نئے عہد کے اہم شاعروں اور ادیبوں کے یومِ پیدائش کے سو سال پورے ہونے پران کا صد سالہ جشن مناناایک اچھی روایت کاآغازہے۔اس سلسلہ میں گزشتہ چندبرسوں میں فیض احمد فیض،سعادت حسن منٹو،سجادظہیر،میرا جی اور ن م راشدکی صد سالہ تقریبات منائی گئیں۔فیض اور منٹو کی تقریبات مقبولیت کے لحاظ سے زیادہ شاندار رہیں۔ان تقریبات کے حوالے سے جہاں بہت کچھ مثبت ہوا ہے وہیں بعض منفی رویے بھی دیکھنے میں آئے ہیں۔ جب کسی شاعر؍ادیب کی صد سالہ تقریبات کو سرکاری سرپرستی میسر آجاتی ہے تولکھنے والے موقعہ کی مناسبت سے دھڑا دھڑ کتابیں لکھنا اور شائع کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس میں(وقتی) شہرت اور منفعت دونوں میسر آجاتے ہیں۔میں نے فیض صدی کی مناسبت سے اپنے مارچ ۲۰۱۲ء کے لکھے ہوئے ایک مضمون میں ایک منفی پہلو کی نشان دہی کرتے ہوئے لکھا تھا:
’’ فیض صدی کی مناسبت سے بیشتر ایسے لوگوںنے بھی کتابیں لکھ ڈالیں،جن کے پیش نظر فیض صاحب پر کوئی سنجیدہ اور با مقصد کام کرنا نہیں تھا،بلکہ فیض صاحب جیسی فیض رساں شخصیت کی صدی کواپنی ذاتی شہرت کے لئے بیساکھی کے طور پر استعمال کرنا تھا۔چنانچہ ایسے لوگ پورا سال اپنی کتابیں سر پر اٹھائے ہوئے اس طرح خود ہی ان کی تقریبات کراتے رہے کہ لگتا تھا انہوں نے فیض صاحب پر نہیں لکھا بلکہ فیض صاحب نے ان پر کتاب لکھ دی ہے۔اس قسم کے بعض منفی رویوں کے باوجود مجموعی طور پر فیض صاحب کی ترقی پسند شخصیت کی عظمت کا خلوصِ دل کے ساتھ نہ صرف اعتراف کیا گیابلکہ اسے مناسب خراجِ تحسین بھی پیش کیا گیا۔ ‘‘
(فیض صدی کی ایک جھلک۔بحوالہ ہمارا ادبی منظر نامہ۔صفحہ نمبر۸۸ ۳)
پھر اشفاق حسین کی کتاب’’شیشوں کا مسیحافیض‘‘پر تبصرہ کرتے ہوئے میں نے لکھا تھا:
’’ اشفاق حسین کینیڈا کے متحرک و فعال شاعروں اور ادیبوں میں شمار ہوتے ہیں۔فیض احمد فیض سے ان کی محبت اور عقیدت کو ایک دنیا جانتی ہے۔۱۹۷۴ء میں اشفاق حسین کے ایم اے اردو کے مقالہ کا موضوع تھا’’فیض ایک جائزہ‘‘۔تب سے علمی و ادبی محبت کا جو سلسلہ چلا تھا وہ آج تک قائم ہے۔اس دوران انہوں نے فیض کے حوالے سے مزید کام بھی کیا۔اور فیض صدی تک آتے آتے انہیں موقعہ مل گیا کہ ایک طرف اپنے سارے پرانے لکھے ہوئے کو یکجا کریں،دوسری طرف پرانی یادوںاور باتوں کے ذریعے فیض صاحب پر کچھ نیا بھی لکھا جائے ۔ چنانچہ انہوں نے اپنی نئی پرانی پانچ کتابوں کو ایک جلد میں جمع کرکے اس کا نام رکھا’’شیشوں کا مسیحا فیض‘‘ اور یوںفیض صاحب کی صدی منا لی۔1207 صفحات پر مشتمل یہ علمی و ادبی محبت نامہ ان پانچ کتابوں پر مشتمل ہے۔
فیض شخصیت اور فن،
فیض حبیب عنبر دست،
فیض کے مغربی حوالے،
فیض ایک جائزہ،
فیض تنقید کی میزان پر۔
کتاب’’فیض کے مغربی حوالے‘‘پہلی بار جنگ والوں نے شائع کی تھی اور یہ ایک ہزار صفحات پر مشتمل تھی۔ یہاں اس کی تلخیص کرکے اس کو صرف 360 صفحات میں سمیٹا گیا ہے۔اس کے باوجود کتاب مجموعی طور پر1207 صفحات پر محیط ہو گئی ہے۔اس کتاب کے دو اثرات تو مجھے بالکل سامنے دکھائی دے رہے ہیں۔اشفاق حسین اور فیض صاحب کے تعلق کو دیکھتے ہوئے بعض لوگوں نے فیض صاحب کے ساتھ اپنے رابطہ کی کوئی ایک آدھ کڑی لے کر اس پراپنے تعلقات کی پوری عمارت کھڑی کر دی۔جس مقامِ ملاقات پر فیض صاحب جس کاز کو تقویت پہنچانے گئے تھے،وہ کیا تھا اور اس حوالے سے ان کی کارکردگی کیا تھی؟اس بارے میں کوئی ذکر نہیں ملتا۔بس مصنف موصوف سے فیض صاحب کی تعلق داری ہی کتاب کا حاصل نکلتا ہے۔۔۔۔ ۔۔ ۔مجموعی طور پر’’ شیشوں کا مسیحا فیض‘‘ اشفاق حسین کی فیض کے لیے محبت کی ادبی روداد ہے۔ایسی محبت جو کسی وقتی ضرورت کا نتیجہ نہیں بلکہ جو چالیس برسوںکے ادبی تعلق پر محیط ہے۔‘‘ (ادبی محبت کا قرض۔بحوالہ ہمارا ادبی منظر نامہ۔صفحہ نمبر۶۲۰۔۶۱۹)
میرے ان دونوں اقتباسات سے ظاہر ہے کہ میں نے جہاں فیض صدی میں ہونے والے کام کے مثبت پہلوؤں کی تحسین کی وہیں منفی پہلوؤں کی نشان دہی بھی کی۔اگرچہ میں نے کسی منفی کردارکانام نہیں لیا لیکن منفی طریقۂ واردات کی نشان دہی اس طرح کی ہے کہ منفی کردار خود بخود سامنے آجاتے ہیں۔ان اقتباسات میں تسلیم الہٰی زلفی صاحب کا نام لیے بغیر ان کے منفی طرزِ عمل کا واضح اشارا دیکھا جا سکتا ہے۔میرا مقصد بھی اتنا تھا کہ کسی کی ذات کو براہِ راست ہدف بنانے کی بجائے منفی رویوں کی نشان دہی کرنا بہتر ہے۔
چونکہ یہ بات اشفاق حسین کے فیض شناسی کے سلسلہ میں کیے جانے والے کام کے تناظرمیں ہوئی تھی،اس لیے عجیب اتفاق ہے کہ بعد میں اشفاق حسین ہی کو توفیق ملی کہ تسلیم الہٰی زلفی صاحب کی کتاب’’فیض احمد فیض : بیروت میں‘‘کا مکمل طور پر محاسبہ و محاکمہ کرسکیں۔اس کتاب کے مطالعہ سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ تسلیم الہٰی زلفی نے فیض شناسی کی آڑ لے کر صرف خود نمائی کا ایسا سفر کیا ہے جو خود فریبی کے سوا کچھ بھی نہیں۔
جب اشفاق حسین کی کتاب’’فیض بیروت میں:حقیقت یا فسانہ؟‘‘پڑھنے کا موقعہ ملا توضروری لگا کہ ادبی دنیا کے جن احباب تک میری رسائی ہے ان سب کو اس کتاب سے متعارف کرایا جائے۔اس کتاب کے صفحہ نمبر ۱۷۔۱۸پرایک تصویر کے سلسلہ میں تسلیم الہٰی زلفی صاحب کی جعل سازی کو ظاہر کرنے کے لیے غالبؔ کاایک شعر درج کیا گیا ہے۔
شوق ہر رنگ رقیبِ سروساماں نکلا
قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا
عجیب اتفاق ہے کہ جب اشفاق حسین کی کتاب سامنے آئی اور تسلیم الہٰی زلفی کی غلط بیانیاں ظاہر ہو گئیں تو عین انہی دنوں میںتسلیم الہٰی زلفی صاحب کی ایک غزل شائع ہوئی۔چنانچہ میں نے ان کی اس غزل کے ایک شعر کو بھی اپنی خبر کا حصہ بنا لیا۔میری طرف سے جاری کی گئی خبر کا متن یہ تھاجو ۲۷نومبر۲۰۱۵ء کو ریلیزکیاگیا:
فیض احمد فیض بیروت میں:حقیقت یا فسانہ؟
۲۰ نومبر ۲۰۱۵ء کو ارشدخالد صاحب مدیر عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد نے اشفاق حسین صاحب کی کتاب’’فیض احمد فیض بیروت میں:حقیقت یا فسانہ؟‘‘کے بارے میں خبر دی تھی۔اس دوران اردو اخبارات کے ساتھ سوشل میڈیا پر بھی یہ خبر عام ہو گئی ہے۔اشفاق حسین صاحب نے فیض صاحب کے تعلق سے تسلیم الہٰی زلفی صاحب کی افسانہ طرازیوں کو جس طرح بے نقاب کیا ہے وہ لائقِ تحسین ہے۔اگر اشفاق حسین صاحب کے بیان کردہ حقائق درست نہیں ہیں تو تسلیم الہٰی زلفی صاحب کو ان کا معقول جواب اور جوازپیش کرنا چاہیے۔ادبی دنیا ان کے جواب کی منتظر رہے گی۔
سرِدست میں یہاں اشفاق حسین صاحب کی کتاب کا برقی ایڈیشن پیش کر رہا ہوں۔فیضیات سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے اس کتاب میں دلچسپ حقائق موجود ہیں۔
حال ہی میں امریکہ سے ادبی رسالہ زاویہ کا نیا شمارہ شائع ہوا ہے۔اس میں تسلیم الہٰی زلفی صاحب کی غزل میں سے ان کا ایک شعریہاں درج کر رہا ہوںکہ یہ خاصا حسبِ حال لگ رہا ہے۔
مری عریانیوں پر شور کیوں ہے
اگر اندھوں میں ننگا ہو گیا ہوں
تسلیم الہٰی زلفی صاحب آنکھیں کھول کر دیکھیں ،ان کی اپنی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی۔کیونکہ ان کے اردگرد اندھے بہت کم ہیں اور زیادہ تر کھلی آنکھوں والے ہیں۔
حیدر قریشی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری اس خبر کے ریلیز ہونے کے بعد ۱۳جنوری۲۰۱۶ء کو مجھے تسلیم الہٰی زلفی کی جانب سے ایک ای میل ملی۔اس کا عنوان گالی سے لبریزتھا۔اس میں شریفانہ الفاظ یہ تھے۔’’بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے‘‘۔اس کے ساتھ میرے تین پرانے خطوط کا عکس جاری کیا گیا تھا اور مجھے احسان فراموش قرار دیا گیا تھا۔
تسلیم الہٰی زلفی نے فیض صاحب کے حوالے سے جو کتاب لکھی تھی اس پر میری رائے بہت پہلے سے ریکارڈ پر موجود تھی۔میں نے ان کا نام لیے بغیر ان کے منفی رویے کی نشان دہی کی تھی۔اب بھی مجھے تسلیم الہٰی زلفی سے متعلق جو بعض باتیں بتانا پڑیں گی ان کا مجھے افسوس رہے گا لیکن ان خطوط کی اشاعت کے بعد ان میں درج بعض باتوں کو کھول کر بیان کرنا ضروری ہو گیا ہے۔ تسلیم الہٰی زلفی ان باتوں کی زد میں آکر مزید بے نقاب ہوتے ہیں تو اس میں میرا کوئی قصور نہیں،اس کے ذمہ دار وہ آپ ہی ہیں۔
عرصہ گزرامیں نے اپنے ایک خط میںتسلیم الہٰی زلفی کو لکھا تھا کہ میں چودہ اگست کو اسلام آباد میں تھاوہاں اکبر حمیدی،منشا یاد،جمیل آذر،بشیر سیفی،حامد برگی وغیر دوستوں کے ساتھ سٹنگ رہی تھی۔بشیر سیفی صاحب نے آپ کی کسی غزل کے بارے میں ایک بات کی تھی جو وہ نسیم سحر صاحب کے ذریعے آپ تک پہنچا بھی چکے ہیں۔میں نے اس سٹنگ میں بھی آپ کا دفاع کیا۔
یہاں یہ بھی وضاحت کردوں کہ میری زندگی کا بڑا حصہ تنگی میں بسر ہوا ہے جبکہ ۱۹۸۴ سے ۱۹۹۰ء تک کا عرصہ میرے لیے انتہائی تنگ دستی کا عرصہ تھا۔میں نے اسے ایک مناسب حد کے اندر رہتے ہوئے اپنی مختلف تحریروں میں ہلکا سا بیان بھی کر دیا ہوا ہے ۔۱۹۸۶ سے بے روزگاری کے ساتھ ۸۰ ہزارروپے کا مقروض ہو گیا تھا۔اس کا ذکر ’’کھٹی میٹھی یادیں‘‘کے صفحہ ۶۳پر پہلے سے موجود ہے۔جرمنی میں آنے کے بعد بھی میں معمولی سا مزدور ہی رہا ہوں اور اس کا ذکر بھی میری یادوں کی کتاب میں موجود ہے۔ایک اقتباس یہاں پیش کر دیتا ہوں۔
’’ جرمنی میں بہت ہی معمولی سی مزدوری کرکے گھر کا خرچ چلا رہا ہوں۔ایک بار ایک دوست مجھے میری جاب پر ہی ملنے کے لئے آئے۔بعد میںگھر پر ملے تو کہنے لگے،اس دن آپ کو دیکھ کر بہت افسوس ہوا تھا کہ اردو کا اتنااچھا شاعر اور ادیب اور اتنی معمولی سی ملازمت کررہا ہے۔میں نے فوراََ انہیں کہا کہ بھائی !شاعر اور ادیب تو میں ویسے بھی معمولی ساہوں لیکن آپ اس ساری صورت حال کو یوں دیکھیں تو آپ کو خوشی ہوگی کہ اتنا معمولی سا مزدور ہے اور خدا نے ایسی صلاحیتیں عطا کر رکھی ہیں کہ چکی کی مشقت کے باوجود اتنا ادبی کام کر رہا ہے۔ ‘‘(’’کھٹی میٹھی یادیں‘‘صفحہ نمبر ۱۷۰)
تنگدستی کے اُسی دور میں میں نے تسلیم الہٰی زلفی سے قرض لیا تھا ۔یہ (غالبا)ََدو ہزار روپے کا قرض،مجھ پر چڑھے ہوئے اسی ہزار روپے کے مجموعی قرض کا حصہ تھا، وہ قرض میں نے طے شدہ طریق اور میعاد کے مطابق اتار دیا تھا۔تسلیم الہٰی زلفی حلفاََ انکار کریںکہ قرض اتارا نہیں گیا تھا تو میں ایک بار پھر وہ قرض اتارنے کو تیار ہوں۔
اب سیدھی سی بات یہ ہے کہ اگر تسلیم الہٰی زلفی فیض احمد فیض صاحب کے بیروت میں قیام کے حوالے سے افسانہ طرازی کرتے ہیں اور فیض صاحب کی زندگی کے ایک اہم عرصہ سے متعلق حقائق مسخ ہوتے ہیں تو کیا حقائق اور افسانہ طرازی کے فرق کی طرف توجہ دلانا جرم ہے؟
تسلیم الہٰی زلفی کے نام میرے ایک خط میںان کی ایک غزل کا ذکر ہوا ہے۔ہوا یہ تھا کہ ماہنامہ’’ نئی قدریں‘‘ حیدرآباد کے کسی شمارہ میں تسلیم الہٰی زلفی کے نام سے ایک غزل شائع ہوئی تھی جو دراصل کسی اور شاعر کی غزل تھی۔’’نئی قدریں‘‘ کے ایک اور شمارہ میں کسی صاحب نے اس چوری کا انکشاف کیااور شور مچایا۔سو تسلیم الہٰی زلفی ے منسوب اس چوری پر راولپنڈی اور اسلام آباد کے بعض ادبی احباب بھی شکوک و شبہات کا اظہار کررہے تھے۔ اتفاق سے اسی دوران نئی قدریں کے ایڈیٹر جناب اختر انصاری اکبرآبادی وفات پا گئے۔ ہر چند غزل ان کے نام سے چھپتے ہی وضاحت آجانا چاہئے تھی کہ یہ کسی نے میرے نام کے ساتھ شرارت کی ہے۔لیکن تسلیم الہٰی زلفی صاحب کی طرف سے کوئی وضاحت نہیں دی گئی۔چوری کے انکشاف کے بعداگرچہ نئی قدریں بند ہو گیا،لیکن ایک شاعر پر چوری کا الزام لگا ہو تو اپنا موقف اور وضاحت تو کسی بھی رسالے یا اخبار میں شائع کرانا مشکل نہیں تھا۔بہرحال یہ فضا تھی جہاں میں نے حسنِ ظن سے کام لیا اور کہا کہ ایسا لگتا ہے جیسے کسی نے جان بوجھ کر کسی اور کی غزل تسلیم الہٰی زلفی کے نام سے شائع کرا دی ہو۔ جہاں بعض دوست تسلیم الہٰی زلفی کو چور شاعر قراردے رہے تھے میں حسنِ ظن سے کام لیتے ہوئے ان کا دفاع کررہا تھا۔
کراچی یونیورسٹی میں حصولِ تعلیم کے دوران تسلیم الہٰی زلفی جنگ کراچی میں یونیورسٹی میں ہونے والی سرگرمیوں کی ڈائری لکھا کرتے تھے۔یہ ۱۹۶۶ء سے ۱۹۶۸ء کے دوران کا زمانہ تھا۔تب میں نویں اور دسویں جماعت میں ہوا کرتا تھا۔یہ میری چودہ اور پندرہ برس کی عمر کا زمانہ تھا۔خانپور میں تب روزنامہ جنگ کراچی آیا کرتا تھا۔میں اس میں ٹارزن کی کہانی اور تسلیم الہٰی زلفی کی ڈائری شوق سے پڑھا کرتا تھا۔اسکول کے زمانے میں یونیورسٹی ڈائری پڑھنا شاید میری پڑھنے لکھنے کی خواہش کے باعث تھا۔اگر تسلیم الہٰی زلفی نے اپنے وہ کالم کتابی صورت میں شائع کرائے ہیں تو آج بھی میں ان کالموں کا مداح ہوں۔ان کالموں کے ساتھ میری عمر اور میرے زمانے کی اتنی یادیں وابستہ ہیں کہ ان کا دوبارہ مطالعہ مجھے پھر سے اسی جہان اور اسی دور میں لے جانے میں ممد ہو سکتا ہے۔لیکن اگر تسلیم الہٰی زلفی نے وہ ڈائریاں کتابی صورت میں شائع نہیں کیںتومجھے افسوس رہے گا کیونکہ نثر میں ان کی وہی سب سے اچھی تحریرہوا کرتی تھی۔بہت بعد میں ان کی جو نثر پڑھنے کا موقعہ ملااس میں وہ لطف نہیں تھاجو ان کی جامعہ کی ڈائری میں ہوا کرتا تھا۔
ہماری ادبی دنیا میں بہت سارے ایسے ادیب ہیں جو کسی دوسرے ادیب کے بارے میں جو توصیفی رائے رکھتے ہیں،کسی مجلس میںاس ادیب کی موجودگی یا غیرموجودگی میں ذکر آنے پر بھی اس کا فراخدلانہ اعتراف کرلیتے ہیں جبکہ بعض ایسے ادیب بھی ہیں جو کسی سے ادبی سطح پر بہت زیادہ متاثر بھی ہوں تو اسے چھپا کر رکھتے ہیں،بلکہ اس کے تئیں اپنی بے نیازی ظاہر کرتے ہیں۔میں کسی بھی بڑے یا چھوٹے بلکہ بہت ہی چھوٹے ادیب کے بارے میں بھی جو اچھی رائے رکھتا ہوں اس کا برملا اعتراف کرنے سے دریغ نہیں کیا کرتا۔تسلیم الہٰی زلفی کی جامعہ کی ڈائری کے بارے میں میرا اعتراف میری اسی عادت کا ایک ثبوت ہے۔لیکن اگر تسلیم الہٰی زلفی نے وہ کالم شائع نہیں کیے تو وہ خود ان کی اہمیت سے انکار کر رہے ہیں۔ ویسے اشفاق حسین نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ جب ۶۷۔۱۹۶۸ میں انہوں نے کراچی کے ایک مقامی کالج میں داخلہ لیا تو اس سال زلفی بی اے کے طالب علم تھے- اس زمانے میں مشہور مقرر دوست محمد فیضی جو سندھ میں سابق وزیر بھی رہ چکے ہیں وہ بی اے فائنل کے طالب علم تھے ‘ مشہور ٹی وی پروڈیوسر ایوب خاور اور مقررہ منور غنی جو بعد میں نیشنل بنک کے ایگزیکٹو وائس پریسیڈنٹ رسول احمد کلیمی کی بیگم بن گئیں – یہ سب لوگ اسی کالج میں پڑھتے تھے اور زلفی بھی وہیں آرٹس کے طالب علم تھے- (اشفاق حسین کی کتاب صفحہ نمبر ۱۵۶ ۔ ۱۵۷)
جہاں تک تسلیم الہٰی زلفی کی شاعری کا تعلق ہے،جب انہوں نے اپنا شعری مجموعہ بھجوایا تواس کے مطالعہ سے کوئی اچھی رائے نہیں بن پائی اوران کی شاعری کے سلسلے میں میرا سارا اشتیاق دھرے کا دھرا رہ گیا۔ بعد میں ایک دو ایسے مواقع آئے کہ میں ان کی شاعری پر ایک رسمی سا مضمون تو لکھ ہی سکتا تھالیکن طبیعت اس طرف آئی ہی نہیں۔ایک تو تسلیم الہٰی زلفی کے مجموعہ کی’’ماٹھی شاعری‘‘اوپر سے غزل چوری کے اسکینڈل میں تسلیم الہٰی زلفی کا دفاع کرنے کے باوجودشایدمجھے خود بھی کچھ الجھن ہو رہی تھی،اسی لیے پھر ان کے شعری مجموعہ پر تبصرہ لکھنے کا موڈ بھی نہیں بن سکا۔
اب یہ عجیب اتفاق ہے کہ جب ۱۹۸۴ء میں قلمی طور پر تسلیم الہٰی زلفی سے روبروہونے کا موقعہ ملا توان پر ایک غزل کی چوری کا الزام اسلام آباد کے ادبی حلقوں تک موضوعِ گفتگو بنا ہوا تھا۔اور اب جو پھر ان سے انٹرنیٹ کے توسط سے روبرو ہونے کا موقعہ ملا ہے تو پوری ادبی دنیا میں ان کی فیض صاحب کے بارے میں کتاب ایک مذاق بنی ہوئی ہے۔ایک آدھ غزل کی چوری کا مسئلہ ہوتا تو حسنِ ظن سے کام لے کر اب بھی تسلیم الہٰی زلفی کا دفاع کیا جا سکتا تھا لیکن یہاں تو فیض صاحب کے قیامِ بیروت سے متعلق تسلیم الہٰی زلفی کی لکھی ہوئی پوری کتاب ہی بے اعتبار ہو گئی ہے۔اب بندہ کیا دفاع کرے اور کیسے دفاع کرے؟
اشفاق حسین کی کتاب کے جواب میں محض گالیاں دینے سے تسلیم الہٰی زلفی صاحب کی بریت نہیں ہونے والی۔انہیں علمی زبان میں اور سلیقے کے ساتھ ہر سوال اور ہر اعتراض کا سامنا کرنا ہوگااورایروں غیروں سے جواب دلانے کی بجائے خود جواب دینا ہوگا۔ ایسا نہ ہوا توپھر ان کی کتاب فیض شناسی کے حوالے سے ہمیشہ کے لیے رد کر دی جائے گی۔
فیض صاحب کے بیروت میں قیام کے دوران میرا بھی ان سے تھوڑا سا تعلق قائم ہوا تھا ۔ میں نے فیض صاحب کے بارے میں اپنے خاکے’’ہم کہ ٹھہرے اجنبی ‘‘میں اس تعلق کا ذکر کیا ہوا ہے۔یہاں اس کا حوالہ دینا مناسب لگ رہا ہے۔خاکہ میں، میں نے لکھا تھا:
’’تیسرے مارشل لاء کے کچھ عرصہ بعد فیض بیروت چلے گئے۔ مرزاظفر الحسن سے ان کا پتہ حاصل کرکے ان سے ’’جدیدادب‘‘ کے لئے تازہ غزل منگائی:
سبھی کچھ ہے تیرا دیا ہوا سبھی راحتیں سبھی کلفتیں
کبھی صحبتیں، کبھی فرقتیں، کبھی دوریاں، کبھی قربتیں
یہ غزل سب سے پہلے ’’جدیدادب‘‘ میں چھپی۔ بعد میں اسے ’’افکار‘‘ اور ’’سیپ‘‘ نے بھی شائع کیا۔ پھر ان کی نظم ’’آج شب کوئی نہیں‘‘ منگاکر شائع کی۔ ’’جدید ادب‘‘ سے لے کر جاپان کے پروفیسر کتاؤکانے اسے جاپانی میں ترجمہ کیا۔ اس بارے میں فیض نے مجھے خط لکھاکہ پروفیسر کتاؤ کاکوپاکستانی رسائل بہت کم پہنچتے ہیں آپ جدید ادب انہیں بھیجتے رہاکریں۔‘‘
(کتاب میری محبتیں۔مطبوعہ ۱۹۹۸ء،دہلی ایڈیشن۔ص ۱۰۳)
یہ خاکہ فیض صاحب کی وفات کے بعد لکھا گیا تھا۔لیکن اس میں اپنی حیثیت کے مطابق فیض صاحب سے جتنا تعلق بتایا گیا ہے اس کے ثبوت فیض صاحب کی زندگی میں ہی آن ریکارڈ محفوظ ہو گئے تھے۔
۱۔فیض صاحب کی مذکورہ بالا غزل جدیدادب خانپورکے ۱۹۸۰ء کے پانچ سو صفحات کے ضخیم شمارہ میںصفحہ نمبر۲۱۶پر موجود ہے۔
۲۔فیض صاحب کی نظم ’’آج شب کوئی نہیں‘‘جدید ادب خانپور کے فروری ۱۹۸۱ء کے شمارہ کے صفحہ نمبر ۶۰ پر شائع شدہ ہے۔
۳۔جدیدادب خانپور کے شمارہ مارچ ۱۹۸۳ء میں صفحہ نمبر۳۰۴،۳۰۵پرڈاکٹر تبسم کاشمیری صاحب کا خط شائع کیا گیا ہے۔اس کا یہ اقتباس پروفیسر کتاؤکا کے حوالے سے کی گئی بات کی تصدیق کرتا ہے۔
’’فیض کی نظم’’آج شب کوئی نہیں‘‘پڑھی اور محظوظ ہوااور پھر اردو خواں جاپانی دوستوں نے بھی شوق سے مطالعہ کیا۔پروفیسر کتاؤکافیض کے پورے کلام کا ترجمہ کر رہے ہیں۔یہ تازہ نظم میں نے ان کو دے دی ہے۔‘‘
۴۔جدیدادب خانپور کے اسی فروری ۱۹۸۳ء کے صفحہ نمبر ۳۰۵ پرمیرے نام فیض صاحب کے خط کا یہ اقتباس بھی موجود ہے۔
’’پروفیسر کتاؤکا سے ہماری ملاقات دو دفعہ ہو چکی ہے۔انہیں شکایت ہے کہ پاکستانی ادبی رسائل وہاں نہیں پہنچتے۔آپ جدید ادب انہیں بھجواتے رہیں۔
(فیض احمد فیض۔وطن آنے سے پہلے بیروت سے۔)‘‘
اپنی حد کے اندر رہ کر لکھنے کا فائدہ یہ ہوا کہ منشا یاد جیسے ادیب نے جب خاکوں کے مجموعہ ’’میری محبتیں‘‘پر مضمون لکھا توصاف الفاظ میں لکھا:
’’جیسے فیض احمد فیض کاخاکہ، جن سے حیدر قریشی کی کم ملاقاتیں ہوئیں اور بے تکلفی کاتوکوئی سوال ہی نہیں تھا۔مگر خوبی یہ ہے کہ انہوں نے نہایت دیانتداری سے جتناتعلق تھااتناہی بیان کیاہے اور اپنے پاس سے کچھ شامل کرنے کی،جس کی بہت گنجائش تھی،کوئی کوشش نہیں کی بلکہ وہ اعتراف کرتے ہیںکہ وہ فیض مرحوم کودورسے دیکھنے والوں میں سے ہیں۔ ‘‘
(مطبوعہ عکاس اسلام آباد۔شمارہ نمبر۴۔اکتوبر۲۰۰۵ء۔صفحہ نمبر۳۷۔
یہ مضمون منشا یاد کے مضامین ،جائزوںاورخاکوں کے مجموعہ’’منشائیے ‘‘میں بھی شامل ہے۔)
میں سمجھتاہوں کہ منشا یاد کی طرف سے میرے رویے کی توصیف کیے جانے کی وجہ یہی ہے کہ تسلیم الہٰی زلفی صاحب کی طرح افسانہ طرازی کا وسیع میدان موجود ہونے کے باوجود میں نے اپنی حد سے بڑھ کر فیض صاحب سے تعلق ظاہر نہیں کیا۔بس اتنا ہی تعلق ظاہر کیا جتنا حقیقت میں تھا۔
کاش!فیض صاحب سے اپنے تعلق کی نوعیت بیان کرتے ہوئے تسلیم الہٰی زلفی صاحب بھی افسانہ طرازی نہ کرتے اور صرف اتنا تعلق ہی ظاہر کرتے جتنا کہ حقیقت میں تھا۔
یہاں میں تسلیم الہٰی زلفی کی کتاب کے چندمندرجات پیش کررہا ہوں۔اشفاق حسین نے انہیں اپنی کتاب میں چیلنج کیا ہوا ہے۔ان کے جواب میں تسلیم الہٰی زلفی صاحب کو زیادہ محنت نہیں کرنا ہو گی،گالی گلوچ کیے بغیرصرف دو تین صفحات میں ٹو دی پوائنٹ جواب دیناہوں گے۔کہیں چند ڈاکومنٹس کا عکس فراہم کرنا ہوگا ۔ ایسے متعدد نکات میں سے چندنکات میں خود یہاں پیش کردیتا ہوں۔
تسلیم الہٰیزلفینے لکھا ہے کہ:
(۱) انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے ایم اے کیا ہے-(پہلا ایڈیشن صفحہ ۹)
ؓ اس کے جواب میں تو تسلیم الہٰی زلفی کو کچھ بھی نہیں کرنا ہے- وہ اپنی ڈگری کی کاپی پیش کرسکتے ہیں کہ انہوں نے فلاں سن میں فلاں شعبہ میں یہ تعلیم حاصل کی ہے –
(۲) اپنی کتاب کے دوسرے ایڈیشن (صفحہ نمبر۷ )میں زلفی لکھا ہے کہ انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے انجینیرنگ میں ماسٹر ز کیا ہے-
تو اس کے جواب میں وہ ماسٹرس کی انجینیرنگ کی ڈگری دکھلادیں – اس طرح خوددودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا-
(۳) زلفی نے لکھا ہے کہ وہ کراچی میں ایروناٹیکل انجینئرنگ پڑھ رہے تھے- (دوسرا ایڈیشن ۱۹۹)
تو اس کی ڈگری دکھلادیں – کہاں سے ڈگری لی اور کس سن میں لی؟
(۴) زلفی نے لکھا ہے کہ انہوں بیروت کی امریکن یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ماسٹر ز کیا ہے ۔(پہلا ایڈیشن صفحہ ۹)
اس کے جواب میں تو انہیں کچھ بھی نہیں کرنا ہے بس، اس یونیورسٹی کی ڈگری دکھلا دیں۔
(۵) زلفی نے لکھا ہے کہ ملکہ برطانیہ نے انہیں چائے پر بکنگھم پیلس بلوایا اور شاہی عجائب گھر کی بھی سیر کروائی ۔( نیا ایڈیشن ۱۲۱)
اس کی تصدیق کے لیے بکنگھم پیلس کے افسر تقریبات سے ریکارڈ منگوایا جا سکتا ہے- محل میں آنے والے اور خصوصاََ ملکہ سے ملنے والے تمام مہمانوں کے ریکارڈ وہاں پر ہوتے ہیں- بکنگھم پیلس کی اس دعوت میں شرکت کرنے والے ابن انشا اور بی بی سی کے پروڈیو سر اطہر علی کا تو انتقال ہوچکاہے مگر یاور مہدی صاحب ابھی زندہ ہیں-چاہیں تو ان سے ہی اپنے حق میں گواہی لے لیں۔
(۶) تسلیم الہٰی زلفی نے لکھا ہے کہ وہ جدہ میں صدر پاکستان ضیا الحق کے مترجم رہے ہیں۔(دوسرا ایڈیشن صفحہ ۱۳۳)
سعودی عرب میں پاکستانی سفارت خانے سے اس کی تصدیق کروائی جاسکتی ہے یا خود زلفی کے پاس کوئی صدر پاکستان یا سفارت خانے سے کوئی ستائشی خط ہو تو وہ دکھلادیں۔
(۷) تسلیم الہٰی زلفی نے لکھا ہے کہ وہ سعودی شہری ہیں۔ (دوسرا ایڈیشن صفحہ ۱۰۹ تا ۱۱۴)
جب کہ اشفاق حسین کا یہ کہنا ہے کہ یہ غلط ہے تواس کے جواب میں زلفی اپنا سعودی پاسپورٹ دکھلا سکتے ہیںیاسعودی نیشنلٹی کا لیٹر دکھا سکتے ہیں۔
(۸) زلفی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ سعودی ایر لائنز نے ان کا بیروت میںٹرانسفر کیا تھا اور اس طرح انہیں فیض صاحب سے ملاقات کاموقعہ ملتا رہا ۔(دوسرا ایڈیشن صفحہ ۱۲۴)
اشفاق حسین نے ان کے اس دعوے پر بھی سوال اُٹھایاہے – میرے خیال میں زلفی اس کے ثبوت میں ایر لائنز کا اپائنٹمنٹ لیٹر دکھلا دیں۔ٹرانسفر لیٹر بھی ساتھ شامل ہو جائے تو کیا ہی بات ہے۔
(۹) تسلیم الہٰی زلفی نے لکھا ہے کہ فیض صاحب اور ایلس سے بیروت میں ۷۸ سے ۸۰ تک باقاعدہ ملاقاتیں رہتی تھیں۔(دوسرا ایڈیشن ۱۹۹)
اشفاق حسین نے لڈمیلا وسی لیوا ‘ ایلس فیض اور فیض کے حوالے دیتے ہوئے کہا ہے کہ فیض اور ایلس تو بیروت میں اس دوران(۷۸ ء اور۷۹ ء میں) تھے ہی نہیں- تسلیم الہٰی زلفی کوئی اور معتبر حوالہ پیش کردیں کہ یہ بات غلط ہے- فیض گھر لاہور میں فیض صاحب کے تمام پرانے پاسپورٹ ہیں ان میں بیروت کی مہر یں لگی ہوئی ہیں- وہاں سے پاسپورٹ کی کاپی کرکے بھجوا دیں-
(۱۰) زلفی نے ایک جگہ یہ بھی لکھا ہے کہ مرے دل مرے مسافر والی نظم جو کٹی پھٹی حالت میں فیض نے ردی کی ٹوکری میں ڈال دی تھی اس نظم کو انہوں نے ردی کی ٹوکری سے نکال کر اپنے پاس محفوظ کرلیا-(پہلا ایڈیشن ۲۷ )
اپنی بات کے ثبوت میں زلفی کو چاہیے کہ وہ فیض صاحب کی رائٹنگ میں لکھی ہوئی اس کٹی پھٹی نظم کی کاپی پیش کردیں۔یہ تو تبرکاتِ فیض میں شامل کی جانے والی چیز ہو گی۔
(۱۱) تسلیم الہٰی زلفی نے لکھا ہے کہ گزشتہ پچاس سال سے ان کی لکھی ہوئی بچوں کی تدریسی کتابیں مشرق وسطیٰ ’ یوروپ ’ اور امریکہ و کینیڈا کے نصاب میں شامل ہیں۔(دوسرا ایڈیشن صفحہ ۱۸۴)
اس کو ثابت کرنا تو بہت ہی آسان ہے- کسی بھی اسکول کے بورڈ سے بحیثیت رائٹر اپنے حق میں ثبوت فراہم کردیں۔یا ان نصابی کتب کے متعلقہ صفحات کے عکس شائع کر دیں۔
تسلیم الہٰی زلفی ان گیارہ نکات کا جواب پیش کردیں تواندازہ ہو جائے گاکہ وہ فیض شناسی میں سرخروہیں یا پھر ان کی فیض شناسی محض خود نمائی اور خود فریبی ہے۔ ؎خودفریبی سی خود فریبی ہے
تسلیم الہٰی زلفی نے میرے نام اپنی ای میل میں فخر زمان صاحب کی توصیفی تحریر بھی طمطراق سے پیش کی ہے۔جب تسلیم الہٰی زلفی کی کتاب اکادمی ادبیات نے شائع کی تھی تو اس پر اس وقت کے سربراہ کی تحریرکا دیا جانارسمی سی بات ہوجاتی ہے۔کسی کی جاوبے جا توصیف سے نہ آپ کی عزت میں اضافہ ہوگا اور نہ ہی آپ کی کتاب کو فیض شناسی میں کوئی اعتبار حاصل ہوگا۔ہاں آپ علمی و ادبی زبان میں سارے اعتراضات اور سوالات کا سامنا کریں اور سب کا جواب دیں توپھر کسی کی توصیفی تحریر کے بغیر بھی آپ کے وقار و اعتبار کو چیلنج نہیں کیا جاسکے گا۔ ویسے بھی فخر زمان صاحب نے خود اصغر ندیم سید سے معذرت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ان کی تحریر نہیں بلکہ ان کے اسٹاف کی لکھی ہوئی رسمی تحریر ہے جو ہر کتاب پر چیئرمین کے نام سے شائع ہوتی ہے- اصغر ندیم سید نے زلفی کی کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے فخر زمان کا یہ وضاحتی بیان اپنے دوسرے کالم میں شائع بھی کردیا ہے-
http://dunyapakistan.com/48501/asghar-nadeem-syed-6/#.VqPLM0S2wfS.gmail
لیکن کیا تسلیم الہٰی زلفی گالیاں دئیے بغیراورایموشنل بلیک کرنے والے بلیک میلروں کی طرح دھمکیاں دئیے بغیرعلمی زبان میں اپنی کتاب کے مندرجات کی سچائی ثابت کرسکیں گے؟
اشفاق حسین کا فیض شناسی کے حوالے سے جو کام ہے وہ ’’فیض صدی‘‘ کے خاص عرصہ کی فضا کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ ان کے زمانۂ طالب علمی سے فیض صاحب کے ساتھ علمی، ادبی اور تحقیقی تعلقِ خاطر کا نتیجہ ہے۔انہوں یونیورسٹی کے دور سے اب تک اپنے نکتہ نگاہ کے مطابق فیض شناسی کے حوالے سے لگاتار کام کیا ہے۔جبکہ تسلیم الہٰی زلفی کا کام ایک تو فیض صدی کی شہرت کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے مترادف ہے،دوسرے اس کام میں بھی انہوں نے اپنی ’’عظمت ‘‘کے خبط میں مبتلا ہو کر حقائق کو مسخ کرتے ہوئے فیض صاحب کے بارے ایسی ایسی باتیں لکھ دی ہیں جن کی ابھی بھی نشان دہی کرکے تردید و تکذیب نہ کی جاتی تو آنے والے وقت میں فیض صاحب کے حوالے سے انہیں افسانوں کو حقائق سمجھ لیا جاتا۔لیکن اشفاق حسین نے تسلیم الہٰی زلفی کی کتاب کے بیشتر جھوٹ طشت از بام کردئیے ہیں۔انہوں نے فیض صاحب کے بیروت میں قیام کے حوالے سے جو شواہد اور حقائق پیش کیے ہیں،ان کی صداقت اور اہمیت کو علم و تحقیق کی دنیا میں تسلیم کیا جائے گاجبکہ ’’فیض احمد فیض: بیروت میں‘‘کے موضوع پر تسلیم الہٰی زلفی کی کتاب اپنااعتبار کھوچکی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مطبوعہ عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد۔شمارہ نمبر ۲۳۔فروری ۲۰۱۶ء