے اس کتاب کو بہت پسند کیا۔ اور سال دوم کی شرح بھی لکھی گئی یہ سلسلہ آگے بھی جاری رہا اور ڈگری اردو نوٹس بھی کمپوز شدہ حالت میں طلباء کو فراہم کئے جاتے ہیں اور میری ویب سائٹ پر بھی یہ دستیاب ہیں اور جب کبھی طلباء یا اساتذہ فرمائش کرتے ہیں تو میں فون میں موجود پی ڈی ایف کو انہیں روانہ کردیتا ہوں اس طرح طلباء اور اساتذہ کی مضمون اردو میں رہبری ہوجاتی ہے۔ جیسا کہ میرے حالات زندگی میں لکھا ہے کہ میں نے ابتدائی دوران ملازمت روزنامہ ہمارا عوام اور روزنامہ سیاست میں دو سال تک بہ حیثیت سب ایڈیٹر یعنی مترجم کام کیا تھا۔ اخبارات میں بہ حیثیت مترجم کام کرنے کا یہ فائدہ ہوا کہ مجھے ترجمہ نگاری یعنی انگریزی سے اردو ترجمہ نگاری میں مہارت حاصل ہوگئی۔ اور فی زمانہ ترجمہ نگاری بھی ایک فن ہے جس سے ہم گھر بیٹھے روزگار حاصل کرسکتے ہیں۔ جب بورڈ آف انٹرمیڈیٹ میں سماجی علوم کے ترجمے کا کام چل رہا تھا تو کسی نے بورڈ کے عہدیدار محترمہ عابدہ میڈم سے میرے نام کا ذکر کیا ہے کہ میں نے بورڈ کی ایک کتاب اخلاقیات کا اردو ترجمہ کیا ہے۔ عابدہ میڈم نے مجھے طلب کیا اور معاشیات اور کامرس کے کچھ مضامین ترجمہ کرنے کے لیے کہا میں نے بروقت سلیس زبان میں ترجمہ کیا تو وہ بہت متاثر ہوئیں بعد میں جناب خالق صاحب مرحوم کنٹرولر امتحانات بورڈ آف انٹرمیڈیٹ نے ایک مرتبہ پھر مجھے ترجمے کے کام کے لیے طلب کیا تو میں نے انٹرمیڈیٹ کی موجودہ تاریخ اور سیاسیات کی کتابوں میں کچھ اسباق ترجمہ کیے اور میرا نام بھی ان کتابوں میں شامل ہے۔ایک تقریب میں بورڈ آف انٹرمیڈیٹ تلنگانہ کے کمشنر جناب عمر جلیل صاحب آئی اے ایس کے ہاتھوں ان مضامین اور اسباق لکھنے والوں کو سند دی گئی۔
ڈاکٹر محمد غوث صاحب جب اردو اکیڈیمی کے ڈائرکٹر بنے تو انہوں نے ڈگری کی سماجی علوم کی کتابوں کا ترجمہ اور تالیف کروائی ۔ اس کام میں بھی مجھے تاریخ کے اسباق کو ترجمہ کرنے اور لکھنے کی ذمہ داری دی گئی۔ اسی طرح ڈاکٹر بی آر امبیڈکر اوپن یونیورسٹی کی تاریخ اور پبلک اڈمنسٹریشن کی کتابوں میں بھی میرے ترجمہ شدہ اسباق شامل ہیں۔ مجھے انٹرمیڈیٹ اردو کی نصابی کتاب کی تیاری میں بہ حیثیت رکن شامل رہنے کا اعزاز حاصل ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر بی آر امبیڈکراوپن یونیورسٹی کے ڈگری نصاب کی از سر نو تدوین کے موقع پر نصابی کمیٹی میں شامل کیا گیا۔ اس کمیٹی میں سینیر اساتذہ پروفیسر بیگ احساس‘پروفیسر محمد انور الدین‘پروفیسر فاطمہ بیگم‘پروفیسر فاطمہ آصف‘پروفیسر نسیم الدین فریس‘پروفیسر حبیب نثار‘پروفیسر فضل اللہ مکرم اور دیگر کے ساتھ شامل کیا گیا۔ یونیورسٹی کی ایک کتاب اردو اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا مجھے مدیر بنایا گیا جس میں اردو اور کمپیوٹر کی ترقی اور کمپیوٹر پر اردو سے متعلق اسباق شامل کیے گئے۔ اس کتاب میں ڈاکٹر احتشام الحسن‘ڈاکٹر گل رعنا اور جناب سید مکرم نیاز ماہر کمپیوٹر کے تحریر کردہ مضامین شامل ہیں۔میں نے ٹیگور کا افسانہ کابلی والا اور مشہور روسی افسانہ نگار لیو ٹالسٹائے کا افسانہ دو گز زمین کا ترجمہ کیا جسے احباب نے کافی پسند کیا۔ اس طرح انگریزی سے اردو ترجمہ نگاری کا سفر جاری ہے۔اردو اکیڈیمی سے جناب ارشد مبین زبیر ی صاحب اکثر فرمائش کرتے ہیں کہ قومی زبان کے لیے کسی خاص موضوع پر مضمون لکھوں تو میں فوری فرمائش پوری کردیتا ہوں۔قومی زبان کی جانب سے ہر سال نومبر میں ابوالکلام آزاد نمبر اور اقبال نمبر نکالے جاتے ہیں۔ ان خاص نمبرات کے لیے میں نے کئی مضامین لکھے جو میری کتابوں میں شامل ہیں۔ اس کے لیے اردو کے سمیناروں میں جو مقالے پڑھے گئے اور کالجوں میں ریسرچ پراجیکٹ کے عنوان سے جن موضوعات پر تحقیقی کام کیے گئے انہیں بھی مضامین کی شکل دی گئی۔ میں نے اردو سمیناروں کے رپورتاژ بھی لکھے ۔ اردو اکیڈیمی کے زیر اہتام منعقدہ تحقیق ورکشاپ کا رپورتاژ اور اردو اکیڈیمی کی جانب سے بچوں کے لیے جاری روشن ستارے کے ابتدائی دو رسالوں کا تعارف بھی میں نے لکھا۔ اردو اکیڈیمی کے زیر اہتمام جناب ڈاکٹر محمد غوث صاحب کے دور میں یاد رفتگان کے نام سے حیدرآباد کی نامور شخصیات پر مضامین لکھنے کا کام شروع ہوا۔ اس کام کے لیے مجھے بھی پانچ مضامین لکھنے کے لیے کہا گیا میں نے مولوی عبدالحق‘عزیز احمد‘ ابراہیم جلیس ‘پروفیسر ثمینہ شوکت پر مضامین لکھے۔ اردو اکیڈیمی کے زیر اہتمام دروس اردو کے نام سے اردو کی ابتدائی کتاب تیار کی گئی ۔یہ کتاب انگریزی سے اردو سیکھنے والوں کے لیے معاون ہے اس کتاب کے لیے میں نے اسباق لکھے۔جہاں تک میری مضمون نگاری یا لکھنے کا معاملہ ہے ابتداء سے ہی میرے ذہن میں مضمون کا نقشہ بن جاتا ہے کہ موضوع پر کیا لکھنا ہے۔ اور کہا جاتا ہے کہ جس طرح ایک شاعر کو کوئی شعر وارد ہوجاتا ہے تو وہ شعر لکھ لیتا ہے اسی طرح جب مجھے کسی موضوع پر مضمون لکھنا ہوتا ہے تو میں اس مضمون کے تعلق سے ایک نقشہ ذہن میں بٹھا لیتا ہوں اور اس سے متعلق ضروری معلومات کتابوں سے حاصل کر لیتا ہوں۔ اور پھر ایک ہی نشست میں مضمون ٹائپ ہوجاتا ہے عام طور سے ایک دو گھنٹے کی محنت سے ایک مضمون لکھ لیتا ہوں۔ اردو مضمون نگاری میں مجھے ریختہ ویب سائٹ سے بھی بہت مدد ملی۔اور میں اس ویب سائٹ سے درکار کتابیں دیکھ کر ان سے کچھ اہم معلومات اور حواشی حاصل کرلیتا ہوں اور اس مواد کو اپنے مضمون کا حصہ بنا لیتا ہوں۔ اردو اخبارات میں ادارتی صفحہ پر بھی میں نے بہت سے مضامین لکھے خاص طور سے منصف کے ادارتی صفحے پر میرے مضامین شائع ہوئے جو کتاب کہکشاں میں شامل ہیں۔ نظام آباد سے ہمارے ہم محلہ سید اسد نے ایک اخبار آج کا تلنگانہ جاری کیا ۔ اس اخبار کے لیے بھی میں نے سلسلہ وار مضامین لکھے جو اخبار کے تیسرے صفحے پر رنگین شائع ہوا کرتے تھے اور شام میں فیس بک پر اخبار لگ جاتا تھا۔ احباب نے ان مضامین کو کافی پسند کیا۔ اس طرح میری تصنیف و تالیف کا یہ سفر جاری ہے۔ مضامین لکھنے میں میری کوشش یہی ہوتی ہے کہ موضوع کو میں سادہ زبان میں آسانی سے پیش کروں تاکہ اردو کے قاری کو مضمون پڑھ کو موضوع سے متعلق باتیں آسانی سے سمجھ میں آجائیں۔ ایک ادیب جب بہت لکھتا ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ اس کا ایک خاص اسلوب بن جاتا ہے اب اردو کے قارئین ہی یہ بتا پائیں گے کہ میرا اسلوب کس قسم کا ہے اور اس کی شناخت کیا ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...